ہندو راشٹر میں مرنے والوں کا سوگ منانا منع ہے

کمبھ میں بھگدڑ ہوئی۔ کتنی موتیں ہوئیں، اب تک ہمیں نہیں معلوم۔ کووڈ کی وجہ سے کتنی موتیں ہوئیں، ہمیں نہیں معلوم۔ سرکار کا کہنا ہے کہ اتنے لوگ زندہ بچ گئے، اس کے لیے ہمیں حکومت کا شکریہ ادا کرنا چاہیے۔

کمبھ میں بھگدڑ ہوئی۔ کتنی موتیں ہوئیں، اب تک ہمیں نہیں معلوم۔ کووڈ کی وجہ سے کتنی موتیں ہوئیں، ہمیں نہیں معلوم۔ سرکار کا کہنا ہے کہ اتنے لوگ زندہ بچ گئے، اس کے لیے ہمیں حکومت کا شکریہ ادا کرنا چاہیے۔

گزشتہ 15 فروری کو نئی دہلی ریلوے اسٹیشن پر بھگدڑ کے بعد ایک فٹ اوور برج۔ (تصویر بہ شکریہ: ایکس/TuchIndia)

گزشتہ 15 فروری کو نئی دہلی ریلوے اسٹیشن پر بھگدڑ کے بعد ایک فٹ اوور برج۔ (تصویر بہ شکریہ: ایکس/TuchIndia)

دہلی کے ریلوے پلیٹ فارم پر بھیڑ کی وجہ سے ہوئی بھگدڑ کے باعث کم از کم 15 افراد ہلاک ہو گئے ۔ اس جملہ کو دراصل یوں لکھا جانا چاہیے؛ ہندوستان کے دارالحکومت دہلی کے ریلوے پلیٹ فارم پر حکومت کی بدانتظامی اور لاپرواہی کی وجہ سےبھاری ہجوم کے درمیان  ہوئی بھگدڑ میں 15 افراد ہلاک ہو گئے۔

لیکن اب ہندوستان میں لوگ نثر لکھنا بھول گئے ہیں۔ جیسا کہ رالف فاکس نے کہا تھا، نثر اشیاء کو ان کے صحیح ناموں سے مخاطب کرنے کا فن ہے۔ انسان نے سچائی کو بے نقاب کرنے کے لیے زبان ایجاد کی، پھر اسے سچ کو چھپانے کے لیے پردے کے طور پر استعمال کیا جانے لگا۔ ہندوستان میں گزشتہ 10 سالوں سے زبان کا استعمال سچ بولنے کے لیے نہیں بلکہ اسے چھپانے کے لیے کیا جا رہا ہے۔

افواہ کو سچ اور سچ کو افواہ بتایا جاتا ہے۔ جیسا کہ ہندوستانی ریلوے کے ترجمان نے پلیٹ فارم پر ہوئی بھگدڑ کی خبر کو افواہ قرار دیا، اور ملک کی سب سے بڑی نیوز ایجنسی نے اسے پوری دنیا میں نشر کیا۔ لیکن وہ اکیلے نہیں تھے جو ایسا کر رہے تھے۔

ایک دکاندار کو سنا جوکہہ رہا تھاسارے انتظامات بالکل ٹھیک تھے، پلیٹ فارم خالی پڑا تھا، لوگ پل پر ایک دوسرے کو دھکا مارنے لگے ، اس  وجہ سے بھگدڑ ہو گئی۔ اب ہم اپنے لیے ناگوار  سچائی کو دیکھنا بھی نہیں چاہتے،اس کو بتانے کی بات تو  دور۔

