بوس اور پٹیل کے درمیان اختلافات پر مودی جی کب بولیں گے؟

سبھاش چندر بوس اور پٹیل میں نظریاتی اختلافات بھی تھے۔بوس جہاں سماجوادی نظریات میں پختہ یقین رکھتے تھے، وہیں پٹیل کی ہمدردی نجی سرمایہ کاروں کے ساتھ تھی۔بوس ہندو مسلم ایکتا کے پٹیل سے زیادہ حامی تھے۔ The post بوس اور پٹیل کے درمیان اختلافات پر مودی جی کب بولیں گے؟ appeared first on The Wire - Urdu.

سبھاش چندر بوس اور پٹیل میں نظریاتی اختلافات بھی تھے۔بوس جہاں سماجوادی نظریات میں پختہ یقین رکھتے تھے، وہیں پٹیل کی ہمدردی نجی سرمایہ کاروں کے ساتھ تھی۔بوس ہندو مسلم ایکتا کے پٹیل سے زیادہ حامی تھے۔

فوٹو : سوشل میڈیا

فوٹو : سوشل میڈیا

وزیر اعظم نریندر مودی اور بی جےپی پوری طاقت سے نہرو خاندان اور کانگریس کے پیچھے پڑے ہیں۔ اس لڑائی میں سب سے زیادہ نقصان تاریخ اور حقائق کا ہو رہا ہے۔ مثلاً بی جے پی کی کوشش ہے کہ جواہر لعل نہرو کو سردار ولبھ بھائی پٹیل اور سُبھاش چندر بوس کے مخالف کی شکل میں پیش کیا جائے۔ اس میں ایسی منظر کشی کی جائے مانو نہرو نے اپنے سارے وسائل بروئے کار لاتے ہوئے پٹیل اور بوس دونوں کو سیاسی طور پر درکنار کیا اور اپنی راہ صاف کر لی۔

معروف مؤرخ رام چندر گُہا نے اپنی نئی کتاب Gandhi: The Years That Changed the World میں ایک ناگوار واقعہ نقل کیا ہے، جو بتاتا ہے کہ ولبھ بھائی پٹیل اور سبھاش چندر بوس کے تعلقات تناؤ بھرے رہے ہیں۔ ولبھ بھائی پٹیل کے ایک بڑے بھائی تھے وِٹھل بھائی پٹیل۔ وہ موتی لعل نہرو اور سی آر داس کی قائم کردہ سوراج پارٹی کے کارکن تھے۔ وٹھل بھائی پٹیل اور سبھاش چندر بوس 1933 میں وِئینا کے ایک سینی ٹوریم میں ملے، جہاں دونوں ہی رو بہ صحت تھے۔ گاندھی جی نے جب سِوِل نافرمانی کی تحریک واپس لینے کا اعلان کیا، دونوں نے اس کے خلاف سخت الفاظ میں ایک مشترکہ بیان جاری کیا۔ اس میں تحریک آزادی کے لیے ایک نئی اور حوصلہ مند قیادت کی ضرورت جتائی گئی۔ اپنی عمر کے تیسرے دہے میں بوس، جواہر لعل نہرو کے ساتھ جواں سال ہیرو بن گئے۔ انہیں اتنی مقبولیت ملی کہ بھگت سنگھ، چندرشیکھر آزاد اور جتِن داس جیسے انقلابی بھی ان میں اپنا آئیڈیل دیکھنے لگے۔

1925 میں سی آر داس کی موت کے بعد بوس بنگال کے قدآور لیڈر ہو گئے۔ وہ صوبے کے باغی لیڈران کی نمائندگی کرتے تھے۔ باغیانہ تیور ایسے تھے کہ نہ صرف انگریزوں کے خلاف بلکہ کانگریس کی مرکزی قیادت کے خلاف بھی وہ آواز بلند کرتے رہتے تھے۔ اسی لیے وہ کانگریس کے نامزد امیدوار کو شکست دے کر کلکتہ (اب کولکاتا) کے مئیر بن گئے۔

