مہاراشٹر: چائلڈ ٹریفکنگ کے الزام میں گرفتار کیے گئے مدرسہ کے اساتذہ کے خلاف نہیں ملا کوئی ثبوت

سال 2023 میں ریلوے پولیس نے مہاراشٹر کے دو اسٹیشنوں سے مدرسہ کے پانچ اساتذہ کو بچوں کی اسمگلنگ کے الزام میں گرفتار کرکے انہیں تقریباً ایک ماہ تک جیل میں رکھا تھا۔ اب اپنی تحقیقات مکمل کرنے کے بعد جی آر پی نے کہا ہے کہ یہ پورا معاملہ 'غلط فہمی' کی وجہ سے پیدا ہوا ہے۔

 سال 2023 میں ریلوے پولیس نے مہاراشٹر کے دو اسٹیشنوں سے مدرسہ کے پانچ اساتذہ کو بچوں کی اسمگلنگ کے الزام میں گرفتار کرکے انہیں تقریباً ایک ماہ تک جیل میں رکھا تھا۔ اب اپنی تحقیقات مکمل کرنے کے بعد جی آر پی نے کہا ہے کہ یہ پورا معاملہ ‘غلط فہمی’ کی وجہ سے پیدا ہوا ہے۔

غلط طریقے سے جیل بھیجے گئے چارافراد۔(دائیں سے دوسرے، چوتھے، پانچویں اور چھٹے)

غلط طریقے سے جیل بھیجے گئے چارافراد۔(دائیں سے دوسرے، چوتھے، پانچویں اور چھٹے)

ممبئی: پچھلے سال 59 طالبعلموں کے ساتھ ایک ٹرین میں ارریہ (بہار) سے پونے (مہاراشٹرا) جا رہے مدرسے کے پانچ اساتذہ کو گورنمنٹ ریلوے پولیس (جی آر پی) نے چائلڈ ٹریفکنگ یعنی بچوں کی اسمگلنگ کے الزام میں گرفتار کیا تھا۔ چائلڈ لیبر کے طور پر کام کرانے کے  ارادے سے چائلڈ ٹریفکنگ کے الزام میں گرفتار یہ پانچ اساتذہ تقریباً ایک ماہ تک جیل میں رہے۔ تمام ملزم اساتذہ کی عمریں 20 سے 35 سال کے درمیان تھیں۔

اب ایک سال گزرنے کے بعد جی آر پی نے اپنی تحقیقات مکمل کر لی ہے اور کسی ٹیچر کے خلاف انہیں کوئی ثبوت نہیں ملا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ سارا معاملہ ‘غلط فہمی’ کی وجہ سے پیدا ہوا ہے۔

بتادیں کہ 30 مئی 2023 کو مہاراشٹر کے دو مختلف ریلوے اسٹیشنوں سے گرفتار کیے گئے پانچ اساتذہ میں سے ایک 24 سالہ محمد شاہنواز ہارون کے مطابق،جی آر پی کا انہیں  پہلے گرفتار کرنا، پھر بعد میں یہ دعویٰ کرنا کہ یہ معاملہ  بے بنیاد تھا، اس کا کوئی مطلب نہیں ہے۔

انہوں نے پوچھا، ‘جو  جرم کبھی سرزد ہی نہیں ہوا، اسے کوئی کیسے جرم سمجھ سکتا ہے؟’

ہارون کو صدام حسین صدیقی (24)، نعمان عالم صدیقی (29) اور اعجاز ضیاء الصدیقی (34) کے ساتھ 30 مئی 2023 کو منماڑ اسٹیشن سے گرفتار کیا گیا تھا۔ ایک اور استاد محمد عالم کو بھساول اسٹیشن سے گرفتار کیا گیا تھا۔ پانچوں اساتذہ اور بچوں کو ریلوے اسٹیشن سے ناسک لے جایا گیا تھا۔

منماڑ اور بھساول جی آر پی کی طرف سے دو الگ الگ ایف آئی آر درج کی گئی تھیں۔ تاہم، دونوں کا خلاصہ  یکساں تھا اور کلوزر رپورٹ بھی ایک ہی آئی ہے۔

ہارون نے مزید کہا، ‘یہ پہلا موقع تھا جب میں اتنے طویل سفر پر نکلا تھا۔ ہم پانچوں تربیت یافتہ اساتذہ تھے جو ہمارے دور افتادہ ضلع ارریہ کے بچوں کے ساتھ سفر کر رہے تھے۔ لیکن اچانک ہمیں بچوں کی اسمگلنگ کرنےوالا قرار دے دیا گیا۔’

