قابل ذکر ہےکہ15دسمبر 2019 کو جامعہ ملیہ اسلامیہ کیمپس میں دہلی پولیس کے ذریعے طلبا کو بےرحمی سے پیٹنے کے واقعہ پرنیشنل ہیومن رائٹس کمیشن نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ اس سے پہلے طلبا کاسی اے اے کے خلاف مظاہرہ ایک ‘غیرقانونی اجتماع’ تھا، جس نے پولیس کی کارروائی کو دعوت دی۔
جے سی سی کی جانب سےجاری سی سی ٹی وی فوٹجد مں پولسض اہلکار لائبریری مںھ بٹھے طلبا کو لاٹھی سے مارتے دکھ رہے تھے۔ (بہ شکریہ: ٹوئٹر/ویڈیوگریب)
نئی دہلی: دہلی پولیس کے ذریعے جامعہ ملیہ اسلامیہ کی لائبریری میں گھس کر طلبا پر حملہ کرنےکی خبر کےنیشنل اورانٹرنیشنل میڈیا میں سرخیوں میں آنے کے سات مہینے بعد نیشنل ہیومن رائٹس کمیشن(این ایچ آر سی)نے آخرکار اس معاملے پر اپنی رپورٹ جاری کر دی ہے۔
لیکن ایس ایس پی منزل سینی کی قیادت والی کمیشن کی ٹیم کے ذریعے تیار کردہ رپورٹ کی پوری توجہ اس بات پر ہے کہ اس کو کیوں لگتا ہے کہ 15 دسمبر، 2019 کو جامعہ کے طلبا کے ذریعے شہریت(ترمیم شدہ)ایکٹ(سی اےاے)کے خلاف کیا گیا احتجاجی مظاہرہ ایک‘غیرقانونی اجتماع’ تھا اور اس نے خود ہی اپنے خلاف پولیس کی کارروائی کو دعوت دینے کا کام کیا۔
رپورٹ میں الزام لگایا گیا ہے کہ مظاہرین پرتشدد ہو گئے اور انہوں نے سرکاری اور نجی املاک کو برباد کیا اور پولیس حکام پر پتھر اور پٹرول بم پھینکے اور ایسا کرتے ہوئے انہوں نے خود ہی آئین کے ذریعے دیےگئے اجتماع کے بنیادی حق کے دائرے سے خود کو باہر کر لیا۔
ایک بڑی سازش کی جانب اشارہ کرتے ہوئے، این ایچ آر سی کی رپورٹ کا یہ بھی کہنا ہے کہ ‘جامعہ ملیہ اسلامیہ میں ہوئے مظاہرے، جو چالاکی سے اورمبینہ طور پر طلبا کی آڑ میں منعقد کیے گئے، اس کے پیچھے کے اصل کرداروں اور ان کی منشا کا پردہ فاش کرنے کی ضرورت ہے۔’
حالانکہ این ایچ آر سی نے اس معاملے کانوٹس پولیس کے ذریعے یونیورسٹی کیمپس میں طلبا کے خلاف غیر متناسب طاقت کا استعمال کرنے کے الزامات کے بعد لیا تھا، لیکن اس کی رپورٹ میں لائبریری کے اندرطلبا سے مارپیٹ کو لےکر بس اتنا کہا گیا ہے کہ اس سے ‘بچا جا سکتا تھا۔’
اس میں لائبریری کے اندر آنسو گیس کے گولوں کے شیلوں کی برآمدگی کو درج کیا ہے اور کہا ہے کہ ‘یہ ایک غیرذمہ دارانہ قدم تھا اور اس سے بچا جا سکتا تھا۔’لیکن اس ہلکی سی تنقید سے پہلے بھی ایک مکمل تمہیدتیار کی گئی ہے اور اس کے بعد اس بات کی تفصیلات درج کی گئی ہیں کہ کیسے جو ہوا، اس کےقصوروارخود طلبا ہیں۔
حالانکہ‘سفارشات’والے حصہ میں این ایچ آر سی کی رپورٹ میں یہ ضرور کہا گیا ہے کہ حکام کو جامعہ ملیہ اسلامیہ کی ریڈنگ روم کے اندر غیر ضروری طریقے سے لاٹھی چلانے اور لائبریری کے بنداحاطے کے اندر آنسو گیس کے گولوں کا استعمال جس کی نظم نسق بحال کرنے کے لحاظ سے کوئی ضرورت نہیں تھی، اس میں ملوث پولیس اہلکاروں کی پہچان کی جانی چاہیے اور متعلقہ پولیس اداروں کے قوانین کے مطابق ان کے خلاف ‘مناسب کارروائی’ کی جانی چاہیے۔