وِٹھل بھائی پٹیل، بوس کے بڑے معتقد تھے۔ اتنے کہ انہوں نے اپنی جائیداد کا تین چوتھائی حصہ، غیر ممالک میں آزادی ہند کی تشہیر کے لیے بوس کے نام کر دیا۔  لیکن 1933 میں ان کی موت کے بعد اس وصیت کو لے کر چھوٹے بھائی ولبھ بھائی پٹیل نے مقدمہ دائر کر دیا۔ لمبی قانونی جنگ کے بعد ولبھ بھائی مقدمہ جیت گئے اور مذکورہ جائیداد بوس کو ملنے کے بجائے وِٹھل بھائی پٹیل کی اولاد کو ملی۔

1937 میں نہرو جی کی دوسری مدت کار پوری ہونے کے بعد ان کے جانشین کی تلاش شروع ہوئی۔ لوگ نہرو اور بوس دونوں کے حق میں تھے، لیکن گاندھی نے دوراندیشی سے بوس کی حمایت کی۔ دائیں بازو کے حامیوں کی قیادت سردار پٹیل کر رہے تھے۔ انہوں نے پوری شدت سے بوس کی مخالفت کی مگر گاندھی جی نے اعلان کر دیا کہ،”سبھاش کے علاوہ ایسا کوئی نہیں ہے، جو ‘راشٹرپتی’کے عہدے کا اہل ہو۔”(کانگریس صدر کو ان دنوں راشٹرپتی کہا جاتا تھا۔)

بوس کی پہلی مدت کار آسان رہی اور انہوں نے مرد، عورت اور بچوں سبھی کے لیے اچھی معیارِ زندگی اور تعلیم کا ہدف رکھا۔ نہرو ہی کی طرح وہ بھی ترقی کے لیے بڑی انڈسٹریز کے حامی تھے، مگر انہوں نے گاندھی وادیوں کو مطمئن کیا کہ گھریلو و دیہی صنعت کاری پر بھی ان کی توجہ ہے۔ آزادی کے بعد ملک کی سماجی، معاشی تعمیر نو کے لیے انہوں نے نیشنل پلاننگ کمیٹی کی تجویز رکھی۔ ان کی خواہش تھی کہ نہرو اس کے چیئرمین کا عہدہ سنبھالیں، جو اس وقت یعنی 1938 میں یورپ میں تھے۔

ملک اور معاشرے کی ترقی و تعمیر میں نہرو و بوس دونوں خواتین کی حصے داری کے متمنی تھے۔ کراچی کانگریس (1931) میں منظور شدہ تجاویز کی بنیاد پر نیشنل پلاننگ کمیٹی نے خواتین کے بنیادی اور معاشی حقوق پر ایک عمدہ رپورٹ تیار کی تھی۔ جس میں ان معاشرتی، معاشی اور قانونی اڑچنوں کو دور کرنے کا ذکر کیا گیا تھا، جو خواتین کی ترقی میں رکاوٹ بنتی ہیں۔ ساتھ ہی انہیں برابری کا درجہ اور مواقع مہیا کرانے کی سفارشات بھی کی گئی تھیں، جو حیرت انگیز طور پر دورِ جدید سے ہم آہنگ تھیں۔ کمیٹی کا چیئرمین ہونے کے ناطے نہرو اس رپورٹ کی تیاری سے سیدھے جڑے تھے۔ بوس چونکہ کانگریس صدر تھے، اس لیے اس میں سیدھے دخل نہ دیتے ہوئے ذہنی غذا فراہم کر رہے تھے۔

جدید ترقی کے ساتھ قومی اتحاد پر بوس کی خاص نظر تھی۔ ان کے سامنے روس کی مثال تھی، جس نے “آدھے بھوکے کسانوں کا ملک والا طوق اتار کر چمچماتے لباسوں میں ملبوس صنعتی کارندوں”کے دیش کی شکل میں ترقی پا لی تھی۔ اسی صنعتی ترقی کے دم پر ہندوستان کو بھی وہ ایسا ملک بنا دینا چاہتے تھے، جس کے “عوام کی معیارِ زندگی” اونچی ہو۔

