کیا سویم سیوک سماج میں اس شرف قبولیت کو نظر انداز کر پائیں گے جو انہیں مودی حکومت کی وجہ سے حاصل ہوئی ہے؟ کیا ناراض سویم سیوک اپنے پرچارک وزیر اعظم سے دوری بنا پائیں گے؟ یا آخرکار وہ صلح کر لیں گے، یہ سوچتے ہوئے کہ 2025 کے اپنے صد سالہ سال میں اقتدار سے باہر رہنے کا خطرہ مول لینا دانشمندی کی بات نہیں ہوگی۔
نئی دہلی/آگرہ/شملہ: ستمبر 2017 میں راشٹریہ سویم سیوک سنگھ نے اپنی تقریباً 40 معاون تنظیموں کے ساتھ ورنداون میں ایک رابطہ میٹنگ کا اہتمام کیا تھا۔ سرسنگھ چالک موہن بھاگوت اور اس وقت کے سرکاریہ واہ بھیا جی جوشی اسٹیج پر تھے۔ منموہن ویدھ، دتاتریہ ہوسبلے، نریندر کمار اور کرشن گوپال جیسے سینئر پرچارک پہلی صف میں بیٹھے تھے۔ میٹنگ کے دوران ان تنظیموں نے مختلف امور پر رائے رکھی تھی۔ کیرالہ کے سینئر پرچارک جے نند کمار نے اپنی ریاست میں پھیلنے والے تشدد پر بات کی تھی اور جموں و کشمیر پر مرکوز ایک مطالعاتی مرکز سے وابستہ ارون کمار نے کشمیر کی صورتحال کا تجزیہ کیا تھا۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ بی جے پی کے اس وقت کے صدر اور پارٹی میں نمبر دو کی پوزیشن پر فائز امت شاہ آٹھویں یا نویں قطار یعنی آڈیٹوریم کی آخری صف میں بیٹھے تھے۔ امت شاہ نے سنگھ لیڈروں کے سامنے موجودہ اقتصادی صورتحال پر مودی حکومت کا نظریہ پیش کیا تھا۔
اس منظرنامے کا موازنہ 2024 سے کریں۔ ووٹنگ کے پانچویں مرحلے سے ایک دن پہلے، بی جے پی صدر جے پی نڈا ایک انٹرویو میں آر ایس ایس کے بارے میں اپنی پارٹی کی پوزیشن کی وضاحت کرتے ہوئے کہتے ہیں؛ ‘شروع میں ہم معذور ہوں گے، تھوڑا کم ہوں گے، آر ایس ایس کی ضرورت تھی… آج ہم بڑھ گئے ہیں، اہل ہیں… تو بی جے پی اپنے آپ کو چلاتی ہے۔’
ان دو مثالوں کے پیش نظر پچھلے کچھ سالوں میں بی جے پی اور سنگھ کے تعلقات میں آئی تبدیلیوں کو سمجھا جا سکتا ہے۔
پچھلے ہفتے میں نے لکھا تھا کہ مغربی اتر پردیش کے سویم سیوک بی جے پی سے ناراض ہیں۔ یہ نہ صرف موجودہ انتخابات کو 2014 اور 2019 کے انتخابات سے مختلف بناتا ہے بلکہ بی جے پی کو نقصان بھی پہنچا سکتا ہے۔
سنگھ کے اپنے سیاسی ونگ بی جے پی (پنچ جنیہ نے کبھی بی جے پی کا اسی طرح ذکر کیا تھا) سے شکایتوں کی کہانیاں پرانی ہیں۔ سویم سیوک کئی بار بی جے پی حکومتوں کے خلاف کھل کر سامنے آئے ہیں۔ ان کی اتحادی تنظیموں نے زراعت اور معیشت جیسے ایشوز پر مختلف موقف اپنائے ہیں۔ جب اٹل بہاری واجپائی وزیر اعظم تھے تو بی جے پی اور آر ایس ایس کے تعلقات اکثر کشیدہ رہتے تھے۔ این ڈی اے حکومت کی پالیسیوں کی مخالفت کرتے ہوئے سینئر پرچارک دتوپنت ٹھینگڑی نے دہلی میں بھی احتجاجی مظاہرہ کیا تھا۔
