اعلان کے چار سال بعد بھی نیشنل ریکروٹمنٹ ایجنسی ندارد، لاکھوں امیدوار اب بھی منتظر

وزیر اعظم نریندر مودی نے 2020 میں مرکزی حکومت کی نوکریوں کے لیے ایک کامن ایلیجبلٹی ٹیسٹ کرانے اور نیشنل ریکروٹمنٹ ایجنسی بنانے کا وعدہ کیا تھا۔ چار سال گزرنے کے بعد بھی نوجوان اس کا انتظار ہی کر رہے ہیں۔

وزیر اعظم نریندر مودی نے 2020 میں مرکزی حکومت کی نوکریوں کے لیے ایک کامن ایلیجبلٹی ٹیسٹ کرانے اور نیشنل ریکروٹمنٹ ایجنسی بنانے کا وعدہ کیا تھا۔ چار سال گزرنے کے بعد بھی نوجوان اس کا انتظار ہی کر رہے ہیں۔

(علامتی تصویر بہ شکریہ: Pixabay/WOKANDAPIX)

(علامتی تصویر بہ شکریہ: Pixabay/WOKANDAPIX)

احمد آباد: سال 2014 سے 2022 کے درمیان 22 کروڑ سے زیادہ امیدواروں نے مرکزی حکومت کی نوکریوں کے لیے درخواستیں دیں۔ ان میں سے ایک 27 سالہ راہل (بدلا ہوا نام) بھی تھے۔ راہل انجینئر تھے، لیکن انہوں نے ایک ایسی نوکری کے لیے درخواست دی جس کے لیے صرف میٹرک پاس ہونے کی ضرورت تھی – یہ مرکزی حکومت کی انڈین کونسل آف ایگریکلچرل ریسرچ میں ٹیکنیشن کے لیے تھا۔

انہوں نے دسمبر 2021 میں درخواست دی تھی۔ اس کے بعد سے کئی بار امتحان لیا گیا اور پھر نتیجہ اچانک رد کر دیا گیا۔ آج تین سال گزرنے کے بعد بھی راہل نوکری کے انتظار میں ہیں۔

‘تین سال کا طویل عرصہ لگتا ہے تو امیدوار مایوس ہو جاتے ہیں،’انہوں نے کہا۔ راہل ہار نہیں مان سکتے۔ ان کا ماننا ہے کہ مرکزی حکومت کی نوکری ‘سکیورٹی’ فراہم کرے گی۔

وہ کہتے ہیں، ‘جب تک عمر اور اٹیمپٹ ہے، کوشش کرتا رہوں گا۔’

راہل اس سے پہلے بھی سرکاری بھرتی کے ناکام عمل کا سامنا کر چکے ہیں۔ ریاستی سطح کی سرکاری بھرتیوں کے ساتھ بھی ان کا ایسا ہی تجربہ رہا ہے۔ 2021 میں ہریانہ پبلک سروس کمیشن نے اپنے امتحانات منعقد کرنے کے آٹھ ماہ بعد بغیر کوئی وجہ رد کر دیے۔ اس کے بعد 2022 میں وہ بہار پبلک سروس کمیشن کے امتحان میں شامل ہوئے، جسے پیپر لیک ہونے کے بعد رد کر دیا گیا۔

حال ہی میں انہوں نے ایک بار پھر 16 جون کو یو پی ایس سی سول سروسز کا انٹرنس ٹیسٹ دیا ہے۔

کامن  ایلیجبلٹی ٹیسٹ اور نیشنل ریکروٹمنٹ ایجنسی کی تجویز

راہل جیسے لاکھوں ہندوستانی نوجوان ہر سال ایسے کئی امتحانات میں بیٹھتے ہیں۔ ہر کوشش میں انہیں ذہنی اذیت کے ساتھ ساتھ فارم پُر کرنے کے اخراجات اور ملک کے مختلف حصوں میں امتحان میں شرکت کے لیے جسمانی دباؤ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس کے علاوہ انہیں پیسے کی کمی کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے۔ پھر بھی وہ یہ سب کچھ اس امید میں کرتا ہے کہ ہر سال آنے والی چند سرکاری نوکریوں میں سے کوئی ایک حاصل کر لے گا۔

اس مسئلے کو کسی حد تک حل کرنے کے لیے مرکزی حکومت نے فروری 2020 میں ایک امید افزا تجویز پیش کی۔ یہ تجویز تھی ایک کامن ایلیجبلٹی ٹیسٹ کی، جس کے ذریعے مختلف مڈ اور جونیئر لیول کی ملازمتوں کے لیے امیدواروں کا انتخاب کیا جائے گا۔ ہر سال تقریباً تین کروڑ امیدوار ان آسامیوں کے لیے درخواست دیتے ہیں۔

اس کا مقصد اس بات کو یقینی بنانا تھا کہ ملک کے نوجوانوں کو مرکزی حکومت کی مختلف شاخوں اور ایجنسیوں کے ذریعے منعقد کیے جانے والے دباؤ سے بھرے ہوئے اور معاشی طور پر کمزور کرنے والے امتحانات نہ دینا پڑے۔ اس اقدام کے ساتھ، ایک امتحان کافی ہوگا، اور اس میں حاصل کردہ اسکور کی بنیاد پر امیدوار مذکور سطحوں پر تمام مرکزی حکومت کی ملازمتوں کے لیے درخواست دے سکیں گے۔

حکومت نے کہا کہ وہ اس امتحان کے انعقاد کے لیے نیشنل ریکروٹمنٹ ایجنسی یا این آر اے قائم کرے گی۔

بڑے بڑے دعووں، خیالات اور اسکیموں کی اہمیت کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنے کی وزیر اعظم نریندر مودی کی عادت کے مطابق اس پہل کا اعلان بھی اسی طرح کے دعووں کے ساتھ کیا گیا۔ مودی نے اسے ‘کروڑوں نوجوانوں کے لیے وردان’ قرار دیا۔

وزیر داخلہ امت شاہ نے ایک ٹوئٹ میں کہا، ‘این آر اے مودی حکومت کی طرف سے اٹھایا گیا ایک بے مثال قدم ہے کیونکہ یہ ایک  انقلابی اوریکساں بھرتی کا لائحہ عمل تیار کرے گا۔’

عام طور پر ہندوستان میں بے روزگاری کی سنگین صورتحال کو کم کرکے بتانے والی حکومت کی جانب سے ایسا قدم انقلابی نہیں تو کم از کم امید افزا تو لگ ہی رہاتھا- بشرطیکہ حقیقت میں نوکریاں دی جائیں۔

مختلف سرکاری ملازمتوں کے لیے الگ الگ درخواست دینے کے عمل کو منظم کرنے کے علاوہ، اس اقدام سے بہت سی دوسری توقعات وابستہ تھیں۔ بار بار پیپر لیک ہونے کی وجہ سے امتحانات رد ہوتے تھے اور یہ ایک بڑا ایشو بن گیا تھا۔ لہذا، یہ توقع تھی کہ این آر اے کی طرف سے تمام ملازمتوں کے لیے مبینہ طور پر امتحان کے مؤثر نظام سے پیپر لیک کو روکا جا سکے گا۔

کاغذپر ہی رہ گئے وعدے

تاہم، رپورٹرز کلیکٹو نے پایا کہ اس اعلان کے چار سال بعد بھی  این آر اے نے اب تک ایک بھی اہلیت کا امتحان نہیں لیا ہے۔ ایجنسی میں ملازمین کی کمی ہے۔

حکومت ہر بار اس تاخیر کے لیے الگ الگ بہانے کرتی ہے جبکہ این آر اے مسلسل ناکام ثابت ہو رہی ہے۔ مرکزی حکومت میں شامل ہونے کے خواہشمند نوجوانوں کے لیے ایک ہی امتحان کا وعدہ صرف کاغذوں پر ہی رہ گیا ہے۔

‘جب ایم پی یا ایم ایل اے کو منتخب کرنا ہوتا ہے تو سسٹم بخوبی  کام کرتا ہے۔ لیکن، جب یہی نظام عام ہندوستانی نوجوان کو ملازمتوں کے لیے بھرتی کرتا ہے، تو ناکام ہوجاتا ہے۔ ظاہر ہے یہ سیاسی طور پر قوت ارادی کے فقدان کے باعث ہوتا ہے۔ بھرتی کے امتحانات کو کرانے کے لیے سیاسی طور پر قوت ارادی کا شدید فقدان ہے’، نوجوانوں کی بے روزگاری کے مسائل پر کام کرنے والے گروپ یووا ہلہ بول کے بانی انوپم نے کہا۔

رپورٹرز کلیکٹو نے این آر اے کو ایک مفصل سوالنامہ ارسال کیا ہے، جس کا جواب موصول نہیں ہوا ہے۔

بھرتی کی ادھوری کوشش

مرکزی حکومت نے 2020 کی بجٹ تقریر میں این آر اے کا تصور پیش کیا تھا، جس کے آپریشن کے لیے پہلے تین سالوں میں 1517.57 کروڑ روپے مختص کیے گئے تھے۔

اس وقت کی وزیر خزانہ نرملا سیتا رمن نے کہا تھا، ‘فی الحال امیدواروں کو ایک جیسے عہدوں کے لیے مختلف اوقات میں متعدد ایجنسیوں کے ذریعے منعقد کیے جانے والے متعدد امتحانات میں شریک ہونا پڑتا ہے۔ اس میں ان کا بہت وقت ضائع ہوتا ہے، پیسہ خرچ ہوتا ہے اور محنت لگتی ہے۔ ان کی مشکلات کو کم کرنے کے لیے، نان گزیٹڈ آسامیوں پر بھرتی کے لیے کمپیوٹر پر مبنی آن لائن کامن ایلیجبلٹی ٹیسٹ کے لیے ایک آزاد، پیشہ ور، ماہرین کی تنظیم کے طور پرایک نیشنل ریکروٹمنٹ ایجنسی قائم کرنے کی تجویز ہے۔’