ہارون کو یہ بھی واضح نہیں تھا کہ انہیں کیوں گرفتار کیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ بعد میں (ضمانت پر رہا ہونے کے بعد) انہوں نے سنا کہ کسی نے ایکس(سابقہ ٹوئٹر) پر ایک ویڈیو پوسٹ کیا تھا جس میں جھوٹا دعویٰ کیا گیا تھا کہ بڑی تعداد میں چائلڈ ٹریفکنگ کی جا رہی ہے۔ ہارون کہتے ہیں، ‘کسی نے ٹوئٹ کیا اور پولیس نے بغیر سوچے سمجھے کیس لگا دیا۔’

گرفتار کیے گئے ایک اور استاد صدام نے کہا، ‘ہم سے ہمارے پس منظر کے بارے میں پوچھ گچھ کی گئی اور دستاویز طلب کیے گئے۔ ہمارے پاس پولیس کی طرف سے مانگے گئے تمام کاغذات تھے۔’

انہوں نے مزید کہا کہ ‘ہر بچے اور مدرسے کی ضروری تفصیلات جمع کرانے کے بعد بھی پولیس نے ہمیں اگلی صبح مجسٹریٹ کے سامنے پیش کیا۔’

گرفتار کیے گئے تمام پانچوں افراد کو 12 دن کی پولیس حراست میں بھیج دیا گیا تھا، انہوں نے دو ہفتے سے زیادہ ناسک سینٹرل جیل میں گزارے۔ بچوں کو چلڈرن ہوم بھیج دیا گیا۔ تمام بچوں کی عمریں 12 سے 17 سال کے درمیان تھیں۔ گرفتاری کے بعد بہار پولیس کیس میں سرگرم ہوئی، بچوں کے والدین کے بیانات اکٹھے کیے، والدین نے کیس میں پھنسے اساتذہ کے حق میں گواہی دی۔

اس واقعے نے پانچوں اساتذہ کے لیے سب کچھ بدل دیا تھا۔ صدام کہتے ہیں، ‘بہار ایک غریب ریاست ہے اور ہمارا ضلع ارریہ، جو نیپال کی سرحد پر ہے، غریب ترین اضلاع میں سے ہے۔ یہاں کوئی نوکری نہیں ہے۔ پونے اور حیدرآباد جیسے شہروں کا سفر کیے بغیر ہم اپنا خاندان نہیں چلا سکتے۔’

اس واقعے کے بعد سے پانچ اساتذہ مشکل سے ہی  اپنے گاؤں سے باہر نکلے ہیں۔ ہارون نے بتایا کہ جب پانچوں افراد کو گرفتار کیا گیا تو گاؤں میں ان کے گھر والے گھبرا گئے تھے۔

انہوں نے کہا، ‘یو ٹیوب پر ٹرینوں میں مسلمانوں پر حملے اور نشانہ بنائے جانے کے  ویڈیو بھرے پڑے ہیں، ہمارے اس واقعے نے ہمارے خاندانوں اور ان بچوں کے خاندانوں کو بھی صدمہ پہنچایا جو مدارس میں پڑھنے کے لیے شہروں کا سفر کرتے ہیں’۔ اس سلسلے میں ہارون 2017 میں پیش آنے والے ماب لنچنگ کے ایک واقعے کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں، جہاں متھرا جانے والی ٹرین میں ایک نابالغ لڑکے کو پیٹ پیٹ کر ہلاک کر دیا گیا تھا۔

تاہم، پولیس نے اس سال مارچ میں اس معاملے میں ‘سی سمری’ رپورٹ داخل کی تھی۔ ‘سی سمری’ رپورٹ اس وقت دائر کی جاتی ہے جب جانچ ایجنسی کو لگتا ہے کہ حقائق ریکارڈ کرنے میں غلطیوں کی وجہ سے کسی شخص کو غلط طریقے سے پھنسایا گیا ہے۔

ان پانچ افراد کو قانونی امداد ممبئی کی سماجی و قانونی تنظیم جمعیۃ علماء ہند نے فراہم کی تھی۔ عدالت میں ان کی نمائندگی ایڈووکیٹ نیاز احمد لودھی نے کی۔ لودھی نے دی وائر کو بتایا، ‘ابتدائی طور پر پولیس کو معلوم تھا کہ ان کے پاس ان لوگوں کے خلاف کوئی ثبوت نہیں ہے، پھر بھی انہیں حراست میں لے لیا گیا۔’

چند ماہ قبل لودھی نے بامبے ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی تھی جس میں اساتذہ کے خلاف مقدمہ ختم کرنے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ لودھی نے کہا کہ یہ پہلا موقع تھا جب جی آر پی نے اشارہ دیا کہ انہیں ان اساتذہ کے خلاف کچھ نہیں ملا ہے۔ چند مہینوں میں انہوں نے کلوزر رپورٹ دائر کی۔

انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں ۔