دہلی میں ہوئے دھرم سنسد میں مبینہ طور پرہیٹ اسپیچ دینے سے متعلق کیس کی سماعت کرتے ہوئے سپریم کورٹ نے کہا کہ یہ واقعہ 19 دسمبر 2021 کو پیش آیا تھا اور ایف آئی آر پانچ ماہ بعد درج کی گئی۔ اتنا وقت کیوں لگا؟ ایسے معاملات میں ملزمان کے خلاف فوری کارروائی کی جانی چاہیے اور صرف ‘نام’ کے لیے ایف آئی آر درج نہیں کی جانی چاہیے۔
نئی دہلی: سپریم کورٹ نے قومی دارالحکومت میں2021 میں مذہبی اجتماعات (دھرم سنسد) میں دی گئی مبینہ ہیٹ اسپیچ کے ایک معاملے کی تحقیقات میں اب تک ‘کوئی قابل ذکر پیش رفت” نہیں ہونے پر جمعہ کو پولیس کی سرزنش کی۔
کیس میں ابھی تک گرفتاری یا چارج شیٹ داخل نہ کرنے پر سوالات اٹھائے ۔ اس کے ساتھ ہی معاملے کی جانچ کرنے والے پولیس افسر سے دو ہفتے میں رپورٹ طلب کی۔
عدالت نے کہا کہ تمام دفعات پر عمل درآمد کیا جانا چاہیے، ایسے معاملات میں ملزمان کے خلاف فوری کارروائی کی جانی چاہیے اور ایف آئی آر صرف ‘نام’ کے لیے درج نہیں کی جانی چاہیے۔
ٹائمز آف انڈیا کی رپورٹ کے مطابق، چیف جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ اور جسٹس پی ایس نرسمہا کی بنچ نے ایڈیشنل سالیسٹر جنرل کے ایم نٹ راج سےمتعدد سوالات کیے، جب عرضی گزار تشار گاندھی نے کہا کہ دھرم سنسد میں تشدد کے لیے صاف صاف اپیل کی گئی تھی اور یہ تحسین پونا والا کیس میں سپریم کورٹ کے دیے گئے فیصلے کی سنگین خلاف ورزی ہے، جس میں نفرت پھیلانے والوں کے خلاف فوری کارروائی کی ہدایت کی گئی تھی۔ حالانکہ پولیس نے اصل میں کوئی کارروائی نہیں کی ہے۔
بنچ نے کہا، ‘آپ تحقیقات کے بارے میں کیا کر رہے ہیں؟ یہ واقعہ 19 دسمبر 2021 کو پیش آیا تھا، ایف آئی آر پانچ ماہ بعد 4 مئی 2022 کو درج کی گئی تھی۔ ایف آئی آر درج کرنے میں آپ کو پانچ مہینے کیوں لگے؟
بنچ نے ایف آئی آر درج کرنے میں تاخیر پر سوال اٹھایا اور تحقیقات کے نتائج سے متعلق کئی سوالات پوچھے۔ عدالت نے دہلی پولیس سے پوچھا، ‘کیا کوئی گرفتاری ہوئی ہے؟ کتنے گواہوں سے پوچھ گچھ کی گئی ہے؟
درخواست گزار گاندھی کی طرف سے پیش ہونے والے ایڈوکیٹ شادان فراست نے شروع میں کہا کہ وہ دہلی پولیس کمشنر کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی میں دلچسپی نہیں رکھتے، لیکن وہ ملک میں سیکولر تانے بانے اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے تحفظ کے لیے زمینی سطح کارروائی چاہتے ہیں۔
وکیل نے کہا، ‘ایف آئی آر درج کرنے کی گزارش تھی۔ پانچ ماہ تک ایف آئی آر درج نہیں ہوئی۔ دہلی پولیس نے اپنے جوابی حلف نامے (جواب) میں کہا ہے کہ تحقیقات جاری ہے۔ وہ یہ بھی نہیں کہتے کہ انہوں نے کسی کو پوچھ گچھ کے لیے بلایا بھی ہے۔ انہوں نے کسی کو گرفتار نہیں کیا۔ کوئی چارج شیٹ داخل نہیں کی گئی ہے۔
بنچ نے پھر ایڈیشنل سالیسٹر جنرل نٹ راج سے پوچھا، ‘دھرم سنسد میں نفرت انگیز تقاریر کے الزامات کے بعد دہلی پولیس نے کیا اقدامات کیے ہیں؟ کتنی گرفتاریاں ہوئی ہیں؟ تفتیشی افسر کون ہے، جس نے ایف آئی آر درج ہونے کے 8 ماہ بعد بھی ابھی تک چارج شیٹ داخل نہیں کی۔ واقعہ 19 دسمبر 2021 کا ہے۔ دہلی پولیس کو تحقیقات مکمل کرنے اور چارج شیٹ داخل کرنے میں کتنا وقت لگے گا؟
بنچ نے عرضی گزار گاندھی کی ان دلیلوں کا نوٹس لیا کہ تحقیقات میں کوئی خاص پیش رفت نہیں ہوئی ہے اور تفتیشی افسر (آئی او) سے دو ہفتوں کے اندر رپورٹ طلب کی۔
اس کے بعد ایڈیشنل سالیسٹر جنرل نے کہا کہ ایف آئی آر درج کر لی گئی ہے اور تحقیقات جاری ہے۔ درخواست گزار یہ ‘ہدایت’ نہیں دے سکتے کہ تفتیشی ایجنسی کو کیسے آگے بڑھنا چاہیے۔ دہلی پولیس نے تحسین پونا والا کیس میں سپریم کورٹ کے 2018 کے فیصلے کی کوئی توہین نہیں کی ہے، جس میں نفرت انگیز جرائم سے مؤثر طریقے سے نمٹنے کے لیے کئی ہدایات دی گئی تھیں۔