یہ اعلان فروری 2020 میں کیا گیا تھا۔ اصولی طور پر این آر اے کے کام کاج کا خاکہ تیار کرنے میں حکومت کو مزید چھ ماہ لگے۔ اگست 2020 میں اس باڈی کو باضابطہ طور پر ‘مطلع‘ کیا گیا، جس کا مطلب ہے کہ ایک سرکاری ادارہ قانونی طور پر وجود میں آ گیا ہے۔

یہ فیصلہ کیا گیا کہ این آر اے گروپ بی اورسی (نچلی سطح کی پوسٹ) کی نان گزیٹیڈ پوسٹوں کے ساتھ ساتھ گروپ بی کی ایسی گزیٹیڈ آسامیوں کے لیے کمپیوٹر پر مبنی ٹیسٹ لے گی، جن کے لیے ایک اور سرکاری بھرتی ایجنسی – یونین پبلک سروس کمیشن (یو پی ایس سی)- سے مشاورت کی ضرورت نہیں ہے۔

یہ مرکزی حکومت کے مختلف حصوں میں درمیانی سے جونیئر سطح کے عہدے ہیں، جن میں ہائی اسکول سے لے کر گریجویشن تک کی اہلیت کے حامل لوگوں کے لیے وسیع مواقع ہیں۔ ڈرائیور، کانسٹبل، الیکٹریشن، اسٹینو گرافر، اسٹاف نرس سے لے کر اکاؤنٹنٹ اور سب انسپکٹر تک، سب ان زمروں میں آتے ہیں۔

دعووں کی حقیقت

سرکاری نوٹیفکیشن کو پڑھنے سے ہی یہ واضح ہو جاتا ہے کہ کامن ایلیجبلٹی ٹیسٹ (سی ای ٹی) اور این آر اے کے لیے وزیر اعظم اور وزیر داخلہ کے بڑے بڑے وعدوں پر پورا اترنا ممکن نہیں ہے۔

سرکاری حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ این آر اے کی طرف سے لیا جانے والا اہلیتی امتحان تین سطحوں  کے امیدواروں کے لیے ہوگا؛ گریجویٹ، جنہوں نے 12 ویں جماعت پاس کر لی ہے، اور وہ جنہوں نے 10 ویں جماعت پاس کرلی ہے۔ درحقیقت یہ امتحان درخواست دہندگان کے لیے نہ تو واحد تھے اور نہ ہی فیصلہ کن ۔

حکومت کے مطابق، یہ تین موجودہ سرکاری ایجنسیوں: اسٹاف سلیکشن کمیشن (ایس ایس سی)، ریلوے ریکروٹمنٹ بورڈ (آرآر بی)، اور انسٹی ٹیوٹ آف بینکنگ پرسنل سلیکشن (آئی بی پی ایس) کی نگرانی میں ‘غیر تکنیکی’ ملازمتوں کے لیے ‘فرسٹ لیول’ کا امتحان تھا ۔ مخصوص آسامیوں کے لیے امیدواروں کو ان تین ریکروٹمنٹ ایجنسیوں کے ذریعے کرائے جانے والے اضافی امتحانات میں شرکت کرنا پڑ سکتی تھیں۔

درحقیقت این آر اے امتحان ان تینوں سرکاری بھرتی ایجنسیوں کے درخواست دہندگان کو چھانٹنے کے لیے فلٹر کے طور پر ڈیزائن کیا گیا تھا۔ اس کا مطلب ہے کہ ہندوستان میں اب اتنی ہی تعداد میں ملازمتوں کے لیے بھرتی کرنے کے لیے تین کے بجائے چار ایجنسیاں ہو گئیں۔

این آر اے کے قیام کے لیے جاری کیے گئے سرکاری حکم نامے میں کوئی پختہ جانکاری نہیں تھی کہ نئی ایجنسی کب مکمل طور پر یا کم از کم جزوی طور پر کام شروع کرے گی۔ عام طور پر سماجی بہبود کی ایسی ہائی پروفائل اسکیموں کے لیے حکومت واضح طور پر ہدف اور ٹائم لائن کا تعین کرتی ہے اور ان کا اعلان بہت دھوم دھام سے کیا جاتا ہے۔

نوٹیفکیشن میں کہا گیا تھا کہ ابتدائی طور پر کچھ عرصے کے لیے سال میں دو بار اہلیتی امتحان لیا جائے گا۔ این آر اے ‘منظم طریقے سے ہر سطح پر سی ای ٹی  کی فریکوئنسی میں اضافہ کرے گی تاکہ ایک وقت آئے جب امیدواروں کو اپنی پسند کی تاریخ اور وقت پر ٹیسٹ بک کرنے اوردینے کا موقع دیا جاسکے۔’

اگر این آر اے ایک نئی تعمیر شدہ رہائش گاہ تھی، تو اس میں رہنا شروع کرنے کی کوئی تاریخ نہیں تھی – صرف ایک خاکہ تھا کہ یہ مستقبل میں کسی غیر متعین وقت پر کیسا نظر آسکتا ہے۔

این آر اے کے ڈھانچے میں ہی کچھ گڑبڑی تھی۔ حکومت نے اشارہ دیا تھا کہ ایک رجسٹرڈ سوسائٹی کے طور پر اس کو قائم کیا جائے گا لیکن اندرونی طور پر یہ ایک کمپنی کی طرح کام کرے گی۔ اصول کےمطابق، ایک سوسائٹی کو نسبتاً آسان رپورٹنگ اور اکاؤنٹنگ کے اصولوں پر عمل کرنا پڑتا ہے۔ اس کے برعکس، ایک کمپنی کو اپنے کھاتوں اور کام کاج  کی رپورٹ حکومت کو دینا ہوتی ہے، اور یہ ریکارڈ عوامی طور پر دستیاب کرائے جاتے ہیں۔

حکومت نے مزید کہا کہ این آر اے خود مختاری سے کام کرے گی، لیکن اسی حکم کی ایک اور سطر میں اس کی خود مختاری کو یہ کہہ کر کم کر دیا گیا کہ ‘حکومت ہند این آر اے اور گورننگ باڈی کو اپنی پالیسیوں کے حوالے سے ہدایات دے گی اور این آر اے اس طرح کی ہدایات پر عمل کرنے کے پابند ہوگی۔’

انتہائی پرجوش منصوبہ

اعلان کے ایک سال بعد بھی این آر اے پر کام جاری رہا۔ 10 فروری 2021 کو اس وقت کے وزیر مملکت برائے عملہ، عوامی شکایات اور پنشن جتیندر سنگھ نے لوک سبھا کو مطلع کیا کہ این آر اے 2021 میں اپنا پہلا امتحان منعقد کر سکتا ہے۔

یہ وعدہ غلط ثابت ہوا۔ این آر اے نے کام شروع نہیں کیا، ایک اور سال بغیر کسی پیش رفت کے گزر گیا۔ مئی 2022 میں حکومت نے دعویٰ کیا کہ این آر اے سال کے آخر تک نان گزیٹیڈ پوسٹوں کے لیے ایک امتحان منعقد کرے گا۔

لوک سبھا میں دیا گیا جواب، 10 فروری 2021

لوک سبھا میں دیا گیا جواب، 10 فروری 2021

پریس انفارمیشن بیورو کی ریلیز، 22 مئی 2022

پریس انفارمیشن بیورو کی ریلیز، 22 مئی 2022

حکومت کی بڑی بڑی باتیں جاری رہیں۔ وزیر جتیندر سنگھ نے این آر اے کو ایک ‘رہنما’ اور ‘تاریخی’ اصلاحات بتایا، جو ‘نوجوانوں کے لیے خاص طور پر دور افتادہ اور ریموٹ علاقوں میں رہنے والوں کے لیے ایک بہت بڑی نعمت ثابت ہوگی۔’

اہم پیش رفت کا مشورہ دیتے ہوئے انہوں نے دعویٰ کیا کہ ‘امتحان ہندی اور انگریزی سمیت 12 زبانوں میں اور بعد میں آئین کے 8 ویں شیڈول میں درج تمام زبانوں میں لیا جائے گا۔’

تاہم، اندرونی طور پر این آر اے کو ابھی بھی نصاب، امتحان کے منصوبے اور فیس کے ڈھانچے کو حتمی شکل دینا تھا اور طلباء کے لیے ایک منصفانہ نظام بنانا تھا۔ ماہرین کی ایک مشاورتی کمیٹی مارچ 2022 سے کچھ عرصہ پہلے تشکیل دی گئی تھی تاکہ یہ طے کیا جا سکے کہ کون سی ٹکنالوجی استعمال کی جانی چاہیے۔ ایک سال سے زائد عرصہ گزرنے کے باوجود کمیٹی کے نتائج واضح نہیں ہیں۔

حکومت نے عوام کے سامنے جو ڈیڈ لائن مقرر کی تھی وہ پہلے ہی پار ہو چکی تھی۔ اگست 2023 میں پارلیامانی اسٹینڈنگ کمیٹی کی پیش کردہ رپورٹ کے مطابق، این آر اے ایک ‘ڈیجیٹل پلیٹ فارم’ بنانا چاہتا تھا، جس کے لیے حکومت کی انفامیشن برانچ، نیشنل انفارمیٹکس سینٹر (این آئی سی) نے جولائی 2022 میں ایک تجویز پیش کی تھی۔

ریکارڈ کے مطابق، این آئی سی کو ایک ترمیم  شدہ تجویز بھیجنی تھی، اور رضامندی حاصل کرنے کے بعد این آئی سی کی سافٹ ویئر ٹیم کو این آر اے کے ڈیجیٹل پورٹل کو چالو کرنے میں آٹھ سے دس ماہ لگنے تھے۔

اس کے بعد ہی این آر اے دراصل امتحان کے انعقاد پر غور کر سکتی تھی، جیسا کہ حکومتی اور پارلیامانی ریکارڈ سے پتہ چلتا ہے۔ اس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ سال کے آخر تک 12 زبانوں میں امتحانات نہیں لیے جا سکتے جیسا کہ حکومت دعویٰ کر رہی تھی۔

