کیا جنگ کا ماحول بناکر حکومت بنیادی مدعوں سے دھیان بھٹکا رہی ہے؟

میڈیا کا کام آگ بجھانے کا ہوتا ہے نہ کہ آگ لگانے کا۔ ہندی کے بعض اخبارات نے اور ٹی وی چینلوں نے عموماً پوری قوم کو جنگی جنون میں مبتلا کر کے رکھا۔ اس تجربے کے بعد ایک بار پھر سے میڈیا ریگولیشن کے قوانین پر نظر ثانی کرنے اور ان پر سختی سے عمل کرنے کی ضرورت محسوس ہو رہی ہے۔

 میڈیا کا کام آگ بجھانے کا ہوتا ہے نہ کہ آگ لگانے کا۔ ہندی کے بعض اخبارات نے اور  ٹی وی چینلوں نے عموماً پوری قوم کو جنگی جنون میں مبتلا کر کے رکھا۔ اس تجربے کے بعد ایک بار پھر سے میڈیا ریگولیشن کے قوانین پر نظر ثانی کرنے اور ان پر سختی سے عمل کرنے کی ضرورت محسوس ہو رہی ہے۔

علامتی تصویر/ فوٹو : رائٹرس

علامتی تصویر/ فوٹو : رائٹرس

دو نیوکلیئر طاقتوں کا ایک دوسرے کے ملک میں گھس کر بمباری کرنا کتنا آسان ہے یہ دیکھ کر روح کانپ جاتی ہے۔خاص کر اس پس منظر میں کہ ہمارے لیڈران نے اپنے لئے کوئی حد مقرر نہیں کی ہے۔وہ کچھ بھی بول دیتے ہیں اور کچھ بھی کر گزرنے کا دعویٰ کر بیٹھتے ہیں۔اس کے علاوہ ایک دوسری خطرناک صورت حال یہ ہے کہ دونوں طرف کا میڈیا اپنی اپنی حکومتوں سے سوال پوچھنے کی بجائے ان کی مدح میں لگا ہے اور قوم کو جنگی جنون میں مبتلا کر کے چھوڑ دیا ہے۔ ایک تیسری خطرناک صورت حال یہ ہے کہ عام انتخابات سر پر ہیں اور ہمارے وزیراعظم صاحب ایسے معاملات کی تلاش میں ہیں جن کے ذریعہ سے حقیقی مسائل سے عوام کو بھٹکایا جا سکے۔

گزشتہ دو ہفتوں میں ہندستان اور پاکستان کے بیچ جس قسم کا تناؤ پیدا ہوا وہ انتہائی تشویشناک تھا۔ اس کی ابتدا چودہ فروری کو پلواما میں ہوئےدہشت گردانہ حملے سے ہوئی۔اس کے جواب میں انڈین ایئر فورس کے جہازوں نے پاکستان کے بالاکوٹ میں بمباری کی۔ ہندوستان نے اسے “سرجیکل سٹرائیک ٹو” کا نام دیا اور اس بات پر زور دیا کہ یہ ” نان-ملٹری پری امپٹیواسٹرائیک” تھا یعنی یہ ایک غیر فوجی کارروائی تھی جس کا مقصد دشمن کو باز رکھنا تھا۔ ہندوستان کی طرف سے یہ دعویٰ بھی کیا گیا کہ اس کاروائی کا ہدف جیش محمد کا ٹھکانہ تھا نہ کہ پاکستان۔

ہندوستانی پالیسی سازوں کا غالباً یہ ماننا تھا کہ 2016 کے سرجیکل سٹرائیک کی طرح پاکستان اسے بھی پی جائے گا۔ مگر ایسا نہیں ہو سکا۔ اس بار پاکستان نے جوابی کارروائی کی۔اس نے بھی اس کارروائی کو نان-ملٹری قرار دیا۔ مگر یہ نان-ملٹری کب ملٹری اسٹرائیک میں تبدیل ہو جائے اس کی ضمانت کون دے گا۔ لہٰذا دنیا نے اس کا نوٹس لیا۔ امریکہ سے لے کر روس، چین، فرانس اور برطانیہ تک سب کے سب ہند-پاک تناؤ کو کم کرنے میں لگ گئے کیونکہ یہ صرف دو ملکوں کے بیچ کا جھگڑا نہیں تھا بلکہ اس سے پوری دنیا کے وجود کو خطرہ لاحق تھا۔


یہ بھی پڑھیں: مودی سیاست میں اتنے ایماندار ہیں کہ وہ اپنی ’عیاری‘ کو بھی نہیں چھپاتے…