سپریم کورٹ تشار گاندھی کی طرف سے دائر توہین عدالت کی درخواست کی سماعت کر رہی تھی، جس میں اتراکھنڈ اور دہلی پولیس پر مبینہ طور پرنفرت انگیز تقاریر کے معاملے کوئی کارروائی نہیں کرنے کا الزام لگایا گیاہے۔
بنچ نے گزشتہ سال 11 نومبر 2022 کو توہین عدالت کی درخواست میں اتراکھنڈ حکومت اور پولیس چیف کو فریقین کی فہرست سے ہٹا دیا تھا۔
یہ ہتک عزت کی عرضی تحسین پونا والا کیس میں عدالت عظمیٰ کے فیصلے کی خلاف ورزی کے سلسلے میں مبینہ بے حسی کے لیے دہلی اور اتراکھنڈ کے پولیس سربراہوں کے لیے سزا کی درخواست کرتے ہوئےدائر کی گئی تھی۔
عدالت عظمیٰ نے رہنما خطوط وضع کیے تھے کہ نفرت انگیز جرائم بشمول ماب لنچنگ میں کیا کارروائی کرنے کی ضرورت ہے۔
تشار گاندھی نے اپنی عرضی میں نفرت انگیز تقاریر اور لنچنگ کے معاملات کو روکنے کے لیے وضع کردہ رہنما خطوط کے مطابق اس معاملے پر کوئی کارروائی نہیں کرنے کے لیے اعلیٰ پولیس حکام کے خلاف ہتک عزت کی کارروائی کی مانگ کی ہے۔
عرضی میں کہا گیا ہے کہ تقاریر واقعات کے فوراً بعد دستیاب کرائی گئی تھیں اور وہ عوامی طور پر بھی دستیاب تھیں، اس کے باوجود اتراکھنڈ پولیس اور دہلی پولیس نے تقاریر کرنے والوں کے خلاف کارروائی نہیں کی۔
اس عرضی میں الزام لگایا گیا ہے کہ 17 دسمبر سے 19 دسمبر 2021 تک ہری دوار میں اور 19 دسمبر 2021 کو دہلی میں منعقد ’دھرم سنسد‘ میں نفرت انگیز تقاریر کی گئی تھیں۔
واضح ہو کہ مئی 2022 میں سپریم کورٹ نے مختلف مقامات پر دھرم سنسد جیسے پروگراموں کے انعقاد پر تشویش کا اظہار کیا تھا، جو مبینہ طور پر فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو بگاڑ رہے تھے۔
مئی 2022 میں ہی سپریم کورٹ کی سرزنش کے بعد دہلی پولیس نے اپنے سابقہ بیان سے پلٹتے ہوئےعدالت کو مطلع کیا کہ اس نے قومی دارالحکومت میں منعقدہ دھرم سنسدکے دوران ہیٹ اسپیچ کے معاملے میں گروپوں کے درمیان دشمنی کو فروغ دینے کے الزام میں ایف آئی آر درج کی گئی ہے۔
دہلی پولیس نے قبل ازیں سپریم کورٹ کو بتایا تھا کہ 19 دسمبر 2021 کو راجدھانی دہلی میں ہندو یووا واہنی کی جانب سے منعقدہ پروگرام میں ‘کسی بھی کمیونٹی کے خلاف کوئی خاص لفظ نہیں بولے گئے’۔
گزشتہ 22 اپریل 2022 کو سپریم کورٹ نے قومی دارالحکومت میں اس حلف نامہ پر اپنی ناراضگی کا اظہار کیا تھا، جس میں کہا گیا تھا کہ تقریب کے دوران کوئی مبینہ نفرت انگیز تقریر (ہیٹ اسپیچ)نہیں کی گئی تھی۔ عدالت نے دہلی پولیس کو ‘بہتر حلف نامہ ‘داخل کرنے کی ہدایت دی تھی۔
دہلی پولیس کی طرف سے اس سلسلے میں داخل کردہ ایک حلف نامہ میں کہا گیا تھا کہ دہلی کے پروگرام میں کسی بھی نفرت کا اظہار نہیں کیا گیا تھا، جیسا کہ عرضی گزار نے الزام لگایا تھا۔
بتادیں کہ دسمبر 2021 میں اتراکھنڈ کے ہری دوار میں جب شدت پسند ہندوتوا لیڈروں نے مسلمانوں کے قتل عام کی اپیل کی تھی، اسی وقت قومی دارالحکومت میں ہندو یوا واہنی کے اسی طرح کے ایک پروگرام میں سدرشن ٹی وی کے چیف ایڈیٹر سریش چوہانکے نے کہا تھا کہ وہ ہندوستان کو’ہندو راشٹر’ بنانے کے لیے ‘لڑنے، مرنے اور مارنے’ کے لیے تیار ہیں۔
رپورٹ کے مطابق، ویڈیو میں چوہانکے کو یہ کہتے ہوئے سنا جا سکتا ہے کہ ‘اس ملک کو ہندو راشٹر بنانے اور ہندو راشٹر کو برقرار رکھنے کے لیے ضرورت پڑنے پرہمیں لڑنا پڑے گا، مرنا پڑے گا اور مارنا پڑے گا۔ اس پروگرام میں موجود بھیڑ نے بھی انہی لفظوں کو دہراتے ہوئے حلف لیا تھا۔
(خبر رساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)