مودی حکومت کی جانب سے آندھرا پردیش کو خصوصی ریاست کا درجہ دینے سے انکار کے بعد ٹی ڈی پی 2018 میں این ڈی اے سے باہر ہو گئی تھی۔ لیکن 2024 کے لوک سبھا انتخابات سے ٹھیک پہلے پارٹی این ڈی اے میں لوٹ آئی۔ اب پارٹی سپریمو اور چیف منسٹر چندربابو نائیڈو نے کہا ہے کہ ریاست کو خصوصی درجے سے کہیں زیادہ کی ضرورت ہے۔
نئی دہلی: چوتھی بار آندھرا پردیش کی کمان سنبھالنے والے چیف منسٹر این چندربابو نائیڈو نے دہلی میں کہا کہ ان کی ریاست کی معیشت خصوصی زمرہ کے درجے سے آگے نکل گئی ہے اور اب انہیں مرکز سے کہیں زیادہ تعاون کی ضرورت ہے۔
چندربابو نائیڈو نے دی ہندو کو کہا،’ہمیں ریاست کے تقریباً ہر ادارے کو از سر نو کھڑا کرنے اور دوبارہ تعمیر کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ صوبے کے لیے خصوصی درجے کے مطالبے سے کہیں زیادہ ہے۔’
رپورٹ کے مطابق، نائیڈو کا یہ بیان اس لیےاہم مانا جا رہا ہے کہ مرکز کی نریندر مودی حکومت پہلے ہی کسی بھی ریاست کو خصوصی ریاست کا درجہ دینے سے انکار کر چکی ہے۔
اس صورتحال میں نائیڈو کا موقف این ڈی اے کے دو اہم حلیفوں- بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) اور تیلگو دیشم پارٹی (ٹی ڈی پی) کے درمیان فی الحال کسی تصادم کے امکان سے انکار کرتا ہے۔
واضح ہو کہ حال ہی میں بی جے پی کی ایک اور بڑی حلیف جنتا دل (متحدہ) کو بھی بہار کے لیے خصوصی ریاست کا درجہ دینے کے اپنے مطالبے پر نرم رویہ اپناتے ہوئے دیکھا گیا ہے۔
تاہم، پارٹی کی قومی ایگزیکٹو نے ایک حالیہ میٹنگ میں بہار کے لیے ‘خصوصی ریاست کا درجہ اور خصوصی پیکیج‘ کی مانگ کے لیے ایک قرارداد پاس کی ہے ۔ اس قرارداد کے بعد صحافیوں سے خطاب کرتے ہوئے جے ڈی یو کے سیاسی مشیر اور قومی ترجمان کے سی تیاگی نے کہا تھا ، ‘ہماری ارادے میں بہار کے لیے خصوصی درجہ اور خصوصی اقتصادی پیکیج دونوں شامل ہیں، ہم دونوں کے لیے لڑائی جاری رکھیں گے۔’
بتادیں کہ نومبر 2023 میں نیشنل ڈیموکریٹک الائنس (این ڈی اے) میں دوبارہ شامل ہونے سے چند ماہ قبل نتیش کمار نے وعدہ کیا تھا کہ اگر مرکزی حکومت نے بہار کو خصوصی درجہ نہیں دیا تو ریاست گیر احتجاج کیا جائے گا ۔
نائیڈو نے اس مدت کار کو مشکل آغاز قرار دیا
چیف منسٹر نائیڈو نے اپنے سابقہ دور اقتدار کا موازنہ کرتے ہوئے موجودہ دور اقتدار کو مشکل قرار دیا اور کہا کہ وہ اپنے دور اقتدار کا آغاز صفر سے نہیں کررہے ہیں بلکہ اس سے بہت نیچے ہیں۔
انہوں نے کہا، ‘جب میں پہلی بار اقتدار میں آیا (1995) تو ہماری پارٹی کے کارکنوں میں بہت جوش تھا۔ ہم نے اپنا کام بخوبی ختم کیا تھا۔ دوسری مدت (1999) میں ہم وہاں سے آگے بڑھے جہاں سے ہم نے شروع کیا تھا۔ میرا تیسرا دور (2014) مشکل تھا کیونکہ تقسیم کے بعد ریاست کو جھٹکا لگا تھا۔ لیکن یہ دور اب تک کا سب سے مشکل دور ہے۔ ہم صفر سے شروع نہیں کر رہے بلکہ اس سے بہت نیچے ہیں۔’
چندربابو نائیڈو نے اپنے پیش رو وائی ایس آر کانگریس لیڈر جگن موہن ریڈی پر ریاست کو ایک نازک معاشی صورتحال میں دھکیلنے کا الزام لگایا۔
نائیڈو نے واضح کیا کہ ان کی پارٹی نے لوک سبھا اسپیکر کا عہدہ نہیں مانگا ہے اور نہ ہی ان کا مقصد ڈپٹی اسپیکر کا عہدہ ہے۔
این ڈی اے میں اپنی پوزیشن واضح کرتے ہوئے انہوں نے کہا، ‘میں کسی عہدے کی تلاش میں اتحاد میں شامل نہیں ہوا۔’
چندربابو نائیڈو نے دہلی کے اپنے دو روزہ دورے کے دوران وزیر اعظم نریندر مودی کے علاوہ چھ مرکزی وزراء سے ملاقات کی اور قرض میں ڈوبی ریاست کے لیے مالی مدد سمیت مطالبات کی ایک لمبی فہرست پیش کی۔
نائیڈو نے مرکز کو’مختصر مدت میں ریاست کو مالی امداد، پولاورم آبپاشی پروجیکٹ کو شروع کرنے میں تعاون، ریاست کی نامزد راجدھانی امراوتی میں بنیادی ڈھانچے کے کاموں کو مکمل کرنے میں مدد اور بندیل کھنڈ پیکیج کی طرز پر آندھرا پردیش کے پسماندہ علاقوں کو امداد سمیت کئی مطالبات کیے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ انتخابی مہم کے دوران عوام سے کیے گئے تمام وعدے قومی جمہوری اتحاد کے تھے اکیلے ٹی ڈی پی کے نہیں۔ انہوں نے کہا کہ انہیں اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ ریاست اور مرکز انہیں پورا کرنے کے لئے مل کر کام کریں گے۔
غور طلب ہے کہ مودی حکومت کے آندھرا پردیش کو خصوصی ریاست کا درجہ دینے سے انکار کے بعد ٹی ڈی پی کو 2018 میں این ڈی اے چھوڑنا پڑا تھا۔ جے ڈی یو کی طرح ٹی ڈی پی بھی لوک سبھا انتخابات سے عین قبل این ڈی اے میں واپس آئی ہے۔