وزیر اعظم نریندر مودی نے گزشتہ دنوں اپوزیشن کو نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ ‘جب کورٹ کوئی فیصلہ سناتا ہے تو کورٹ پر سوال اٹھایا جاتا ہے…(کیونکہ) کچھ پارٹیوں نے مل کر بھرشٹاچاری بچاؤ ابھیان (بدعنوانی کرنے والے کو بچانے کی مہم)چھیڑا ہوا ہے۔’ تاہم یہ کہتے ہوئے وہ بھول گئے کہ جمہوریت کا کوئی بھی تصور ‘عدالت پر سوالوں’ سے منع نہیں کرتا۔
وزیر اعظم نریندر مودی نے منگل (28 مارچ) کو اپوزیشن کے خلاف ایک نئی ‘مواخذے’ جیسی تحریک پیش کی – دراصل دارالحکومت دہلی میں اپنی پارٹی کے نئے مرکزی دفتر کا افتتاح کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ‘جو لوگ (اپوزیشن لیڈر) بدعنوانی میں ملوث ہیں،ان پر ایجنسیاں (انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ اور سینٹرل بیورو آف انویسٹی گیشن وغیرہ) کارروائی کرتی ہیں تو ایجنسیوں پر حملہ کیا جاتا ہے، اتنا ہی نہیں،’جب کورٹ فیصلہ سناتا ہے تو کورٹ پر سوال اٹھایاجاتا ہے… (کیونکہ) کچھ جماعتوں نے مل کر بھرشٹاچاری بچاؤ ابھیان (بدعنوانی کرنے والے کو بچانے کی مہم)چھیڑا ہوا ہے۔
عدالت پر اٹھنے والے سوال کو ‘ بھرشٹاچاری بچاؤ ابھیان’ سے جوڑنے کا مطلب واضح ہے کہ، وہ ان سوالات کو اس مبینہ مہم کی طرح ہی قابل مذمت سمجھتے ہیں۔ یوں، ہم جانتے ہیں کہ وہ اپنے یا اپنی حکومت کے فیصلوں کے خلاف اٹھنے والے سوالوں کو بھی پوچھنے والوں کا جمہوری حق نہیں سمجھتے۔
لیکن کورٹ پر سوالوں کے حوالے سے ان کے اعتراضات، ان کی تکلیف اور غم اس لحاظ سے عجیب وغریب ہیں کہ ان سوالوں پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے وہ یہ بھی بھول گئے کہ اس ملک نے ایسا دور بھی دیکھا ہے، جب ان کی پارٹی عدالتوں کے فیصلے تو فیصلے، فیصلہ کرنے کے حق تک پر ایک سے بڑھ کر ایک تلخ سوال اٹھایا کرتی تھی- کئی بار تو آسمان بھی سر پر اٹھا لیتی تھی۔
یادکیجیے، رام جنم بھومی بابری مسجد کا تنازعہ ناسور بنا ہوا تھا، تو وہ یہ کہہ کر اس کے حل کی راہ کو مزید مشکل بنا دیتی تھی کہ عدالتیں عقائد کے معاملات کا فیصلہ ہی نہیں کر سکتیں۔ تاہم یکم فروری 1886 کو فیض آباد کے اس وقت کے ڈسٹرکٹ جج کرشن موہن پانڈے نے اپنے ضمیر کی آواز پردوسرے فریق کوسنے بغیرہی متنازعہ بابری مسجد کے 37 سال سے بند تالے کھولنے کا حکم دیا تو وہ خوش تھی اور تنازعہ کے سپریم کورٹ پہنچنے تک’ مطمئن ‘تھی کہ فیصلہ ان کے حق ہی میں آئے گا۔
بہرحال، اس سے بھی زیادہ افسوسناک بات یہ ہے کہ کورٹ پر سوالوں کی خلش کہیں یا تپش ، اس نے وزیر اعظم کو اس قدر تکلیف میں مبتلا کر دیا کہ انہیں یہ بھی یاد نہیں رہا کہ اس ملک تو کیا دنیابھر میں ‘اقتدار سے آزاد’ عدالتی نظام کی کل عمر زیادہ سے زیادہ وہی ہے جو جمہوریت کی ہے۔ اس سے پہلے کے شاہی نظام میں، ‘بادشاہ کہے سو انصاف’ ہوا کرتا تھا – چاہے یہ بادشاہ کے بجائے قاضی یا کسی اور عدالتی افسر کے حکم سے موصول ہو۔
