انٹرویو: دی وائر سے بات کرتے ہوئے دی ہندو کے چیئر مین اور سینئر صحافی این رام نے رافیل ڈیل اور اس کے میڈیا کوریج کو لےکر مودی حکومت کی حالیہ دھمکیوں پر اپنے خیالات کا اظہار کیا ۔
دی ہندو کے چیئر مین این رام, فوٹو بہ شکریہAleph Book Company
نئی دہلی: گزشتہ ہفتے کی شروعات میں نریندر مودی حکومت نے اٹارنی جنرل کے کے وینو گوپال کے توسط سے سپریم کورٹ کو بتایا کہ
رافیل ڈیل سے متعلق اہم دستاویز وزارت دفاع سے چوری ہو گئے ہیں۔اس کے ساتھ ہی اٹارنی جنرل نے وارننگ دیتے ہوئے کہا کہ ان دستاویزوں کا استعمال اوراس کی اشاعت Official Secrets Act کے تحت قابل سزا جرم ہے۔اس کے بعد اٹارنی جنرل نے جمعہ کو دعویٰ کیا کہ رافیل دستاویز
وزارتِ دفاع سے چرائے نہیں گئے اور عدالت میں ان کی بات کا مطلب یہ تھا کہ درخواست گزاروں نے درخواست میں ان ‘اصل کاغذات کی فوٹوکاپیوں’ کا استعمال کیا، جس کو حکومت نے خفیہ مانا ہے۔
حالانکہ ان کی Official Secrets Act کے تحت تفتیش کی بات کہنا دی ہندو جیسے پبلی کیشن کے لئے ایک تنبیہ کی طرح تھا، جنہوں نے رافیل ڈیل پر بات چیت اور قیمت کے تعین کی کارروائی پر سلسلہ وار کئی مضامین شائع کئے ہیں۔دی وائر سے بات کرتے ہوئے دی ہندو کے چیئر مین اور سینئر صحافی این رام نے اس معاہدے کی تفتیش میں ان خفیہ دستاویزوں کی اہمیت اور
اس نوع کی صحافت میں حکومت کے دباؤ کو لے کر بات چیت کی۔ اس بات چیت کے بعض اقتباسات یہا ں پیش کیے جارہے ہیں۔
اٹارنی جنرل کا کہنا ہے کہ آپ نے جو دستاویز شائع کئے، وہ اصل میں وزارتِ دفاع سے چرائے گئے تھے، Official Secrets Act کے تحت قابل سزا جرم ہے اور حکومت اس کی تفصیلی تفتیش چاہتی ہے۔
ہم نے کسی سے دستاویز چرائے نہیں ہیں۔ ہم نے نہ ہی ان دستاویزوں کے لئے کسی طرح کی ادائیگی کی ہے۔ ہم ہندوستانی آئین کی دفعہ 19 (1) (اے) کے تحت اظہار رائے کی آزادی کے بنیادی حق کے تحت پوری طرح سے محفوظ ہیں۔ہم حق اطلاعات کی دفعہ 8 (اے) (1) کے تحت بھی محفوظ ہیں۔ یہ کوئی پہلی بار نہیں ہے کہ دستاویز لیک ہوئے ہیں۔پرشانت بھوشن کوئلہ بلاک مختص جیسے معاملے میں خود ایسا کر چکے ہیں۔ عدالتوں نے ان معاملوں کو دیکھا ہے اور ان کو قبول کیا ہے، اس لئے یہ چوری کئے گئے نہیں ہیں۔
میں
ایڈیٹرس گلڈ آف انڈیا کے بیان کو بھی اپنی جانکاری لینا چاہتا ہوں، جنہوں نے سپریم کورٹ کے سامنے اٹارنی جنرل کے بیانات کی مذمت کی ہے اور میڈیا خاص طورپر دی ہندو پر کارروائی کرنے کی دھمکی دی ہے۔انہوں نے بعد میں وضاحت دی کہ وہ اس جانکاری کو شائع کرنے والے صحافیوں اور وکلا کے خلاف کسی طرح کی تفتیش یا استغاثہ پر غور نہیں کر رہے ہیں۔ اس لئے اگر یہ سچ ہے اور اس کی تصدیق ہو چکی ہے تو یہ اچھا ہے۔
ہم اس کو لےکے فکرمند نہیں ہے کیونکہ ہم پوری طرح سے محفوظ ہیں اور ہم نے صحیح کام کیا ہے۔ اس کو مفاد عامہ میں شائع کیا گیا۔ اس معاملے کو اور اس جانکاری کو دبا دیا گیا تھا۔آپ کہہ سکتی ہیں کہ یہ جانکاریاں خود جگ ظاہر ہونا چاہتی تھیں(ہنستے ہوئے) کیونکہ یہ اطلاع رافیل کی قیمت، متوازی بات چیت اور ہندوستانی مذاکرہ کار ٹیم کے درمیان عدم اطمینان پر مبنی تھی، جو بد عنوانی مخالف دفعات ہٹانے، کمیشن ایجنٹ کی موجودگی، معاہدے، اثر اور کمپنیوں کے بہی کھاتے تک پہنچ نہ بننے دینے کو لےکر تھی۔