انڈین ایئر فورس کے پائلٹ ابھینندن جو کہ ہند-پاک فضائی جھڑپ کے نتیجے میں پاکستان کے قبضے میں چلے گئے تھے کی 48 گھنٹے کے اندر اندر رہائی نے تناؤ کم کرنے میں بنیادی رول ادا کیا۔ اندازہ ہے کہ امریکہ، سعودی عرب اور دیگر ممالک نے پاکستان پر دباؤ ڈالا۔ ہمیں اس کی تفصیل نہیں معلوم۔ شاید معلوم ہو بھی نہ پائے۔ ہمیں بس اتنا معلوم ہے کہ پاکستانی وزیراعظم عمران خان نے اپنے یہاں نیشنل اسمبلی میں اعلان کیا کہ وہ “جذبۂ خیرسگالی” کے تحت وِنگ کمانڈر ابھینندن کو رہا کرنے جارہے ہیں۔ ہاں، اس اعلان سے چند گھنٹے پہلے امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے ضرور یہ اشارہ دیا کہ ہندوستان اور پاکستان کی طرف سے اچھی خبر آنے والی ہے۔

عمران خان نے جس دباؤ میں بھی یہ فیصلہ لیا ہو ایک منتخب لیڈر کے طور پر ان کا یہ قدم قابل ستائش ہے۔ اس کی وجہ سے ایک بلا ٹل گئی اور جن لوگوں کے سر پر جنگ کا بھوت سوار تھا ان کا زور کم ہوا۔ اب ضرورت اس بات کی ہے کہ اس تناؤ کو مزید کم کرنے کی کوششیں جاری رکھی جائیں۔ ہم نے تناؤ بڑھا کر دیکھ لیا۔ پاکستان میں گھس کر وار کرنے کے باوجود ہمیں یہ کہنا پڑا کہ یہ “نان-ملٹری سٹرائیک” تھا۔

آخر کیوں؟ وجہ صاف ہے۔ پاکستان نہ صرف آبادی اور رقبے میں ہندوستان کا دسواں حصّہ ہے بلکہ ملٹری طاقت اور سفارتی پہنچ کے اعتبار سے بھی یہ ہندوستان سے بہت پیچھے ہے۔ تین جنگوں کا نتیجہ ہمارے سامنے ہے۔ چوتھی جنگ کا نتیجہ بھی ہندوستان کے حق میں ہوگا اس بارے میں کوئی شبہ کی گنجائش نہیں۔ اس کے باوجود کیا ہم یہ دعویٰ کر سکتے ہیں کہ جنگ کے تباہ کن اثرات سے بچ جائیں گے؟ ہماری معیشت پر اس کا اثر نہیں پڑے گا؟ عالمی برادری میں ہماری ساکھ مجروح نہیں ہوگی؟ کشمیر کے حالات مزید ابتر نہیں ہوں گے؟ پاکستان کے ساتھ ساتھ ہمارے اوپر بھی عالمی دباؤ نہیں پڑے گا؟ ہماری داخلی سیاست اس سے متاثر نہیں ہو گی؟

اس کا مطلب یہ ہوا کہ پاکستان پر بالادستی ہونے کے باوجود اس کے ساتھ جنگ کرنا تقریباً نا ممکن ہے۔ تو پھر ہم ایسے حالات پیدا کریں کہ اس کے پاس ہمارے معاملات میں دخل دینے کا بہانہ نہ رہے۔ یہ بہانہ اسے کشمیر میں جاری شورش کی وجہ سے مل رہا ہے۔ چنانچہ پہلی فرصت میں اس کے سیاسی حل کی طرف پیش قدمی ہونی چاہیے۔ اس کی پہل اس اعتراف سے ہونی چاہیے کہ کشمیریوں کے ساتھ زیادتی ہوئی ہے اور اب بھی ہو رہی ہے۔ وہاں فوجی طاقت کا بیجا استعمال ہوا ہے جسے بند ہونا چاہیے۔ صرف ایک ہفتے کے اخبارات اٹھا کر دیکھ لیں۔ اس میں کئی سابق فوجیوں کے مضامین ملیں گے اور ہر مضمون میں یہ مشورہ کہ ہماری سیاسی لیڈرشپ کو کشمیر میں طاقت کی بجائے تدبر سے کام لینا چاہیے۔