حسب توقع یہ ڈیڈ لائن بھی ختم ہوگئی۔ این آر اے کے تین سالوں کے  کام کاج  کے لیے مختص کیے گئے 1517 کروڑ روپے میں سے حکومت نے دسمبر 2022 تک صرف 20.50 کروڑ روپے خرچ کیے۔ مالی سال 2021-22 میں 13.85 کروڑ روپے خرچ کیے گئے تھے، اور مالی سال 2022-23 کے لیے 396 کروڑ روپے مختص کیے گئے، لیکن دسمبر 2022 تک کوئی پیسہ  نہیں دیا گیا۔

یہ معلومات اس رپورٹر کی جانب سے دائر کی گئی آر ٹی آئی (اطلاع کا حق) درخواست میں سامنے آئی ہے۔

حق اطلاعات قانون، 2005، 8 فروری 2023 کے تحت کی گئی درخواست پر این آر اے کا جواب

حق اطلاعات قانون، 2005، 8 فروری 2023 کے تحت کی گئی درخواست پر این آر اے کا جواب

این آر اے کے اعلان کے تین سال بعد اگست 2023 میں کانگریس کے راجیہ سبھا کے ممبر رندیپ سنگھ سرجے والا نے ایک بار پھر حکومت سے پوچھا کہ ایجنسی ایک مکمل امتحانی نظام قائم کرنے اور چلانے کی بات تو دور، ایک بھی امتحان کرانے میں کیوں ناکام رہی ہے۔

اس بار بڑے بڑے دعووں کی جگہ لمبے تکنیکی بہانے نے لے لی۔

دس اگست 2023 کو وزیر مملکت جتیندر سنگھ نے پارلیامنٹ میں سرجے والا کو جواب دیتے ہوئے کہا، ‘گروپ بی اور سی کے عہدوں کے لیے سی ای ٹی کا انعقاد ایک بہت بڑی تبدیلی ہے، جس کے لیے ملک بھر میں سی ای ٹی کے مختلف مراحل کے لیے معیارات/ رہنما اصولوں کے علاوہ قابل اعتماد آئی ٹی اور فزیکل انفراسٹرکچر کی دستیابی ضروری ہے۔ لہٰذا، سی ای ٹی کو صرف آئی ٹی اور فزیکل انفراسٹرکچر قائم کرنے اور اس کے لیے مختلف مراحل کے لیے معیارات/رہنما خطوط تیار کرنے کے بعد ہی لاگو کیا جا سکتا ہے۔’

تین سال بعد مرکزی حکومت اوراس کی سخت ہدایات کے تحت کام کرنے والی این آر اے بنیادی انتظامات بھی قائم کرنے میں ناکام رہی۔

حکومت نے 2020 میں دعویٰ کیا کہ امتحان ملک بھر کے 1000 مراکز پر منعقد کیا جائے گا، جس میں ملک کے تمام اضلاع کا احاطہ کیا جائے گا۔ تاہم، اگست 2023 میں اس رپورٹر کے ذریعے دائر کردہ ایک اور آر ٹی آئی کے جواب میں حکومت نے تسلیم کیا کہ ابھی تک امتحان کے مراکز کا انتخاب نہیں کیا گیا ہے۔

اس دوران این آر اے بذات خود منصوبہ بند صلاحیت سے نیچے کام کر رہی تھی۔ اس کے سات علاقائی دفاتر ہونے چاہیے تھے، لیکن ایک بھی قائم نہیں کیا گیا۔ این آر اے ہیڈکوارٹر میں 33 منظور شدہ آسامیوں میں سے 24 (72فیصد) خالی رہے۔

آر ٹی آئی  کے تحت داخل درخواستوں کے جواب نے حکومت کی سست روی کو بے نقاب کر دیا۔ این آر اے ایک اعلیٰ سطح کی گورننگ باڈی کی رہنمائی میں کام کرتی ہے جس میں ایک چیئرمین اور آٹھ ممبر ہوتے ہیں، جو مختلف تنظیموں سے آتے ہیں جن میں محکمہ پرسنل اینڈ ٹریننگ، ریلوے اور اسٹاف سلیکشن کمیشن شامل ہیں۔

حق اطلاعات قانون، 2005 کے تحت درخواست پر این آر اے کا جواب 16 اگست 2023

حق اطلاعات قانون، 2005 کے تحت درخواست پر این آر اے کا جواب 16 اگست 2023

این آر اے کے قیام کے بعد سے اس گورننگ باڈی کی صرف دو بار میٹنگ ہوئی ہے۔ ایک 21 جون 2022 کو اور ایک 12 جنوری 2023 کو۔ حکومت نے رازداری کا حوالہ دیتے ہوئے ان بیٹھکوں کی تفصیلات دینے سے انکار کر دیا۔

اس دوران مرکزی حکومت کو عملہ، عوامی شکایات، قانون اور انصاف پر پارلیامانی اسٹینڈنگ کمیٹی کی تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔

کمیٹی نے اگست 2023 میں اپنی ایک رپورٹ میں کہا، ‘کمیٹی اس بات پر زور دیتی ہے کہ نیشنل ریکروٹمنٹ ایجنسی (این آر اے)، جسے گروپ ‘بی’ اور گروپ ‘سی’ ملازمین کے لیے امتحانات کرانے کا حکم دیا گیا تھا، ابھی تک پوری طرح سے فعال نہیں ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ این آر اے نے ساڑھے تین سال بعد بھی کام شروع نہیں کیا  ہے اور یہ جاننے کی کوشش کی کہ ایجنسی کب کام کرنا شروع کرے گی۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ۔’این آر اے مکمل طور پر فعال ہونے میں مزید دو سال کا وقت نہیں لے سکتی۔ ‘کمیٹی کے ارکان کا خیال تھا کہ اس سست رفتاری کو دیکھتے ہوئے ایجنسی کو کم از کم چھوٹے پیمانے پر امتحانات شروع کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔

‘کمیٹی این آر اے کو گریجویٹ سطح کے امتحانات سے شروع کرنے کا مشورہ دیتی ہے تاکہ مطلوبہ اہلیت کے حامل امیدواروں کی تعداد کو کم کیا جا سکے۔ اگر شروعات ایسے امتحان سے ہوتی  ہے جس کے لیے دسویں جماعت کی اہلیت ہے، تو تمام گریجویٹس خود بخود اہل ہو جائیں گے، اور اتنی بڑی تعداد میں امیدواروں کا انتظام کرنا ناممکن ہو جائے گا،’ کمیٹی نے کہا۔

حتیٰ کہ این آر اے کو امتحان کے انعقاد کے بارے میں ایس ایس سی جیسی دوسری ایجنسیوں سےمشورہ لینے کو کہا گیا تھا–انہی ایجنسیوں سے جن کی جگہ جزوی طور پر این آر اے کو لینی تھی۔

یہ رپورٹ 2023 میں آئی تھی۔ فروری 2024 تک ایسا لگ رہا تھا کہ حکومت این آر اے کو بھول چکی ہے۔

جب حکومت نے امتحانات میں نقل اور پیپر لیک کو روکنے کے لیے جلد بازی میں ایک قانون پاس کیا تو تمام مرکزی بھرتی ایجنسیاں، جیسے یو پی ایس سی، ایس ایس سی اورآر آر بی  اس کے دائرے میں تھیں، لیکن این آر اے کا نام ندارد  تھا۔

مالی سال 2024-25 شروع ہوچکا تھا، لیکن این آر اے اور کامن ایلیجبلٹی ٹیسٹ ابھی شروع ہونا باقی تھا۔ لیکن عام انتخابات قریب تھے۔ بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) نے اس مشکوک ریکارڈ کواور بھی بڑے وعدوں کے پیچھے چھپا لیا۔

پارٹی نے اپنے منشور میں دعویٰ کیا کہ ‘ہم نے شفاف سرکاری بھرتی امتحانات کے ذریعے لاکھوں نوجوانوں کو سرکاری ملازمتوں میں بھرتی کیا ہے۔ ہم مستقبل میں بھی سرکاری بھرتیاں بروقت اور شفاف طریقے سے کرتے رہیں گے۔’

اگرچہ این آر اے کا براہ راست منشور میں ذکر نہیں کیا گیا تھا، لیکن یہ واحد نیا نظام تھا جسے حکومت نے ‘شفاف اور وقت کی پابندی’ کے ساتھ امتحانات کے انعقاد کے لیے بنایا تھا۔

اگرچہ حکومت مرکزی ملازمتوں کے لیے بھرتی کے امتحانات کرانے میں ناکام رہی، لیکن بی جے پی نے اپنے 2024 کے منشور میں یہ کہنے سے گریز نہیں کیا کہ ‘ہم دلچسپی رکھنے والی ریاستی حکومتوں کے ساتھ بھی سرکاری امتحانات کو کامیابی سے منعقد کرنے کے لیے تعاون کریں گے’۔

اب نریندر مودی مسلسل تیسری بار اقتدار میں آئے ہیں لیکن کامن ایلیجبلٹی ٹیسٹ کا وعدہ ایک خواب ہی رہ گیا ہے جو پورا نہیں ہو رہا۔ راہل جیسے امیدوار منسوخی اور پیپر لیک ہونے کے خوف کے باوجود کئی امتحانات میں شرکت کرتے رہتے ہیں۔

حالاں کہ این آر اے نے تحریری سوالات کا جواب نہیں دیا، ایک اہلکار نے آف دی ریکارڈ بولتے ہوئے دی کلیکٹو کو بتایا کہ امتحان کے نصاب، ملک بھر میں 1000 امتحان کے مراکز کی نشاندہی اور پہلے مشترکہ اہلیت کے امتحان کی تاریخ  طے کرنے کا کام جاری ہے۔

(سوچک پٹیل  آزاد صحافی اور محقق ہیں ۔)

یہ رپورٹ بنیادی طور پر دی رپورٹرز کلیکٹو نے شائع کی ہے۔

Next Article

کانگریس نے جس یو اے پی اے قانون کو پاس کیا تھا، اب اسی کے ’غلط استعمال‘ پر اٹھائے سوال

کانگریس نے مودی حکومت پر یو اے پی اے کا غلط استعمال کرتے ہوئے اختلاف رائے کو دبانے کا الزام لگایا ہے۔ پارٹی کے سینئر لیڈر پون کھیڑا نے طلبہ، صحافیوں اور کارکنوں کی گرفتاریوں پرتشویش کا اظہار کیا۔ تاہم، اقتدار میں رہتے ہوئے کانگریس  نے ہی اس قانون کی بنیاد رکھی تھی اور اس میں سخت دفعات شامل کیےتھے۔

