ایڈیٹرس گلڈ آف انڈیا نے سپریم کورٹ کے ذریعے پیگاسس کےمعاملے میں بنائی گئی کمیٹی سے دی نیویارک ٹائمس کی جانب سے پیگاسس اسپائی ویئر خریدنے کے دعوے پرحکومت سےجواب طلب کرنے کی درخواست کی ہے۔ گلڈ نے یہ بھی کہا کہ کمیٹی کی کارروائی کو بڑے پیمانے پرعوام کے لیے کھلا رکھاجائے، تاکہ گواہوں کو بلائے جانے اور ان کے جوابوں میں مکمل شفافیت ہو۔
نئی دہلی: ایڈیٹرس گلڈ آف انڈیا نے اتوار کو جسٹس آر وی رویندرن کمیٹی سے ہندوستان کی پیگاسس اسپائی ویئر کی خریداری کے بارے میں نیو یارک ٹائمس کی ایک رپورٹ میں کیے گئے دعوؤں کا نوٹس لینے اور حکومت اور وزارتوں سے جواب طلب کرنے کی درخواست کی ہے۔
واضح ہو کہ نیویارک ٹائمس میں شائع رپورٹ کے مطابق، حکومت ہندنے 2017 میں ہتھیاروں کی خریداری کے لیے دو ارب ڈالر کے دفاعی معاہدے کےتحت اسرائیلی اسپائی ویئر پیگاسس کی خریداری کی تھی۔
ایڈیٹرس گلڈنے جسٹس رویندرن کو لکھے اپنے خط میں کہاہےکہ ، ہم ایڈیٹرس گلڈ آف انڈیا کی جانب سے آپ کی توجہ کچھ چونکا نے والے انکشافات کی طرف مبذول کرانا چاہتے ہیں جو 28 جنوری 2022 کو ‘نیو یارک ٹائمس’نے پیگاسس اسپائی ویئر کے بارے میں شائع کی ہے،اورجنہیں اسرائیلی کمپنی این ایس او گروپ کے ذریعہ فروخت کیا گیااور لائسنس دیا گیا ہے۔
انڈین ایکسپریس کے مطابق، اس خط میں کہا گیا ہےکہ ، ہم کمیٹی سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ دنیا کےسب سے معتبرخبر رساں ادارےمیں سے ایک کے دعوے کا نوٹس لے۔ حکومت ہند، ہندوستان کے سی اے جی کے ساتھ ساتھ دعوے کے مطابق اسپائی ویئر کی خریداری پر وزارت خزانہ، وزارت دفاع، وزارت داخلہ، وزارت الکٹرانکس اور انفارمیشن ٹکنالوجی کے علاوہ کوئی بھی دوسری وزارت، جس کوآپ کی کمیٹی جانچ کے لیے گواہ کے طور پر موزوں سمجھتی ہے،ان وزارتوں کے سکریٹریوں کو گواہی کے لیے بلائیں اور نیویارک ٹائمس کی رپورٹ کے حوالے سے حلف نامے پران کا جواب لیں۔
1/6- The Editors Guild of India notes with deep concern, the claims made in the the New York Times report that in 2017 the Indian government bought Pegasus from Israel. Writes to Justice Raveendran committee to take cognisance of it.#Pegasus #PegasusSpyware pic.twitter.com/375dzMOz9T
— Editors Guild of India (@IndEditorsGuild) January 30, 2022
گلڈ نے بیان میں کہا ہے کہ نیویارک ٹائمس(این وائی ٹی) کی رپورٹ میں کیے گئے دعوے حکومت کے موقف کے بالکل برعکس ہیں۔اسرائیلی اسپائی ویئر خریدنے اور صحافیوں اور سول سوسائٹی کے ارکان سمیت ہندوستانی شہریوں کے خلاف اس کا استعمال کرنے کے الزامات کے بارے میں حکومت نے اب تک’مبہم’ جواب ہی دیا ہے۔
