پیگاسس انکشافات کے بعد ایلگار پریشد معاملے کو نئی روشنی میں دیکھا جانا چاہیے: سابق پولیس افسر

ایک پروگرام میں تین سینئرسبکدوش اعلیٰ پولیس اافسران جولیو ربیرو، وی این رائے اور ایس آر داراپوری نے کہا کہ ایلگار پریشد معاملے میں اس بات کی وسیع طورپر پر جانچ ہونی چاہیے کہ ملزمین کے فون اور لیپ ٹاپ جیسے ڈیوائس میں جعلی ثبوت پہنچانے کے لیے پیگاسس سافٹ ویئر کا استعمال کیا گیا تھا یا نہیں۔

ایک پروگرام میں تین سینئرسبکدوش اعلیٰ  پولیس اافسران  جولیو ربیرو، وی این رائے اور ایس آر داراپوری نے کہا کہ ایلگار پریشد معاملے میں اس بات کی وسیع طورپر پر جانچ ہونی چاہیے کہ ملزمین کے  فون اور لیپ ٹاپ جیسے ڈیوائس میں جعلی ثبوت پہنچانے کے لیے پیگاسس سافٹ ویئر کا استعمال کیا گیا تھا یا نہیں۔

(السٹریشن: دی وائر)

(السٹریشن: دی وائر)

نئی دہلی: تین سینئرسبکدوش  اعلیٰ پولیس افسران  جولیو ربیرو، وی این رائے اور ایس آر داراپوری نے 5 اگست کو پیگاسس پروجیکٹ کے انکشافات  کے تحت سامنے آئی کئی صحافیوں ، سماجی  کارکنوں ،رہنماؤں اوردوسرے لوگوں کی جاسوسی اور ممکنہ نگرانی کی مذمت کی۔

انہوں نے یہ بھی کہا کہ اس انکشاف  سے پتہ چلا ہے کہ ایلگار پریشد معاملے میں جن بنیادوں  پر 16ماہرین تعلیم، وکیلوں اور کارکنوں  کو گرفتار کیا گیا تھا، وہ  جھوٹے ہو سکتے ہیں۔مقررین  میں سے ایک نے کہا، ‘پیگاسس کے انکشاف  کے بعد بھیما کورےگاؤں  معاملے کو ایک نئی روشنی میں دیکھا جانا چاہیے۔’

بھیما کورےگاؤں معاملے کے ملزم دو سال سے جیل میں شنوائی کا انتظار کر رہے ہیں۔ ان میں سے ایک فادر اسٹین سوامی، جنہیں قومی  جانچ ایجنسی نے ماؤنواز سے تعلق  ہونے کا دعویٰ کرتے ہوئے یو اے پی اے کے تحت گرفتار کیا تھا، کاگزشتہ5 جولائی کو جیل میں رہتے ہوئے کووڈ پازیٹو پائے جانے کے بعد انتقال ہو گیا۔ انہوں نے میڈیکل بنیاد پر ضمانت کی گزارش کی  تھی۔

ان کی موت  کے فوراً بعد ایک امریکی فارنسک ایجنسی آرسینل کنسلٹنگ کی ایک رپورٹ نے دعویٰ کیا کہ ایلگار پریشد معاملے میں گرفتار کارکن سریندر گاڈلنگ کے کمپیوٹر میں جھوٹے ثبوت ڈالے گئے تھے۔

قابل ذکر  ہے کہ پیگاسس پروجیکٹ کے تحت دی وائر نے بتایا ہے کہ  پیگاسس بیچنے والے این ایس او گروپ کے ایک کلائنٹ کے ذریعے چنے گئے نمبروں کے لیک ڈیٹابیس میں قیدیوں کے حقوق  کے لیے کام کرنے والے کارکن رونا ولسن،ماہر تعلیم  ہینی بابو ایم ٹی، کارکن ورنان گونجالوس، ماہر تعلیم اور ہیومن رائٹس کارکن آنند تیلتمبڑے،سبکدوش  پروفیسر شوما سین(ان کا نمبر پہلی بار 2017 میں چنا گیا تھا)، صحافی اور کارکن گوتم نولکھا، وکیل ارون فریرا اورماہر تعلیم اور کارکن سدھا بھاردواج کے نمبر تھے۔

جمعرات کو ہوئی اس پریس کانفرنس کی نظامت دہلی یونیورسٹی  کے پروفیسر اپوروانند نے کی، جنہوں نے کہا کہ سرکار کو ممکنہ  پیگاسس نشانوں  کو لےکر آئی حالیہ رپورٹ پر جواب دینا چاہیے۔انہوں نے کہا، ‘ہماری پرائیویسی  خطرے میں ہے اور ہم نہیں جانتے کہ اس جانکاری تک کس کی پہنچ ہے۔ پارلیامنٹ بھی اس طرح سے کام نہیں کر رہی ہے جیسا کہ اسے کرنا چاہیے کیونکہ سرکار اپوزیشن کو جواب دینے سے انکار کر رہی ہے۔’

پنجاب اور گجرات کے ڈی جی پی رہ چکے سابق آئی پی ایس افسر جولیو فرانسس ربیرو نے کہا کہ ایلگار پریشد معاملے کی طرح کسی بھی شہری  پر ‘غلط طریقے سے’ کسی بھی جرم  کے لیے الزام  نہیں لگایا جانا چاہیے۔

انہوں نے کہا، ‘کسی بھی شخص  پر غلط طریقے سے الزام لگاکر پریشان نہیں کیا جانا چاہیے۔ جب میں پولیس میں تھا تو کبھی کبھی ایسا ہوتا تھا کہ لوگوں پر غلط الزام لگائے جاتے تھے، لیکن کبھی بدنیتی  سے نہیں۔ مقدمہ ہوتا اور اگر الزام  ثابت نہیں ہوتے تو ان لوگوں کو بری کر دیا جاتا۔ ہم نے تب تک قصوروار نہ ہونے کے اس اصول پر عمل  کیا جب تک کہ وہ ثابت نہیں ہوا۔’