(السٹریشن : دی وائر)

نئی دہلی: کانگریس نے بدھ (11 جون) کو غیر قانونی سرگرمیاں (روک تھام) ایکٹ (یو اے پی اے) پر سخت تنقید کی اور الزام لگایا کہ نریندر مودی حکومت نے اختلاف رائے کی آوازوں کو دبانے کے لیے اسے ہتھیار کے طور پر استعمال کیا ہے۔

دی ٹیلی گراف نے لکھا ہے کہ المیہ یہ ہے کہ اس قانون کو کانگریس ہی لے کر آئی تھی اور ان دفعات کو شامل کیا تھا، جنہیں وہ اب ‘سفاک’ اور ‘خطرناک طور پر غلط استعمال’ کا ہتھیار قرار دے رہی ہے۔

کانگریس لیڈر پون کھیرا نے ایکس پر لکھا،’مودی حکومت کے دور میں اختلافات کو دبانے اور انصاف میں تاخیر کے لیے قانون کے استعمال میں  اضافہ ہوا ہے۔ 2014 سے 2022 کے درمیان یو اے پی اےکے 8719 مقدمات میں سے صرف 2.55فیصد میں سزا سنائی گئی- جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اس قانون کا استعمال ناقدین، طالبعلموں، صحافیوں اور کارکنوں  کو نشانہ بنانے کے لیے کیا گیا۔ مقدمے کی سماعت سے پہلے ہی مجرم مان لینا، سوشل میڈیا اور میڈیا کی جانب سے فیصلہ کر دینا، اور سپریم کورٹ کی طرف سے حال ہی میں ہیبیس کارپس کی درخواستوں کو مسترد کر دینا- یہ سب نظام انصاف میں بحران کو شدید کررہے ہیں۔’

کھیڑا نے بھیما کورےگاؤں کیس، دہلی فسادات کی سازش، نیوز کلک پورٹل پر کارروائی اور صحافیوں اور کارکنوں کی گرفتاری جیسے معاملات کا ذکر کیا۔

کھیڑا نے جیل میں بند انسانی حقوق کے کارکن عمر خالد کے لکھے گئے ایک حالیہ خط کا لنک بھی شیئر کیا۔ عمر 2020 سے دہلی فسادات کی سازش کیس میں بغیر کسی ٹرائل کے جیل میں ہیں۔

کھیڑا نے لکھا، ‘دراصل، ان میں سے زیادہ تر مقدمات ان لوگوں کے خلاف انتقامی جذبے سے درج کیے گئے ہیں جو اس حکومت کو چیلنج کر رہے تھے۔ عدالتیں اس غلط استعمال کو بارہا بے نقاب کر چکی ہیں۔ دہلی ہائی کورٹ نے واضح طور پر کہا کہ ‘احتجاج دہشت گردی نہیں ہے’ اور اسی بنیاد پر دیوانگنا کلیتا، نتاشا نروال اور آصف تنہا کو رہا کیا۔ سپریم کورٹ نے صحافی محمد زبیر اور ماحولیاتی کارکن دیشا روی کو رہا کر تے ہوئے گرفتاری پر تنقید کی اورکہا کہ یہ اظہار رائے کی آزادی کو دبانے کی کوشش ہے۔’

‘ہندوستان کی جمہوریت کی حفاظت پرامن اختلاف رائے اور اظہار رائے کی آزادی کے تحفظ سے شروع ہوتی ہے۔ لیکن یواےپی اےجیسے قوانین کا خطرناک اور غلط استعمال بنیادی آزادی کو ہی خطرے میں ڈال رہا ہے، اور یہ آئین پر بی جے پی کے وسیع حملے کا حصہ ہے،’ انہوں نے مزید کہا۔

قابل ذکر ہے کہ یو اے پی اے کو پہلی بار کانگریس حکومت نے 1967 میں پاس کیا تھا۔ اسے 2004 میں مزید سخت کیا گیا تھا جب منموہن سنگھ حکومت نے اس میں پچھلے پوٹا قانون کی کئی دفعات شامل کی تھیں۔ 2008 کے ممبئی حملوں کے بعد یو پی اے حکومت نے کچھ دفعات شامل کیں جو ناقدین کے مطابق ‘من مانی گرفتاری’ کی حوصلہ افزائی کرتی تھیں۔ ان ترامیم کے تحت دفعہ 43ڈی (5) کے ذریعے ضمانت حاصل کرنا تقریباً ناممکن بنا دیا گیا ۔

سال 2019 میں جب مودی حکومت نے لوگوں کو ‘دہشت گرد’ قرار دینے اور قانون کے دائرہ کار کو بڑھانے کے لیے یواے پی اےمیں ترمیم کی تجویز پیش کی، تو کانگریس نے لوک سبھا میں اس کی مخالفت کی۔ لیکن اس نے راجیہ سبھا میں ان ترامیم کی حمایت کی، شاید اس کا مقصد پارٹی کی شبیہ کو انسداد دہشت گردی کے طور پر برقرار رکھنا تھا۔ اس حمایت نے کانگریس کے کچھ اتحادیوں کو ناراض بھی کر دیاتھا۔

اس کے بعد 2021 میں، جب بھیما کورےگاؤں کیس میں گرفتار قبائلی حقوق کے کارکن اسٹین سوامی کی عدالتی حراست میں موت ہو گئی، تو کانگریس رہنما (بعد میں ایم پی) ششی کانت سینتھل نے پارٹی میگزین کانگریس سندیش میں ایک تعزیتی مضمون لکھا اور اسے ‘انسٹی ٹیوشنل مرڈر’ قرار دیا۔

ستم ظریفی یہ ہے کہ کانگریس اس وقت مہاراشٹر میں شیو سینا (ادھو ٹھاکرے) کی حکومت میں شریک تھی، جب اسٹین سوامی کو پانی پینے کے لیے سیپر استعمال کرنے کی اجازت لینے کے لیے عدالت سے رجوع کرنا پڑا تھا — وہ پارکنسن کے مرض میں مبتلا تھے۔

تاہم، کانگریس نے ادھو ٹھاکرے کے  کیس کو این آئی اے (نیشنل انویسٹی گیشن ایجنسی) کے حوالے کرنے کے فیصلے سے اختلاف کیا تھا۔

سینتھل نے لکھا، ‘حالیہ برسوں میں ہم نے یواے پی اےیا سیڈیشن جیسی دفعات کے تحت کئی گرفتاریاں دیکھی ہیں، جن کا مقصد احتجاج کی آوازوں کو دبانا یا سیاسی انتقام لینا تھا۔ ہر گرفتاری موجودہ حکومت کے نظریے کو بے نقاب کرتی ہے… اسٹین سوامی کی گرفتاری اور ادارہ جاتی قتل نے عام لوگوں کے ذہنوں میں تین اہم سوالوں کو گہرا کر دیا ۔’

انہوں نے تین مسائل درج کیے؛(الف) قبائلیوں کی حالت زار، (ب) ہندو راشٹر کے پوشیدہ ایجنڈے کو نافذ کرنے میں موجودہ حکومت کی سفاکیت (ج) ہمارے نظام انصاف کی قابل رحم حالت۔

جنوری 2023 میں جب منی پور میں دومدیر کو گرفتار کیا گیا، تو کانگریس نے یو اے پی اے کو’سفاک’ کہا۔

کھیڑا نے تب کہا تھا، ‘پریس کی آزادی کو کچلنے، صحافیوں کو چن چن کر نشانہ بنانے اور یواے پی اے جیسے سخت قوانین کا غلط استعمال کرنے کا مودی حکومت کا ریکارڈ واضح طور پرآمرانہ ذہنیت کی عکاسی کرتا ہے۔’

Next Article

اپنے مذہب سے باہر شادی کرنے پر جیل  رسید نہیں کیا جا سکتا: سپریم کورٹ

سپریم کورٹ نے ایک ایک ہندو خاتون سے شادی کرنے کے بعد تقریباً چھ ماہ سے  جیل میں بند ایک مسلمان شخص کو ضمانت دیتے ہوئے کہا کہ اسٹیٹ دو بالغ افراد کے آپسی رضامندی سے ساتھ رہنے پر صرف اس لیے اعتراض نہیں کر سکتا کہ وہ الگ الگ مذہب سے تعلق رکھتے ہیں۔

(السٹریشن: پری پلب چکرورتی/ دی وائر)

نئی دہلی: سپریم کورٹ نے ایک ہندو خاتون سے شادی کرنے کے بعد تقریباً چھ ماہ سےجیل میں بند ایک مسلمان شخص کو ضمانت دیتے ہوئے کہا کہ ریاست دو بالغ افراد کےآپسی رضامندی سے ساتھ رہنے پر صرف اس لیے اعتراض نہیں کر سکتی کہ وہ مختلف مذاہب سے تعلق رکھتے ہیں۔

ہندوستان ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق، جسٹس بی وی ناگرتنا اور ستیش چندر شرما کی بنچ نے ایک شخص کی اپیل کو قبول کرتے ہوئے یہ حکم دیا، جنہیں اتراکھنڈ ہائی کورٹ نےفروری 2025 میں ضمانت دینے سے انکار کر دیا تھا ۔

درخواست گزار کو اتراکھنڈ فریڈم آف ریلیجن ایکٹ 2018 اور انڈین جسٹس کوڈ 2023 کی دفعات کے تحت اپنی مذہبی شناخت چھپانے اور دھوکہ دہی سے ہندو رسم و رواج کے تحت خاتون سے شادی کرنے کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔

ایک حالیہ فیصلے میں سپریم کورٹ نے کہا، ‘مدعا علیہ-ریاست کو اپیل کنندہ اور ان کی بیوی کے ساتھ رہنے پر کوئی اعتراض نہیں ہو سکتا، کیونکہ انہوں نے اپنے والدین اور خاندانوں کی مرضی کے مطابق شادی کی ہے۔’