یاد رکھیے کہ یہ مانگ فرانس حکومت کے لئے نہیں کی گئی۔ یہ داسو ایویشن اور ایم بی ڈی اے فرانس جیسے کمرشیل سپلائر کو لےکر کی گئیں۔ آخر کوئی کیوں عام طور پر لگنے والی بد عنوانی مخالفت دفعات سے بچےگا، جس کی خلاف ورزی ہونے پر جرمانے کا اہتمام ہے۔اور پھر پانچویں آرٹیکل میں بینک گارنٹی کے بارے میں بتایا گیا ہے۔
لیکن ان کا کہنا ہے کہ یہ مفاد عامہ کے خلاف ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اس سے ملک کی سلامتی کے ساتھ سمجھوتہ ہوا ہے۔ آپ کو لگتا ہے کہ اس سطح پر اس مدعے کو اٹھاکر اور اس کو سرخیوں میں لاکر انہوں نے اپنا کام کر دیا ہے؟ وہ خاص طور پر لوگوں تک یہ بات پہنچانا چاہتے ہیں کہ وہ ایسا کرنے کی طاقت رکھتے ، وہ صحافیوں کو ڈرا-دھمکا سکتے ہیں۔
ہاں، یہ اچھی بات ہے اور مجھے لگتا ہے کہ یہی مدعا تھا کہ ایڈیٹرس گلڈ آف انڈیا نے بیان دیا۔اس وضاحت کے باوجود انہوں نے کہا کہ وہ سپریم کورٹ کے سامنے اٹارنی جنرل کے بیانات کی مذمت کرتے ہیں اور پیغام بھیجکر یہی دلیل دینا چاہتے ہیں کہ آزادی اور خاص طورپر تحقیقاتی صحافت کو لےکر مایوس کر دینے والا ماحول ہے۔ اس لئے میں اس پر آپ سے متفق ہوں۔
لیکن دوسری طرف ہمیں اس سے لڑنا پڑےگا۔ لوگوں کو ڈرنا نہیں چاہیے کیونکہ میڈیا کے موجودہ نظام میں ایک ڈر کا ماحول ہے اور مجھے نہیں لگتا کہ اس طرح کا ماحول پہلے کبھی رہا ہوگا۔ہمیں اس طرح کی روک کو دیکھنے کے لئے ایمرجنسی کے دور کو یاد کرنا پڑےگا۔ میں اس (ایمرجنسی) دور کا حال کے وقتوں سے مقابلہ نہیں کر رہا ہوں۔ اس وقت ڈر کا ماحول بنانے کے لئے کسی طرح کی کوشش نہیں کی گئی۔
میں یہ بھی کہنا چاہوںگا کہ کچھ بڑے میڈیا اداروں نے پروپیگنڈہ کے کردار کو نبھانے کے لئے اس کو خودہی اپنے پر تھوپ لیا ہے۔یہ مجھے برٹن کے صحافیوں کے بارے میں ہمبرٹ وولف کی کچھ مشہور سطریں یاد دلاتی ہیں، جو اس طرح ہیں؛
You cannot hope
to bribe or twist,
thank God! the
British journalist.
But, seeing what
the man will do
unbribed, there’s
no occasion to.
)آپ کسی برٹش صحافی کو رشوت دینے یا اسے بات کو گھمانے کی سوچ بھی نہیں سکتے، لیکن یہ دیکھتے ہوئے کہ وہ بنا کسی رشوت کے کیا کر رہا ہے، ایسا کرنے کی ضرورت بھی نہیں پڑتی۔)
مجھے لگتا ہے کہ یہ سطریں ہمارے مین اسٹریم میڈیا کے کئی رجحانوں پر فٹ بیٹھتی ہیں، خاص طورپر ٹیلی ویژن چینلوں پر، تمام چینل نہیں لیکن کئی حکومت کے لئے ان مدعوں پر پروپیگنڈہ کاکردار نبھا رہے ہیں۔
آخری سوال رافیل پر ہو رہی سیاست کو لےکر ہے۔ پلواما اور پاکستان میں ایئر اسٹرائک کے بعد ایسا محسوس ہوا کہ حکومت کو لگ رہا تھا کہ رافیل لمبے وقت تک کوئی مدعا نہیں رہےگا لیکن اب ان کی بےچینی دکھاتی ہے کہ حکومت کو اب بھی یہ لگتا ہے کہ یہ اہم سیاسی مدعا ہے جو مئی میں ان کی تقدیر کا فیصلہ کرےگا۔