اپنے پہلے دورمیں کئی اہم کام کرنے کے باوجود بوس کو کانگریس میں موجود دائیں بازو کے حامیوں پٹیل، راجا جی، راجندر پرساد اور جی بی پنت جیسوں کی مخالفت کا سامنا کرنا پڑا۔ نوبت دوبارہ انتخاب کی آئی۔ ان لوگوں کی پسند مولانا ابوالکلام آزاد تھے، مگر مولانا نے کمال ہوشمندی سے اس پچڑے میں پڑنے سے انکار کر دیا۔ آندھرا پردیش کے پٹّابھی سیتا رمیّا کو بوس کے خلاف کھڑا کیا گیا، جنہیں 1375 ووٹ ملے، جبکہ بوس 1580 ووٹ پانے میں کامیاب رہے۔

راج موہن گاندھی نے ولبھ بھائی کی سوانح حیات میں لکھا ہے کہ ‘سبھاش کی اہلیت کے بارے میں ان (ولبھ بھائی پٹیل)کے خیالات ٹھیک نہیں تھے’؛ نیز ‘سبھاش سے ان کی عدم اتفاقی جگ ظاہر تھی’۔ پٹیل چاہتے تھے کہ 1937 میں چنی گئی کانگریس سرکار کام کرتی رہے مگر سبھاش کا ماننا تھا کہ ‘کانگریس کے تمام وزراء اپنے عہدے چھوڑ دیں اور انگریزی راج کے خلاف مورچہ کھول لیا جائے۔ پٹیل کی نظر میں ‘یہ ایک فضول اور غیر دانشمندانہ قدم تھا۔’راج موہن نے آگے لکھا ہے کہ دونوں کے بیچ ‘گاندھی کو لے کر بھی اختلاف تھا۔ سبھاش کے خیال میں اب ان کی ضرورت نہیں تھی، لیکن سردار کی نظروں میں ان کی موجودگی اشد ضروری تھی۔’

بوس کا دوبارہ انتخاب دائیں بازو کے کانگریسیوں کے لیے ایک کراری چوٹ تھی، جنہوں نے کہا تھا کہ بوس کا دوبارہ چنا جانا ملک کے کاز کے لیے نقصان دہ ہوگا۔ مہاتما نے شکست قبول کرتے ہوئے اپنے فطری انکسار کے ساتھ کہا:”بہرحال سبھاش بابو اپنے ملک کے دشمن نہیں ہیں۔ ملک کے لیے انہوں نے بہت تکالیف جھیلی ہیں۔”

میدانِ سیاست میں تو پٹیل اور بوس ایک دوسرے سے نااتفاقی رکھتے ہی تھے، اس کے علاوہ ان میں نظریاتی اختلافات بھی پائے جاتے تھے۔ بوس جہاں سماجوادی نظریات میں پختہ یقین رکھتے تھے، وہیں پٹیل کی ہمدردی نجی سرمایہ کاروں کے ساتھ تھی۔ بوس ہندو مسلم ایکتا کے پٹیل سے زیادہ حامی تھے۔ اپنی کتاب ‘دی انڈین اسٹرگل’ (1935 میں پہلی بار شائع)میں انہوں نے ہندو مہا سبھا پر شدید تنقید کی ہے۔ مہا سبھائیوں کے لیے انہوں نے بار بار رجعت پسند کی اصطلاح استعمال کی ہے۔ انہیں مسلم بنیاد پرستوں کی شبیہ اور انگریزوں کے ہاتھوں میں کھیلنے والا قرار دیا ہے۔ ساتھ ہی یہ بھی کہ انگریزی حکمرانوں کی وجہ سے ہی وہ ہندو مسلم اتحاد کو پارہ پارہ کرنے پر تلے ہیں، جسے گاندھی اور خود بوس نے فروغ دیا ہے۔

کیا مودی اور بی جےپی ان تمام حقائق پر ایک نظر ڈالیں گے اور ملک کی عوام کو ان سب باتوں سے روشناس کرائیں گے؟

The post بوس اور پٹیل کے درمیان اختلافات پر مودی جی کب بولیں گے؟ appeared first on The Wire - Urdu.