لیکن واجپائی اور نریندر مودی کے دور میں ایک بنیادی فرق ہے۔ یہ اس قصے کی روشنی میں سمجھا جا سکتا ہے جو ایک سینئر سویم سیوک (اب وہ سنگھ کے سرکردہ رہنماؤں میں سے ایک ہیں) نے مجھے اپنے گھر پر رسیلے آم اور پراٹھے سے مزین ناشتے کی میز پر سنایا تھا۔ جب آر ایس ایس این ڈی اے حکومت سے ناراض رہا کرتی تھی، ایک قریبی شخص نے واجپائی کو بتایا کہ آر ایس ایس نے بی جے پی کے متوازی ایک نئی پارٹی بنانے کے لیے بات چیت شروع کردی ہے۔ یہ سفید جھوٹ ہو سکتا ہے، اس شخص نے وزیر اعظم کو ہراساں کرنے یا ان کا ردعمل جاننے کے لیے یہ قصہ گھڑا ہو۔ لیکن واجپائی کا مسکراتا ہوا جواب انتہائی اہم تھا؛ ‘ٹھیک ہے۔ ہم اس پارٹی میں چلے جائیں گے۔’
اس واقعے کو دو دہائیاں گزر چکی ہیں۔ آج ہندوستانی سیاست کا ایک نوخیز طالبعلم بھی وزیر اعظم مودی کے ردعمل کا اندازہ لگا سکتا ہے اگر انہیں پتہ چلے کہ سنگھ بی جے پی سے ناراض ہے۔
وہ کیا چیز ہے جو مودی کو بی جے پی کے دیگر اعلیٰ لیڈروں سے ممتاز کرتی ہے؟
جیت کا فرق اور شخصیت کاجادو
پہلا، بی جے پی کی زبردست جیت۔ پارٹی نے 2019 میں تین لاکھ سے زیادہ ووٹوں کے فرق سے 105 سیٹیں جیتی تھیں – 2014 کے مقابلے میں 63 زیادہ۔
اب ہم ان سیٹوں کو دیکھتے ہیں جہاں اس بار سنگھ کے سویم سیوک اور یہاں تک کہ بی جے پی کے کچھ ممبران بھی غیر مطمئن نظر آ رہے ہیں، مثال کے طور پر فتح پور سیکری اور غازی آباد۔ اگر ان ناراض کارکنوں نے فتح پور سیکری سے مقامی ایم پی راجکمار چاہر کی امیدواری کی مخالفت کی تھی تو وہ غازی آباد کے ایم پی جنرل وی کے سنگھ کا ٹکٹ کٹنے سے بھی ناخوش تھے۔
لیکن غور کریں کہ 2019 میں بی جے پی نے فتح پور سیکری کو 4.9 لاکھ ووٹوں کے فرق سے اور غازی آباد کو پانچ لاکھ سے زیادہ ووٹوں سے جیتا تھا۔ کیا کارکنوں کی ناراضگی اتنی بڑی خلیج کو پاٹ کر مودی کو نقصان پہنچا سکتی ہے؟
اس تناظر میں، اتر پردیش اور مدھیہ پردیش جیسے بی جے پی کے قلعوں سے دور کسی اور جگہ کی مثال لیں۔ اس سوموار (20 مئی) کی دوپہر، شملہ کے سرکاری ڈینٹل کالج میں مریضوں کی قطار لگی تھی۔ جیسے ہی قطار تھوڑی سی آہستگی سے آگے بڑھنے لگی، ویسے ہی ایک ادھیڑ عمر کی لاہولی خاتون نے کاؤنٹر پر بیٹھے کلرک سے قدرے اونچی آواز میں کہا، ‘ان کا فوٹو کھینچو۔ مودی جی کو بھیجو۔ مودی جی کو پتہ چلے کہ یہاں کیا ہو رہا ہے۔’
ان کے پیچھے کھڑی ایک اور خاتون مریضہ نے اتفاق کیا۔ ’’فوراًلو۔ بھیجنا چاہیے۔’