کمیشن نے کہیں بھی ملزم پولیس اہلکاروں پر مقدمہ چلانے کی سفارش نہیں کی ہے۔
سرگرمیوں پر ‘لگام لگانا پولیس کی ذمہ داری’
ان واقعات کا ذکر کرتے ہوئے، جس کا نتیجہ جامعہ میں پولیس تشدد کے طور پر نکلا، این ایچ آر سی کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سی اے اے مخالف‘مظاہروں کی قیادت مقامی سیاسی رہنماؤں کے ذریعے کی گئی، جنہوں نے وقت وقت پرمظاہرین سے خطاب کیا۔
اس بھیڑ کو پولیس کے ذریعے ‘غیرقانونی’ قرار دیا گیا تھا۔ ‘نظم ونسق کو بحال رکھنے کے لیے ان غیرقانونی اجتماع کو کنٹرول کرنا پولیس کی ذمہ داری تھی۔
جامعہ میں ہوئے تشدد کے بعد لائبریری میں ملا آنسو گیس کا شیل(فوٹو : پی ٹی آئی)
پولیس نے آنسو گیس کے گولوں اور لاٹھی چارج کا استعمال کیا۔ جب ان مظاہرین کو پیچھے دھکیلا گیا، انہوں نے سڑک کے کنارے کنارے املاک کو نقصان پہنچایا۔’رپورٹ میں اس کے بعد کہا گیا ہے کہ دہلی پولیس کے پاس یونیورسٹی کیمپس کے اندر داخل ہونے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں تھا کیونکہ اس پر پتھربازطلبا کے ذریعے حملہ کیا جا رہا تھا۔
‘اس غیرقانونی اجتماع کے ممبر جامعہ ملیہ کے پاس پہنچ گئے اور انہوں نے ٹریفک کو روک دیا اور کیمپس کے اندر داخل ہو گئے۔ وہاں سے انہوں نے پولیس پارٹی پر پتھربازی جاری رکھی۔ کوئی اور چارہ نہ دیکھ کر پولیس بھی پرتشدد/شرپسندبھیڑ کو قابو کرنے کے لیے اور انہیں باہر کرنے کے لیے کیمپس کے اندر داخل ہو گئی۔ لیکن یہ مظاہرین لائبریری کے اندر داخل ہو گئے اور انہوں نے پولیس کو روکنے کے لیے راستہ بند کر دیا۔ انہیں وہاں سے نکالنے کے لیے پولیس کو لائبریری کا دروازہ توڑکر ان میں داخل ہونا پڑا۔’
سی سی ٹی وی فوٹیج اور پولیس پر یونیورسٹی کیمپس میں توڑ پھوڑ کرنے کا الزام لگانے والے طلبا کی گواہیوں کو لگ بھگ پوری طرح سے نظر انداز کرتے ہوئے رپورٹ میں کہا گیا ہے، ‘اگر مظاہرہ پرامن تھا، تو اس بات کا کوئی جواب نہیں ملتا ہے کہ کیسے بڑی تعداد میں نجی اور سرکاری املاک کو نقصان پہنچایا گیا اور کئی گاڑیوں میں آگ لگائی گئی۔’
رپورٹ میں آگے بڑھتے ہوئے یہ بھی کہا گیا ہے کہ یونیورسٹی گیٹ پر شناختی کارڈز کی ٹھیک سے جانچ نہیں ہونے کی وجہ سے‘اس بات کاشدیدامکان ہے کہ باہری لوگ بھی یونیورسٹی میں داخل ہوئے تھے۔’سب سے اہم بات، رپورٹ میں جامعہ انتظامیہ پر الزام لگایا گیا ہے کہ وہ ‘مقامی پولیس کو لےکر طلبا کے عدم اطمینان’کے بارے میں جانکاری دینے میں ‘ناکام’ رہے اور ‘طلبا سے بات کر کے امن و امان کی بحالی میں نااہل ثابت ہوئے۔’
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ یہ ‘پراکٹرل ٹیم کی بھی ناکامی ہے، جو پولیس کے کیمپس میں آنے تک گیٹ نمبر 7 پر موجود تھی، لیکن یہ کہتے ہوئے اس کے ممبر اپنے دفتروں میں چلے گئے کہ وہ وہاں سے سی سی ٹی وی سے حالات پر نظر رکھیں گے، جو ان کی طرف سے ایک بڑی غلطی تھی۔ انہیں اپنے دفتروں میں جانے کی جگہ گیٹ نمبر 7 پر ہی رہنا چاہیے تھا۔ ایسا ہوتا تو شاید پولیس اور طلبا کو ان کے ذریعے پرسکون کرایا جا سکتا تھا اور حالات کو نارمل بنانے میں ان کا بڑارول ہو سکتا تھا۔’