Next Article

مسجد، قبرستان اور یتیم خانہ پر سیاست: وقف کا مستقبل کیا ہے؟

وقف ترمیمی بل کو پارلیامنٹ کی  منظوری مل گئی  ہے، لیکن اپوزیشن جماعتوں اور مسلم کمیونٹی کے نمائندوں کے سوال اب بھی باقی ہیں۔ اس بل پر آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے ترجمان ڈاکٹر ایس کیو آر الیاس اور سینئر صحافی عمر راشد کے ساتھ تبادلہ خیال کر رہی ہیں میناکشی تیواری۔

Next Article

’شہری جھگیوں میں سیاست کی سمجھ کہیں زیادہ گہری ہے‘

خیال کیا جاتا ہے کہ شہری جھگیوں میں رہنے والے سیاست کو کم سمجھتے ہیں، لیکن ایسا نہیں ہے۔ نقل مکانی اور شہری جھگیوں  پر کتاب لکھنے والے اسکالر طارق تھیچل کہتے ہیں کہ جھگی –جھونپڑی میں رہنے والے سیاستدانوں کے مہرے محض نہیں ہیں۔ ان سے دی وائر ہندی کے مدیر آشوتوش بھاردواج کی بات چیت۔

Next Article

مودی آر ایس ایس کے حقیقی ’سپوت‘ ہیں اور سنگھ مودی سے سب سے زیادہ فیض اٹھانے والا

آر ایس ایس کے جن خیالات کو پردے میں رکھ کر اٹل بہاری یا لال کرشن اڈوانی پیش کیا کرتے تھے، ان کو مودی کے منہ سے بغیر کسی ہچکچاہٹ کے سنا جا سکتا ہے۔ اور مودی کی وجہ سے بہت سے دانشور اور صنعتکار آر ایس ایس کی سلامی بجاتے ہیں۔ آر ایس ایس  کواور کیا چاہیے؟

نریندر مودی اور سنگھ کے سربراہ موہن بھاگوت۔(تصویر بہ شکریہ: YouTube/narendra modi)

نریندر مودی اور سنگھ کے سربراہ موہن بھاگوت۔(تصویر بہ شکریہ: YouTube/narendra modi)

یہ مضمون، 15 جون 2024 کو شائع کیا گیا تھا، وزیر اعظم بننے کے بعد نریندر مودی کے آر ایس ایس ہیڈ کوارٹر کے پہلے دورے کے تناظر میں اس کودوبارہ شائع کیا گیا ہے۔

‘کیا آپ نے تقریر سنی؟’، میرا دوست پر جوش تھا۔ کون سی تقریر، کس کی تقریر، یہ بتانا بھی انہوں نے ضروری نہیں سمجھا۔ انہیں یقین تھا کہ ان کا محض اتناکہہ دینا کافی ہے اور میں سمجھ جاؤں  گا کہ وہ کس تقریر کے بارے میں بات کر رہے ہیں۔ میں بھی سمجھ ہی گیا تھا، حالانکہ میں نے نہ سمجھنے کا ناٹک کیا۔ دیر تک یہ ناٹک نہیں کیا جا سکتا تھا؛ دراصل  ملک میں ان دنوں  ایک ہی تقریر کا چرچہ ہے! اور وہ موہن بھاگوت کا تازہ ترین پروچن تھا۔

بھاگوت نے کہا کہ ابھی حال ہی میں ہوئے انتخابات میں قدرومنزلت اور تعظیم  کا خیال نہیں رکھا گیا۔ انہوں نے کہا کہ جمہوریت میں اپوزیشن یا حزب اختلاف کا بھی اتنا ہی اہم درجہ ہے جتنا کہ حکمراں جماعت کا ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ منی پور ایک سال سے امن  کی راہ دیکھ  رہا ہے۔ وہاں آگ لگی  ہوئی ہے یا لگائی  گئی ہے۔

