دہلی پولیس کے پاس طاہر حسین کو فسادات سے جوڑ نے کا کوئی ثبوت نہیں: وکیل

02:59 PM Aug 08, 2020 | دی وائر اسٹاف

گزشتہ دنوں دہلی پولیس نے دعویٰ کیا کہ عآپ کےسابق کونسلر طاہرحسین نے شمال مشرقی دہلی میں ہوئے فسادات میں شامل ہونے کی بات قبول کرلی ہے۔حسین کے وکیل جاوید علی کا کہنا ہے کہ ان کے موکل نے کبھی اس طرح کا کوئی بیان نہیں دیا۔ پولیس کے پاس اپنے دعووں کی تصدیق  کے لیے کوئی ثبوت  نہیں ہے۔

طاہر حسین۔ (فوٹو: دی وائر/ویڈیوگریب)

نئی دہلی:گزشتہ دنوں دہلی پولیس نے اپنی انٹیروگیشن رپورٹ میں دعویٰ کیا کہ عام آدمی پارٹی(عآپ)کے سابق کونسلر طاہر حسین نے دہلی فسادات میں اپنے رول کو قبول کر لیا ہے۔حالانکہ ان کے وکیل جاوید علی کا کہنا ہے کہ ان کے موکل خود دہلی فسادات کے مظلوم ہیں اور دہلی پولیس نے چارج شیٹ کے ساتھ حسین کا جوقبولنامہ منسلک  کیا ہے، وہ قابل قبول نہیں ہے۔

جاوید علی نے دہلی پولیس کے پاس موجود طاہرحسین کے اس مبینہ قبولنامے کے بارے میں د ی وائر سے بات چیت کی۔اس قبولنامے کے بارے میں علی نے کہا، ‘اس طرح کے اقبالیہ بیان متعلقہ فرد کے دستخط لینے سے پہلے پولیس کے ذریعے لکھے اور ٹائپ کیے جاتے ہیں۔ ان کی  کوئی قانونی اہمیت نہیں ہے۔’

انہوں نے کہا کہ قانون کی نظر میں سی آر پی سی کی دفعہ164 کے تحت مجسٹریٹ کے سامنے لیا گیا اقبالیہ بیان ہی قابل قبول ہے۔وہ کہتے ہیں،‘طاہر حسین نے کبھی اس طرح کا کوئی بیان نہیں دیا۔’انہوں نے یہ بھی کہا کہ پولیس کے پاس اپنے دعووں کی تصدیق  کے لیے کوئی ثبوت نہیں ہے۔

حسین نے ہمیشہ کہا ہے کہ وہ خود دہلی تشدد کے متاثر ہیں

نہرو وہار سے عام آدمی پارٹی کے کونسلر رہ چکے طاہرحسین پر دہلی فسادات کے دوران آئی بی افسر انکت شرما کے اغوااور قتل کا معاملہ بھی درج ہے۔پولیس نے ان پر دنگا بھڑ کانے اور آگ زنی کا معاملہ بھی درج کیا ہے کیونکہ دعویٰ ہے کہ کھجوری خاص میں ان کے گھر کی چھت سے پتھر اور پٹرول بم پھینکے گئے تھے۔

حسین نے خود کو بارباربےقصور بتاتے ہوئے کہا تھا کہ انہیں اس کی جانکاری نہیں ہے کہ ان کے گھر سے کس نے آس پاس کے علاقوں میں حملے کئے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ انہیں معاملے میں پھنسانے میں بی جے پی رہنما کپل مشرا کا ہاتھ ہے۔حالانکہ پولیس حسین کے انکار کے بعد بھی ان پر لگائے گئے الزامات پر قائم ہے۔

جاوید علی کہتے ہیں کہ حسین کی جانب سے بتائے گئے سلسلےوارواقعات  کی شروعات سے یہ صاف تھا کہ جب ان کے گھر کا استعمال شرپسندوں نے حملے کے لیے کیا، وہ گھر پر نہیں تھے۔

طاہر کو آئی بی افسر کے  قتل، دنگا معاملے میں گرفتار کیا گیا

دراصل دی  وائر نے حسین کی بات بھی سب کے سامنے رکھی  تھی، جس میں انہوں نے بتایا تھا کہ وہ کس طرح باربار پولیس سے مدد کو کہہ رہے تھے اور کچھ سینئرپولیس افسروں کو فون کرنے کے بعد اسی شام پولیس کے ان کے گھر پر پہنچنے کے بعد وہ وہاں سے چلے گئے تھے۔

جب پولیس ان کے گھر پہنچی تو حسین اور ان فیملی کومحفوظ باہر نکالا گیا۔ حالانکہ، وہ اگلے دن اپنی بیوی کے ساتھ گھر لوٹے اور پولیس کے وہاں موجود ہونے پر دوبارہ لوٹ گئے۔


یہ بھی پڑھیں:دہلی فسادات: طاہر حسین کی ’سازش‘ اور انکت شرما کا قتل


حسین نے کہا کہ پولیس کے جانے کے بعد احاطہ پر دنگائیوں نے قبضہ کر لیا تھا۔اس معاملے میں تین جون کو دائر چارج شیٹ میں پولیس نے حسین اور نو دیگر پر انکت شرما کے قتل کاالزام  لگایا تھا۔ انکت شرما کی لاش 26 فروری کو چاندباغ کے نالے سے برآمد کی گئی تھی۔