فطری طور پر اس انصاف کے متاثرین کی تعداد اس سے فائدہ اٹھانے والوں سے زیادہ ہوا کرتی تھی – یہاں تک کہ مشہور جہانگیری انصاف کے دور میں بھی- اور اس پر براہ راست اور بالواسطہ طور پر بہت سے سوالات اٹھائے جاتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ اُردو یا ریختہ کی شاعری میں ایسے سوالات بکثرت پائے جاتے ہیں۔
مثلاً؛ انصاف کی راہ میں، کافر-مومن، امیر-غریب، چھوٹے-بڑے اور گورے-کالے وغیرہ کی تفریق کا شکار شاعر جہاں براہِ راست پوچھتا ہے؛ وہی قاتل، وہی شاہد، وہی منصف ٹھہرے،اقربا میرے کریں قتل کا دعویٰ کس پر؟ وہیں امیرقزلباش کی انصاف ملنے کی ناامیدی اس حد تک پہنچ جاتی ہے کہ وہ کہتے ہیں؛ اسی کا شہر، وہی مدعی، وہی منصف، ہمیں یقیں تھا، ہمارا قصور نکلے گا۔
ملک زادہ منظور احمد ‘فیصلوں میں طرفداری’ کی بات کرتے ہوئے کہتے ہیں: وہی قاتل، وہی منصف، عدالت اس کی، وہ شاہد،بہت سے فیصلوں میں اب طرفداری بھی ہوتی ہے، تو عبدالحمید عدم نے انصاف کا بھرم ہی توڑ دیا کہ؛
ہم کو شاہوں کی عدالت سے توقع تو نہیں
آپ کہتے ہیں تو زنجیر ہلا دیتے ہیں
یہ سلسلہ بالآخر جگت موہن لال رواں کے اس نیتجےتک پہنچتا ہے: پیش تو ہوگاعدالت میں مقدمہ بے شک ، جرم قاتل کے ہی سر ہو یہ ضروری تو نہیں–افضل منہاس کےاس نتیجے: کیا فیصلہ دیا ہے عدالت نے چھوڑیے، مجرم تو اپنے جرم کا اقبال کر گیا… اور منظر بھوپالی کے اس ‘جواب’ پر بھی: آپ ہی کی ہے عدالت، آپ ہی منصف، یہ تو کہیے آپ کے عیب وہنر دیکھے گا کون؟ … کیا ایک دن مظلوم بن جائیں گے ظلموں کا جواب؟ اپنی بربادی کا ماتم عمر بھر دیکھے گاکون؟
اتنا ہی نہیں، ایک شاعر کوکورٹ’مظلوم ہیں سولی پہ قاتل ہے تماشائی’ جیسے حالات کا باعث لگتے ہیں، تو چندرامنی ترپاٹھی اس کو رواداری سےتعبیر کرتے ہیں: سچ آج عدالت میں لڑ کھڑا کر گر پڑا،وشواس بہت تھا اسے گیتا قرآن پہ۔ راحت اندوری بھی پوچھ ہی گئے ہیں ؛ انصاف ظالموں کی حمایت میں جائے گا، یہ حال ہے تو کون عدالت میں جائے گا؟
بات صرف شاعروں کی نہیں ہے۔ مولانا ابوالکلام آزاد نے اپنے خلاف سیڈیشن کے معاملے میں (جس میں انگریز مجسٹریٹ نے انہیں ایک سال قید بامشقت کی سزا سنائی تھی)قول فیصل کے نام سے24 جنوری 1922 کو دیے اپنے تحریری بیان میں بھی کورٹ پرکوئی کم سوال نہیں اٹھائے تھے۔یہاں تک لکھ ڈالا تھا کہ تاریخ عالم کی سب سے بڑی ناانصافیاں میدان جنگ کے بعد عدالت کے ایوانوں میں ہوئی ہیں۔
ان کے مطابق،دنیا کے مقدس بانیان مذہب سے لے کر سائنس کے محققین اور مکتشفین تک، کوئی پاک اورحق پسند جماعت نہیں ہے جو مجرموں کی طرح عدالت کے سامنے کھڑی نہ کی گئی ہو … عدالت کی ناانصافیوں کی فہرست بڑی ہی طولانی ہے۔ تاریخ آج تک اس کے ماتم سےفارغ نہ ہو سکی۔ ہم اس میں حضرت عیسیٰ جیسے پاک انسان کو دیکھتے ہیں جو اپنے عہد کی اجنبی عدالت کے سامنے چوروں کے ساتھ کھڑے کیے گئے تھے۔ ہم کو اس میں سقراط نظر آتا ہے، جس کو صرف اس لیے زہر کا پیالہ پینا پڑا کہ وہ اپنے ملک کا سب سے زیادہ سچا انسان تھا۔ ہم کو اس میں فلورنس کے فداکار حقیت گیلیلیو کا نام بھی ملتا ہے، جو اپنی معلومات و مشاہدات کو اس لیے جھٹلا نہ سکا کہ وقت کی عدالت کے نزدیک ان کا اظہار جرم تھا۔