انہوں نے یہ بھی جوڑا کہ جن لوگوں پر غلط طریقے سے ان جرائم  کا الزام  لگایا جا سکتا ہے، جو انہوں نے نہیں کیے ہیں توان کا سرکار کے ساتھ ساتھ عدلیہ  سے بھی بھروسہ  اٹھ سکتا ہے۔

یواے پی اے، جس کا استعمال اکثر سرکار کی مخالفت کرنے والے سماجی کارکنوں کے خلاف کیا جاتا ہے، کے بارے میں انہوں نے کہا، ‘یواے پی اے  ملزم  کا جرم ثابت ہوئے بنا ہی اسے سزا دیتا ہے۔ ترقی یافتہ ممالک  کے قوانین میں ایسا نہیں ہوتا ہے۔’

انہوں نے ایلگار پریشد معاملے کےخصوصی تناظر میں کہا، ‘ایسے دوواقعات ہوئے ہیں، جنہوں نے معاملے میں پولیس کے بیان کو لےکرشک پیدا کیا ہے۔ پہلا، آرسینل کنسلٹنگ رپورٹ، اور دوسرا پیگاسس انکشاف۔ اس بات کی بڑے پیمانے پر جانچ ہونی چاہیے کہ ملزمین کے فون اور لیپ ٹاپ جیسے ڈیوائس میں جعلی ثبوت پہنچانے کے لیے پیگاسس سافٹ ویئر کا استعمال کیا گیا تھا یا نہیں۔’

انہوں نے یہ بھی کہا کہ فادرا سٹین سوامی اگر ‘ماؤنواز’ ہوتے تو وہ پولیس میں معاملہ درج نہیں کراتے کیونکہ ماؤنواز سرکار یا پولیس میں یقین نہیں کرتے ہیں۔

ہریانہ پولیس کے سابق  ڈی جی پی وکاس نارائن رائے نے کہا کہ پیگاسس اور آرسینل کنسلٹنگ کے انکشاف کو گہرائی سے دیکھا جانا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ جاسوسی یا نگرانی کرنا صوبے کا ایک خودمختار عمل ہے، لیکن ثبوت پلانٹ کرنا ‘سیدھاجرم’ہے۔

انہوں نے کہا، ‘کوئی بھی، چاہے پولیس ہو یا انٹلی جنس بیورو، ثبوت پلانٹ کرنا ایک جرم ہے …[اس معاملے میں]شک  اور مضبوط ہو جاتا ہے کیونکہ میڈیا کے ہنگامہ کے باوجود این آئی اے اس پر کچھ صاف نہیں کہہ رہی ہے۔’

انہوں نے کہا،‘یہاں تک کہ نگرانی بھی غیرمجازی طریقے سے نہیں کی جانی چاہیے۔ اس کے کچھ قاعدے، عمل اور کچھ پروٹوکال ہیں جن پر عمل کیا جانا ہے۔زیادہ  سے زیادہ  ثبوتوں کے سامنے آنے کے ساتھ ہی یہ شک مضبوط ہو گیا ہے کہ سرکارملزمین کے ڈیوائس میں ثبوت پلانٹ کیے جانے میں ساتھ تھی۔’

انہوں نے یہ بھی جوڑا کہ ایجنسیوں کے لیے معاملے میں اب سامنے آئے نئے ثبوتوں کی جانچ کرنالازمی ہے۔

ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ فادر اسٹین سوامی کی موت مہاراشٹر کی ایک جیل میں ان کی بگڑتی صحت  کی وجہ سے ہوئی، جو ریاستی  سرکار کے ماتحت  آتا ہے۔ رائے نے کہا، ‘ریاستی  سرکار کو اپنی جیلوں کے اندر خراب حالات کے لیے بھی جوابدہ ٹھہرایا جانا چاہیے۔ انہیں جیلوں کوانسانی بنانے کی کوشش کرنی چاہیے۔’

اتر پردیش کے سابق انسپکٹر جنرل آف پولیس ایس آر داراپوری نے 1885 کے ہندوستانی  ٹیلی گراف ایکٹ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ جاسوسی اور نگرانی صوبے کے اختیارات  ہیں اور اس قانون کی دفعہ5 سرکار کولائسنسی ٹیلی گراف اپنے قبضے میں لینے اور اس پر آنے والے پیغامات کو انٹرسیپٹ کرنے کا حکم دینے کی طاقت دیتی ہے۔ حالانکہ، پھر بھی کچھ شرطیں ہیں جنہیں کسی کی جاسوسی کرنے کی اجازت لینے کے لیے پورا کرنے کی ضرورت  ہوتی ہے۔

انہوں نے کہا،‘ایجنسی یا پولیس کو متعلقہ فرد کے ذریعےجرم  کا ثبوت دیتے ہوئے یہ ثابت کرنا ہوتا ہے کہ اس شخص کاعمل  ملک کی سلامتی  کے لیے خطرہ  ہو سکتا ہے، یادوسرے دوست ممالک کے ساتھ ملک کےرشتوں کو نقصان پہنچانے کی کوشش کر سکتا ہے، یا عوامی نظم ونسق  کومتاثر کرنے کی کوشش کر سکتا ہے۔’

انہوں نے کہا، ‘اس کی کچھ حد ہے۔ یہ صرف محدود مدت کے لیے کی جا سکتی ہے۔ اس کاوقت وقت پر تجزیہ  کیا جانا چاہیے۔ اور بھلے ہی انٹرسیپشن کی اجازت دی جا سکتی ہے، کسی کے ڈیوائس میں اسپائی ویئر ڈالنا، ثبوت پلانٹ کرنا یا ہیکنگ اب بھی جرم  ہیں۔’

اس کے علاوہ انہوں نے کہا کہ ایلگار پریشد کے ملزمین کی قید کو صحیح نہیں ٹھہرایا جا سکتا ہے کیونکہ بنیادی ثبوت، جس کی بنیاد پر انہیں گرفتار کیا گیا ہے، پہلی نظر میں ہی مشتبہ ہیں۔