بنچ نے مزید واضح کیا کہ جاری فوجداری کارروائی جوڑے کی اپنی مرضی سے ساتھ رہنے کی راہ میں آڑےنہیں آئے گی۔

عدالت نے درخواست گزار کو ضمانت پر رہا کرنے کی ہدایت دی، یہ نوٹ کرتے ہوئے کہ وہ تقریباً چھ ماہ سے جیل میں ہیں اور ان کے خلاف چارج شیٹ پہلے ہی داخل کی جا چکی ہے۔ بنچ نے کہا،’ریکارڈ پر موجود حقائق کو دیکھتے ہوئے ہمارے خیال میں ضمانت کا معاملہ بنتا ہے۔’

عدالت نے درخواست گزار کے سینئر وکیل کی طرف سے پیش کی گئی دلیل پر بھی غور کیا، جنہوں نے استدلال کیا کہ کچھ افراد اور تنظیموں کی جانب سے بین المذاہب شادی پر اعتراضات اٹھائے جانے کے بعد ہی ایف آئی آر درج کی گئی تھی۔ اس بات کی نشاندہی کی گئی کہ شادی دونوں خاندانوں کی مکمل معلومات اور موجودگی میں ہوئی اور صدیقی نے شادی کے اگلے دن حلف نامہ دیا تھا کہ وہ اپنی بیوی کو مذہب تبدیل کرنے پر مجبور نہیں کرے گا اور وہ اپنے مذہب کی پیروی کرنے کے لیے آزاد ہوگی۔

جوڑے نے 10 دسمبر کو شادی کی تھی، جس کے صرف دو دن بعد متعلقہ ایف آئی آر اتراکھنڈ کے ادھم سنگھ نگر ضلع کے رودر پور تھانے میں 12 دسمبر 2024 کو درج کی گئی تھی۔ اتراکھنڈ ہائی کورٹ نے پہلے صدیقی کو ضمانت دینے سے انکار کر دیا تھا، یہ کہتے ہوئے کہ اس کے مذہب سے متعلق حقائق مبینہ طور پر اس کے خاندان کو ظاہر نہیں کیے گئے تھے اور شادی سے پہلے اس کے خاندان کو نہیں بتایا گیا تھا۔

قابل ذکر ہے کہ 28 فروری کو ضمانت مسترد کرنے کے اپنے فیصلے میں ہائی کورٹ نے استغاثہ کی اس دلیل کو قبول کیا کہ اس شخص کی مذہبی شناخت کو جان بوجھ کر چھپایا گیا تھا۔ ہائی کورٹ نے پایا کہ شادی ہندو رسم و رواج کے تحت کی گئی تھی، لیکن درخواست گزار اور اس کے خاندان نے شادی کے بعد تک اپنی مسلم شناخت ظاہر نہیں کی۔

شکایت خاتون کے ایک چچازاد کی طرف سے درج کروائی گئی تھی، جس میں الزام لگایا گیا تھا کہ خاندان کو دولہے کے مذہبی پس منظر کے بارے میں دہلی میں اس کے گھر جانے کے بعد ہی معلوم ہوا جہاں انہوں نے دیکھا کہ ‘زیادہ تر لوگ دوسری برادری کے تھے۔’ 11 دسمبر کو صدیقی کی طرف سے داخل کردہ حلف نامہ کے باوجود اگلے ہی دن ایف آئی آر درج کی گئی، جس میں انہوں نے یقین دہانی کرائی تھی کہ وہ اپنی بیوی کو مذہب تبدیل کرنے پر مجبور نہیں کریں گے اور ان کی مذہبی خودمختاری کا احترام کریں گے۔

جبکہ صدیقی کے وکیل نے اس بات پرزور دیا کہ ان کی والدہ ہندو ہیں اور وہ ہندو ماحول میں پلے بڑھے ہیں، ہائی کورٹ کو اس سے اتفاق نہیں تھا۔ اس نے نوٹ کیا کہ جوڑے نے اسپیشل میرج ایکٹ کے تحت شادی نہیں کی تھی، جو کہ ہندوستان میں بین مذہبی شادیوں کو کنٹرول کرتا ہے، اور یہ کہ اہم حقائق مبینہ طور پر خاتون کے خاندان سے چھپائے گئے تھے، حلف نامے کو ثبوت کے طور پر نشان زد کرتے ہوئے کہا کہ ‘صحیح حقائق کا انکشاف نہیں کیا گیا تھا۔’

اس دفاع کو مسترد کرتے ہوئے کہ یہ باتیں دونوں فریقوں کو معلوم تھیں، ہائی کورٹ نے نتیجہ اخذ کیا، ‘درخواست گزار ضمانت کا حقدار نہیں ہے۔’

اس کے برعکس، سپریم کورٹ نے اس معاملے کو ذاتی آزادی اور ازدواجی خود مختاری کے نقطہ نظر سے دیکھا اور اس بات کا اعادہ کیا کہ ریاست مذہبی اختلافات کی بنیاد پر بالغ افراد کے ساتھ رہنے کے حق کو سلب نہیں کر سکتی۔

بنچ نے کہا، ‘یہ ایک موزوں کیس ہے جس میں ضمانت کی راحت ملنی چاہیے۔’ بنچ نے عرضی گزار کی دلیل کو نوٹ کیا کہ جوڑے اپنے خاندانوں سے الگ رہنے کا انتخاب کر سکتے ہیں اور بغیر کسی رکاوٹ کے سکون سے رہ سکتے ہیں۔

Next Article

ڈرائنگ رومز اور وہاٹس ایپ جرنیلوں کے نام

شاید وقت آ گیا ہے کہ ہم اپنے  ڈرائنگ رومز کو جنگی ہیڈکوارٹر کے بجائے امن کے مراکز میں بدلیں۔ جنگ صرف ہتھیاروں سے نہیں، ذہنوں سے بھی لڑی جاتی ہے۔ اگر ہم صرف نفرت، افواہوں اور پوائنٹ اسکورنگ میں الجھے رہے، تو وہ دن دور نہیں جب ہمارے بچے فلمی اور اصلی جنگ کا فرق بھول جائیں گے۔

علامتی تصویر: پی ٹی آئی

مئی کے مہینے میں، جب ہندوستان اور پاکستان کے درمیان حالات اس قدر کشیدہ ہو گئے کہ جنگ کی گھنٹیاں بجنے لگیں،  سرحدوں پر فوجیں صف آرا تھیں اور میزائل سرحد پار کر رہے تھے،  تو اصل لڑائی شہروں، محلوں، چائے خانوں اور ڈرائنگ رومز میں لڑی جا رہی تھی۔ نہ وردی کی ضرورت تھی، نہ تربیت کی۔ ہر شخص وہاٹس ایپ پر جرنیل بنا بیٹھا تھا۔ ہر دوسرا فرد اسٹریٹجک تجزیہ کار بن کر عسکری مشورے دے رہا تھا۔

جیسے کرکٹ میچ کے دوران ہر شائق ماہر کوچ بن جاتا ہے، ویسے ہی مئی کی اس کشیدگی کے دوران ہر فرد اپنی رائے دے رہا تھا—کب، کہاں، اور کیسے حملہ ہونا چاہیے۔

دہلی کی ہماری رہائشی سوسائٹی گروپ میں ایک آنٹی نے بیلسٹک میزائل ٹکنالوجی پر ایک لمبی پوسٹ شیئر کی ۔ دعویٰ کیا گیا کہ یہ معلومات انہیں اپنے کزن سے ملی، جو فضائیہ میں کام کرتا تھا۔

بعد ازاں پتہ چلا کہ وہ کزن دراصل تنخواہوں والے اکاؤنٹس سیکشن میں تھا، اور اس کا میزائلوں سے اتنا ہی تعلق تھا جتنا ایک اکاؤنٹنٹ کا میزائل لانچر سے ہو سکتا ہے۔

اسی گروپ میں ایک انکل جو جنگی مشورہ دے رہے تھے سے پوچھا گیا کہ ان کی عسکری قابلیت کیا ہے؟، تو انہوں نے اعلان کیا ؛’میں نے ‘بارڈر’ اور ‘اوڑی’ فلمیں دس بار دیکھی ہیں، مجھے جنگ کی باریکیاں بخوبی معلوم ہیں ‘ اعتراضات کرنے والوں پر انہوں نے ملک دشمنی کا الزام لگا کر چپ کروادیا۔

دہلی کے ایک پوش علاقے کے وہاٹس ایپ گروپوں میں گویا جنگ چھڑ گئی تھی ،جب پاکستان پر ہندوستان نے میزائلوں سے حملے کیے ،ٹی وی پر جب وہ جگہیں دکھائی جا رہی تھیں۔ ایک آنٹی نے مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے کہا،’ارے بھئی، عمارت تو جوں کی توں کھڑی ہے! مرنے والے بھی وردی میں نہیں تھے۔’

ان کی سب سے بڑی شکایت یہ تھی کہ میزائل نے عمارت پر عمودی حملہ نہیں کیا تھا، بلکہ قوس کی شکل میں گرا۔’یہ کیا طریقہ ہوا؟ میزائل تو اوپر سے سیدھا مارنا چاہیے تھا!’ انہوں نے لکھا تھا۔

ابھی دفاعی ترجمان کی پریس کانفرنس مکمل بھی نہیں ہوئی تھی کہ سوشل میڈیا پر دفاعی حکمت عملی طے ہونے لگی تھی۔ ایک پان والے نے پوسٹ کیا تھا،’بھائی صاحب، وہ ہدف درست نہیں تھا۔ ہمیں ان کا تیل کا ذخیرہ ملتان میں اڑا دینا چاہیے تھا!’