تقریر لمبی ہے۔ اس میں وہ عورتوں کے شراب پی کر  گاڑی چلانے اور اس کی وجہ سے ہونے والے حادثات پر افسوس کا اظہار کرتے ہیں۔ وہ پوچھتے ہیں کہ اس ملک کی اخلاقی قدریں  کہاں گم ہو گئی ہیں؟ خیال رہے کہ وہ عورت کے شراب پی کر ڈرائیونگ کرنے کی مذمت کر رہے تھے، اور اسی وقت پونے کے ایک امیر نابالغ لڑکے کے ذریعے گاڑی سے دو لوگوں کو کچل کر مار دیے جانے اور پھر اس معاملے کو پولیس اور عدالت کے ذریعےرفع دفع کرنے کا تذکرہ  بھی ہو رہا تھا۔لیکن بھاگوت نے خواتین کے شراب پی کر گاڑی چلانے کو ہی مثال بناکر پیش کیا!

اس تقریر میں بھاگوت نے گزشتہ برسوں میں ہر پیرامیٹر پر ہندوستان کی ترقی کے حوالے سےقصیدہ خوانی  کی۔ ہم جانتے ہیں کہ یہ جھوٹ ہے۔ مودی حکومت اور بی جے پی پچھلے 10 سالوں سے اسی جھوٹ کو دہرا رہے ہیں۔

جیسا کہ ہم نے ذکر کیا کہ تقریر لمبی ہے اور ہمارے دوست کے ساتھ ہی  ہر ایک شخص  اس کے ایک چھوٹے سے حصے کے پیش نظر پرجوش ہیں۔ کہا جا رہا ہے کہ بھاگوت نے نریندر مودی کی سرزنش کی ہے۔ یہ حیرت کی بات نہیں ہے کہ اگرچہ بھاگوت نے مودی کا نام نہیں لیا، لیکن اس بات پر اتفاق رائے ہے کہ انہوں نے اخلاقی قدروں کی پامالی کے لیے مودی کی ہی سرزنش کی ہے۔

بھاگوت نے اپنی تقریر میں کہا کہ انتخابات میں جو کچھ ہوتا ہے اس میں آر ایس ایس کے لوگ نہیں پڑتے۔ لیکن انتخابی مہم کے دوران وہ لوگوں کے خیال اور نظریے کی تطہیر کرتے ہیں۔ تو اس الیکشن میں وہ کس طرح کی تطہیر کر رہے تھے؟

جب ان کے ایک سابق پرچارک اور تاحیات سویم سیوک نریندر مودی نفرت کاپرنالابہا رہے تھے، تب آر ایس ایس کس قسم کی تطہیر کر رہا تھا؟ صرف مودی ہی نہیں پوری بھارتیہ جنتا پارٹی نے انتخابی مہم کو فحش اور نفرت انگیز پروپیگنڈے میں بدل دیا تھا۔ مودی اور ان کی حامی بی جے پی نے پورے ملک کو غلاظت میں نہلا دیا۔ اب لوٹے میں پانی لے کر بھاگوت حاضر  ہوئے ہیں!

سوال قدرومنزلت، تعظیم و تکریم یا اس کی خلاف ورزی کا نہیں ہے، صرف اپوزیشن کی قدرومنزلت کا  نہیں۔اصل سوال ہےاس ملک میں انسانیت کی تعظیم و تکریم  کا، اس کے تحفظ کا، اور وہ اس ملک کا سیکولرازم ہے۔ اقلیتی برادریوں کے تحفظ اور ان کی قدرومنزلت کا سوال اس میں سرفہرست ہے۔ ان کے مساوی حقوق کا سوال اس ملک میں سرفہرست ہے۔

