دی وائر نے اپنی متعدد رپورٹ میں بتایا ہے کہ کس طرح اسرائیل واقع این ایس او گروپ کے تیار کردہ ملٹری گریڈاسپائی ویئر پیگاسس کا استعمال کرکے ہندوستان کے صحافیوں، کارکنوں، سیاست دانوں اور سول سوسائٹی کے ارکان کو نشانہ بنایا گیا۔
نئی دہلی: پیگاسس پروجیکٹ کےتحت صحافیوں، شہری حقوق کے کارکنوں، سیاست دانوں وغیرہ کے فون کی نگرانی یا ممکنہ ہیکنگ سےمتعلق انکشافات کے لیےدی وائرکو2021 ایم ایکس ایم انڈیا میڈیا پرسن آف دی ایئر ایوارڈملاہے۔
دی وائر نے اپنی متعدد رپورٹ میں بتایا تھاکہ کس طرح اسرائیل کے این ایس او گروپ کے ملٹری گریڈ اسپائی ویئر پیگاسس کا استعمال کرکےہندوستان کے صحافیوں، کارکنوں، سیاست دانوں اور سول سوسائٹی کے ارکان کو نشانہ بنایا گیا ہے۔
ایم ایکس ایم انڈیا اپنے آپ کو ایک’360 ڈگری بزنس ٹو بزنس ٹومیڈیا کمپنی’کے طور پر متعارف کراتا ہے، جو میڈیا اور مارکیٹنگ برادری کو گہرائی سے خبروں، معلومات، تحقیق اور تجزیہ کے ساتھ بااختیار بنانے کا ارادہ رکھتا ہے۔
ایوارڈ کا اعلان کرتے ہوئے ایک مضمون میں،ایم ایکس ایم انڈیا نے کہا،شارٹ لسٹ کیے گئے پانچ امیدواروں میں سے دی وائر کے سر جیت کا سہرا بندھا ہے۔ ویب سائٹ کی کنسلٹنگ ایڈیٹر رنجنا بنرجی نے کہا کہ مئی2015 میں وجود میں آیا، دی وائر خبروں اور حالات حاضرہ کے لیےجانے مانےادارے کےطور پر ابھرا ہے۔
غورطلب ہے کہ دی وائر سمیت بین الاقوامی میڈیا کنسورٹیم نے پیگاسس پروجیکٹ کے تحت یہ انکشاف کیا تھا کہ اسرائیل کی این ایس او گروپ کمپنی کے پیگاسس اسپائی ویئر کے ذریعےرہنما،صحافی، کارکن، سپریم کورٹ کےعہدیداروں کے فون مبینہ طور پر ہیک کرکے ان کی نگرانی کی گئی یا پھر وہ ممکنہ نشانے پر تھے۔
اس کڑی میں18جولائی سے دی وائر سمیت دنیا کے 17 میڈیا اداروں نے 50000 سے زیادہ لیک ہوئے موبائل نمبروں کے ڈیٹابیس کی جانکاریاں شائع کرنی شروع کی تھی،جن کی پیگاسس اسپائی ویئر کے ذریعے نگرانی کی جا رہی تھی یا وہ ممکنہ سرولانس کے دائرے میں تھے۔
این ایس او گروپ یہ ملٹری گریڈ اسپائی ویئر صرف حکومتوں کو فروخت کرتا ہے۔ حکومت ہند نے پیگاسس کی خریداری کی نہ تو تردید کی ہے اور نہ ہی اسے قبول کیا ہے۔
سپریم کورٹ نے اس معاملے میں سپریم کورٹ کے سابق جج جسٹس آر وی رویندرن کی قیادت میں ایک کمیٹی تشکیل دی ہے۔
اس انکشاف کے بعد حکومت ہند کی طرف سے کوئی کارروائی نہ کرنے کی وجہ سے ایڈیٹرز گلڈ آف انڈیا، سینئر صحافی این رام، سابق مرکزی وزیر ارون شوری اور این جی او ‘کامن کاز’نے اس معاملے کی آزادانہ انکوائری کی مانگ کی تھی۔
دیگر درخواست گزاروں میں صحافی ششی کمار، راجیہ سبھا ایم پی جان برٹاس، پیگاسس اسپائی ویئر مصدقہ شکارصحافی پرنجوئے گہا ٹھاکرتا،اور ایس این ایم عابدی اور اسپائی ویئر کے ممکنہ ہدف صحافی پریم شنکر جھا، روپیش کمار سنگھ اور کارکن ایپسا شتاکشی شامل ہیں۔
معلوم ہوا ہے کہ ہندوستان کی وزارت دفاع اور آئی ٹی نے پیگاسس اسپائی ویئر کے استعمال کی تردید کی تھی اور مودی سرکار نے اس نگرانی سافٹ ویئر کے استعمال اور خریداری پر خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔
اس معاملے پر بہت اہم فیصلہ سناتے ہوئے سپریم کورٹ نے کہا تھا کہ قانون کے مطابق بے لگام جاسوسی کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔
انہوں نے کہا تھا،ایک مہذب جمہوری معاشرے کے ارکان پرائیویسی کی معقول توقع رکھتے ہیں۔ پرائیویسی صرف صحافیوں یا سماجی کارکنوں کے باعث تشویش نہیں ہے۔
عدالت نے کہا تھا کہ اس طرح کی نگرانی سے اظہار رائے کی آزادی اور پریس کی آزادی پر بہت برا اثر پڑ سکتا ہے۔
عدالت نے کہا کہ،یہ پریس کی آزادی کے لیے بھی باعث تشویش ہے، جو جمہوریت کا ایک اہم ستون ہے۔اظہار رائے کی آزادی پر اس کےممکنہ اثرات جمہوریت کو متاثر کریں گے۔
قابل ذکر ہے کہ دی وائر نے اپنی رپورٹس میں بتایا تھا کہ کس طرح پیگاسس کے ذریعے 40 سے زیادہ صحافیوں کی نگرانی کیے جانے کا امکان ہے۔