پولیس نے کس طرح سی اے اے مخالف مظاہرین کو فسادات سے جوڑا

دہلی پولیس نے عدالت میں پیش انٹیروگیشن رپورٹ میں بتایا ہے کہ ایک جاننے والے خالدسیفی کے ذریعے طاہر حسین آٹھ جنوری کو شاہین باغ  میں پاپولر فرنٹ آف انڈیا(پی ایف آئی)کے آفس میں عمر خالد سے ملے اور وہیں پر دہلی میں فسادات کی سازش کی۔پولیس کے مطابق، حسین اپنےسیاسی عہدے اور پیسوں کے دم پر ہندوؤں کو سبق سکھانا چاہتے تھے۔

اس سے پہلے درج چارج شیٹ میں کہا گیا کہ ان تینوں نے آٹھ جنوری کی ملاقات میں یہ فیصلہ کیا تھا کہ وہ امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کے ہندوستان  دورے کا استعمال سرکار کو شرمندہ کرنے کے لیے کریں گے۔حالانکہ ایک سچائی یہ بھی ہے کہ ٹرمپ کے ہندوستان آنے کی جانکاری سرکاری  طور پر13 جنوری کو جاری کی گئی تھی۔

پولیس کی انٹیروگیشن رپورٹ میں آگے کہا گیا ہے کہ حسین مبینہ طور پر جموں وکشمیر سے آرٹیکل 370 ہٹائے جانے اور رام جنم بھومی بابری مسجد کو لےکر سپریم کورٹ کے فیصلے سے ناراض تھے۔دہلی پولیس نے حسین کو سی اے اے مخالف مظاہروں سے بھی جوڑا۔ پولیس کا کہنا ہے کہ اس ملاقات کے دوران یونائٹیڈ اگینسٹ ہیٹ کےبانی سیفی نے کہا تھا کہ پی ایف آئی کا ایک ممبر دانش ہندوؤں کے خلاف جنگ چھیڑنے کے لیے مالی  مدد کرنے کو تیار ہے۔

پولیس کے خود کے اعدادوشمار کے مطابق، ان فسادات میں مارے گئے 53 لوگ مسلمان تھے اور فسادات میں برباد ہوئے 80 فیصدی سے زیادہ دکانیں اور گھر مسلمانوں کے تھے۔دہلی پولیس کا کہنا ہے کہ طاہر حسین کا کام اس کے چاندباغ کے گھر کی چھت پر پٹرول، ایسڈ، پتھر اور کانچ کی بوتلیں اکٹھا کرنا تھا۔

پولیس نے شاہین باغ کے پاس کھریجی میں سی اے اے مخالف مظاہروں کو تشددسے جوڑتے ہوئے کہا کہ سیفی نے اپنی دوست عشرت جہاں کی مدد سے ان مظاہروں  کا انعقاد کیا تھا۔اس انٹیروگیشن رپورٹ میں خالد کے لیے کہا گیا کہ اس نے یقین دلایاتھا کہ وہ پی ایف آئی،جے سی سی،کچھ وکیلوں، مسلم تنظیموں اور کچھ سیاسی  لوگوں سے پیسہ اکٹھا کریں گے۔

پولیس کا یہ بھی کہنا ہے کہ حسین نے قبول کیا ہے کہ وہ فسادات کے منصوبے کے لیے چار فروری کوسیفی سے دوبارہ ملا تھا اور انہوں نے مرکزی حکومت پر زیادہ دباؤ بنانے کے لیے امریکی صدرڈونالڈ ٹرمپ کے ہندوستان  دورے کے دوران فساد کرانے کامنصوبہ بنایا تھا۔

اے پلان

طاہر حسین کا کہنا ہے کہ اس کی فیملی نے خود چاندباغ کا گھر چھوڑ دیا تھا اور کہیں اورپناہ لی تھی۔دہلی پولیس کا کہنا ہے کہ انہوں نے (حسین) نے فیملی  کو ایک محفوظ جگہ  پر پہنچا دیا تھا تاکہ انہیں کوئی نقصان نہ پہنچے۔پولیس نے کہا کہ طاہر حسین نے سبھی سی سی ٹی وی کیمرے ہٹا دیے تھے تاکہ ان کے خلاف کوئی ثبوت نہ بچے۔

پولیس نے الزام لگایاہے کہ وہ (حسین)فسادات کے دن لگاتار دہلی پولیس کے افسروں کو فون کرتے رہے تاکہ کسی کو ان پر شک نہ ہو۔علی نے پولیس کی اس پوچھ تاچھ رپورٹ پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ دہلی پولیس کے پاس اپنے دعووں کی تصدیق  کے لیے ثبوت نہیں ہیں۔

انہوں نے کہا کہ طاہر حسین نے دہلی دنگے سے متعلق  کسی معاملے میں کچھ بھی قبول نہیں کیا ہے۔ وہ خود مظلوم  ہیں، جنہیں اس معاملے میں پھنسایا جا رہا ہے۔طاہر حسین جیل میں ہیں۔ تین ہفتے پہلے دہلی کی ایک عدالت نے ان کی ضمانت عرضی  خارج کر دی تھی۔

ان کی ضمانت عرضی خارج کرتے ہوئے ایڈیشنل سیشن جج ونود یادو نے کہا تھا، ‘انہوں نے (طاہر حسین)اپنے ہاتھوں اور مٹھی کا استعمال نہیں کیا بلکہ انسانی  ہتھیاروں کے طورپر دنگائیوں کا استعمال کیا، جو ان کے اکساوے پر کسی کو بھی مار سکتے تھے۔’