کیا بھاگوت یا آر ایس ایس کا نظریہ اس بارے میں مودی سے مختلف ہے؟ کیا صرف ایک سال قبل آر ایس ایس نے ایک قرارداد پاس نہیں کی تھی، جس میں اس تشویش کا اظہار کیا گیا تھا کہ مسلمان سازش کے تحت اسٹیٹ مشینری میں داخل ہو رہے ہیں؟ کیا آر ایس ایس نے یہ خدشہ ظاہر نہیں کیا تھا کہ مسلمانوں کی آبادی میں اضافے کے باعث  ہندوستان کی آبادی کی نوعیت اورفطرت بدل جائے گی؟

مودی جس بات کو بڑے کھلے اور بیہودہ انداز میں کہہ رہے تھے، کیا وہ آر ایس ایس کا ہی خیال نہیں ہے؟ پھر مسلمانوں کے خلاف مودی کے نفرت انگیز پروپیگنڈے پر حیرانی کیوں؟

منی پور میں آگ کس نے لگائی؟ منی پور کے سب سے طاقتور ہتھیار بند گروہ آرم بائی تینگول کے ساتھ آر ایس ایس کے تعلقات کے بارے میں منی پور میں جو کچھ کہا جا رہا ہے، کیا اس میں کوئی صداقت نہیں؟ اگر وہ جھوٹ بھی ہے تو پھر خود آر ایس ایس نے پچھلے ایک سال میں اپنے سویم سیوکوں کی حکومت کو اس بارے میں کب اور کیا کہا؟

پچھلے ایک سال میں آر ایس ایس کے سربراہ کئی ‘پر وچن’  دے چکےہیں۔ انہوں نے ایک بار بھی منی پور کا ذکر کیوں نہیں کیا؟ خیال رہے کہ شمال-مشرقی ہندوستان میں آر ایس ایس کی سرگرمی بہت پرانی ہے۔ بذات خوداس نے منی پور میں امن کی بحالی کے لیے کیا کوششیں کیں؟

اگر ہم اپنے آپ کو ان باتوں تک محدود رکھیں تو بھی موہن بھاگوت کے اس ‘پروچن ‘ کا دکھاوا اور کھوکھلا پن اجاگر ہو جاتا ہے۔ اس پروچن کا کوئی مطلب نہیں کیونکہ آر ایس ایس بذات خود مسلمان اور عیسائی مخالف نفرت پیدا کرنے والا کارخانہ ہے۔

بھاگوت نے درست کہا کہ شاکھامیں کچھ سال گزارنے کے بعد آدمی بدل جاتا ہے۔یہ تو پوچھنا ہی پڑے گا کہ کیوں آر ایس ایس کے تمام کارکنان مسلمانوں اور عیسائیوں سے نفرت کرتے ہیں یا ان کے تئیں  مشکوک رویہ رکھتے ہیں۔ کیوں وہ مسلسل گاندھی سے نفرت  کرتے ہیں؟ کیوں آر ایس ایس کے لوگ، اپنے تمام تر دکھاوے کے بعد بھی ذات پات کے نظام میں کامل یقین رکھتے ہیں؟

جس نریندر مودی کے سلسلے میں اب افسوس کیا جا رہا ہے، کیا آر ایس ایس نے اپنی پوری طاقت اسی مودی کو بلندی تک پہنچانے میں نہیں لگا دی تھی؟ کیا 2002 کے سویم سیوک مودی اور 2024 کے مودی میں کوئی فرق ہے؟ اور کیا خود آر ایس ایس کا پورا وجود جھوٹ اور آدھے سچ پر مبنی نہیں ہے؟ کیا آر ایس ایس اس آئین پر پورے دل سے یقین رکھتی ہے جس کی وہ تعریف کرتا ہے؟ کیا جس  گاندھی کو اس نے یادگار بنا رکھا ہے،اسے مارنے والےگوڈسے اور اس قتل کی سازش میں ملوث ساورکر کے تئیں آر ایس ایس کے لوگوں  میں عقیدت  کا جذبہ نہیں ہے؟