ایک خاتون نے ٹوئٹر پر مشورہ دیا کہ انڈین ایئر فورس کو ملتان میں تھوکر نیاز بیگ کو نشانہ بنانا چاہیے، کیونکہ وہاں مبینہ طور پر ہندوستان مخالف عناصر موجود ہیں۔ بعد میں جب کسی نے ان کی تصحیح کی کہ تھوکر نیاز بیگ تو لاہور میں ہے، تو انہوں نے خاموشی سے پوسٹ ڈیلیٹ کر دی—اور اگلے دن اسٹریٹجک خاموشی اختیار کر لی۔

ہندوستانی نیوز چینلوں پر ایسا ماحول بن گیا تھا گویا گلیڈیئیٹرز کا میدان ہو۔ ایک خود ساختہ جنرل صاحب میز پر بیٹھے فرما رہے تھے؛

‘اگر میرے مشورے پر حملہ ہوتا، تو آج دشمن ہتھیار ڈال چکا ہوتا۔’

ایک شادی کی تقریب میں، دولہا ابھی ہال میں داخل بھی نہیں ہوا تھا کہ ایک ماموں صاحب نے گھونٹ بھرتے ہوئے کہا؛

‘یہ جو حملہ ہوا ہے نا، یہ الیکشن اسٹنٹ ہے۔ اصل حملہ تب ہوتا جب ہم ان کا ریڈار سسٹم تباہ کرتے۔’

دلہن کی خالہ نے کان میں سرگوشی کی؛

‘ارے چھوڑو حملہ، یہ بتاؤ، لڑکا کس رجمنٹ میں ہے؟’

جنوبی دہلی کے لاجپت نگر علاقے کے شرما جی، جو دن بھر لائف انشورنس کی پالیسیاں بیچتے ہیں، شام کو عسکری ماہر بن جاتے ہیں۔ وہ بھارتی فوج کو جیسلمیر کے قریب تعیناتی کی اسٹریٹجی سمجھا رہے تھے؛

‘اگر میں جنرل ہوتا، تو میں برہموس میزائل شمال مشرق سے چلاتا، مغرب سے نہیں۔ پھر دیکھتے وہ کیا کرتے!’

پھر فرمایا؛’ہائپرسانک میزائل استعمال کرنے چاہیے، جیسا روس نے کیا۔ سب سے پہلے پاکستان کے ڈرون ہیک کرو۔ میرے بیٹے کو ہیکنگ آتی ہے۔ ایرفورس کو اس کی خدمات لینی چاہیے !’

جب حقیقی جرنیل خطرات کا حساب لگا رہے تھے، تب وہاٹس ایپ کے سِم کارڈ جرنیل مشورے دے رہے تھے؛

‘بھائی، کراچی پر ایٹم بم پھینکو اور کھیل ختم کرو!’

ایک بابو نے مشورہ دیا؛

‘ریورس میزائل استعمال کرو، اگر انٹرسیپٹ ہو جائے تو واپس آ جائے گا!’

ایک خاتون نے صبح جھاڑو دیتے ہوئے دوسری سے کہا؛

‘بی بی، رات کے حملے کی آواز سنی؟’

جواب آیا؛

‘وہ میزائل نہیں تھا، میرا شوہر خراٹے مار رہا تھا!’

مگر سچ یہ ہے کہ سرحدوں پر جب گولیاں چلتی ہیں، جب لاشیں گرتی ہیں، تب صرف سپاہی نہیں، انسانیت بھی مرتی ہے۔

مجھے یاد ہے کہ 2016 میں سرجیکل اسٹرائک کے بعد ایک معروف چینل کے ایڈیٹر جو خود کو اسٹریٹجک امور کے ماہر سمجھتے ہیں، کیونکہ ماضی میں پتہ نہیں کیوں پاکستان نے ان کو قبائلی علاقوں میں ڈاکو مینٹری بنانے کی اجازت دی، نے سرینگر کے ڈل گیٹ علاقے میں لائن آف کنٹرول کھینچ کر ایک کرنل کے ساتھ ایک گھنٹے کا لائیو شو کیا۔

وہ کرنل سے پوچھ رہے تھے کہ مظفر آباد تک پہنچنے میں فوج کو کتنا وقت لگے گا۔ ان کا جواب تھا کہ بس سترہ گھنٹوں میں قبضہ ہو جائےگا اگر راستہ میں ٹریفک جام نہ ہوا۔

ایسے ماحول میں، جہاں جوش کو حب الوطنی سمجھا جائے، وہاں اگر کوئی تجزیہ کار احتیاط کا مشورہ دے، تو اسے دشمن کا ایجنٹ سمجھا گیا۔ سفارت کار اگر جنگ سے بچنے کی بات کریں تو انہیں بزدل، اور صحافی سوال کریں تو غدار قرار دیا گیا۔

کیا ہم جانتے ہیں کہ آسٹریا کے آرچ ڈیوک فرڈیننڈ کے ایک قتل نے پہلی جنگ عظیم چھیڑ دی تھی؟

کیا ہم بھول گئے کہ نازی جرمنی کے فالس فلیگ حملے سے دوسری جنگِ عظیم شروع ہوئی تھی، جس میں کروڑوں افراد مارے گئے؟

اور کیا ہم یاد رکھتے ہیں کہ جب واجپائی کو مشورہ دیا گیا کہ نیپال سے دہلی آنے والے اغوا شدہ طیارے کو لاہور میں تباہ کر دیں، تو انہوں نے انکار کیا؟ انہوں نے تین سو جانوں کو بچانے کو ترجیح دی، محض سفارتی پروپیگنڈے کی خاطرانہوں نے جانیں قربان کرنے سے انکار کردیا تھا۔

شاید وقت آ گیا ہے کہ ہم اپنے ڈرائنگ رومز کو جنگی ہیڈکوارٹر کے بجائے امن کے مراکز میں بدلیں۔ جنگ صرف ہتھیاروں سے نہیں، ذہنوں سے بھی لڑی جاتی ہے۔ اگر ہم صرف نفرت، افواہوں اور پوائنٹ اسکورنگ میں الجھے رہے، تو وہ دن دور نہیں جب ہمارے بچے فلمی اور اصلی جنگ کا فرق بھول جائیں گے۔

تب ہمیں احساس ہوگا کہ میزائل صرف پاکستان پر ہی نہیں، ہمارے شعور پر بھی گرے تھے۔

Next Article

راہل گاندھی نے وزیر اعظم کو خط لکھ کر محروم طبقات کے طلبہ کے ہاسٹل اور اسکالرشپ کے معاملے پر تشویش کا اظہار کیا

راہل گاندھی نے 10جون کو لکھے اپنے خط میں پی ایم مودی سے کہاہے کہ دلت، شیڈول ٹرائب (ایس ٹی)، انتہائی پسماندہ طبقہ (ای بی سی)، دیگر پسماندہ طبقہ (او بی سی) اور اقلیتی طلبہ کے   ہاسٹلوں کی حالت ‘قابل رحم’ ہے۔ اس کے علاوہ ان طلبہ  کے لیے پوسٹ میٹرک اسکالرشپ  کی فراہمی میں تاخیر ہو رہی ہے۔

لوک سبھا میں اپوزیشن لیڈر راہل گاندھی۔ (تصویر بہ شکریہ: یوٹیوب/انڈین نیشنل کانگریس سے اسکرین شاٹ)

نئی دہلی: لوک سبھا میں قائد حزب اختلاف راہل گاندھی نے وزیر اعظم نریندر مودی کو ایک خط لکھا ہے، جس میں دلت، درج فہرست قبائل (ایس ٹی)، انتہائی پسماندہ طبقہ (ای بی سی)، دیگر پسماندہ طبقہ (او بی سی) اور اقلیتی طلبہ کے ہاسٹلوں کی’قابل رحم’حالت کی جانب  توجہ مبذول کروائی ہے۔

رپورٹ کے مطابق، راہل گاندھی نے اپنے خط میں محروم طبقات کے طلبہ کو پوسٹ میٹرک اسکالرشپ فراہم کرنے میں تاخیر کے معاملے کو بھی اٹھایا ہے اور وزیر اعظم سے ان اہم مسائل پر توجہ دینے کی گزارش  کی ہے۔

دی ہندو کے مطابق ، انہوں نے کہا کہ ان مسائل کی وجہ سے ان طبقات کے 90 فیصد طلبہ کے تعلیمی مواقع متاثر ہو رہے ہیں۔

معلوم ہو کہ راہل گاندھی نے یہ خط 10 جون کو لکھا ہے۔ اس میں انہوں نے کہا ہے، ‘پہلا مسئلہ دلت، ایس ٹی، ای بی سی، او بی سی اور اقلیتی برادریوں کے طلبہ کے لیے رہائشی ہاسٹل کی قابل رحم حالت ہے۔ بہار کے دربھنگہ میں امبیڈکر ہاسٹل کے حالیہ دورے کے دوران طلبہ نے شکایت کی کہ وہاں ایک کمرہ ہے، جس میں 6-7 طلبہ کو رہنے پر مجبور  ہونا پڑتا ہے۔ اس کے علاوہ بیت الخلاء گندے ہیں، پینے کا پانی صاف نہیں ہے، میس کی سہولت نہیں ہے اور لائبریری یا انٹرنیٹ تک رسائی نہیں ہے۔’

راہل گاندھی نے مزید کہا، ‘دوسرا مسئلہ محروم طبقات کے طلبہ کے لیے پوسٹ میٹرک اسکالرشپ میں تاخیر اور ناکامی ہے۔’

بہار کی مثال دیتے ہوئے اپوزیشن لیڈر نے دعویٰ کیا کہ وہاں کا اسکالرشپ پورٹل تین سال سے بند ہے اور 2021-22 میں کسی بھی طالبعلم کو اسکالرشپ نہیں ملی ہے۔

گاندھی نے خط میں لکھا، ‘اس کے بعد بھی اسکالرشپ حاصل کرنے والے دلت طلبہ کی تعداد تقریباً آدھی رہ گئی ہے، جو مالی سال 23 میں 1.36 لاکھ سے مالی سال 24 میں 0.69 لاکھ تک پہنچ گئی۔ طلبہ کی شکایت ہے کہ اسکالرشپ کی رقم ذلت آمیز حد تک کم ہے۔’

راہل گاندھی نے کہا ہے کہ یہ ‘مسئلہ’ پورے ہندوستان میں پھیلا ہوا ہے۔ اس کے لیے انہوں نے پی ایم مودی سے مطالبہ کیا کہ وہ دلت، ایس ٹی، ای بی سی، او بی سی اور اقلیتی برادریوں کے طلبہ کے لیے ہر ہاسٹل کا آڈٹ کرائیں تاکہ ان طلبہ کے لیے اچھا انفراسٹرکچر، صفائی ستھرائی اور خوراک اور تعلیمی سہولیات کو یقینی بنایا جاسکے اور کوتاہیوں کو دور کرنے کے لیے مناسب فنڈز مختص کیے جاسکیں۔

