جب میڈیا وکاس یادو کے بارے میں قیاس آرائیوں میں مصروف تھا، وہ اپنے گھر آئے، اہل خانہ کے ساتھ وقت گزارا، انہیں تسلی دی اور واپس لوٹ گئے۔ وکاس کے گھر والے حکومت کے رویے سے ناخوش ہیں۔ انہیں لگتا ہے کہ ہندوستانی حکومت نے وکاس کو بچانے کی کوشش نہیں کی۔
ریواڑی: اپنے بیٹے کے بارے میں بات کرتے ہوئے سدیش یادو کی آواز ٹوٹنے لگتی ہے۔ آخر ایسا کیا ہوا کہ وکاس یادو کو اپنے گھر چھپ کر آنا پڑ رہا ہے؟ بیٹے پر آخر کون سا خطرہ منڈلا رہا ہے؟
آپ وکاس یادو کی زندگی کو کئی طرح سے دیکھ سکتے ہیں۔ ایک را ایجنٹ جن پر امریکی محکمہ انصاف نے خالصتانی عسکریت پسند کو قتل کرنے کی سازش کرنے کا الزام لگایا ہے۔ ایک افسر جن سے حکومت ہند نے دوری بناتے ہوئے نوکری سے برخاست کر دیا ہے، اور جو تقریباً ایک سال سے بے روزگار ہیں۔ ایک انسان جو معمولی سی پھروتی کے الزام میں تہاڑ جیل جا چکا ہے ۔ ایک نوجوان جن پر ان کے گاؤں کو فخر ہے کیونکہ انہوں نے ‘ملک کے لیے کام کیا ہے’۔ اور ایک بیٹا جن کی بوڑھی اور بیمار ماں منتظر ہے۔
دی وائر نے کچھ دن پہلے خبر دی تھی کہ 17 اکتوبر کو امریکی فرد جرم میں ان کا نام سامنے آنے کے بعد جب ان کے بارے میں قیاس آرائیاں ہو رہی تھیں، انہوں نے ریواڑی ضلع کے پران پورہ گاؤں میں اپنے گھر فون کر کے اپنے اہل خانہ کو یقین دلایا تھا کہ وہ خیریت سے ہیں اورمحفوظ ہیں۔
اب یہ بات سامنے آئی ہے کہ حال ہی میں جب پورے ملک کا میڈیا ان کے بارے میں قیاس آرائیاں کر رہا تھا تو وہ اپنے گھر پہنچے اور کئی گھنٹےوہاں رہے۔ ان کے اہل خانہ اور پڑوسیوں نے دی وائر سے تصدیق کی کہ وکاس یادو اس ہفتے گھر آئے تھے، انہوں نے اہل خانہ کے ساتھ کافی وقت گزارا، انہیں تسلی دی اور واپس لوٹ گئے۔ جس وقت وکاس یادو اپنے گھر آئے تھے اسی وقت ان کی بیوی ایکتا بھی پران پورہ آئی تھیں۔ حالانکہ دونوں شاید ایک ساتھ نہیں پہنچے تھے۔
گھر والوں کو نہیں معلوم کہ وکاس ان دنوں کہاں ہیں۔ اس پورے واقعہ سے اہل خانہ کافی پریشان ہیں۔ وہ نہ تو امریکی فرد جرم کو سمجھتے ہیں اور نہ ہی دہلی میں درج ایف آئی آر کوجس کے تحت وکاس کو تہاڑ جیل میں چار ماہ تک قید رکھا گیا تھا۔
ان کی ماں سدیش نے دی وائر سے کہا کہ ان کی باتیں حکومت تک پہنچا دیں: ‘میں حکومت سے اپیل کرتی ہوں کہ میرا بیٹا بحفاظت گھر لوٹ آئے۔ اس نے جو کچھ کیا، ملک کے لیے کیا۔’
پران پورہ میں ایک عجیب سی خاموشی پھیلی ہوئی ہے۔ لوگوں کو اب تک یقین نہیں ہو رہا کہ جس وکاس یادوکو وہ شرمیلا نوجوان سمجھتے تھے، وہ را کا افسر تھا اور حال ہی میں ان کا نام خالصتانی عسکریت پسند گروپتونت سنگھ پنوں کے قتل کی سازش میں امریکی فرد جرم میں آیا ہے۔
