نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو (این سی آر بی)کی رپورٹ میں ماب لنچنگ کے اعداد وشمار کو شامل نہیں کیے جانے پر صفائی دیتے ہوئے وزارت داخلہ نے کہا کہ ان اعداد وشمار کو اس لیے شامل نہیں کیا گیا،کیونکہ وہ قابل اعتماد نہیں تھے اور ان میں غلط اطلاعات کے شامل ہونے کا خطرہ تھا۔
نئی دہلی: گزشتہ سوموار کو جاری کی گئی نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو (این سی آر بی)کی رپورٹ میں ماب لنچنگ کے اعداد وشمار کو شامل نہیں کیے جانے پر صفائی دیتے ہوئے وزارت داخلہ نےمنگل کو کہا کہ رپورٹ میں ان اعداد وشمار کو اس لیے شامل نہیں کیا گیا،کیونکہ وہ قابل اعتماد نہیں تھے اور ان میں غلط اطلاعات کے شامل ہونے کا خطرہ تھا۔
انڈین ایکسپریس کے مطابق،وزارت نے یہ بھی کہا کہ اس نے فرقہ وارانہ فسادات کے دوران ریپ، گائے کو لے کر قانون، ہیٹ کرائم اور صحافیوں اور آر ٹی آئی کارکنوں پر حملے جیسے جرائم کے 25 زمروں کے اعداد و شمار کو جاری نہیں کیا۔ وزارت داخلہ نے بیان میں کہا،’یہ دیکھا گیا ہے کہ کچھ بنائے گئے ایڈیشنل پیرا میٹر/زمرہ جات جرائم کے لیے حاصل اعداد و شمار قابل اعتماد نہیں ہیں اور ان کی تعریفوں کی غلط وضاحت کی گئی ہے۔ اس وجہ سے کچھ پیرامیٹر/ زمرہ جات جرائم سے متعلق اعداد وشمار شائع نہیں کیے گئے ہیں۔’
اپنے بیان میں وزارت نے ان زمروں کی تعداد جاری کی جن کے تحت اعداد وشمار جمع تو کیے گئے لیکن ان کو جاری نہیں کیا گیا۔ ان میں ماب لنچنگ، کھاپ پنچایتوں کے ذریعے کیے گئے جرائم اور مذہبی مبلغوں کے ذریعے کیے گئے جرم شامل ہیں۔اس کے ساتھ ہی این سی آر بی نے فرقہ وارانہ فسادات کے دوران ریپ،ہیٹ کرائم، گئو کشی سے متعلق قانون، سی آر پی ایف کے ذریعے ہیومن رائٹس کی خلاف ورزی اور آنر کلنگ جیسے اعداد وشمار بھی جمع کیے گئے تھے۔
وہیں کچھ دوسرے زمروں میں جمع کیے گئے اعداد و شمار صحافی یا میڈیا سے جڑے لوگوں کے خلاف جرم، آر ٹی آئی کارکوں کے خلاف جرم،وہسل بلوور یا انفارمیشن دینے والوں کے خلاف جرم، سماجی کارکنوں یا کارکنوں کے خلاف جرم اور گواہوں کے خلاف جرم کے تھے۔
واضح ہو کہ این سی آر بی نے ایک سال تاخیرسے سوموار کو اپنے اعداد و شمار جاری تو کئے لیکن ماب لنچنگ، متاثر کن لوگوں کے ذریعے قتل، کھاپ پنچایت کے ذریعے دی جانے والی قتل کی سزا اور مذہبی وجہوں سے کیے گئے قتل سے متعلق جمع کیے گئے اعداد و شمار کو شائع نہیں کیا تھا۔
اس پر ایک افسر نے کہا، ‘یہ چونکانے والا ہے کہ ماب لنچنگ وغیرہ سے جڑے اعداد وشمار کو جاری نہیں کیا گیا۔ یہ اعداد و شمار پوری طرح سے تیار تھے۔ صرف اعلیٰ افسروں کو پتہ ہوگا کہ یہ اعداد و شمار کیوں نہیں جاری کئے گئے۔ ‘