انہوں نے لکھا تھا؛ سٹر مجسٹریٹ! ہمارے حصے میں یہ مجرموں کا کٹہرا آیا ہے، تمہارے حصے میں وہ مجسٹریٹ کی کرسی… مؤرخ ہمارے انتظار میں ہے، اور مستقبل کب سے سے ہماری راہ تک رہا ہے۔ہمیں جلد از جلد یہاں آنےدو، اورتم بھی جلد جلد فیصلہ لکھتے رہو…. یہاں تک کہ ایک دوسری عدالت کا دروازہ کھل جائے۔ یہ خدا کے قانون کی عدالت ہے۔ وقت اس کا جج ہے۔ وہ فیصلہ لکھے گا، اور اسی کا آخری فیصلہ ہوگا۔
‘کورٹ پر سوال’ کو پریم چند نے بھی ‘مجرم بچاؤ’ مہم کا حصہ نہیں مانا تھا۔ ورنہ وہ اپنی مشہور کہانی ‘نمک کا داروغہ’ میں یہ سب کیوں لکھتے کہ؟ قانون اور حق و انصاف یہ سب دولت کے کھلونے ہیں… انصاف علم اور پنچ حرفی خطابات اور لمبی داڑھیاں اور ڈھیلے ڈھالے چغے ایک بھی حقیقی عزت کے مستحق نہیں… عدالت کا دربار تھا لیکن اس کے ارکان پر دولت کا نشہ چھایا ہوا تھا … استغاثہ کی شہادتیں ضرور تھیں لیکن ترغیبات سے ڈانوا ڈول۔!
اودھ کی لوک کہانی بھی بذات خودکورٹ پر سوال ہی ہے، جو بتاتی ہے کہ ایک مکار اور فریبی نے پہلے ایک معاملے میں تو انصاف کی کرسی پر بیٹھے بادشاہ کو ایک کھوکھلے درخت کی گواہی سننے پر آمادہ کیا، پھر اپنے باپ کو درخت کے اندربٹھادیا۔ اس تاکید کے ساتھ بادشاہ درخت سے جو بھی سوال کرے، وہ کہیں بیٹھے بیٹھے اپن بیٹے کے مفاد میں جواب دے۔ اس طرح کہ بادشاہ کو لگے کہ درخت ہی جواب دے رہا ہے۔ لیکن دوسرے فریق کو اس کی چالاکی کا احساس ہوگیا۔ پہلے درخت کی گواہی پر سوال اٹھائے، پھر درخت میں آگ لگا دی۔ پھرتو مکار کا باپ ‘تراہیمام ‘ کرتے ہوئے باہر نکل آیا اور سارا بھانڈہ پھوٹ گیا۔
یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ جمہوریت کا کوئی تصور ‘کورٹ پر سوال’ سے منع نہیں کرتا۔ اس سے صرف یہ توقع کی جاتی ہے کہ جو بھی سوال اٹھیں، قواعد و ضوابط کے تحت اٹھیں ۔ مانتا ہے کہ مقننہ اور ایگزیکٹو کی طرح عدلیہ بھی ریاست کا حصہ ہے اور ان کی طرح یہ بھی غیر تنقیدی نہیں ہے۔ جب بھی انصاف کے تئیں اس کے عزم میں کوتاہی نظر آتی ہے تو اس پر سوال اٹھتے ہی ہیں۔ اس وقت بھی جب وہ انصاف میں اتنی تاخیر کر دے کہ وہ ناانصافی میں بدل جائے۔
عدالتوں کے فیصلوں کے خلاف اپیلیں بھی (جنہیں عدالتیں متاثرین کا حق سمجھتی ہیں، ان کے لیے وقت دیتی ہیں اور اس وقت تک فیصلوں پر عمل درآمد روکتی رہتی ہیں) ان پر مختلف انداز میں سوال ہی ہوتے ہیں۔ ہاں، سوال اٹھانے محض سے عدالت کا فیصلہ ناپاک نہیں ہو جاتا اور نہ ہی اس کی توہین ہوتی ہے- عدالتی معیار پر پرکھااورکھرا ہے تو اگلے عدالتی تحقیقات میں مزید شدت کے ساتھ سامنے آتا ہے جس سے انصاف کی راہ ہموار ہوتی ہے۔
پھر بھی وزیر اعظم نےدانستہ یا نادانستہ جیسے بھی ان سب باتوں کو نظر انداز کرتے ہوئے عدالت پر سوال اٹھانے والوں کی مذمت (دراصل، انہوں نے جس انداز میں یہ بات کہی ہے وہ تنقید سے زیادہ مذمت ہی لگتی ہے) پر اتر کر یہی ظاہر کیا ہے کہ اپوزیشن کہتی ہےکہ وہ تیزی سے آمریت کی طرف بڑھ رہے ہیں، تو غلط نہیں کہتی۔
(کرشن پرتاپ سنگھ سینئر صحافی ہیں۔)