سال 2019 میں انہیں گرفتار کیے جانے کے واقعے کی مثال دیتے ہوئے انہوں نے کہا، ‘سی اے اےمخالف تشدد کے دوران میں نے ‘شہریت بچاؤ’ کہتے ہوئے ایک فیس بک پوسٹ ڈالی تھی، جسے پولیس مانتی ہے کہ ‘بھڑکاؤ’ تھا۔ انہوں نے مجھے بعد میں گرفتار کیا۔ ایک دوسرے پوسٹ میں میں نے تشدد کی مذمت  کی تھی، لیکن پولیس کو یہ اہم نہیں لگا۔’

اس رپورٹ کو انگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں۔

Next Article

بی جے پی کی کرناٹک اکائی کے ایکس پوسٹ میں ’گوبھی‘ کا معنی و مفہوم کیا ہے؟

کرناٹک بی جے پی کی ایک ایکس پوسٹ میں نکسلائٹ کی قبر کے پاس مرکزی وزیر داخلہ کے کیریکیچرکوایک گوبھی کے ساتھ دکھایا گیاہے۔ گوبھی کو علامتی طور پر 1989 کے بھاگلپور کے مسلم مخالف فسادات کے ساتھ جوڑ کر دیکھا جاتاہے۔ حالیہ برسوں میں اس علامتی تناظر کو شدت پسند دائیں بازو کے گروہوں کی جانب  سے بڑے جوش و خروش سےپیش کیا گیا ہے۔

ایکس/@بی جے پی کرناٹک کی طرف سے پوسٹ کی گئی تصویر، جس میں امت شاہ گوبھی پکڑے ہوئے نظر آ رہے ہیں۔

ایکس/@بی جے پی کرناٹک کی طرف سے پوسٹ کی گئی تصویر، جس میں امت شاہ گوبھی پکڑے ہوئے نظر آ رہے ہیں۔

نئی دہلی: بھارتیہ جنتا پارٹی کی کرناٹک یونٹ کے آفیشل ایکس اکاؤنٹ سے 23 مئی (جمعہ) کو ایک تصویر پوسٹ کی گئی ،جس میں مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ کو ایک قبر کے پاس گوبھی اٹھائے ہوئے دکھایا گیا ہے،اس قبر پر لکھا ہے – ‘آر آئی پی  نکسل واد’۔

اس پوسٹ کے ساتھ کیپشن تھا، ‘لول(ایل او ایل) سلام، کامریڈ۔’ اس کو  بائیں بازو کے نعرے ‘لال سلام’ کے خلاف طنز کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ یہ پوسٹ سی پی آئی (ایم ایل) کی جانب سے ‘آپریشن کگار’کے تحت ابوجھاماڑکے جنگلات میں حالیہ ‘انکاؤنٹر’ کی مذمت کرتے ہوئے جاری کیے گئےبیان جواب میں کی گئی ہے۔

معلوم ہو کہ اس آپریشن کونیم فوجی دستوں، ریاستی پولیس اور دیگر سیکورٹی ایجنسیوں نے مشترکہ طور پر تلنگانہ اور چھتیس گڑھ کے گھنے اور پہاڑی جنگلات میں انجام دیا تھا، جس میں حکام کے مطابق، 27 مبینہ ماؤنواز کو مار گرایا گیا۔

سی پی آئی (ایم ایل) نے نارائن پور-بیجاپورمیں ماؤنوازوں اور قبائلیوں کے ‘وحشیانہ ماورائے عدالت قتل’ کی مذمت کی ہے ۔

پارٹی کے بیان میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ امت شاہ کی جشن مناتی پوسٹ سے پتہ چلتا ہے کہ ‘ریاست آپریشن کگار کو ایک ماورائے عدالت نسل کشی مہم کے طور پر چلا رہی ہے اور شہریوں کے قتل اور کارپوریٹ لوٹ مار اور عسکریت پسندی کے خلاف آدیواسیوں کے احتجاج کو کچلنے کو اپنی کامیابی قرار دے رہی ہے۔’

گوبھی کا علامتی مفہوم

اس پوسٹ میں گوبھی کے استعمال نے سوشل میڈیا پر بہت سے لوگوں کو حیران کردیا۔

گوبھی کا استعمال اب مسلمانوں کی  نسل کشی کے علامتی اظہار کے طور پر تسلیم شدہ ہے۔

آن لائن ہیٹ اسپیچ سےمتعلق قوانین سے بچنے کی صلاحیت رکھنے والی یہ علامت  (گوبھی)حال ہی میں ناگپور میں ہوئے فرقہ وارانہ کشیدگی کے بعد بی جے پی کے حامی سیاسی مبصرین نے بڑے پیمانے پر شیئر کی تھی۔

اس علامت کوبہار میں 1989 کے بھاگلپور فسادات سے جوڑکر دیکھا جاتا ہے، جس میں 900 سے زیادہ مسلمان مارے گئے تھے۔ بھاگلپور کے لوگائن گاؤں میں 110 مسلمانوں کو قتل کر کے کھیتوں میں دفن کر دیا گیا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ ان کی لاشوں پر بھی گوبھی کے پودے لگائے گئے تھے۔

حالیہ برسوں میں اس علامتی  تناظر کو الٹرا رائٹ  اور ہندوتوا گروپوں، خاص طور پر ٹریڈز نے دوبارہ اٹھایا ہے۔ ان گروہوں کی طرف سے بنائے گئے کچھ گرافکس میں برقع پوش مسلم خواتین کو بھی گوبھی کے طور پر دکھایا گیا ہے۔

بہت سی ہندوتوا ٹریڈز اپنے سوشل میڈیا بایو میں خود کو ‘گوبھی کا کسان’ بتاتے ہیں۔

ہندوتوا ٹریڈز کون ہیں؟

‘ٹریڈز’ کو ہندوتوا کا انتہائی بنیاد پرست طبقہ سمجھا جاتا ہے – وہ نوجوان جو خود کو تہذیب کا جنگجوتصور کرتے ہیں اور آن لائن ‘جنگ’ لڑتے ہیں۔ وہ دائیں بازو کے دوسرے لوگوں کو’انتہائی لبرل’ مانتے ہیں اور انہیں ‘ریتا’ کہہ کر ان کا مذاق اڑاتے ہیں۔

