تلنگانہ انکاؤنٹرسڑک پر انصاف کرنے کی اس قابل نفرت سوچ کی سمت میں ایک بڑا قدم ہے، جو بڑی بے شرمی سے ریاست کے ذریعے خود انجام دیاگیا۔
ویٹنری ڈاکٹر کےریپ اور قتل کے شک میں پکڑے گئے چارلوگوں کاتلنگانہ پولیس کے ذریعے انکاؤنٹر کئے جانے کے معاملے میں سپریم کورٹ پہلے ہی اس کے اپنے ایک ریٹائرڈ جج کی صدارت میں جانچکاحکم دے چکی ہے۔تلنگانہ ہائی کورٹ نے بھی اس انکاؤنٹر میں مارے گئےچاروں لوگوں کے دوبارہ پوسٹ مارٹم کرنے کے حکم دیے ہیں۔ اس کے لیے تلنگانہ حکومت کو ایمس دہلی کے ڈائریکٹر سے درخواست کر کےوہاں کے تین ڈاکٹر وں کی ایک ٹیم بھیجنے کوکہنے کے لیے کہا گیا تھا۔اس تفتیش کا نتیجہ جو بھی ہو لیکن سسٹم اپنا کام کرچکاہے۔ اس نے انسانی قتل کا جشن مناکر اپنی پیٹھ ٹھونک لی ہے۔
اصل میں یہ سسٹم ہمیں سرعام کئے جا رہے انسانی قتل کا جشن منانا سکھا رہا ہے-وہ چاہتا ہے، جمہوریت کاخاتمہ ہو! جب اقتدار انصاف کو مضبوط بنانے کے بجائے اس کو اتنامجبور بنا دے کہ جب وہ جس کو چاہے، جب چاہے، ملزم بناکر اس کا سرعام قتل کروا دےیا کر دے اور لوگ اس پر انگلی اٹھانے کے بجائے اس کو ہی انصاف مانکر اس کا جشن منانے کو مجبور ہو جائے، تو سمجھیے ہم عہد وسطیٰ کی طرف واپس جا رہےہیں۔ جہاں یا تو بھیڑ انصاف کرتی تھی یا بادشاہ/سسٹم کی خواہش یا سنک کو ہی انصاف مانا جاتا تھا۔تلنگانہ انکاؤنٹر اور اقتدار میں بیٹھے لوگوں کے ذریعےاس کی ستائش تو یہی کہتی ہے۔
ویسے یہ نئی بات نہیں ہے۔ پچھلے کچھ وقتوں میں منصوبہ بند طریقے سے اس سوچ کو گہرا کرنے کی کوشش ہو رہی ہے، جہاں جو آپ کی سوچ سے میل نہ کھاتا ہو، جو آپ کی نظروں میں قصوروار ہو، اس کو سڑک پر بھیڑ اکٹھا کرکے ماردینا۔ اور پھر اس کو ہی اصلی انصاف بتاکر اس کا جشن منانا۔اتناہی نہیں، جو اس جشن کے آڑے آئے اس پر سوال کریں اوراس کو غدار وطن قرار دےکر یا دھمکی دےکر بدنام اور خاموش کر دو۔ اور دوسری طرف گھناؤنے قتل کے ان ملزمین کی ستائش کرو۔ہم نے دیکھا کیسے جھارکھنڈ میں مرکز کے اس وقت کے وزیرجینت سنہا نے لنچنگ کے 8 قصورواروں کی مدد کی اور ان کے جیل سے باہر آنے پر ان کااستقبال بھی کیا۔
اتر پردیش کے بلندشہر میں تو بھیڑ کے اس ‘انصاف’میں آڑے آنے والے پولیس انسپکٹر سبودھ کمار کا ہی قتل کر دیا گیا اور ملزمین کے جیل سےباہر آنے پر جئے شری رام کے نعروں کے ساتھ ان کا استقبال کر کے جشن بھی منایا گیا۔یعنی جو پولیس والا انصاف کے ساتھ تھا اس کے قتل کا بھی جشن منا۔