انتخابی اصلاحات کی سمت میں کام کرنے والی تنظیم ایسوسی ایشن فار ڈیموکریٹکٹ ریفارمز نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ سال 2016 سے 2020 کے دوران ہوئے انتخابات میں کانگریس کے 170ایم ایل اے دوسری پارٹیوں میں شامل ہوئے جبکہ بی جے پی کے صرف 18ایم ایل اے نے دوسری پارٹیوں کا دامن تھاما۔
نئی دہلی: ایسوسی ایشن فار ڈیموکریٹکٹ ریفارمز(اےڈی آر)نے اپنی ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ سال 2016 سے 2020 کے دوران ہوئے انتخابات میں کانگریس کے 170 ایم ایل اے دوسری پارٹیوں میں شامل ہوئے، جبکہ بی جے پی کے صرف 18ایم ایل اے نے دوسری پارٹیوں کا دامن تھاما۔
انتخابات اور سیاسی اصلاحات کے ذریعےاقتدار میں بہتری لانے اور جمہوریت کو مضبوط کرنے کا مقصد رکھنے والے ادارے اے ڈی آر نے گزشتہ جمعرات کو ایک رپورٹ جاری کی،جس میں ان 443ایم ایل اے اورایم پی کےانتخابی حلف ناموں کاتجزیہ کیا گیا، جنہوں نے ان پانچ سالوں میں پارٹیوں کو چھوڑ دیا اور پھر سے انتخابی میدان میں اترے۔
اے ڈی آر کی رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ 2016 سے 2020 کے دوران پارٹی بدل کر پھر سے انتخابی میدان میں اترنے والے 405 ایم ایل اے میں سے 182 بی جے پی(44.9 فیصد)میں شامل ہوئے تو 38ایم ایل اے(9.4 فیصد) کانگریس اور 25ایم ایل اے تلنگانہ راشٹر سمیتی کا حصہ بنے۔
رپورٹ کے مطابق، سال 2019 کے لوک سبھاانتخاب کے دوران پانچ لوک سبھا ممبر بی جے پی کو چھوڑکر دوسری پارٹیوں میں شامل ہوئے تو 2016-2020 کے دوران کانگریس کے سات راجیہ سبھا ممبروں نے دوسری پارٹیوں کا ہاتھ تھاما۔
اے ڈی آر کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 2016 سے 2020 کے دوران ہوئے انتخابات میں کانگریس کے 170ایم ایل اے(42 فیصد)دوسری پارٹیوں میں شامل ہوئے تو اسی مدت میں بی جے پی کے صرف 18 ایم ایل اے(4.4 فیصد)نے دوسری پارٹیوں کا دامن تھاما۔
یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ غور کرنے والی بات ہے کہ مدھیہ پردیش، منی پور، گوا، اروناچل پردیش اور کرناٹک میں سرکار کا بننا بگڑنا ایم ایل اے کے پارٹی بدلنے کی بنیاد پر ہوا۔اس رپورٹ کےمطابق، 2016 سے 2020 کے دوران پارٹی بدل کر راجیہ سبھا انتخاب پھر سے لڑنے والے 16 راجیہ سبھا ممبروں میں سے 10بی جے پی میں شامل ہوئے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ایم ایل اے کے پارٹی بدلنے کی وجہ سے ان پانچ سالوں میں مدھیہ پردیش، منی پور، گوا، اروناچل پردیش اور کرناٹک کی سرکاریں گر گئیں۔
سال 2016 سے 2020 کے بیچ کل 12 لوک سبھا ایم پی نے پارٹی بدل کر دوبارہانتخاب لڑا۔ ان میں سے پانچ (41.7 فیصدی)ایم پی 2019 کے لوک سبھا انتخاب کے دوران بی جے پی چھوڑکر دوسری پارٹی میں شامل ہو گئے۔ لگ بھگ اتنے ہی لوک سبھا ایم پی کانگریس میں شامل ہوئے۔
پارٹی بدلنے والے 16 راجیہ سبھا (43.8 فیصدی) ایم پی نے 2016 سے 2020 کے دوران کانگریس چھوڑکر دوسری پارٹی سے انتخاب لڑا۔
اے ڈی آر کے ان اعدادوشمار سے پتہ چلتا ہے کہ 357 ایم ایل اے جنہوں نے پارٹی بدل کر دوبارہ انتخاب لڑا، اس میں سے 170(48 فیصدی)نے جیت درج کی۔ اسمبلی کے ضمنی انتخابات میں پارٹی بدلنے والوں کی کامیابی کی شرح بہت زیادہ تھی۔ 48 پارٹی بدلنے والوں میں سے 39 یعنی81 فیصدی کا دوبارہ انتخاب کیا گیا۔
اے ڈی آر کی رپورٹ میں کہا گیا کہ جمہوریت لوگوں کی سرکار، لوگوں کے ذریعےاور لوگوں کے لیے سرکار پرمنحصر کرتی ہے، جہاں شہریوں کے مفاد ہمارے رہنماؤں کے ذاتی مفادات کے مقابلے سب سے اوپر ہیں۔
رپورٹ میں کہا گیا،‘ہندوستان کی پارلیامانی جمہوریت کی اخلاقی خصوصیات کےزوال کی وجہ سے بنیادی اصولوں پرمنفی اثر پڑا ہے۔ آیا رام، گیا رام سنڈروم اور پیسے اوراقتدار کے لیے کبھی ختم نہ ہونے والی بھوک اب ہمارے رہنماؤں اور سیاسی پارٹیوں کے لیےعام بات ہو گئی ہے۔’
پارٹی بدلنے کی سب سےاہم وجوہات میں قدروں پر مبنی سیاست کا نہیں ہونا، پیسے اور اقتدار کی لالچ،پیسے اور طاقت کے بیچ سانٹھ گانٹھ ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا،‘جب تک ان رجحانوں میں اصلاح نہیں ہوتی، ہماری موجودہ انتخابی اورسیاسی صورت حال اور بگڑے گی۔سیاست کوغیرجانبدار، آزد، قابل اعتماد،مساوات، ایمانداری اور بھروسےکی کسوٹی پر کھرے اترنے کی ضرورت ہے۔ یہ جمہوریت کا مذاق ہوگا، اگر ہم ان کمیوں کو درست نہیں کر پائے، جن کی وجہ سے رہنما پارٹی بدلتے جا رہے ہیں۔’
(خبررساں ایجنسی بھاشاکے ان پٹ کے ساتھ)