ہاں، مجھے لگتا ہے کہ پلواما دہشت گردانہ حملے اور بالاکوٹ میں اٹھائے گئے قدم کے بعد بی جے پی کو لگا کہ وہ کچھ حد تک اس نیریٹیو (بیانیہ ) پر قابو کر سکتی ہے، جس نے شاید ہندی بولنے والے علاقوں میں کام بھی کیا کیونکہ وہاں یہ بہت شدت پسند وطن پرست، کٹر دیش بھکت، جو کہ’سبق سکھانا چاہیے… ہمیں معلوم ہے کیا کرنا ہے ‘ جیسی باتوں میں بھروسہ رکھتے ہیں۔ تو ان کو لگا کہ اس سے حالات ان کے موافق رہیںگے، جو شاید کچھ حد تک رہیں بھی۔
میری سمجھ یہ ہے کہ انتخاب میں بد عنوانی کبھی بھی پہلا مدعا نہیں رہا۔ پھر چاہے وہ بوفورس ہو یا 2جی اسپیکٹرم۔ یہ کبھی بھی ٹاپ مدعا نہیں رہا۔ ٹاپ مدعے کئی اوپینن پول میں دکھائی دیتے ہیں۔ عام طور پر اس میں بےروزگاری، روزگار کی کمی، بڑھتے افراط زر کے دوران زرعی بحران، مہنگائی جیسے مدعے ہی چھائے رہتے ہیں۔
بد عنوانی تیسرے یا چوتھے نمبر پر آتی ہے۔ اگر بد عنوانی کے کسی اہم معاملے-کسی اسکینڈل پر فوکس ہوتا ہے تو یہ چنگاری کا کام کرتا ہے۔ یہ اس مدعا کو اٹھانے کے لئے اپوزیشن کو جذباتی طاقت دیتا ہے اور مجھے لگتا ہے کہ اس معاملے میں یہ فٹ بیٹھتا ہے۔میں کہنا چاہوںگا کہ کانگریس صدر راہل گاندھی نے اس مدعے کا پورا فائدہ اٹھایا ہے۔ وہ جارحانہ طورپر بار بار اس مدعے کو اٹھا رہے ہیں۔
مجھے لگتا ہے کہ اس کا یقیناً اثر پڑےگا کیونکہ ملک میں ابھی بھی کانگریس کی اہمیت برقرار ہے اور کچھ معنوں میں کانگریس میں پھر سے جان پھونکنے کا کام کر رہا ہے۔
اس لئے مجھے لگتا ہے کہ وہ اس مدعے کو لگاتار اٹھائے رکھنے کو لےکر پرعزم ہے اور آزاد میڈیا کو بھی یہ کام بخوبی کرنا چاہیے۔ میں خاص طورپر دی وائر، دی کارواں، اسکرال جیسے آزاد میڈیا اداروں کے رول کی تعریف کرتا ہوں۔ مجھے لگتا ہے کہ یہ بہترین کام کر رہے ہیں۔ اس معاملے میں دی ہندو آگے کھڑا ہوا ہے-اسی طرح جیسے بوفورس کے وقت ہوا تھا۔
لیکن میں اس کو کسی ایک میڈیا ادارے کے کام کے طور پر نہیں دیکھتا ہوں۔ ایک طرف مقابلہ ہے لیکن ساتھ میں اجتماعی کوشش بھی ہیں۔ جو دوسروں کے پاس ہے، آپ کو اس سے بھی مدد ملتی ہے۔مجھے لگتا ہے کہ آپ کو اطلاع کے لئے اور بھی اداروں کو سہرا دینا چاہیے۔ مثال کے لئے میں نے دی وائر سے جانکاریاں(نوٹس) لیں-تھوڑی جانکاریاں لئے وہ نوٹس-جن کو پرشانت بھوشن اور دوسروں کے ذریعے دائر عرضی کے باب میں سپریم کورٹ میں فریقوں کے ساتھ شیئر کیا گیا۔
مجھے لگتا ہے کہ دی وائر کے پاس پورا ٹیکسٹ تھا۔ بھلےہی وہ کٹا-چھنٹا تھا، لیکن اس میں دلچسپ جانکاریاں تھیں۔ اسی طرح دی کارواں کے پاس طیاروں کی قیمت کو لےکرجانکاریاں تھیں۔میں نے
ایم کے وینو کے مضمون،
سدھارتھ وردراجن کے مضمون بھی دیکھے۔ مجھے لگتا ہے کہ ہمیں ایک طرف مقابلہ کرنے کی ضرورت ہے تو دوسری طرف ساتھ ملکر کام کرنے کی۔
مجھے لگتا ہے کہ اسی طرح کی صحافت ہوتی ہے۔ آپ نے ایسا دی نیویارک ٹائمس اور دی واشنگٹن پوسٹ کو کرتے دیکھا ہوگا-ان کی کھوجی صحافت کے چوٹی پر جب وہ پنٹاگن پیپرس کے بارے میں بات کر رہے تھے۔اس کے بعد واٹرگیٹ، وکی لیکس، جس میں دوسروں کے ساتھ دی ہندو کا بھی کردار تھا۔ میں یہی دلیل یہاں ان میڈیا اداروں کو دینا چاہتا ہوں، جو بہت ہی مشکل اوربدعنوان میڈیا نظام میں بھی آزاد ہیں۔ اس کردار کو نبھا سکتے ہیں اور اس کو آئندہ لوک سبھا انتخاب سمیت عنقریب مستقبل میں نبھایا جانا چاہیے۔