انتہائی کم آبادی والا لاہول ہمالیہ کی اونچی پہاڑیوں میں واقع ہے۔ عام طور پر یہاں خوشحال لوگ رہتے ہیں، جن میں اکثر بدھ مت کے پیروکار ہیں۔ لاہول کے مقامی ایم پی کانگریسی ہیں، ریاست میں حکومت بھی کانگریس کی ہے۔ اس کے باوجود وہ خاتون اس یقین کے ساتھ زندگی گزار رہی ہے کہ ان کا وزیر اعظم سے سیدھا تعلق ہے۔ یہ یقین کہ مودی جی کو ایک وہاٹس ایپ پیغام سرکاری اسپتال کی قطار کو درست کردے گا۔
ظاہر ہے کہ یہ جذبات بے تحاشہ پروپیگنڈے کے ذریعے پیدا کیے گئے ہیں، جس کے پھیلاؤ میں ریڑھ کی ہڈی سے عاری میڈیا نے گہرا کردار ادا کیا ہے، لیکن یہ بھی سچ ہے کہ لاتعداد شہری اس یقین کے ساتھ رہتے ہیں اور وزیر اعظم کے ساتھ اپنے تعلق کو بہت گہرائی سے محسوس کرتے ہیں۔
مودی کے دور میں سنگھ کی بے مثال ترقی
سنگھ کی بی جے پی سے کتنی ہی ناراضگی کیوں نہ ہو، مرکزی حکومت نے اسے نشوونما کے لیے جو جگہ دی ہے اس سے کوئی سویم سیوک منہ نہیں موڑ سکتا۔
بی جے پی اکثر پچھلے دس سالوں میں اپنی توسیع کی بات کرتی ہے، لیکن ذرا سنگھ کے اعداد و شمار دیکھیے۔ سنگھ کو سال 2013 میں رکنیت کے لیے 28424 آن لائن درخواستیں موصول ہوئی تھیں۔ 2014 میں مودی کی جیت کے فوراً بعد ان درخواستوں میں اچانک کئی گنا اضافہ ہوا اور اس سال 97047 درخواستیں موصول ہوئیں۔ اس کے بعد 2015 میں 81620 اور 2016 میں 84941 درخواستیں موصول ہوئیں۔
جیسے جیسے سویم سیوکوں کی تعداد بڑھی، اس کی شاکھائیں بھی بڑھتی گئیں۔ 2015-16 میں سنگھ نے 1925 میں اپنے قیام کے بعد سے سب سے زیادہ ترقی ریکارڈ کی تھی، جب اس سال ملک بھر میں 3644 نئے مقامات پر 5527 نئی شاکھائیں قائم کی گئیں۔
یہ توسیع صرف اس کے اراکین اور شاکھاؤں تک محدود نہیں ہے۔تمام سویم سیوکوں اور پرچارکوں کو یونیورسٹی کے وائس چانسلر سے لے کر گورنر تک کے بڑے عہدے دیے گئے۔ اس کے علاوہ سنگھ کو تعلیمی نصاب میں تبدیلی اور اقلیتوں کے تئیں ملک کا رویہ طے کرنے کا بھی کہیں کھل کر موقع ملا ہے۔
اسی سال، اتر پردیش حکومت کے ایک وزیر نے اس نمائندے کو بتایا تھا کہ ان کے دفتر میں کلرک بھی اکثر سنگھ پریوار کی طرف سے بھیجے جاتے ہیں۔
کیا سویم سیوک اس سماجی قبولیت کو نظر انداز کر پائیں گے جو انہیں مودی حکومت کی وجہ سے ملی ہے؟ کیا ناراض سویم سیوک اپنے پرچارک وزیر اعظم سے دوری بنا پائیں گے؟ یا آخرکار وہ صلح کر لیں گے، یہ سوچتے ہوئے کہ 2025 میں اپنے صد سالہ سال میں اقتدار سے باہر ہونے کا خطرہ مول لینا دانشمندی نہیں ہوگی؟ بہرحال، اس کا جواب صرف پندرہ دن کے فاصلے پر ہے۔