خط میں گلڈ نے یہ بھی درخواست کی ہے کہ ملک میں ‘ٹارگیٹیڈ سرولانس’ کے لیے اسپائی ویئر کے مبینہ استعمال کی جانچ کے لیے گزشتہ سال سپریم کورٹ کی طرف سےقائم کی گئی کمیٹی کی کارروائی کو بڑے پیمانے پرعوام کےلیے کھلا رکھا جائے،تاکہ گواہوں کوبلائے جانےاور ان کے جوابوں کے سلسلے میں مکمل شفافیت ہو۔
سپریم کورٹ نے کمیٹی قائم کرتے ہوئے خاص طور پر اس بات کی جانچ کرنے کو کہا تھا کہ کیا اسپائی ویئر کو مرکزی یا کسی ریاستی حکومت یا کسی مرکزی یا ریاستی ایجنسی نے شہریوں کے خلاف استعمال کرنے کے لیے خریدا تھا۔
‘دی ٹیبل فار دی ورلڈ موسٹ پاور فل سائبر وپن ‘کے عنوان سے شائع رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ ہندوستان نے 2017 میں اسرائیل کے ساتھ 2 بلین ڈالر کے دفاعی معاہدے کے حصے کے طور پر پیگاسس اسپائی ویئر کی خریداری کی تھی۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اسرائیلی کمپنی این ایس او گروپ تقریباً ایک دہائی سے اس دعوے کے ساتھ ‘اپنے نگرانی سافٹ ویئرکو دنیا بھر میں قانون نافذ کرنے والے اور خفیہ ایجنسیوں کو فروخت کر رہی تھی’ کہ جیسا کام وہ کرسکتی ہے ،ویسا کوئی اور نہیں۔
رپورٹ میں جولائی 2017 میں وزیر اعظم نریندر مودی کے اسرائیلی دورہ کا بھی ذکر کیا گیا ہے۔ یہ کسی بھی ہندوستانی وزیر اعظم کا پہلااسرائیلی دورہ تھا۔
بتادیں کہ جولائی 2021 میں دی وائر سمیت میڈیا گروپس کے ایک بین الاقوامی کنسورٹیم نے انکشاف کیا تھا کہ کئی ممالک نے دنیا بھر میں اپنے مخالفین، صحافیوں اور تاجروں کو نشانہ بنانے کے لیے پیگاسس کا استعمال کیا تھا۔
اس کڑی میں18جولائی سے دی وائر سمیت دنیا کے 17 میڈیا اداروں نے 50000 سے زیادہ لیک ہوئے موبائل نمبروں کے ڈیٹابیس کی جانکاریاں شائع کرنی شروع کی تھی،جن کی پیگاسس اسپائی ویئر کے ذریعے نگرانی کی جا رہی تھی یا وہ ممکنہ سرولانس کے دائرے میں تھے۔
اس تفتیش کے مطابق،ایک اسرائیلی نگرانی ٹکنالوجی کمپنی این ایس او گروپ کے متعدد حکومتوں کے کلائنٹس میں دلچسپی والے ایسے لوگوں کے ہزاروں ٹیلی فون نمبروں کی لیک ہوئی فہرست میں 300 مصدقہ ہندوستانی نمبرہیں، جنہیں وزیروں، اپوزیشن لیڈر، صحافیوں، عدلیہ سے وابستہ لوگوں، تاجروں، سرکاری اہلکاروں، حقوق کے کارکنوں وغیرہ کے ذریعہ استعمال کیا جاتا رہا ہے۔
ہندوستان میں اس کےممکنہ اہداف میں کانگریس رہنما راہل گاندھی،انتخابی حکمت عملی کار پرشانت کشور، اس وقت کے الیکشن کمشنر اشوک لواسا، اب انفارمیشن اینڈ ٹکنالوجی کے وزیر اشونی ویشنو (وہ اس وقت وزیر نہیں تھے)کے ساتھ ساتھ کئی اہم رہنما ؤں کے نام شامل تھے۔
انڈین ایکسپریس اخبار کے تین مدیران کے نام بھی اس فہرست میں تھے۔وہیں دی وائر کے دو بانی مدیران– سدھارتھ ورد راجن اور ایم کے وینو، پرشانت کشور، دیگر صحافیوں میں سشانت سنگھ، پرنجوئے گہا ٹھاکرتا اور ایس این ایم عابدی، ڈی یو کے پروفیسر ایس اے آر گیلانی، کشمیری علیحدگی پسند رہنما بلال لون اور وکیل الجو پی جوزف کے فون میں پیگاسس اسپائی ویئر کے ہونے کی تصدیق کی گئی تھی۔