یہی نہیں، وہ وزیر اعظم نریندر مودی کو بھی کمزور سمجھتے ہیں، کیونکہ ان کے مطابق مودی دلتوں کے حوالے سے ‘اپیزمنٹ’ کرتے ہیں اور مسلمانوں پر ‘سخت’ موقف اختیار نہیں کرتے۔

مین اسٹریم کی جانب گامزن ٹریڈکی علامتیں

اب تک، بی جے پی اس طرح کے انتہا پسندانہ ڈسکورس اور ٹریڈکی پرتشدد علامتوں سے دوری بناکر  رکھتی  تھی ، لیکن حالیہ پوسٹ بتاتی ہے کہ پارٹی اب اسے اپنا رہی ہے۔

پچھلے ایک سال میں ٹریڈ کی  علامتوں کو مرکزی دھارے کے ہندوتوا کی زبان میں، خاص طور پر مسلمانوں کے تناظر میں زیادہ آسانی سے شامل کیا گیا ہے۔ جنوری2024 سے اب تک بی جے پی کی طرف سے پوسٹ کیے گئے بہت سے کارٹون میں یہ واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے، مثلاً پی ایم مودی کو بھگوا لباس میں مسلمانوں کے ساتھ متصادم دکھانا، یا مسلمانوں کو دلتوں کی جائیداد چھینتے ہوئے دکھانا۔

سال 2022 میں، گجرات بی جے پی کے آفیشیل ایکس ہینڈل سے ایک پوسٹ شیئر کی گئی تھی، جس میں’ستیہ میو جیتے’ کیپشن کے ساتھ درجن  بھرداڑھی ٹوپی والے لوگوں  کو پھانسی پر لٹکتا دکھایا گیاتھا۔ سوشل میڈیا پر اس کا موازنہ نازی کارٹون سے کیا گیا اور بعد میں اس ٹوئٹ کو ہٹا لیا گیا۔

تاہم، بی جے پی کا کہنا تھا کہ وہ کسی مذہب کو نشانہ نہیں بنا رہی تھی اور یہ پوسٹ 2006 کے احمد آباد دھماکوں میں قصوروار قرار دیے گئے  دہشت گردوں کے حوالے سے تھی۔

(انگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں ۔)

Next Article

بانو مشتاق سے پہلے بھی پی ایم مودی نے دونامور شخصیات کو انٹرنیشنل ایوارڈ پر نہیں دی تھی مبارکباد

کنڑ ادیبہ بانو مشتاق کی’ہارٹ لیمپ’ کو انٹرنیشنل بکرپرائز ملنے پرپی ایم مودی نےانہیں مبارکباد پیش نہیں کی۔ اس سے پہلے انہوں نے رویش کمار کو ریمن میگسیسے ایوارڈ اور گیتانجلی شری کو انٹرنیشنل بکر ایوارڈ ملنے پر بھی مبارکباد نہیں دی تھی۔

گیتانجلی شری، بانو مشتاق اور رویش کمار۔ تصاویر: وکی میڈیا کامنس، اے پی/پی ٹی آئی، اور انٹرنیشنل بکر ویب سائٹ۔

گیتانجلی شری، بانو مشتاق اور رویش کمار۔ تصاویر: وکی میڈیا کامنس، اے پی/پی ٹی آئی، اور انٹرنیشنل بکر ویب سائٹ۔

نئی دہلی: وزیر اعظم نریندر مودی عام طور پر بین الاقوامی فورمز پر مختلف شعبوں میں ہندوستانیوں کی حصولیابیوں کو عوامی طور پر تسلیم کرنے اور ان کاجشن منانے کے لیےمعروف ہیں۔ تاہم، اس میں کچھ قابل ذکر مستثنیات ہیں، جہاں ان کی خاموشی کوواضح طور پرمحسوس کیا گیاہے۔

رپورٹ کے مطابق، ایسی ہی ایک مثال بانو مشتاق کی ہے، جنہیں حال ہی میں بین الاقوامی بکر پرائز سے نوازا گیا، اور پی ایم مودی کی جانب سے انہیں مبارکبادنہیں دی گئی۔

معلوم ہو کہ بانو نے اپنےافسانوں کے مجموعہ’ہردے دیپا’ (ہارٹ لیمپ) کے لیے 2025 کا بین الاقوامی بکر پرائز جیتا ہے۔

بانو کے علاوہ، کم از کم دو ایسی مثالیں اورہیں جب پی ایم مودی نے عالمی سطح پر تسلیم شدہ ایوارڈ کے ہندوستانی فاتحین کی عوامی طور پر ستائش نہیں کی ۔

ان تینوں معاملوں میں وزیر اعظم مودی کی خاموشی کھیل، سائنس اور دیگر شعبوں میں ہندوستانی حصولیابیوں کا عوامی طور پر جشن منانے کے ان کے معمول کے بالکل برعکس ہے۔

یہ خاموشی ممکنہ طور پرترجیحی ہے، اورممکنہ طور پر ان ایوارڈ یافتگان کے سیاسی نظریات ، آئیڈیالوجی یا ان کے کام کے موضوعات کی وجہ سے بھی ہے، جن میں اکثر مذہبی اکثریت پسندی اورتفرقہ انگیز سیاست کی تنقید اور ہندوستان میں تکثیریت کی وکالت شامل ہوتی ہے۔

رویش کمار – ریمن میگسیسے ایوارڈ (2019)

ہندی کے سینئر صحافی رویش کمار کو 2019 میں باوقار ریمن میگسیسے ایوارڈ سے نوازا گیا تھا۔ اسے ایشیا کا نوبیل انعام بھی کہا جاتا ہے۔ ہندوستانی سیاسی اسپیکٹرم سے وسیع پیمانے پر مبارکباد کے باوجود وزیر اعظم مودی کی طرف سے  اس کامیابی پررویش کمار کو عوامی طور پر کوئی مبارکبانہیں دی گئی تھی۔