گزشتہ پانچ سالوں میں غالباً یہ پہلا موقعہ تھا جب پوری قوم وزیراعظم نریندر مودی کے پیچھے کھڑی نظر آئی۔ پلواما دہشت گرد حملے کے بعد کانگریس سمیت سبھی اپوزیشن پارٹیوں نے انھیں اپنا لیڈر مانا اور انھیں دہشت گردی کے خلاف کارروائی کی کھلی چھوٹ دی۔ مگر مودی جی نے پورے ملک کو مایوس کیا۔ جب بی جے پی، بجرنگ دل اور وی ایچ پی کے ورکرس نے مختلف شہروں میں کشمیریوں پر حملے شروع کئے اور انھیں بے سر و سامانی کے عالم میں کشمیر لوٹنے پر مجبور کیا تو وہ خاموش رہے اور پورے ایک ہفتے کی خاموشی کے بعد ایک روایتی سا بیان دے کر اپنا دامن جھاڑ لیا۔


یہ بھی پڑھیں:کیا ہماری فوج کا استعمال ایک خاص سیاسی پارٹی کے مفادات کے لئے کیا جا رہا ہے؟


انڈین ایئر فورس کے ذریعہ بالاکوٹ میں جیش محمد کے ٹھکانوں پر بمباری کا بھی انہوں نے سیاسی فائدہ اٹھانے کی کوشش کی۔ ایک طرف جہاں اپوزیشن اور پورا ملک جوانوں کی بہادری کو سراہ رہا ہے ہمارے مودی جی اپنے سیاسی حریفوں پر بھپتیاں کسنے میں لگے ہیں اور ان کی پارٹی کے لیڈر یہ حساب لگانے میں کہ اس فوجی کارروائی سے انھیں الیکشن میں کتنا فائدہ ہوگا اور لوک سبھا کی کتنی سیٹیں پارٹی کے حصّہ میں آئیں گی۔ بات اتنی بڑھ گئی ہے کہ اپوزیشن کی 22پارٹیوں نے ایک میٹنگ کر وزیراعظم پر ایک نیشنل کرائسس کو الیکشن کمپین میں بدلنے کا الزام لگایا ہے۔

پلواما اور بالاکوٹ کے ہنگاموں کے دوران رافیل، مہنگائی اور بےروزگاری جیسے مسائل سرخیوں  سے غائب رہے۔ یہ وقتی بات ہے۔ قوم اتنی بھولی بھی نہیں۔ مگر وزیراعظم صاحب شاید اس خوش فہمی میں مبتلا ہو گئے ہیں کہ جنگ کی سی صورت حال اصل مسائل سے دھیان ہٹانے کا ایک نادر موقعہ ہے۔ ممکن ہے وہ کوئی نیا محاذ کھول دیں تاکہ الیکشن ہونے تک یہ گرمی باقی رہے۔ ان کی اطلاع کے لئے گزشتہ دس بارہ دنوں میں سینئر صحافی سرور احمد نے دلچسپ معلومات فراہم کی ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ پاکستان کے ساتھ 1965اور1971کی جنگ اور1998کی کارگل لڑائی کا فائدہ رولنگ پارٹی کو نہیں ہو سکا تھا۔65 کی جنگ کے بعد 67 میں پہلی بار ریاستوں میں غیر کانگریسی حکومتیں قائم ہوئیں۔71کی جنگ کے بعد اندرا گاندھی کو ایمرجنسی لگانی پڑی جس کے بعد پہلی بار مرکز میں غیر کانگریسی سرکار بنی۔ اور 98کی کارگل لڑائی کے بعد واجپائی جی دوبارہ مخلوط حکومت تو بنا پائے مگر بی جے پی کو ایک سیٹ کا بھی فائدہ نہیں ہوا اور اگلے سال وہ  اور اگلے سال وہ اتر پردیش میں خاطر خواہ سیٹیں حاصل نہیں کر سکے۔

ہندوستانی میڈیا نے ایک بار پھر بری طرح سے مایوس کیا۔ میڈیا کا کام آگ بجھانے کا ہوتا ہے نہ کہ آگ لگانے کا۔ ہندی کے بعض اخبارات نے اور  ٹی وی چینلوں نے عموماً پوری قوم کو جنگی جنون میں مبتلا کر کے رکھا۔ اس تجربے کے بعد ایک بار پھر سے میڈیا ریگولیشن کے قوانین پر نظر ثانی کرنے اور ان پر سختی سے عمل کرنے کی ضرورت محسوس ہو رہی ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ اس پر سنجیدگی سے گفتگو ہو۔