اس تنازعہ پر جولائی2021 میں پارلیامنٹ میں جواب دیتے ہوئے ویشنو نے کہا کہ یہ رپورٹ ہندوستانی جمہوریت اور اس کے اداروں کی شبیہ کو داغدار کرنے کی ایک سنسنی خیز کوشش ہے۔
اس انکشاف کے سامنے آنے کے بعد ملک اور دنیا بھر میں اس کو لے کر بڑا سیاسی تنازعہ کھڑا ہو گیا تھا۔ اس کے بعد مودی حکومت کی جانب سے مبینہ جاسوسی کے الزامات پر درجن بھر عرضیاں دائر کیے جانے کے بعد سپریم کورٹ نے 27 اکتوبر 2021 کو ریٹائرڈ جسٹس آر وی رویندرن کی سربراہی میں جانچ کے لیے ایک کمیٹی بنائی تھی ۔
اس وقت اس معاملے کی سماعت کرتے ہوئے سی جے آئی این وی رمنا نے کہا تھا کہ حکومت ہر وقت قومی سلامتی کی بات کہہ کر بچ نہیں سکتی۔ جس کے بعد عدالت نے اس کی انکوائری کا حکم دیا تھا۔
اب پارلیامنٹ کے بجٹ سیشن سے پہلے اس انکشاف کے بعد سیاسی الزام تراشیوں کا دور شروع ہو گیا ہے۔ جہاں کانگریس لیڈروں نےغیر قانونی جاسوسی کو ‘ملک سے غداری’ قرار دیتے ہوئےمودی حکومت کو تنقیدنشانہ بنایا ہے، وہیں مرکزی وزیر وی کے سنگھ نے ٹوئٹر پراین وائی ٹی پر عدم اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے اسے ‘سپاری میڈیا‘ قرار دیا ہے۔
انڈین ایکسپریس کی جانب سے اس معاملے پر پوچھے جانے پرسینئراہلکار نے کوئی تبصرہ کرنے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ پہلے ہی اس معاملے کو دیکھ رہی ہے اور حکومت بھی پارلیامنٹ میں بیان دے چکی ہے۔
حالاں کہ اب اپوزیشن نے اس بیان کو لے کر مرکزی حکومت کو کٹہرے میں کھڑا کر دیا ہے۔
لوک سبھا میں کانگریس کے لیڈر ادھیر رنجن چودھری نے پیگاسس کےمعاملے پر ایوان کو گمراہ کرنے کے لیے انفارمیشن ٹکنالوجی کے وزیر اشونی ویشنو کے خلاف تحریک استحقاق لانے کا مطالبہ کیا ہے۔ سی پی آئی کے رکن پارلیامنٹ ونے وشوم نے بھی راجیہ سبھا میں ان کے خلاف ایسا ہی نوٹس دیا ہے۔
اسپیکر کو لکھے گئے اپنے خط میں کانگریس لیڈر نے کہاہے کہ، نیو یارک ٹائمس کے حالیہ انکشافات کی روشنی میں ایسا لگتا ہے کہ مودی حکومت نے پارلیامنٹ اور سپریم کورٹ کو گمراہ کیا اور ملک کے لوگوں سے جھوٹ بولا۔
دریں اثنا، سپریم کورٹ میں دائر ایک نئی عرضی میں2017 کے ہندوستان-اسرائیل دفاعی معاہدے کی جانچ کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
پیگاسس سے متعلق میں عدالت میں عرضی دائر کرنے والوں میں شامل ایڈوکیٹ ایم ایل شرما کی طرف سے دائر کی گئی اس نئی عرضی میں کہا گیا ہے کہ اس سودے کو پارلیامنٹ کی منظوری نہیں ملی تھی، اس لیےاس کو رد کرکے رقم کی وصولیابی کی جانی چاہیے۔
شرما نے عدالت سے یہ بھی درخواست کی ہے کہ وہ انصاف کے مفاد میں ایک فوجداری مقدمہ درج کرے اور پیگاسس اسپائی ویئر کی خریداری کے سودے اور عوامی فنڈز کے مبینہ غلط استعمال کی جانچ کے لیے مناسب ہدایات جاری کرے۔
(خبررساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)