کمیشن کی رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ‘ظاہری طور پر یہ مقامی پولیس کی بھی ناکامی ہے، جو طلبا کے غصہ اور 15.12.2019 کی ان کےمنصوبہ کے بارے میں وقت پر جانکاری حاصل نہیں کر سکی۔ 13.12.2019 کو کیمپس کے گیٹ نمبر 1 کے پاس ناکابندی تھی اور کسی طرح سے بھیڑ/احتجاجی مظاہرہ کو اسی جگہ پر وقت رہتے قابو میں کر لیا گیا تھا۔ حالانکہ، این ایچ آر سی ٹیم کو کیمپس سے 1.5 کیلومیٹر دور جولینا(سوریہ ہوٹل کے پاس)پر ناکابندی سمجھ سے پرے لگی، جہاں کئی بغل کے راستے ہیں اور کسی کے لیے بھی وہاں سے بچ کر نکل جانا آسان ہے اور بڑی بھیڑ پرقابو کرنا مشکل ہے۔’
این ایچ آر سی نے نہ صرف مظاہرہ کے پرتشدد ہونے کی پولیس کی دلیل کو قبول کر لیا، بلکہ یہ دیکھنے میں بھی ناکام رہا کہ اصل میں طلبا کا مظاہرہ کیا تھا؛وہ کچھ تعلیم یافتہ نوجوان تھے، جو کچھ دن پہلےپارلیامنٹ کے ذریعے پاس کیے گئے ایک متعصب قانون کے خلاف آواز اٹھا رہے تھے۔
اس کے بجائے رپورٹ کہتی ہے کہ ‘ان احتجاجی مظاہروں کے پیچھے کے حقیقی کرداروں اور ارادوں پر سے پردہ اٹھانے کی ضرورت ہے۔’
آزادی کی حد
این ایچ آر سی کی رپورٹ میں کہا گیا ہے، ‘بولنے/اظہاررائےاورپرامن کانفرنس کی آزادی کے ساتھ ساتھ آئینی حدود/پابندیاں بھی وابستہ ہیں۔’آرٹیکل 19کے تحت دیے گئے بنیادی حقوق لامحدود نہیں ہیں اور ‘آئینی تحفظ کا فائدہ اٹھانے کے لیے کانفرنس کاپرامن ہونا ضروری ہے۔’
رپورٹ کاخلاصہ ہے،’قانون نافذ کرنے والی ایجنسیاں حالات کا اندازہ لگانے اور اس کے لحاظ سے کیا کارروائی کی جائے، اس کا فیصلہ لینے کے لیے اعلیٰ ترین منصف ہیں۔
این ایچ آر سی نے اس کے بعدمندرجہ ذیل سفارشات پیش کی ہیں:
دہلی سرکار زخمی طلبا کو معاوضہ دے۔
دہلی پولیس کمشنر اور ڈائریکٹر جنرل سی آر پی ایف(فار آراے ایف)فورس کے(دہلی پولیس اور آراے ایف دونوں کے)ان اہلکاروں کی پہچان کرے، جنہیں سی سی ٹی وی فوٹیج میں سی سی ٹی وی کیمروں کو نقصان پہنچاتے، بنا وجہ لائبریری کے ریڈنگ روم کے اندر جاتے اور لائبریری کے بند احاطہ کے اندر آنسو گیس کے گولوں کا استعمال کرتے دیکھا گیا۔ ان کے خلاف مناسب کارروائی بھی کی جا سکتی ہے۔
دہلی پولیس کمشنر اور ڈائریکٹر جنرل سی آر پی ایف(فار آراے ایف)یہ یقینی بنائیں کہ نظم ونسق کے ایسےحالات سے نپٹنے کے لیے پولیس فورس کو خصوصی طور پرتربیت دی جائے (حساس بنایا جائے)اور ان میں پیشہ ور رویہ کے فروغ کے لیے خصوصی ٹریننگ ماڈیول چلائے جائیں۔
دہلی کے پولیس کمشنر یہ یقینی بنائیں کہ دہلی پولیس کے کرائم برانچ کی ایس آئی ٹی تمام معاملوں کی ان کی میرٹ کی بنیاد پر اور ایک طے مدت کےاندر جانچ کرے اورپرتشددمظاہرہ کے حقیقی کرداروں کی پہچان کرکے انہیں گرفتار کرے۔
دہلی کے پولیس کمشنر 15.12.2019 کو جامعہ ملیہ اسلامیہ کی لائبریری بلڈنگ کے اندر مبینہ پولیس بربریت کو لےکر ایڈیشنل سی پی/سائبر اینڈ ٹکنالوجی کے ذریعے کی جا رہی ایڈمنسٹریٹو جانچ کو تیز کرے۔ اس کے نتائج اور سفارشات پرفوراً کارروائی کی جائے۔
