اگست 2017 سے شروع ہوئے فوجی مہم کی وجہ سے تقریباً 740000 روہنگیا لوگوں کوبارڈرپار بنگلہ دیش بھاگنا پڑا تھا۔روہنگیا لوگوں پر ظلم وبربریت کی جانچ کے لیے بنائے گئے میانمار کے پینل نے کہا کہ کچھ سکیورٹی اہلکاروں نے بے حساب طاقت کا استعمال کیا، جنگی جرائم کو انجام دیا اور ہیومن رائٹس کی سخت خلاف ورزی کی لیکن یہ جرائم قتل عام کے زمرے میں نہیں آتے ہیں۔
نئی دہلی: روہنگیا لوگوں پر ظلم و بربریت کی جانچ کے لیے بنائے گئے میانمار کا پینل سوموار کو اس نتیجےپر پہنچا کہ کچھ فوجیوں نے ممکنہ طورپرروہنگیا مسلمانوں کے خلاف جنگی جرائم کو انجام دیا لیکن فوج قتل عام کی مجرم نہیں ہے۔پینل کی اس جانچ کی ہیومن رائٹس گروپس نے مذمت کی ہے۔
اقوام متحدہ کی عدالت جمعرات کو اس بارے میں فیصلہ سنانے والی ہے کہ میانمار میں جاری مبینہ قتل عام کو روکنے کے لیے فوری تدابیر کرنے کی ضرورت ہے یا نہیں۔ اس کے ٹھیک پہلے ‘انڈیپنڈنٹ کمیشن آف انکوائری(آئی سی اوای نے اپنی جانچ کے نتیجے جاری کر دیے۔ جانچ کرنے والے پینل میں دو ممبرمقامی اور دوغیر ملکی ہیں۔
آئی سی اوای نے یہ قبول کیا کہ کچھ سکیورٹی اہلکاروں نے بے حساب طاقت کا استعمال کیا، جنگی جرائم کو انجام دیا اور ہیومن رائٹس کی سخت خلاف ورزی کی جس میں بے قصور لوگوں کا قتل کرنا اور ان کے گھروں کو تباہ کرنا شامل ہے۔ حالانکہ اس نے کہا کہ یہ جرم قتل عام کےزمرے میں نہیں آتے ہیں۔
پینل نے کہا، ‘اس نتیجےپر پہنچنے یا یہ کہنے کے لیے خاطر خواہ ثبوت نہیں ہیں کہ جو جرم کئے گئے وہ قومی،کمیونٹی، نسلی یامذہبی گروپوں کو یا اس کے حصہ کو تباہ کرنے کے ارادے سے کئے گئے۔’اگست 2017 سے شروع ہوئی فوجی مہم کی وجہ سے تقریباً 740000 روہنگیا لوگوں کو بارڈرپار بنگلہ دیش بھاگنا پڑا تھا۔
بودھ اکثریتی میانمار ہمیشہ سے یہ کہتا آیا ہے کہ فوج کی کارروائی روہنگیا شدت پسندوں کے خلاف کی گئی۔ دراصل شدت پسندوں نے کئی حملوں کو انجام دیا تھا جس میں بڑی تعداد میں سکیورٹی اہلکاروں کی موت ہوئی تھی۔یہ پہلی بار ہے جب میانمار کی طرف سے کی گئی کسی جانچ میں ظلم کرنے کو قبول کیا گیا۔
برمیج روہنگیا آرگنائزیشن یو کے نے پینل کے نتائج کو خارج کر دیا اور اس کو انٹرنیشنل عدالت کے فیصلے سے دھیان بھٹکانے کی کوشش بتایا۔اس کے ترجمان نے کہا کہ یہ روہنگیا لوگوں کے خلاف میانمار کی فوج کے تشدد سے دھیان بھٹکانے اور آنکھوں میں دھول جھونکنے کی کوشش ہے۔
ہیومن رائٹس واچ کے فل رابرٹسن نے کہا کہ رپورٹ میں فوج کو ذمہ داری سے بچانے کے لیے کچھ فوجیوں کو بلی کا بکرا بنایا گیا ہے۔
(خبررساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)