گیتانجلی شری – بین الاقوامی بکر پرائز (2022)

سال 2022 میں گیتانجلی شری کے ناول ‘ریت سمادھی’ کے انگریزی ترجمہ ‘ٹومب آف سینڈ’ کو بین الاقوامی بکر پرائز سے نوازا گیا تھا۔ گیتانجلی شری بین الاقوامی بکر پرائز جیتنے والی پہلی ہندوستانی ادیبہ ہیں۔ اس حصولیابی پر وزیر اعظم مودی سمیت مرکزی حکومت اور حکمراں جماعت  قابل ذکر  طور پر خاموش رہی، حالانکہ یہ کتاب جنوب ایشیائی زبان میں ایوارڈ جیتنے والی  پہلی تخلیق تھی۔

مودی حکومت کی جانب سےہندی کو فروغ دینے اور ہندوستانیوں کی کامیابیوں کے لیے بین الاقوامی ایوارڈز کا جشن منانے کے بر عکس اس معاملے پر قابل ذکر طو رپر توجہ نہیں دی گئی۔ گیتانجلی کی یہ کتاب ہندوستانی تکثیریت، سرحدوں کی بے معنویت کی ایک جرٲت مندانہ جستجو ہے اور اس میں ایک مسلمان پاکستانی مرد اور ایک ہندو ہندوستانی عورت کے درمیان مضبوط رشتے کی عکاسی کی گئی ہے۔

بانو مشتاق – بین الاقوامی بکر پرائز (2025)

اسی ہفتے ادیبہ بانو مشتاق نے اپنے افسانوی مجموعے ‘ہردے دیپا’ (ہارٹ لیمپ) کے لیے 2025 کا بین الاقوامی بکر پرائز جیتا ہے۔ بنیادی طور پر کنڑ میں لکھی گئی اس کتاب کا انگریزی میں ترجمہ دیپا بھاستی نے کیا ہے۔ اس سلسلے میں جہاں اپوزیشن لیڈر انہیں مبارکباد کے پیغامات بھیجتے رہے،  وہیں پی ایم مودی کی خاموش قابل ذکر طور پرمحسوس کی گئی۔

کنڑ ادب اور ہندوستانی زبان کے لیے ایوارڈ کی تاریخی نوعیت کے پیش نظر یہ کوتاہی کئی معنوں میں حیران کن ہے۔

معلوم ہو کہ یہ مجموعہ جینڈرکے بارے میں بات کرتے ہوئے پدری  نظام پر حملہ کرتا ہے۔

Next Article

راہل گاندھی کا ایس جئے شنکر پر نشانہ، کہا – ہندوستان کی خارجہ پالیسی تباہ ہو چکی ہے

کانگریس کے رکن پارلیامنٹ راہل گاندھی نے وزیر خارجہ ایس جئے شنکر کے ایک ڈچ براڈکاسٹرکو دیے گئےانٹرویو کی ایک کلپ شیئر کرتے ہوئے پوچھا ہے کہ پاکستان کی مذمت کرنےمیں کسی دوسرے ملک نے ہندوستان کی حمایت کیوں نہیں کی اور کس نے امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ سے جنگ بندی میں ثالثی کرنے کو کہا تھا۔

راہل گاندھی۔ (تصویر بہ شکریہ: Facebook/@rahulgandhi)

راہل گاندھی۔ (تصویر بہ شکریہ: Facebook/@rahulgandhi)

نئی دہلی: حزب اختلاف کے رہنما راہل گاندھی نے جمعہ (23 مئی) کو کہا کہ ہندوستان کی خارجہ پالیسی ‘تباہ’ ہوگئی ہے ۔

انہوں نے وزیر خارجہ ایس جئے شنکر کے ڈچ براڈکاسٹر کو دیے گئے انٹرویو کی ایک کلپ شیئر کی اور ان سے پوچھا کہ ہندوستان کو پاکستان کے ساتھ کیوں جوڑا گیا ہے، کسی دوسرے ملک نے پاکستان کی مذمت کرنےمیں ہندوستان کی  حمایت کیوں نہیں کی، اور کس نے امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ سے جنگ بندی کی ‘ثالثی’ کرنے کو کہا۔

ایکس  پر ایک بیان میں  راہل گاندھی نے انٹرویو کی ایک کلپ شیئر کی، جس میں جئے شنکر سے ٹرمپ کے دعووں پرجواب دینے کے لیے کہا جا رہا تھا کہ انھوں نے آپریشن سیندور کے بعد چار دنوں کے فوجی تصادم کے بعد 10 مئی کو ہندوستان اور پاکستان کے درمیان جنگ بندی کی’ثالثی’ کی تھی۔

ہندوستان نے تب سے کہا ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان دشمنی کو ختم کرنے کا فیصلہ’دو طرفہ طور پر’ لیا گیا تھا، لیکن اس نے ٹرمپ کے ان دعووں کا کوئی براہ راست حوالہ نہیں دیا جن میں دونوں ممالک کو جوہری جنگ کے دہانے سے واپس لانا اور جنگ بندی کے لیے تجارت کا استعمال کرنا شامل ہے۔

گاندھی نے کہا، ‘کیا جے جے’بتائیں گے؛ ہندوستان کو پاکستان کے ساتھ  کیوں جوڑ دیا گیا ہے؟ پاکستان کی مذمت کرنے میں ایک بھی ملک نے ہمارا ساتھ کیوں نہیں دیتا؟ ٹرمپ کو ہندوستان اور پاکستان کے درمیان ‘ثالثی’ کرنے کو کس نے کہا؟ ہندوستان کی خارجہ پالیسی تباہ ہو چکی ہے۔’