دہلی کے پولیس کمشنر اور دوسرے اعلیٰ حکام مستقبل میں ایسے واقعات کو روکنے لیے بہتر طریقے سے تیار رہنے کے لیے انٹلی جنس اکٹھا کرنے کے سسٹم کو بہتر اور مضبوط بنائیں۔
جامعہ ملیہ کے وائس چانسلر، رجسٹرار اور دوسرے حکام اسٹوڈنٹ کمیونٹی کے ساتھ بات چیت کے بہترنظام کو فروغ دیں تاکہ وہ باہری اورمقامی غنڈوں یاچھوٹے موٹے رہنماؤں سے متاثر نہ ہوں۔
NHRC Report on Jamia Violence by
The Wire on Scribd
رپورٹ سے مایوسی
این ایچ آر سی کی رپورٹ کو دیکھنےوالے جامعہ کے طلبا نے اس پر شدید اعتراض کیا ہے۔ پولیس حملے کے دوران پوسٹ گریجویشن کےاسٹوڈنٹ محمد مصطفی کے دونوں ہاتھوں کی ہڈیاں ٹوٹی تھیں۔ان کا کہنا ہے کہ وہ ہیومن رائٹس کمیشن سے کافی مایوس ہیں۔ وہ کہتے ہیں،‘اتنے سارے لوگوں کی پولیس نےبےرحمی سے پٹائی کی۔ مجھ پر تب حملہ کیا گیا، جب میں لائبریری میں بیٹھا ہوا تھا۔ پولیس کولائبریری میں گھسنے اور ہماری پٹائی کرنے کے لیے کس چیز نے مجبور کیا، یہ جاننے کے لیے ہم ایک ایک آزادانہ جانچ چاہتے ہیں۔’
15 دسمبرکو دہلی پولیس کے ذریعے کیمپس سے نکالے گئے جامعہ ملیہ اسلامیہ کے طالب علم(فوٹو: رائٹرس)
قابل ذکر ہے کہ15دسمبر، 2019 کو جن لوگوں پر پولیس نےبےرحمی سے حملہ کیا، ان میں سے کچھ طلبا کی پیروی کر رہیں ایڈووکیٹ نبیلہ حسن کا کہنا ہے، ‘ہم این ایچ آر سی کے سامنے معاملے کو لےکر گئے اور ہم نے 100 سے زیادہ گواہیاں دلوائیں، جو لائبریری اور کیمپس کے دوسرے حصوں میں پولیس کے حملے کی بربریت کو دکھاتی ہیں۔ این ایچ آر سی نے ان گواہیوں نظر انداز کر دیا ہے۔’
انہوں نے آگے کہا، ‘طلبا نہ صرف معاوضے کے حقدار ہیں، بلکہ وہ ریٹائرڈ ججوں کی ایک آزادانہ کمیٹی کے ذریعے ایک آزادانہ جانچ کا بھی حق رکھتے ہیں۔ اس معاملے میں ملزم پولیس ہے اور قانون کاتقاضہ یہی ہے کہ آپ کو اپنی ہی جانچ کرنے کے لیے نہیں کہا جا سکتا ہے۔ پولیس سے خود اپنی جانچ کرنے اور ایک غیرجانبدارانہ رپورٹ دینے کی امید نہیں کی جا سکتی ہے۔’
پیشہ وروں اور ہیومن رائٹس کے کارکنوں کے ایک گروپ د ی کیمپین اگینسٹ وچ ہنٹ آف اینٹی سی اے اے ایکٹوسٹس نے بھی این ایچ آر سی کی رپورٹ کو مضحکہ خیز قرار دیتے ہوئے خارج کر دیا ہے۔سوشل میڈیا پر ان کے کے ذریعے جاری ایک بیان میں کہا گیا ہے، ‘آپ یہ محسوس کیے بغیر نہیں رہ پائیں گے کہ یہ این ایچ آر سی کی زبان نہیں، بلکہ وزارت داخلہ کی زبان ہے… پولیس ہمیشہ اپنی جانچ کرنے سے بچتی ہے، اور اس معاملے میں جہاں ویڈیو ثبوت کی موجودگی کے باوجود پولیس انتظامیہ نے اپنی کسی غلطی کو ماننے سے صاف انکار کیا ہے، این ایچ آر سی کی جانچ سے کیا امید کی جاسکتی ہے؟’
دی وائر نے جامعہ ملیا کی وائس چانسلر نجمہ اختر سے رابطہ کرنے کی کوشش کی، لیکن انہوں نے پیغامات اور کالز کا جواب نہیں دیا۔ اس رپورٹ پر یونیورسٹی کا ردعمل آنے پر خبر کو اپ ڈیٹ کیا جائےگا۔
(سیمی پاشا آزاد صحافی ہیں۔)