نیشنل کمیشن فار پروٹیکشن آف چائلڈ رائٹس نے تمام ریاستوں اور مرکز کے زیر انتظام علاقوں کو لکھے گئے خط کے ساتھ اپنی ایک رپورٹ بھی بھیجی ہے، جس میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ مدارس بچوں کے تعلیمی حقوق کی خلاف ورزی کرتے ہیں۔
نئی دہلی: نیشنل کمیشن فار پروٹیکشن آف چائلڈ رائٹس (این سی پی سی آر) نے تمام ریاستوں اور مرکز کے زیر انتظام علاقوں کے چیف سکریٹریز کو خط لکھ کر سفارش کی ہے کہ مدرسہ بورڈ کو بند کیا جائے اور مدارس اور مدرسہ بورڈز کو دی جانے والی ریاستی فنڈنگ بھی روکی جائے۔اس کے ساتھ ہی مدارس میں پڑھنے والے بچوں کو اسکولوں میں داخل کیا جائے۔
کرناٹک کی کانگریس حکومت میں کابینہ کے ایک وزیر نے انڈین ایکسپریس کو بتایا کہ کمیشن کو ریاستوں سے فنڈنگ روکنے اور مدارس کو بند کرنے کے لیے کہنے کے بجائے حل بتانا چاہیے۔ انہوں نے کہا، ‘مہاراشٹر حکومت کی جانب سے مدرسہ کے اساتذہ کی تنخواہوں میں تین گنا اضافہ کرنے کے فیصلے کے چند دن بعد اس خط کودیکھناافسوسناک ہے۔’
مرکزی حکومت میں بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی اتحادی لوک جن شکتی پارٹی (ایل جے پی) کے ترجمان اے کے باجپائی نے انڈین ایکسپریس کو بتایا،’اگر کوئی مدرسہ غیر قانونی طور پر چل رہا ہے تو اسے بند کر دینا چاہیے۔ لیکن آنکھ بند کر کے کچھ بھی نہیں کرنا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ انہیں اس بات کا علم نہیں ہے کہ کیا این سی پی سی آر نے ریاستوں سے کوئی منفی رپورٹ ملنے کے بعد یہ خط لکھا ہے۔
این سی پی سی آر کے چیئرمین پریانک قانون گو کی طرف سے 11 اکتوبر کو لکھے گئے خط میں کہا گیا ہے ،’یہ بھی سفارش کی جاتی ہے کہ تمام غیر مسلم بچوں کو مدارس سے نکالا جائے اور انہیں رائٹ ٹو ایجوکیشن (آر ٹی ای) ایکٹ 2009 کے مطابق بنیادی تعلیم حاصل کرنے کے لیے اسکولوں میں داخلہ دیا جائے۔ ساتھ ہی، مدرسہ جانے والے مسلم کمیونٹی کے بچوں کو بھی اسکولوں میں داخل کیا جانا چاہیے- چاہے وہ تسلیم شدہ یا غیر تسلیم شدہ مدارس میں پڑھتے ہوں – تاکہ وہ آر ٹی ای ایکٹ، 2009 کے مطابق طے شیڈول اور نصاب کے مطابق تعلیم حاصل کریں۔’
کمیشن نے خط کے ساتھ این سی پی سی آر کی تیار کردہ ایک حالیہ رپورٹ بھی بھیجی ہے، جس میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ مدارس بچوں کے تعلیمی حقوق کی خلاف ورزی کرتے ہیں۔ رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ مدارس کا نصاب آر ٹی ای ایکٹ کے مطابق نہیں ہے اور این سی پی سی آر نے نصاب میں ‘بے ضابطگیاں’ پائی ہیں۔ نصاب میں ایسے اسباق پڑھائے جا رہے ہیں جو اسلام کی بالادستی کا دعویٰ کرتے ہیں۔
یہ بھی دعویٰ کیا گیا ہے کہ این سی پی سی آر کی ریاستی عہدیداروں کے ساتھ بات چیت میں یہ پایا گیا کہ مدارس میں نیشنل کونسل فار ٹیچنگ ایجوکیشن (این سی ٹی ای)کے ذریعے طے شدہ تربیت یافتہ اور قابل اساتذہ کی کمی ہے، اور مدارس میں اساتذہ زیادہ تر قرآن اور روایتی طریقوں پر منحصر ہیں۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ بچوں کو نااہل اساتذہ کے ہاتھ میں چھوڑ دیا گیا ہے۔
رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ یہ ادارے اسلامی تعلیم فراہم کرتے ہیں اور ‘سیکولرازم کے بنیادی اصول پر عمل نہیں کر رہے ہیں۔’ مدارس بچوں کو ان سہولیات اور حقوق سے محروم کر دیتے ہیں جو ا سکولوں میں پڑھنے والے طلباء کو فراہم کی جاتی ہیں، جیسے کہ اسکول ڈریس، کتابیں اور مڈ ڈے میل۔ رسمی تعلیم دینے والے اسکولوں کو آر ٹی ای ایکٹ کے ذریعہ طے شدہ اصولوں پر عمل کرنے کی ضرورت ہے، لیکن مدارس کے لیے ایسا کوئی نظام نہ ہونے کی وجہ سے ان کے کام کاج میں جوابدہی اور شفافیت کا فقدان ہے۔
رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ مدرسہ بورڈ غیر مسلموں اور ہندوؤں کو بھی اسلامی مذہبی تعلیم اور ہدایات فراہم کر رہے ہیں، جو کہ ہندوستان کے آئین کے آرٹیکل 28 (3) کی خلاف ورزی ہے۔ خط میں کہا گیا ہے کہ ریاستی حکومتوں کو ہندو اور غیر مسلم بچوں کو مدرسوں سے نکالنے کے لیے فوری اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔
پچھلے مہینے، این سی پی سی آر نے سپریم کورٹ کو بتایا تھا کہ مدارس میں دی جانے والی تعلیم جامع نہیں ہے، اس لیے یہ آر ٹی ای کے اہتماموں کے خلاف ہے۔