نوکری پکی کرانے کے لیے کیس بھی چھپایا گیا؟
حال ہی میں میڈیا میں شائع ہونے والی خبروں پر اہل خانہ کو یقین نہیں ہو رہا ۔ مثال کے طور پر، ایک خبر کے مطابق ، وکاس اپنی را کی نوکری پکی کرانے کے لیے کئی سالوں سے قانونی جنگ لڑ رہے تھے۔ انہوں نے نو سال تک را میں کام کیا لیکن سینٹرل ایڈمنسٹریٹو ٹریبونل (سی اے ٹی) میں مقدمہ جیتنے کے بعد 9 اکتوبر 2023 کو مستقل تقرری ملی۔
یہ سن کر ان کے گھر والے حیران ہیں۔’ وہ اتنے سالوں سے کیس لڑ رہے تھے؟ ہمیں کبھی کچھ نہیں بتایا،’ان کے گھر والے کہتے ہیں۔
اگرچہ یہ عجیب بات ہے کہ جس وقت ایک را کا ایجنٹ امریکہ میں قتل کی سازش کر رہا تھا، اسی وقت وہ اپنی نوکری بچانے کے لیے اسی را کے خلاف قانونی جنگ لڑ رہا تھا، تو یہ اور بھی عجیب بات ہے کہ اپنے اعلیٰ افسران کو درد بھرے خط لکھ کر نوکری کی درخواست کرنے والے انسان نے کبھی اپنا دکھ اپنے گھر والوں کو نہیں بتایا۔
یہ بات تو سمجھ میں آتی ہے کہ ایک انٹلی جنس افسر اپنا مشن اپنے گھر والوں سے چھپالے جائے گا، لیکن کیاتقریباً ایک دہائی تک اپنی نوکری پکی کروانے کے لیےقانونی مقدمہ لڑنے والا اور تمام ذہنی پریشانیاں برداشت کرنے والا انسان کبھی اپنے گھر والوں کو اس کیس کے بارے میں نہیں بتائے گا؟
اسی طرح خاندان کو یقین نہیں ہو رہا کہ گزشتہ دسمبر میں دہلی پولیس نے وکاس یادو کو پھروتی کے ایک کیس میں گرفتار کیا تھا، جس کے بعد وہ کئی ماہ تک تہاڑ جیل میں قید رہے، جبکہ اس دوران وکاس اپنے گھر والوں کو باقاعدگی سے فون کرتے رہے تھے۔
کیا کوئی بڑی سچائی ہے جو ان کے گھروالوں سے چھپائی جا رہی ہے؟
اگر ایک طرف وکاس یادو کا خاندان حکومت کے بیانات اور میڈیا رپورٹس پر بھروسہ نہیں کر رہا ہے تو دوسری طرف وہ حکومت کے رویے سے بھی ناخوش ہے۔ انہیں لگتا ہے کہ ہندوستانی حکومت نے وکاس کو بچانے کی کوشش نہیں کی۔ خاندان کے کچھ افراد کو یہ بھی لگتا ہے کہ گزشتہ سال حکومت ہند کی جانب سے انہیں ملازمت سے برخاست کرنے کے بعد وکاس کی مالی حالت خراب چل رہی ہے۔
‘اس حکومت میں بہت ایروگینس ہے۔’ گاؤں والے کہتے ہیں اور جوڑتے ہیں کہ یہ حکومت خود کو بچانے کے لیے کچھ بھی کر جائے گی۔
یہی جذبات وکاس یادو کے پڑوس میں رہنے والے ایک بزرگ جوڑے کے بھی ہیں۔ ‘پورے گاؤں کا سر فخر سے بلند کر دیا۔ عسکریت پسند کوماردیا،’ ستر سالہ شیلا یادو کہتی ہیں، پھر یہ بھی جوڑتی ہیں، ‘مارا نہیں ، بچ گیا۔ لیکن سب کا نام روشن کر دیا… تو ایسا کر سکتا ہے؟’
ان کے شوہر لال چند یادو ان کے پاس چارپائی پر بیٹھے ہیں۔ لال چند ہندوستانی فوج میں تھے اور اسی کی دہائی میں کولمبو میں تعینات تھے۔
