اتوار کو وزیر اعظم نریندر مودی کے ذریعے ٹوئٹر پر اپنے نام کے ساتھ چوکیدار لگانے کے بعد 2016 میں لاپتہ ہوئے طالب علم نجیب احمد کی ماں فاطمہ نفیس نے ان سے پوچھا کہ ملک کی اعلیٰ ترین ایجنسیاں کیوں نجیب کو ڈھونڈنے میں ناکام رہیں۔
نئی دہلی: گزشتہ اتوار کو وزیراعظم نریندر مودی نے اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ کا نام ‘ نریندر مودی ‘ سے بدلکر ‘ چوکیدار نریندر مودی ‘ کر لیا۔ اس کے بعد بی جے پی صدر امت شاہ سمیت پارٹی کے تمام اعلیٰ رہنماؤں نے ٹوئٹر اکاؤنٹ پر اپنے نام سے پہلے ‘ چوکیدار ‘ لفظ کا اضافہ کر لیا ہے ۔اس بیچ تقریباً دو سال سے جے این یو کے گمشدہ طالب علم نجیب احمد کی ماں نے وزیراعظم نریندر مودی سے سوال کیا ہے کہ اگر آپ چوکیدار ہیں تو میرا بیٹا کہاں ہے؟
ٹوئٹر پر نجیب کی ماں فاطمہ نفیس نے وزیر اعظم کے ٹوئٹ پر سوال کیا، ‘ اگر آپ چوکیدار ہیں تو بتائیے میرا بیٹا نجیب کہا ہیں؟ اے بی وی پی کے غنڈےکیوں نہیں گرفتار کئے گئے؟ کیوں تین بڑی ایجنسیاں میرے بیٹے کو تلاش کرنے میں ناکام رہیں؟ ‘
If you are a chowkidar then tell me
where is my son Najeeb ?Why Abvp goons not arrested ?
Why three toped agencies failed to find my son ? #WhereIsNajeeb https://t.co/5GjtKSTIDh— Fatima Nafis (@FatimaNafis1) March 16, 2019
اس سے پہلے اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ کے نام میں ‘ چوکیدار ‘ لفظ جوڑتے ہوئے وزیر اعظم نریندر مودی نے کہا تھا، ‘ آپ کا چوکیدار مستعد کھڑا ہے اور ملک کی خدمت کر رہا ہے۔ لیکن میں اکیلے نہیں ہوں، جو بھی بد عنوانی، گندگی اور سماجی برائیوں کے خلاف لڑ رہا ہے، وہ چوکیدار ہے۔ جو بھی ہندوستان کی ترقی کے لئے سخت محنت کر رہا ہے، وہ چوکیدار ہے۔ آج ہر ہندوستانی کہہ رہا ہے MainBhiChowkidar#۔ ‘
فاطمہ نفیس نے اسی ٹوئٹ کو کوٹ کرتے ہوئے وزیر اعظم سے سوال کیا ہے۔غور طلب ہے کہ نجیب جے این یو کے ماہی مانڈوی ہاسٹل سے 15 اکتوبر 2016 کو غائب ہو گیا تھا۔ واقعہ سے ایک رات پہلے اکھل بھارتیہ ودیارتھی پریشد سے جڑے کچھ طالب علموں کے ساتھ اس کا مبینہ طور پر تنازعہ ہوا تھا۔اس کو لےکر جے این یو سمیت دہلی کی کئی جگہوں پر مظاہرے ہوئے اور تفتیش کی مانگ کی گئی۔
اس کے بعد یہ معاملہ سی بی آئی کے پاس گیا۔ حالانکہ ملک کی سب سے بڑی جانچ ایجنسی سی بی آئی بھی نجیب کو نہیں ڈھونڈ پائی ہے۔گزشتہ سال آٹھ اکتوبر کو دہلی ہائی کورٹ نے جے این یو طالب علم نجیب کی گمشدگی کے معاملے میں سی بی آئی کو کلوزر رپورٹ سونپنے کی اجازت دے دی تھی۔ کورٹ نے نجیب کی ماں فاطمہ نفیس کے ذریعے دائر کئے گئے اس معاملے میں عرضی کو ختم کر دیا۔
ہائی کورٹ کی بنچ نے کہا تھا کہ نجیب کی ماں نچلی عدالت میں اپنی بات رکھ سکتی ہیں، جہاں رپورٹ دائر کی گئی ہے۔ فاطمہ نفیس نے ہائی کورٹ میں عرضی دےکر التجا کی تھی کہ ان کے بیٹے کا پتا لگانے کے لئے عدالت پولیس کو ہدایت دے۔
دراصل گزشتہ سال ستمبر مہینے میں سی بی آئی نے دہلی ہائی کورٹ کو بتایا تھا کہ اب تک اس کی تفتیش میں ایسا کوئی ثبوت نہیں ملا ہے جو دکھائے کہ کوئی جرم ہوا ہے۔ نہ ہی اس کو ایسا کوئی مواد ملا ہے جس کی بنیاد پر وہ ان 9 طالب علموں کو گرفتار کرے یا کوئی کارروائی کرے، جن پر نجیب کی فیملی کو شک ہے کہ انہوں نے ہی اس کو غائب کیا ہے۔
اس کے ساتھ ہی سی بی آئی نے ہائی کورٹ کو بتایا تھا کہ وہ نجیب احمد کے غائب ہونے کے معاملے کی تفتیش بند کر سکتی ہے کیونکہ اس کو اس معاملے میں کوئی ثبوت نہیں ملا ہے، اس لئے معاملے میں کلوزر رپورٹ داخل کر سکتے ہیں۔اسی کے بعد دہلی ہائی کورٹ نے سی بی آئی کو معاملے میں کلوزر رپورٹ داخل کرنے کی اجازت دے دی تھی۔