یہ سوال آر ایس ایس سے وابستہ لوگوں کو پوچھنا چاہیے، اس کے ناقدین کو نہیں۔ مجھے یقین ہے کہ آر ایس ایس کے تمام لوگوں میں خود شناسی کا مادہ ختم نہیں ہو گیا  ہے۔ وہ اب بھی اپنے آپ سے کچھ سخت سوال پوچھ کر خود کو آر ایس ایس کے جال سے آزاد کر سکتے ہیں۔

سال 2013 میں، جب نریندر مودی کو پہلی بار بی جے پی کی طرف سے وزیر اعظم کے عہدے کا امیدوار بنایا گیا تھا، تو میں نے آر ایس ایس کے ایک سینئر عہدیدار سے پوچھا تھا کہ گجرات میں مودی  نے ان کی تنظیم کے ساتھ جو سلوک کیا تھا،  کیااس کے بعد بھی وہ مودی کی حمایت کریں گے۔ انہوں نےمسکراتے ہوئے کہا، ‘ہم دو طرح سے اپنی اہمیت کھو سکتے ہیں۔ ایک مودی کی ماتحتی میں اور دوسرا کانگریس کی حکومت میں۔ آپ بتائیے کہ ہمیں کیا کرنا چاہیے؟

دوسری بات یہ کہ مودی کے وزیر اعظم بننے کے کچھ عرصہ بعد آر ایس ایس کے ایک رکن نے مجھ سے کہا، ‘اگر آپ میں سے کوئی یہ سمجھتا ہے کہ آر ایس ایس کبھی مودی کو ڈسپلن کرے گا، تو یہ آپ کی خوش فہمی ہے۔ آپ بتائیے کہ آر ایس ایس کے  کس چیف کو زیڈ سکیورٹی ملی تھی، کس چیف کی تقریر ہر ٹی وی چینل نے چلائی، کون سوچ سکتا تھا کہ ہر کوئی اسے اتنی اہمیت دے گا؟ یہی نہیں، آر ایس ایس کے چُھٹ بَھیّے کو بھی اب جو اہمیت وزارتوں سے لے کر یونیورسٹیوں تک  میں مل رہی ہے، وہ اور کب ملی تھی۔ یہ سب کس کی مہربانی ہے؟’

نریندر مودی آر ایس ایس کےحقیقی ‘سپوت’ ہیں۔ اور آر ایس ایس مودی کا سب سے بڑا ‘لابھارتھی’ ہے۔ آر ایس ایس کے جن خیالات کو پردے میں  رکھ کر اٹل بہاری یا لال کرشن اڈوانی پیش کیا کرتے تھے ان کو  مودی کے منہ سے بغیر کسی ہچکچاہٹ کے سنا جا سکتا ہے۔ اور مودی کی وجہ سے بہت سے دانشور اور صنعت کار آر ایس ایس کی سلامی بجاتے ہیں۔ آر ایس ایس  کواور کیا چاہیے؟

Next Article
Next Article

سنگھ بی جے پی تعلقات میں نئی ​​گرمجوشی؟

سنگھ اور بی جے پی کے رشتوں میں پچھلے ایک سال میں اتار چڑھاؤ آیا ہے۔ 2024 کے لوک سبھا انتخابات کے نتائج کے بعد بی جے پی کھل کر سنگھ کی تعریف کرتی نظر آ رہی ہے۔ حال ہی میں نریندر مودی وزیر اعظم بننے کے بعد پہلی بار سنگھ ہیڈ کوارٹر پہنچے۔ کیا سنگھ بدل رہا ہے؟ سنگھ-بی جے پی کے رشتوں پر سینئر صحافیوں – راہل دیو اور دھیریندر جھا کے ساتھ آشوتوش بھاردواج کی بات  چیت۔

جون 2024 میں ریکارڈ کیے گئے اور شائع کیے گئے اس ویڈیو کو وزیر اعظم بننے کے بعد نریندر مودی کے سنگھ ہیڈ کوارٹر کے پہلے دورے کے تناظر میں دوبارہ شائع کیا گیا ہے۔