اس کے علاوہ راہل گاندھی نے اسکالرشپ کی بروقت تقسیم، اسکالرشپ کی رقم میں اضافہ اور پوسٹ میٹرک اسکالرشپس کو بہتر طریقے سے نافذ کرنے پر بھی زور دیا ہے۔

راہل گاندھی کا کہنا ہے کہ انہیں یقین ہے کہ پی ایم مودی اس بات سے اتفاق کریں گے کہ ہندوستان اس وقت تک ترقی نہیں کرسکتا جب تک کہ محروم طبقات کے نوجوان آگے نہیں بڑھتے۔ انہوں نے اس سلسلے میں وزیراعظم سے مثبتردعمل کی توقع ظاہر کی ہے۔

Next Article

مہاراشٹر: اسی فیصد سے زیادہ مسلم آبادی والے علاقے کے رہائشی لگاتار نگرانی کی اذیت میں مبتلا

مہاراشٹر کی دارالحکومت سے محض 55 کلو میٹر کے فاصلے پر واقع اسی فیصد سے زیادہ کی مسلم آبادی والا یہ گاؤں تقریباً چار دہائیوں سے تنازعات کے مرکز میں ہے۔

السٹریشن: پری پلب چکرورتی

علی الصبح 3 بجےسعیدہ* کے دروازے پر دستک اب کوئی غیر معمولی واقعہ نہیں تھا۔ عام طور پر، اس وقت دستک کا مطلب یہ ہے کہ پولیس کی ایک بڑی نفری ان کی زندگی کو تباہ کرنے آن  پہنچی ہے۔ 1 اور 2 جون کی درمیانی شب کچھ ایسا ہی واقعہ پیش آیا، جب مہاراشٹر کے انسداد دہشت گردی اسکواڈ (اے ٹی ایس) کی قیادت میں ممبئی اور تھانے کی مقامی پولیس سمیت 350 سے زیادہ پولیس اہلکاروں نے ممبئی سے 55 کلومیٹر دور بوریولی-پڑگھا گاؤں کو اپنے محاصرے میں لے لیا۔ ایک مربوط آپریشن میں، عدالتی سرچ وارنٹ کے ساتھ  ٹیموں نےبیک وقت 22  لوگوں کے دروازے پر دستک دی اور چھاپے ماری  کی کارروائی شروع کر دی۔

سعیدہ کہتی ہیں،’چھاپے ماری میں صرف 22 افراد کو نشانہ بنایا گیا تھا (جن میں تین بھائی ایک ساتھ رہتے تھے)، لیکن پورے گاؤں کو گھیرے میں لے لیا گیا، اور پولیس نے ایسی صورتحال بنا دی جیسے یہاں خوفناک دہشت گرد چھپے ہوئے ہوں۔’

سعیدہ کہتی ہیں کہ ڈیڑھ سال سے بھی کم عرصے میں گاؤں میں یہ دوسری  بڑی  چھاپے ماری تھی۔ دسمبر 2023 میں نیشنل انویسٹی گیشن ایجنسی(این آئی اے) کی جانب سے کی گئی پچھلی چھاپے ماری اور گرفتاریوں میں، ان کے شوہر ان 15 لوگوں میں سے ایک تھے، جنہیں علاقےمیں  کالعدم دہشت گرد تنظیم، آئی ایس آئی ایس میں شامل ہونے کے لیے مبینہ طور پر ‘نوجوانوں کو متاثر’ کرنے کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا ۔ ‘پچھلی بار، تقریباً اسی وقت، وہ میرے شوہر کو لے گئے اور میرے بچوں کے اسکول پروجیکٹ کے لیے استعمال کیے جانے والے فون اور کمپیوٹر ہارڈ ڈسک سب ضبط کر لیے ،’ انہوں نے یاد کرتے ہوئے کہا۔

پچھلی چھاپے ماری فلسطین میں اسرائیل کی نسل کشی کی جنگ کے آغاز کے ساتھ ہوئی تھی۔ سعیدہ کے اسکول جانے والے بچوں نے اپنی جیب خرچ سے گاؤں میں ہونے والےاحتجاج کے لیے فلسطینی پرچم خریدا تھا۔ جھنڈے ضبط کر لیے گئے، اور بعد میں این آئی اے نے دعویٰ کیا کہ ان کا تعلق ‘عسکریت پسند گروپ حماس’ سے تھا۔ چھاپے اور گرفتاریوں کے دوران اکثر کیے جانے والے یہ دعوے میڈیا میں سنسنی پیدا کرتے ہیں اور عدالت میں ابتدائی حراستی ریمانڈ کو یقینی بنانے میں مدد کرتے ہیں۔ تاہم، ان کے قانونی جواز کو عدالت میں ثابت کرنے میں برسوں لگ جاتے ہیں۔ تب تک فوجداری نظام انصاف کے اندر طویل عرصے تک انصاف کے حصول میں الجھی  نسلیں تباہ ہو چکی ہوتی  ہیں۔

اس بار اے ٹی ایس ان کے ایک اوربیٹے کے خلاف جاری سرچ وارنٹ کے ساتھ پہنچی تھی۔ اے ٹی ایس نے مقامی عدالت سے اس بنیاد پرسرچ وارنٹ حاصل کیا تھا کہ ان کے گھروں میں ‘غیر قانونی/اینٹی نیشنل’ سرگرمیوں کے لیے استعمال کیے جانے والے ‘مجرمانہ دستاویز/مواد’ جمع تھے۔ تقریباً 10 گھنٹے تک جاری رہنے والی چھاپے ماری میں پولیس نے 19 موبائل فون، ایک تلوار اور ایک چاقو ضبط کیا۔ گاؤں والوں کا دعویٰ ہے کہ پولیس اور میڈیا نے جسے ’مہلک ہتھیار ‘ بتایا ہے وہ دراصل باورچی خانے میں استعمال کیا جانے والا چاقو ہے۔

‘کیا واقعی کسی گھرکے باورچی خانے میں، خصوصی طور پر مچھلی اور گوشت کھانے والے گھروں میں بڑی، تیز دھار چھریوں کا ملنااس قدر غیر معمولی واقعہ ہے؟’ جن کے گھر پر چھاپہ مارا گیا، ان میں سے ایک نے سوال کیا۔

چھاپے ماری میں تلوار اور ایک چاقو کی ضبطی کے بعد دو الگ الگ ایف آئی آر درج کی گئیں۔ پولیس نے ابھی تک گاؤں میں کوئی گرفتاری نہیں کی ہے۔

سال 2023 میں کی گئی آخری چھاپے  ماری میں، پولیس نے اور بھی بڑے دعوے کیے تھےکہ بڑی تعداد میں چاقو ضبط کیے کیے گئے ہیں۔’اس کے بعد، تقریباً ہم سب نے بڑے چاقوپھینک دیے اور کچن میں چھوٹی چھریاں استعمال کر رہے ہیں۔ آپ نہیں جانتے کہ پولیس کب ہمارے گھر میں داخل ہو گی اور ہمارے برتنوں کو گولہ بارود میں بدل دے گی،’ ایک نوجوان خاتون نے کہا، جس کے گھر پر 2023 میں چھاپہ مارا گیا تھا، حالانکہ کوئی گرفتاری عمل میں نہیں آئی۔

چھاپے کے دوران مقامی پڑگھا پولیس اے ٹی ایس کے ساتھ تھی۔ ایک مولانا کے گھر میں، پولیس نے دعویٰ کیا کہ دو گائے ضروری کاغذی کارروائی کے بغیر رکھی گئی تھی۔ پڑگھا پولیس نے مولانا کو مہاراشٹر اینیمل پریزرویشن ایکٹ کے تحت گرفتار کیا  تھا۔ انہیں ایک دن بعد ضمانت پر رہا کر دیا گیا۔

دہائیوں سے تنازعات کے مرکز میں

بوریولی-پڑگھا ممبئی-ناسک ہائی وے پر واقع ہے۔ 80فیصد سے زیادہ مسلم آبادی والا یہ گاؤں تقریباً چار دہائیوں سے تنازعات کے مرکز میں ہے۔ یہ سب 1980 کی دہائی کے اوائل میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ سابق فائربرانڈ اسٹوڈنٹ لیڈرثاقب ناچن کے واسطہ پڑنے کےبعدسے شروع ہوا تھا۔ ناچن کی طرح کئی دوسرے لوگوں پر اسٹوڈنٹس اسلامک موومنٹ آف انڈیا (سیمی) کا حصہ ہونے کا الزام لگایا گیا تھا، ایک ایسی تنظیم جو بعد میں 2001 کے اوائل میں کالعدم قرار دی گئی ۔

ثاقب ناچن۔ تصویر: ایکس

ناچن، جس نے دہشت گردی کے متعدد مقدمات کا سامنا کیا ہے، قصوروار ٹھہرائے گئے، اور انہوں نےکئی سال جیل میں گزارے ہیں، ان پر ریاست میں آئی ایس آئی ایس ماڈیول کی سربراہی کا الزام ہے۔ وہ اور ان کا چھوٹا بیٹا شمیل 2023 سے حراست میں ہیں۔ ناچن فی الحال دہلی کی تہاڑ جیل میں بند ہیں، جبکہ شمیل کو ممبئی کی تلوجا جیل میں رکھا گیا ہے۔

اے ٹی ایس کا دعویٰ ہے کہ حالیہ چھاپے ماری انٹلی جنس معلومات کی بنیاد پر کی  گئی تھی کہ ناچن خاندان ابھی بھی گاؤں پر کنٹرول رکھتا ہے۔ تقریباً 10000 کی آبادی والے بوریولی-پڑگھا گاؤں میں زیادہ تر کونکنی مسلمان رہتے ہیں۔ یہاں کے مسلمان معاشی طور پر خوشحال ہیں، وہ ممبئی-ناسک ہائی وے کے پاس  زمینوں کے مالک ہیں۔ پچھلی دہائی کے دوران، یہاں زمین کی قیمتوں میں بے تحاشہ اضافہ ہوا ہےاور کئی  گودام بنائے گئے ہیں۔ یہاں کے مقامی لوگ روایتی طور پر ماہی گیری، ریت یا تعمیراتی کاروبار سے وابستہ ہیں۔ لیکن ان کا دعویٰ ہے کہ پولیس کے مسلسل چھاپوں نے ان کے کاروبار کو بہت متاثر کیا ہے۔