اس خاندان کے پاس دو خوبصورت گائیں ہیں، ایک جرسی اور ایک دیسی۔ وکاس کی ڈیڑھ سال کی بیٹی اور اپنی پوتی تارینی کے لیےسدیش یہیں سے دودھ لے جاتی ہیں۔’گائے کا دودھ بچوں کے لیے اچھا ہوتاہے،’یادو خاندان کہتا ہے۔
یہاں سے وکاس یادو کی زندگی میں ایک نئے باب کا اضافہ ہوتا ہے۔ وکاس کی ننھی بٹیا اپنی دادی کے ساتھ رہتی ہے۔ اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ وکاس ان دنوں کسی خفیہ جگہ پر ہیں تو ان کی بیوی ایکتا؟ اتنی چھوٹی بچی ماں کے بجائے اپنی دادی کے پاس کیوں رہتی ہے؟
نہ خاندان، نہ گاؤں، ایکتا کے بارے میں کوئی نہیں جانتا۔ بس اتنا معلوم ہے کہ ان کا تعلق راجستھان سے ہے اور ان دونوں کی شادی تقریباً ایک دہائی قبل جئے پور میں ہوئی تھی۔
قدامت پسند روایات کی گرفت میں رہنے والے ہریانہ کے اس گاؤں میں اس گھر کی بہو کے بارے میں کوئی معلومات نہیں ہے، یہاں تک کہ خود خاندان کو بھی نہیں۔
پران پورہ یادو اکثریتی گاؤں ہے۔ اہیروں کے پاس زمین اور جانور ہیں، جبکہ درج فہرست ذاتوں کے پاس نہ تو کھیتی کے لائق زمین ہے اور نہ ہی جانور۔ لیکن اس چھوٹے سے گاؤں میں سویگی اور زومیٹوآگئے ہیں۔ سندیپ کمار کا تعلق دلت برادری سے ہے، وکاس یادو کے گھر سے تھوڑی دور اپنی بیوی اور ڈیڑھ سال کے بچے کے ساتھ رہتے ہیں۔ چونکہ ان کے پاس کھیتی باڑی کا سہارا نہیں ہے، اس لیے وہ ریواڑی ضلع کے کئی گاؤں میں سویگی اورزومیٹو کے ذریعے سامان پہنچاتے ہیں۔
پران پورہ کے لوگوں کو سویگی سے نہ صرف کھانے کی اشیاء بلکہ راشن کی اشیاء بھی ملتی ہیں۔ یہ رجحان کس طرح دیہی معیشت کو متاثر کرے گا یعنی گلیوں میں دکانداروں کے ساتھ گاؤں کی ثقافت پر، ابھی اس کا مشاہدہ کرنا باقی ہے۔
چیت رام اس گاؤں کے ایک اور دلت ہیں۔ وہ وکاس کے والد رام سنگھ یادو کے قریبی دوست تھے۔ رام سنگھ کی موت کے بعد چیت رام کا یادو خاندان سے رابطہ کچھ کم ہو گیا، لیکن حالیہ خبروں کے بعد وہ ان کی خیریت دریافت کرنے ان کے گھر گئے تھے۔ کچھ دن پہلے یہیں ان کی ملاقات وکاس سے ہوئی تھی، جب وہ گھر آئے تھے۔
اس طرح یہ ٹھہرا ہوا گاؤں اچانک ایک تناؤ کے ساتھ جینے لگا ہے، یہ احساس کہ ان کے گاؤں کے لڑکے کے ساتھ انصاف ہونا چاہیے۔ امریکہ سے خبریں آنے کے بعد وکاس کی والدہ کی طبیعت بگڑ گئی، جس کے بعد وکاس انہیں دیکھنے اور تسلی دینے آئے تھے۔ سبز رنگ کی شلوار قمیض پہنے سدیش اب بھی پریشان نظر آتی ہیں۔ وہ کچھ کہتے ہوئے رک جاتی ہیں اور الفاظ ڈھونڈنے لگتی ہیں۔
‘ماں کا کیا ہے… بچے ٹھیک رہنے چاہیے… کیا آپ ہماری بات اوپر لے جا سکتے ہیں؟’
یہ اس شام ماں کے آخری الفاظ تھے۔