کسی نے نہیں پوچھا کہ کیا یہ بھیڑ اچانک جمع ہو گئی تھی؟ کیا ٹکٹوں کی غیرمعمولی فروخت سے یہ اندازہ نہیں لگایا جا سکتا تھا کہ پلیٹ فارم پربھیڑاپنی حد سے زیادہ  ہو سکتی ہے؟ ٹکٹ کھڑکی  سے جنرل کلاس کے ٹکٹ مسلسل کیوں جاری کیے جا رہے تھے؟ ٹرینوں کی تعداد اور ٹکٹوں کی فروخت کے درمیان کے تعلق کا خیال  کیوں نہیں رکھا گیا؟ کسانوں کو دہلی آنے سے روکنے کے لیے سڑکیں کھودنے اور ان پر کیلیں لگانے والی ہندوستانی حکومت کیا ہجوم کو پلیٹ فارم پر جمع ہونے سے نہیں روک پائی؟

میرے دوست کو ایک سیمینار میں شرکت کے لیے بنارس جانا تھا۔ جب وہ میٹرو سے نئی دہلی پہنچے تو انہوں نے اپنے آگے لوگوں کا ہجوم دیکھا۔ میٹرو کا ایگزٹ گیٹ ٹوٹ گیا۔ لوگوں نے ‘گنگا میا کی جئے’ کے نعرے لگائے اور ایک دوسرے کو دھکیل کر باہر نکلنے لگے۔ میرے دوست یہ منظر دیکھ کر گھبرا گئے اور بنارس جانے کا ارادہ ترک کر کے لوٹ آئے۔

جب یہ منظر میٹرو اسٹیشن کا تھا تو آگے ریلوے پلیٹ فارم پر کیا ہوگا، اس کا اندازہ کیا انتظامیہ نہیں لگا سکتی تھی؟

یہ بھیڑ خودبخود جمع نہیں ہوئی تھی۔ کمبھ جانے کی اپیل وزیر اعظم، کئی وزرائے اعلیٰ اور کئی حکومتیں کر رہی تھیں۔ ہر سرکاری عمارت کی دیواروں پر کمبھ میں مدعو کرنے والے بڑے بڑے پوسٹر اور ہورڈنگ مہینوں سےآویزاں  ہیں۔ محلے میں لوگوں کو کمبھ جانے کے لیے کہا جا رہا تھا۔ کمبھ جا کر ہی آپ اپنا ہندو پن ثابت کر سکتے تھے۔ گزشتہ کئی دنوں سے الہ آباد جانے والی تمام سڑکیں جام تھیں۔ پھر دہلی ریلوے اسٹیشن پر بھیڑ کا اندازہ کیوں نہیں لگایا جا سکتا تھا؟

محکمہ ریلوے کے ترجمان نے ابتدائی طور پر اس بھگدڑ کو افواہ قرار دیا۔ پھر کہا گیا کہ کچھ افراتفری تو ہوئی  ہے لیکن حالات قابو میں ہیں۔ وزیر ریلوے نے بھی حقیقت چھپانے کی کوشش کی اور گمراہ کن بیان دیا۔ بعد میں ان سب کو ماننا پڑا کہ بھگدڑ ہوئی ہے اور ہلاکتیں ہوئی ہیں۔ لیکن اب اس کے لیے لوگوں کی بے چینی کو ذمہ دار ٹھہرایا جا رہا ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ لوگ کیوں ایک ساتھ  نکل پڑتے ہیں۔ اور حکومت کو بری کرنے کی کوششیں ساتھ ساتھ کی جا رہی ہیں: آخر وہ اس طرح کی  بھیڑ کو کیسے سنبھال سکتی ہے!

اگر آپ بھول نہ گئے ہوں  تو 5 سال پہلے ہم نے ہندوستان کی سڑکوں پر ایسا ہی منظر دیکھا تھا۔

یہ کووڈ کے ابتدائی دن تھے۔ وزیراعظم نے اچانک لاک ڈاؤن کا اعلان کر دیا۔ اس کے آگے لیے کوئی کوئی تیاری نہیں کی گئی۔ اگلی صبح سے ہی دہلی اور دیگر میٹروسٹی سے مزدور اپنے گھروں کو روانہ ہونے لگے۔ اس وقت بھی حکومت نے کہا تھا کہ انہیں گھر لے جانا ہماری ذمہ داری نہیں ہے۔ مزدوروں کو غیر ذمہ دار قرار دیا گیا۔ بی جے پی کے ایک ایم پی  نے یہاں تک کہا کہ یہ سب تفریح کے لیےنکلے ہیں۔