حالانکہ گاندھی نے یہ نہیں بتایا کہ ‘جے جے’ کا کیا مطلب ہے۔ لیکن کانگریس کے رہنما جئے شنکر کو ‘جئے چند جئے شنکر’ کہہ رہے ہیں، جو کہ ‘پرتھوی راج راسو’ نظم کا حوالہ ہے، جس میں راجپوت حکمران جئے چند کوایک اور راجپوت حکمران پرتھوی راج چوہان کے خلاف محمد غوری کے ساتھ اتحاد کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے ۔

جئے شنکر سے گاندھی کے یہ سوال وزیر اعظم نریندر مودی سے ایکس پر کئی سوال پوچھنے کے ایک دن بعد آئے ہیں۔

جمعرات (22 مئی) کو راہل گاندھی نے 12 مئی کو مودی کے قوم سے خطاب کا ایک کلپ شیئر کرتے ہوئے لکھا تھا ، ‘مودی جی، کھوکھلی تقریریں کرنا بند کریں۔ بس مجھے بتائیں؛آپ نے دہشت گردی پر پاکستان کے بیان پر کیوں یقین کیا؟ ٹرمپ کے سامنے جھک کر ہندوستان کے مفادات کو کیوں قربان کیا؟ آپ کا خون صرف کیمروں کے سامنے ہی کیوں ابلتا ہے؟ آپ نے ہندوستان کے وقار کے ساتھ سمجھوتہ کر لیا!’

اس سے پہلے 17 مئی کو گاندھی نے کہا تھا کہ جئے شنکر کی خاموشی ‘قابل مذمت’ ہے۔ انہوں نے سوال کیا تھا کہ ‘ہم نے کتنے ہندوستانی طیارے کھودیے کیونکہ پاکستان کو پتہ  تھا؟ یہ کوئی غلطی نہیں تھی۔ یہ جرم تھا۔ اور ملک کو سچ جاننے کا حق ہے۔’

گاندھی نے ایک ویڈیو بھی شیئر کیا، جس میں جئے شنکر صحافیوں کو بتا رہے تھے کہ آپریشن سیندور کے ‘آغاز’ میں پاکستان کو ایک پیغام بھیجا گیا تھا۔

ویڈیو میں جئے شنکر کو یہ کہتے ہوئے سنا جا سکتا ہے، ‘آپریشن کے آغاز میں ہم نے پاکستان کو پیغام بھیجا تھاکہ ہم بنیادی ڈھانچے  پر حملہ کر رہے ہیں، فوج پر نہیں، اس لیے فوج کے پاس اس عمل میں مداخلت نہ کرنے کا اختیار ہے۔ انہوں نے اچھی  صلاح  نہ لینے کا انتخاب کیا۔’

بی جے پی کا جوابی حملہ

دریں اثنا، جمعہ کو بی جے پی کے ترجمان گورو بھاٹیہ نے دہلی میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے گاندھی کو نشانہ بنایا اور کہا کہ ان کے بیانات سے مسلح افواج کے مورال کو نقصان پہنچے گا۔

بھاٹیہ نے کہا، ‘جب آپریشن سیندور چل رہا ہے، تب راہل گاندھی لاپرواہی سے بیان دے رہے ہیں۔ وہ پوچھ رہے ہیں کہ آئی اے ایف کے کتنے جیٹ طیاروں کو مار گرایا گیا ہے۔ 11 مئی کو ایک پریس کانفرنس کے دوران ایئر مارشل بھارتی نے کہا، ‘ہم جنگ کی صورتحال میں ہیں، اس سوال کا جواب دینا ہمارے لیے عقلمندی نہیں ہے۔ راہل گاندھی پاکستان سے بات چیت میں مصروف ہیں کہ ہندوستان اور فوج کے حوصلے کیسے پست کیے جائیں۔ وہ اس پر دھیان نہیں دیتے اور پوچھتے ہیں کہ کتنے جیٹ طیارے گم ہو گئے ہیں۔’

انہوں نے کہا، ‘آج پاکستان کی سینئر رہنما مریم نواز نے بیان دیا کہ 6 اور 7 مئی اور 9 مئی کی درمیانی شب ہندوستان کی کارروائیوں سے پاکستان کو بھاری نقصان اٹھانا پڑا۔ پاکستان خود اس بات کا اعتراف کر رہا ہے کہ ہماری مسلح افواج نے دہشت گردوں کے 9 پیڈ اور 11 فضائی اڈوں کو تباہ کیا۔ ایسے وقت میں اپوزیشن لیڈر اور نشان پاکستان راہل گاندھی کیا کہہ رہے ہیں؟’

انہوں نے کہا کہ راہل گاندھی کو فیصلہ کرنا چاہیے کہ وہ کس طرف رہنا چاہتے ہیں۔

Next Article

کیرو ہائیڈرو کیس میں ستیہ پال ملک سمیت 6 دیگر کے خلاف سی بی آئی کی چارج شیٹ، آئی سی یو میں سابق گورنر

کیرو ہائیڈرو الکٹرک پروجیکٹ معاملے میں سی بی آئی نے تین سال کی تحقیقات کے بعد اپنے نتائج خصوصی عدالت  کو سونپے ہیں۔ اس معاملے میں جموں و کشمیر کے سابق گورنر ستیہ پال ملک اور پانچ دیگر کے خلاف چارج شیٹ داخل کی گئی ہے۔ دریں اثنا ملک نے بتایاہے کہ وہ شدید بیمار ہیں۔

اپریل 2023 میں نئی ​​دہلی کے آر کے پورم پولیس اسٹیشن میں جموں وکشمیر کے سابق گورنر ستیہ پال ملک۔ (تصویر: پی ٹی آئی)

اپریل 2023 میں نئی ​​دہلی کے آر کے پورم پولیس اسٹیشن میں جموں وکشمیر کے سابق گورنر ستیہ پال ملک۔ (تصویر: پی ٹی آئی)

نئی دہلی: مرکزی تفتیشی بیورو (سی بی آئی) نے جمعرات (22 مئی) کو جموں و کشمیر کے سابق گورنر ستیہ پال ملک اور پانچ دیگر کے خلاف کیرو ہائیڈرو الکٹرک پروجیکٹ کیس میں چارج شیٹ داخل کی ۔