تلنگانہ انکاؤنٹرسڑک پر انصاف کرنے کی اس قابل نفرت سوچ کی سمت میں ایک بڑا قدم ہے، جو بڑی بے شرمی سے ریاست کے ذریعے خود انجام دیاگیا۔ اور یہ سب کیا گیااپنی غلطی چھپانے کے لیے۔تلنگانہ کے حیدر آباد میں 27 نومبر کو ویٹنری ڈاکٹر کےساتھ ریپ اور پھر زندہ جلا دینے کے معاملے میں پہلے پولیس کو اس بات کے لیےقصوروار مانا جا رہا تھا کہ اس نے کئی گھنٹوں تک متاثرہ کی فیملی کی شکایت نہیں سنی اور اس کو ایک پولیس تھانے سے دوسرے تھانے گھماتے رہے۔
پھر دباؤ پڑنے پر پولیس نے اچانک چار لوگوں کو ‘شک ‘ کی بنیاد پر گرفتار کر لیا۔لیکن ان کی پولیس حراست مانگنے کے بجائے ان کو 14 دن کی عدالتی حراست میں بھیج دیا گیا۔ مطلب، پولیس کے پاس ایسا کچھ نہیں تھا جس کے لیےوہ ان کی کسٹڈی مانگکر آگے کی تفتیش کرے یا ان سے گناہ میں استعمال کسی چیز کو ضبط کرےیا ان کو موقع واردات پر لے جائے۔ ان کو صرف شک کی بنیاد پر گرفتار کیاتھا۔اس کے بعد ملک بھر میں بدنام ہونے پر اچانک ان کی پولیس کسٹڈی مانگی اور رات کے اندھیرے میں ان کو موقع واردات پر لے جاکر کھلا چھوڑ دیاگیا۔
(وہ بھی اس پولیس کے ذریعے جو سپریم کورٹ کے حکم کے باوجود دن کے اجالے میں بھی عام ملزمین کو عدالت میں ہتھکڑی لگاکر لے جاتی ہے۔ )یہ اس لیے کیا گیا تاکہ وہ رات کے گھپ اندھیرے میں متاثرہ کا موبائل ڈھونڈ سکیں، لیکن ان لوگوں کو اس اندھیرے میں موبائل کی جگہ وہاں راڈ اور پتھر مل گیا، جس سے انہوں نے پولیس پارٹی پر حملہ کر دیا اور پھر پولیس کی پسٹل چھینکر ان پر گولی چلائی، جو پولیس والوں کو نہیں لگی۔لیکن اپنی دفاع میں پولیس نے اس اندھیرے میں بھی جوگولی چلائی، وہ ان ملزمین کو ایسی جگہ لگی کہ وہ موقع پر ہی ڈھیر ہو گئے۔ یہاں انکاؤنٹر میں عام طور پر اپنائی جانے والی گھسی-پٹی کہانیوں میں سب سے زیادہ مذاقیہ ہے۔
اس کے بعد، جو پولیس اور تلنگانہ حکومت کے مکھیا کل تک زیرو تھے، وہ راتوں رات ہیرو بن گئے۔ ‘عوام’ان کو مٹھائی کھلانے لگی، ان پرپھولوں کی بارش کی جانے لگی اور ان کو ایک فاتح کی طرح کندھے پر اٹھایا جانے لگا۔متاثرہ کے ماں باپ سمیت مرکز میں حزب اقتدار کے رکن پارلیامان سے لےکر حزب مخالف کے کئی رہنماؤں نے اس کو فوری انصاف قرار دے دیا۔وہی آندھر اپردیش کے وزیراعلیٰ جگن ریڈی نے اپنی اسمبلی میں تلنگانہ کے وزیراعلیٰ کی تعریف کی۔متاثرہ کے ماں باپ نے کہا کہ اس سے ان کی بیٹی کی روح کوسکون ملےگا۔ بی ایس پی سپریمو مایاوتی نے تو اترپردیش حکومت کو بھی اس پر عمل کرنے کی صلاح دے ڈالی۔