یہ نہیں پوچھا گیا کہ حکومت یہ اندازہ کیوں نہیں لگا سکی کہ لاک ڈاؤن کی وجہ سے اتنے دہاڑی مزدور اچانک اپنی روزی روٹی سے محروم ہو جائیں گے اور وہ ان کے  بھوک مرنے کی نوبت آ جائے گی۔ پھر وہ اپنے گاؤں میں پناہ لینے کے سوا اور کیا کر سکتے تھے۔ لیکن حکومت نے کہہ دیاکہ وہ لاک ڈاؤن نافذ کر سکتی ہے  اوراس کے نتائج کے لیے اسے ذمہ دار نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔ لاکھوں لوگ ہزاروں کلومیٹر پیدل چلے لیکن حکومت خاموش تماشائی بنی رہی۔

سپریم کورٹ میں ایک درخواست دائر کی گئی جس میں کہا گیا تھا کہ حکومت کو مزدوروں کو ریلیف فراہم کرنے کا حکم دیا جائے۔ وہاں حکومت نے جھوٹ بول دیا کہ سڑک پرکوئی مزدور نہیں ہے۔ ہم ٹی وی پر دیکھ رہے تھے کہ کس طرح ہزاروں مزدور پیدل چلے جا رہے ہیں، لیکن عدالت نے وہی دیکھا جو حکومت نے اسے کہا۔

نوٹ بندی کے وقت حکومت نے یہی کیا تھا۔ ہمیں اس وقت بینکوں کے سامنے لگی قطاروں کی تصویریں یاد ہیں۔ اس وقت بھی حکومت نے عوام کو پہنچنے والے مصائب کی ذمہ داری لینے سے انکار کر دیا تھا۔

کمبھ میں بھگدڑ ہوئی، کتنی موتیں ہوئیں اب تک ہمیں نہیں معلوم۔ کووڈ کی وجہ سے کتنی موتیں ہوئیں، ہمیں نہیں معلوم۔ حکومت کا کہنا ہے کہ اتنے لوگ زندہ بچ گئے، اس کے لیے ہمیں حکومت کا شکریہ ادا کرنا چاہیے۔

حکومت جوکہے، یہ دیکھ کر زیادہ دکھ ہوتا ہے کہ ہمارا معاشرہ بھی اسی کو اپنا مقدر مانتا ہے اور سر جھکا لیتاہے۔ یہ کہنا پڑے گا کہ یہ زیادہ تر ہندو سماج ہے۔ کیا اس کی وجہ یہ ہے کہ ہندوؤں کی اکثریت یہ مان بیٹھی ہے کہ صدیوں  کےبعد ہندوستان میں ہندوؤں کا راج آیا ہے؟ اگر کچھ اونچ نیچ ہو تو ہمیں برداشت کرلینا چاہیے کیونکہ اب ایک بڑے مقصد کو پورا کرنے کا وقت ہے؟

اور وہ مقصد ہندو راشٹر کا قیام ہے۔ کیا یہی وجہ ہے کہ ہندوؤں نے شہری کے تمام حقوق ترک کر دیے ہیں اور اپنے آپ کو رعایا میں تبدیل کر لیا ہے جن کے ساتھ بادشاہ جس طرح چاہے سلوک کر سکتا ہے؟

اب ہمیں ایک ایسے قانون کے لیے تیار ہو جانا چاہیے، جس کے مطابق مرنے والوں کے لیے سوگ منانا زندہ  لوگوں کے خلاف جرم تصور کیا جائے گا۔

(اپوروانند دہلی یونیورسٹی میں پڑھاتے ہیں۔)