خبر رساں ایجنسی پی ٹی آئی کے مطابق ، سی بی آئی نے اس معاملے میں تین سال کی تحقیقات کے بعد اپنے نتائج خصوصی عدالت کو سونپے ہیں۔ یہ چارج شیٹ اس سال 22 فروری کو ملک کے گھر اور دیگر جائیدادوں پر سی بی آئی کے چھاپے کے بعد داخل کی گئی ہے۔

اس سلسلے میں ستیہ پال ملک کے علاوہ چناب ویلی پاور پروجیکٹس پرائیویٹ لمیٹڈ (سی وی پی پی پی ایل) کے اس وقت کے چیئرمین نوین کمار چودھری ادھیکاری ایم ایس بابو، ایم کے متل اور ارون کمار مشرا کے علاوہ تعمیراتی فرم پٹیل انجینئرنگ لمیٹڈ کا بھی نام لیا گیا ہے۔

واضح ہو کہ یہ معاملہ 2019 میں جموں و کشمیر کے کشتواڑ ضلع میں ایک ہائیڈرو الکٹرک پروجیکٹ کے سول کام کے لیے ایک نجی کمپنی کو 2200 کروڑ روپے کا ٹھیکہ دینے میں مبینہ بے ضابطگیوں سے متعلق ہے۔

سال2022 میں کیرو ہائیڈرو پروجیکٹ کیس میں سی بی آئی کی ایف آئی آر میں کہا گیا ہے کہ اس معاملے میں جموں و کشمیر اے سی بی اور محکمہ بجلی نے تحقیقات کی تھی۔

اس میں مزید کہا گیا ہے، ‘ان رپورٹس کے جائزے سے پتہ چلتا ہے کہ کیرو ہائیڈرو الکٹرک پاور پروجیکٹ کے سول ورکس پیکج کے ای-ٹینڈرنگ سے متعلق گائیڈ لائنز پر عمل نہیں کیا گیا  تھااور چناب ویلی پاور پروجیکٹس کے 47ویں بورڈ میٹنگ میں ریورس آکشن(نیلامی) کے ساتھ ای-ٹینڈرنگ کے ذریعے دوبارہ ٹینڈر کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا، تاہم جاری ٹینڈر کو رد کرنے کے بعد بھی اسے لاگو نہیں کیا گیااور آخر کارٹینڈرمیسرز پٹیل  انجینئرنگ کو دے دیا گیا۔’

یہ بھی کہا گیا ہے کہ 4287 کروڑ روپے کی تخمینہ لاگت والا پروجیکٹ ناقص کام کے الزامات اور مقامی بے روزگار نوجوانوں کو روزگار فراہم کرنے میں ناکامی کی وجہ سے برباد ہو گیا۔

معاملے کی اے سی بی جانچ میں پایا گیا کہ چناب ویلی پاور پروجیکٹ کی47ویں بورڈ میٹنگ میں پروجیکٹ کے لیے ٹینڈر منسوخ کر دیا گیا تھا، لیکن اسے 48ویں بورڈ میٹنگ میں واپس لا کر پٹیل انجینئرنگ کو دیا گیا۔

ستم ظریفی یہ ہے کہ 23 اگست 2018 سے 30 اکتوبر 2019 تک جموں و کشمیر کے گورنر رہے ستیہ پال ملک نے خود اکتوبر 2021 میں دعویٰ کیا تھا کہ انہیں پروجیکٹ سے متعلق دو فائلوں کو منظوری دینے کے لیے 300 کروڑ روپے کی رشوت کی پیشکش کی گئی تھی  ۔ ان میں سے ایک فائل راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) سے متعلق تھی۔

انہوں نے گزشتہ سال سی بی آئی کی تلاشی کے بعد اپنے خلاف کرپشن کے الزامات سے انکار کیا تھا ۔

ہسپتال میں ملک

قابل ذکر ہے کہ اس دوران ملک نے کہا ہے کہ وہ شدید بیمار ہیں اور بدھ (21 مئی) سے ان کی کڈنی کا ڈائلیسس شروع ہو اہے۔

ان کے پرسنل مینیجر کے ایس رانا نے دی وائر کو بتایا،’ستیہ پال ملک کو 11 مئی کو ڈاکٹر رام منوہر لوہیا اسپتال میں داخل کرایا گیا تھا۔ وہ پیشاب اور گیس پاس کرنے سے قاصر ہیں، اور 14 مئی کو کرائے گئے کلچر ٹیسٹ میں شدید یورین انفیکشن اورکڈنی کی خرابی کی تصدیق ہوئی ہے۔ کل سے ان کی حالت بگڑ گئی ہے اور ان کے گردے بالکل کام نہیں کر رہے ہیں۔ وہ اس وقت آئی سی یو میں داخل ہیں اور بے ہوشی کی حالت میں زندگی کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔’

اس سے قبل فروری میں چھاپے کے بعد ملک نے کہا تھا کہ وہ کسان کے بیٹے ہیں اور چھاپے ماری سے ڈریں  گے نہیں۔

انہوں نے  ٹوئٹ کیا تھا،’میں نے بدعنوانی کےملزم لوگوں کے خلاف شکایت کی تھی۔ لیکن سی بی آئی نے ان کی تلاش کے بجائے میرے گھر پر چھاپہ مارا۔ میرے گھر سے آپ کومیرے 4-5 کرتے پاجامے کے علاوہ کچھ نہیں ملے گا۔ تاناشاہ سرکاری اداروں کا غلط استعمال کر کے مجھے ڈرانے کی کوشش کر رہا ہے۔ میں کسان کا بیٹا ہوں، میں ڈروں گا  نہیں اور جھکوں گا نہیں۔’

سی بی آئی نے جنوری میں اس کیس کے سلسلے میں پانچ دیگر افراد کے احاطے کی بھی تلاشی لی تھی۔ الزام ہے کہ ملک کو بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے ساتھ ساتھ وزیر اعظم نریندر مودی پر تنقید کرنے کے لیے نشانہ بنایا جا رہا ہے۔