زیادہ تر لوگ ایک دوسرے کے رشتہ دار ہیں۔ مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ پوچھ گچھ کا موضوع ناچن کے ساتھ ان کی ‘وابستگی’ کے اردگرد گھومتا ہے۔ ‘ہم میں سے اکثر لوگ براہ راست یا دور سے ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں،جس میں ناچن خاندان بھی شامل ہے۔ ہم ایک دوسرے کے پڑوسی ہیں، ایک ہی مسجد میں جاتے ہیں؛ ہم رابطے میں ضرور رہتے ہیں، اسے غیر قانونی کیسے قرار دیا جا سکتا ہے؟’ اس بار کی چھاپے ماری میں شامل 22 افراد میں سے ایک نوجوان سوال کرتا ہے ۔

اس بار جب اے ٹی ایس آئی تو انہوں نے ناچن کے ایک اور بیٹے عاقب کو نشانہ بنایا۔ وارنٹ میں اس کا نام تھا، اور پولیس نے اس کا فون ضبط کر لیا۔ چھاپے کے وقت گھر میں موجود ایک رشتہ دار نے بتایا کہ جیسے ہی پولیس اندر داخل ہوئی، شمیل کا پانچ سالہ بیٹا خوف سے چیخنے لگا۔ اس نے کہا، ‘بچے نے اتنی سی چھوٹی عمر میں بہت کچھ دیکھا ہے۔

چھاپے بچوں کو کس طرح  متاثر کرتے ہیں

بوریولی-پڑگھا گاؤں میں بڑا ہونا اور زندگی گزارنا آسان نہیں رہا۔ گزشتہ برسوں میں چھاپے اور گرفتاریاں اس قدر معمول  کا حصہ بن چکی ہیں کہ اب یہ بچوں کے درمیان ایک عام ساکھیل بن گیا ہے۔ ایک ماں نے بتایا،’یہاں کے بچوں نے اپنے خودکے کھیل ایجاد کرلیے ہیں۔ وہ چھاپے، جیل ملاقات اور گرفتاری کھیلتے ہیں،’، جبکہ اس کے چھوٹے بچے اور چند پڑوسی بچے تجسس کے ساتھ ہماری بات چیت سن رہے تھے۔

ان کا کہنا ہے کہ بچوں کو اس طرح کی  بات چیت سے دور رکھنا فضول ہے۔حال ہی میں دسویں جماعت کا امتحان پاس کرنے والی لڑکی نے پوچھا،’جب پولیس وقت کا خیال کیے بغیر ہمارے دروازے پر دستک دیتی ہے اور صرف ایک یا دو لوگوں کو ہی نہیں بلکہ پورے گاؤں کو دہشت گرد سمجھتی ہے تو ہم ان سے کیسے بچ سکتے ہیں؟’پولیس اس بار اس کے بڑے بھائی کی تلاش میں آئی تھی۔ ‘انہوں نے میرا فون بھی لے لیا، اور رابطے کی فہرست اور ایپس کو اسکرول کیا۔ جیسے ہی انہوں نے  میری فوٹو گیلری دیکھنا شروع کی، میں نے طے کر لیا کہ بہت ہوگیا۔ مجھے اپنا فون چھیننا پڑا اور سختی سے کہنا پڑا کہ میں ایک نوجوان لڑکی ہوں اور وہ غیر قانونی طور پر ایک نوجوان لڑکی کی فوٹو گیلری تک رسائی کی کوشش کر رہے ہیں۔’

تلاشی کے 22 وارنٹ میں سے کم از کم دو افراد حج پر گئے ہوئے تھے۔ تاہم سرچ ٹیم ان کے گھروں میں بھی داخل ہوئی۔ مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ چھاپے کے وقت صرف ان کی دو نوعمر بچیاں گھر پر تھیں۔ ایک رشتہ دار نے سوال کیا،’اے ٹی ایس نے دعویٰ کیا ہےکہ ان کے پاس ٹھوس انٹلی جنس معلومات  تھیں۔ انہیں یقیناً معلوم رہا ہوگا کہ بچیاں  گھر میں اکیلی ہیں، پھر بھی انہوں نے چھاپے ماری کی۔ کیا یہ بھی قانونی ہے؟’

چھوٹی عمر کے کچھ لڑکوں نے شکایت کی کہ پولیس نے انہیں کئی بار اٹھایا اور پوچھ گچھ کی ۔ ایک 22 سالہ نوجوان نے کہا،’وہ ہم سے ہماری پیدائش سے پہلے کی باتیں پوچھتے ہیں۔ جب ہم انہیں بتاتے ہیں کہ ہم 80 اور 90 کی دہائی کے بارے میں نہیں جانتے تو وہ ہم پر بھروسہ نہیں کرتے ۔’

’میڈیا ہمارا موقف سننے میں دلچسپی نہیں رکھتا‘

مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ میڈیا یکطرفہ خبریں دے کر پولیس کے اقدامات کو مزید تقویت دیتا ہے، اور پولیس کی اس طرح کی کارروائیوں کے کمیونٹی پر پڑنے والے اثرات کو سمجھنے کی کبھی زحمت نہیں کرتا۔ جب بھی کوئی چھاپہ پڑتا ہے تو میڈیا کا عملہ بڑی تعداد میں پہنچ جاتا ہے۔ سعید* کا دعویٰ ہے کہ ،’انہیں ہماری کہانی سننے میں کوئی دلچسپی نہیں ہوتی ،  بلکہ وہ مسلم مخالف بیان بازی میں دلچسپی رکھتے ہیں۔’

وہ ایک مثال پیش کرتے ہیں، جب ٹی وی رپورٹروں کی ایک ٹیم نے خفیہ طور پر ایک کار سے گاؤں کی فلم بندی شروع کر دی تھی۔ سعید کہتے ہیں، ‘میں حیران تھا کہ انہیں کارسے اس قدر دھندلے مناظر کیوں لینے پڑے۔ میں نے ان میں سے ایک کو باہر نکل کر مقامی لوگوں سے ملنے اور ان کا انٹرویو کرنے کو بھی کہا۔ لیکن انہوں نے منع  کر دیا۔’ ان کا خیال ہے کہ یہ جان بوجھ کر کیا گیا تھا، تاکہ گاؤں کو صحافیوں کے لیے بھی ‘خطرناک’ جگہ کے طور پر پیش کیا جا سکے ۔

پولیس اور میڈیا دونوں کی دشمنی نے گاؤں والوں کوحددرجہ شکوک و شبہات میں مبتلا کر دیا ہے۔ جب دی وائر نے ان سے رابطہ کیا تو وہ بات کرنے کو تیار تھے لیکن انہوں نے واضح طور پر کہا کہ کسی کی تصویر نہ لیں یا اسٹوری میں ان کی شناخت کو ظاہرنہ کریں۔ ان میں سے ایک نے کہا، ‘وہ تمام لوگ جو آخری چھاپے کے بعد آواز اٹھا رہے تھے، اب انہیں تلاشی کے وارنٹ مل چکے ہیں۔’

پولیس کی طرف سے پیش کی گئی متعدد تھیوریوں  میں سے، جس نے میڈیا کی توجہ حاصل کی، وہ یہ ہے کہ ناچن نے گاؤں کو ایک ‘آزاد اسلامی اسٹیٹ’بنا دیا اور اس کا نام بدل کر’الشام’ رکھ دیا، یہ اصطلاح دہشت گرد گروہ آئی ایس آئی ایس کے علاقائی عزائم کو ظاہر کرتی ہے۔ مقامی لوگ اس دعوے کا مذاق اڑاتے ہیں۔ جیل میں رہ چکے ایک بزرگ شخص کہتے ہیں۔’ہمارے گاؤں میں مسلمانوں، دلتوں اور آدی واسیوں کا گھر ہے،جو تاریخی طور پر ایک دوسرے کا تہوار مناتے آئے ہیں۔’ وہ پوچھتے ہیں،’ہم اجتماعی طور پر ایک سالانہ گنپتی جلوس کا اہتمام کرتے ہیں۔ ‘ وہ پوچھتے ہیں ،’ایک ‘اسلامی اسٹیٹ’ میں ایسا کیسے ہو سکتا ہے؟’

دی وائر نے ایک 65 سالہ خاتون وسیمہ ملا کے گھر کا دورہ کیا جو پولیس کے گھر میں داخل ہوتے ہی دل کا دورہ پڑنے سے انتقال کر گئی تھیں۔ ان کے گھر والوں نے بات کرنے سے انکار کر دیا، لیکن مقامی لوگوں نے بتایا کہ جب پولیس نے ان کی بیٹی کے گھر پر چھاپے ماری کی تو خاتون گھبرا گئی تھیں۔ایک پڑوسی نے بتایا، ‘وہ چیخنے لگیں اور پھر فرش پر گر گئیں۔’ پڑوسی نے دعویٰ کیا کہ یہ جاننے کے بعد بھی کہ ان کی موت ہو گئی ہے، پولیس نے ان کے داماد کو انہیں دیکھنے تک کی اجازت نہیں دی۔

گاؤں والوں کا خیال ہے کہ چھاپے ماری، اگر اتنی اہم تھی، تو اس کو دن کے وقت بھی انجام دیاجا سکتا تھا۔ ایک بزرگ خاتون نے کہا، ’وہ چاہتے تھے کہ ہم گھبرا جائیں، وہ چاہتے تھے کہ لوگ حیران ہو جائیں، وہ یہ پیغام دینا چاہتے تھے کہ وہ جو چاہیں کر سکتے ہیں اور کوئی بھی ان سے سوال نہیں کر سکتا۔‘

*رازداری کے لیے نام  تبدیل کر دیا گیا ہے۔

انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