اتر پردیش پولیس نے بھی بڑی بے شرمی سے مایاوتی کو جواب دیتے ہوئے اپنے سرکاری ٹوئٹر ہینڈل سے یہ دعویٰ کیا کہ اس نے گزشتہ دو سال میں کل5178 انکاؤنٹر کئے،جس میں103 لوگ مارے گئے اور 1859 لوگ زخمی ہوئے۔یعنی جس اتر پردیش میں اس کے پولیس انسپکٹر کو بھیڑ نےمار ڈالا، ریپ کی متاثرہ کو ایک کے بعد ایک مارا جا رہا ہے، جہاں نظم و نسق اپنے سب سے برے دور میں ہے، وہی اتر پردیش پولیس انکاؤنٹر کے اعداد و شمارکو نظم و نسق کا معیار بناکر پیش کر رہی تھی۔اناؤ سے بی جے پی کے اس وقت کے ایم ایل اے کلدیپ سنگھ سینگر کے ذریعے ایک 17 سالہ نابالغ کےریپ کے معاملے کو ہم دیکھ ہی چکے ہیں۔
ایک سال تک ایف آئی آر میں ملزم سینگر کا نام نہیں جوڑا گیا۔جب ملزم رہنما کے بھائی کے ذریعے متاثرہ کے والد کےقتل کا معاملہ سامنے آیا، تب یہ معاملہ سی بی آئی کو سونپا گیا اور کچھ مہینہ پہلےمتاثرہ کی دو چاچی اور وکیل کی ایک مشکوک حالت میں سڑک حادثہ ہونے کے بعدمتاثرہ کی حفاظت کو سپریم کورٹ نے سنجیدگی سے لیا اور ایمس میں ہی کورٹ لگواکر ریپ کے معاملے کی سماعت کروائی۔یہ معاملہ نپٹا نہیں تھا کہ اناؤ میں ہی ایک اورریپ متاثرہ کو کورٹ جاتے وقت حال میں ضمانت پر چھوٹے ملزم اور اس کے دوستوں کے ذریعے سڑک پر آگ لگا دی گئی ؛ اس نے دو دن بعد ہاسپٹل میں دم توڑ دیا۔
اس لڑکی نے پچھلے دسمبر میں ریپ کی ایف آئی آر درج کرائی تھی، لیکن معاملے میں صرف ایک ہی ملزم کو گرفتار کیا گیا اور لڑکی کی کئی بار شکایت کے بعد بھی اس کو حفاظت نہیں دی گئی۔ہمیں یہاں یہ بات نہیں بھولنی چاہیے کہ ہمارے ملک میں انصاف کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہمارا پولیس سسٹم خود ہے۔ وہ پہلے انگریزوں کےبس میں تھی اور اب موجودہ اقتدار کے۔ آزاد ہندوستان میں آج بھی پولیس سسٹم غلام ہے۔وہ اقتدار کے کہنے پر جس کو چاہے مارے، جس کو چاہےبچائے! جس کو چاہے گرفتار کرے، جس کو چاہے جیل میں ڈالے! اور اکثر اس کا سب سے بڑاشکار ہوتے ہیں غریب، مسلم، دلت، قبائلی کیونکہ پولیس اکثر رسوخ دار ملزمین کےمعاملے میں یا تو بالکل کارروائی نہیں کرتی ہے یا ایسی تفتیش کرتی ہے کہ ملزم کورٹ سے بری ہو جائیں۔
کبھی دباؤ پڑنے پر کسی کو بھی ملزم بناکر پیش کر دیتی ہےاور اس معاملے میں کئی بار تو سپریم کورٹ تک کا رویہ تعصب اور طرف داری سے متاثرنظر آیا ہے۔اس کی سب سے بڑی مثال ہے مارچ 2019 میں سپریم کورٹ کےذریعے اپنے خود کے 2009 کے فیصلے کو پلٹتے ہوئے ریپ اور قتل کے 6 ملزمین کوموت کی سزا سے آزاد کر کے پوری طرح بری کرنے کا ہے۔معاملہ اس طرح ہے :2009 میں سپریم کورٹ نے مہاراشٹرحکومت کی اپیل کو منظور کرتے ہوئے، جہاں تین ملزمین کی موت کی سزا کو برقرار رکھا،وہیں دیگر تین ملزمین کی عمر قید کی سزا کو موت کی سزا میں تبدیل کر دیا۔اس معاملے میں کچھ تکنیکی بنیاد پر جب دوبارہ سماعت ہوئی، تو کورٹ نے پایا کہ ان 6 ملزمین کے خلاف معاملہ بنتا ہی نہیں ہے۔