Next Article

’ای ڈی ساری حدیں پار کر رہا ہے‘، سپریم کورٹ نے تمل ناڈو کارپوریشن کے خلاف جانچ پر روک لگائی

سپریم کورٹ نے جمعرات کو تمل ناڈو اسٹیٹ مارکیٹنگ کارپوریشن (ٹی اے ایس ایم اے سی) کے خلاف تحقیقات پر روک لگا دی اور ای ڈی کو حدیں پار کرنے پر سرزنش کی۔ عدالت نے کہا کہ افراد کے خلاف مقدمہ درج کر سکتے ہیں، لیکن کارپوریشن کے خلاف فوجداری مقدمہ درج نہیں کر سکتے؟

(علامتی تصویر بہ شکریہ: فیس بک)

(علامتی تصویر بہ شکریہ: فیس بک)

نئی دہلی: سپریم کورٹ نے جمعرات (22 مئی) کو ریاست کے زیر انتظام تمل ناڈو اسٹیٹ مارکیٹنگ کارپوریشن (ٹی اے ایس ایم اے سی) کے خلاف تحقیقات پر روک لگا دی اور انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ (ای ڈی ) کو’سار ی حدیں پار کرنے’ پر سرزنش کی۔

چیف جسٹس آف انڈیا بی آر گوئی اور جسٹس اے جی مسیح  کی بنچ تمل ناڈو حکومت اور ٹی اے ایس ایم سی کی طرف سے دائر درخواستوں کی سماعت کر رہی تھی، جس میں 23 اپریل کو مدراس ہائی کورٹ کی جانب ان کی درخواست کو خارج کیے جانے  کو چیلنج کیا گیا تھا، جس میں مبینہ بے ضابطگیوں کے سلسلے میں سے 6 اور 8 مارچ 2025 کے درمیان ٹی اے ایس ایم سی ہیڈکوارٹر پر ای ڈی  کے چھاپوں کو غیر قانونی قرار دینے کی مانگ کی گئی تھی۔

لائیو لاء کی رپورٹ کے مطابق، سی جے آئی گوئی نے مرکزی تفتیشی ایجنسی کی نمائندگی کررہے ایڈیشنل سالیسٹر جنرل ایس وی راجو سے پوچھا،’آپ افراد کے خلاف تومقدمات درج کر سکتے ہیں لیکن کارپوریشن کے خلاف فوجداری مقدمات درج نہیں کر سکتے؟ آپ کاای ڈی  ساری  حدیں پار کر رہا ہے۔’

سپریم کورٹ نے مدراس ہائی کورٹ کے فیصلےکو چیلنج کرنے والےٹی اے ایس ایم سی کی طرف سے دائر ایس ایل پی پر ای ڈی کو نوٹس جاری کیا۔

ٹی اے ایس ایم سی اور اس کے ملازمین کی نمائندگی کرنے والے سینئر وکیل کپل سبل اور مکل روہتگی نے دلیل دی کہ ایجنسی نے بغیر کسی ضابطے کے موبائل فون کی کلوننگ کرکے اور ذاتی آلات کو ضبط کرکے اپنے دائرہ اختیار سے تجاوز کیا ہے۔

سبل نے کہا، ‘ہم نے پایا کہ جن لوگوں کو آؤٹ لیٹ دیے گئے ہیں ان میں سے کچھ حقیقت میں نقد لے رہے ہیں۔ اس لیے ریاست نے خود کارپوریشن کے خلاف نہیں بلکہ 2014-21 سے افراد کے خلاف 41 ایف آئی آر درج کیں۔ ای ڈی  2025 میں سامنے آتا ہے اور کارپوریشن (ٹی اے ایس ایم سی) اور ہیڈ آفس پر چھاپہ مارتا ہے۔ سارے فون لے لیے گئے، سب کچھ لے لیا گیا۔ سب کچھ کلون کیا گیا۔’

اس پر سی جے آئی نے پوچھا، ‘کارپوریشن کے خلاف جرم کیسے ہو سکتا ہے؟ آپ افراد کے خلاف فوجداری مقدمہ درج کر سکتے ہیں، لیکن کارپوریشن کے خلاف فوجداری مقدمہ درج نہیں کر سکتے؟’

انہوں نے کہا کہ ‘آپ ملک کے وفاقی ڈھانچے کی مکمل خلاف ورزی کر رہے ہیں۔’

سبل نے عدالت عظمیٰ سے بھی درخواست کی کہ وہ ای ڈی کو فون اور آلات سے کلون شدہ ڈیٹا کے استعمال سے روکے۔ انہوں نے کہا، ‘یہ پرائیویسی  کا معاملہ ہے!’ تاہم، بنچ نے مشاہدہ کیا کہ درخواست گزاروں کو عبوری راحت پہلے ہی دی جا چکی ہے اور وہ مزید کوئی ہدایات نہیں دے سکتی۔

مدراس ہائی کورٹ کی بنچ نے 23 اپریل کوٹی اے ایس ایم سی کی طرف سے اپنے ہیڈکوارٹر میں ای ڈی  کی طرف سے کی گئی تلاشی اور ضبطی کی کارروائی کے خلاف دائر تین رٹ درخواستوں کو خارج کر دیا تھا۔ بنچ نے درخواستوں کو یہ کہتے ہوئے خارج کر دیا تھا کہ چھاپوں اور اچانک معائنہ کے دوران ملازمین کو حراست میں لیناضابطے کا معاملہ ہے۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق ای ڈی نے حال ہی میں تمل ناڈو میں کئی مقامات پر نئے سرے سےچھاپے مارے، جن میں ٹی اے ایس ایم سی کے منیجنگ ڈائریکٹر ایس وسکن اور فلمساز آکاش بھاسکرن کے گھر بھی شامل ہیں۔وسکن سے مبینہ طور پر تقریباً 10 گھنٹے تک پوچھ گچھ کی گئی۔