اس کے بعدکورٹ نے چھ کو بری کرتے ہوئے قصوروار پولیس اہلکاروں کے ذریعے غلط تفتیش کرنے کےلیے حکومت کو ان پر کارروائی اور 16 سال جیل میں گزارنے والے ان ملزمین کو 5-5 لاکھ کا معاوضہ دینے کا حکم دیا۔اگر تلنگانہ کے طرز پر ہی انصاف ہوتا تو پولیس کب کا ان6 لوگوں کو گولی مار چکی ہوتی۔
ہمیں کسی ڈیٹا یا رپورٹ کی ضرورت نہیں ہے۔ اب اپنے روزمرہ کی زندگی میں دیکھتے ہیں کہ پولیس کس طرح سے رہنماؤں کے اشاروں پر کام کرتی ہے۔ ہم سب پولیس سے اس لیے ڈرتے ہیں کہ نہ جانے وہ کب کس کو مجرم بناکر پکڑ لے۔مہاراشٹر کے ایلگار پریشد کے معاملے میں ہوئی ہیومن رائٹس کے کارکنان کی گرفتاری میں پولیس کےرول اور ان کے ذریعے کارکنان کے خلاف پیش کئے گئے شواہدپر لگاتار سوال اٹھے ہیں، خود سپریم کورٹ کے جج ڈی وائی چندرچوڑ نےاس پر سوال اٹھایا تھا۔2012 میں بستر کے 17 آدیواسیوں کو ماؤوادی بتاکر انکاؤنٹر میں مارنے کو فرضی بتائےجانے کے معاملے میں جسٹس اگروال کمیشن کی رپورٹ حال ہی میں جاری ہوئی ہے۔
اس معاملے میں جانچ کمیشن کے سامنے سب سے پہلا حلف نامہ سدھا بھاردواج نے داخل کیاتھا، جو آج بھیما کورےگاؤں تشدد معاملے میں مبینہ ماؤوادی تعلقات کی وجہ سے جیل میں ہیں۔اقتدار تو چاہتی ہے کہ عوام عوامی طورپر انسانی قتل کاجشن منائے۔ اس طرح اقتدار جہاں ایک طرف موجودہ نظام عدل کو ناکارا ثابت کررہی ہے،وہیں وہ اس کو بہتر کرنے کے بجائے نظام عدل کو بھی اپنے لوگوں اور اپنی پولیس کےہاتھوں میں لے لیتی ہے۔
وہ چاہتی ہے کہ اس کو کھلےعام قتل کی چھوٹ مل جائے۔سوچیے! اگر پولیس کی حکومت آ گئی تو کیا انصاف ملےگا؟اگر ہم نے انصاف کے عمل کو آسان، عوامی اورمضبوط بنانے کے بجائے مجبور بناکر اس کو پولیس کی سنک اور من مرضی پر چھوڑ دیا، توکل سب کچھ ان رہنماؤں کے ہاتھ میں ہوگا، جن کو ہم دن رات بدعنوان ٹھہراتے ہیں۔آئین سازوں نے سسٹم کے تین الگ حصہ کئے تھے : مقننہ،مجلس عاملہ اور عدلیہ، تاکہ کسی ایک کے ہاتھ میں ساری طاقت نہ جائے۔ لیکن آج ایسی حالت بنا دی گئی ہے کہ ہم اس سسٹم کی موت پر سوال اٹھانے کی بجائے خوشی منا رہے ہیں۔
(مضمون نگار سماجوادی جن پریشد کے کارکن ہیں۔ )