کنگنارناوت کے اشتعال انگیز بیانات پرشیوسینا کاردعمل ان کی غلط ترجیحات کو ظاہرکرتا ہے۔
مہاراشٹر کے سیاسی رہنما اورکنگنا رناوت آپس میں رام ملائی جوڑی ہیں۔ کنگنا سرخیاں بٹورنے کے لیے اور کسی نہ کسی پر حملہ بولنے کے لیے بےتکے بیان دیتی ہیں۔ہمیشہ نقلی چہرہ اوڑھے رہنے کی کوشش کرنے والی بزدل فلمی دنیا عوامی طور پرردعمل نہیں دیتی ہے۔ لیکن جب وہ رہنماؤں کو نشانہ بناتی ہیں، تو انہیں ایسا کوئی گریز نہیں ہوتا ہے وہ ان کے جال میں پھنس جاتے ہیں اور غصے میں آگ بگولا ہو جاتے ہیں۔
یہ کنگنا کے قدکو بڑھاتا ہے اور انہیں اور بھی اشتعال انگیز بیان دینے کے لیےراغب کرتا ہے۔ اور چونکہ بیان نجی طور پر دیے جاتے ہیں، اس لیے بھڑکائے جانے پر رہنماؤں کو خوشی ہوتی ہے۔ان سب کے بیچ اپنے سرکس کو جاری رکھنے اور ناظرین کو مطمئن کرنے کے لیے کے لیے ہر وقت تماشے کی تلاش میں مصروف ٹیلی ویژن شور کو بڑھا دیتا ہے۔
عوام خوش ہے۔ یہ سب کے لیے گھی میں انگلی والی حالت ہے سوائے لاکھوں کروڑوں ان بےسہارا شہریوں کے لیے، جو اپنی تنخواہ ، نوکریوں اور جان لیوا بیماری کو لے کر فکرمند ہیں۔رناوت نے ممبئی کو پاک مقبوضہ کشمیر (پی اوکے)کی طرح’بتایا ہے، جو پوری طرح سے غیرضروری اور انرگل بیان تھا، جس کا کسی بھی چیز سے کچھ بھی لینا دینا نہیں ہے۔
یہ کس کے قبضے میں ہے؟یا دونوں میں دراصل کتنی یکسانیت ہے؟ لیکن یہ ایک اچھا مسالہ ہے اور اس نے شیوسینا کو اتنا بھڑکا دیا کہ اس نے کنگنا کو یہ کہہ ڈالا کہ اگر انہیں ممبئی اچھی نہیں لگتی ہے، تو وہ یہاں سے چلی جائیں۔ریاست کے وزیرداخلہ انل دیشمکھ نے کہا کہ کنگنا کے خلاف ایک زمانے کے نوآموزاداکار کےذریعے لگائے گئے ڈرگس لینے کے الزامات کی جانچ کی جائےگی۔
کانگریس نے بھی پیچھے نہ رہتے ہوئے اسمبلی میں ان کے خلاف استحقاق کی تحریک چلائی ہے، کیونکہ انہوں نے نہ صرف شہر کی توہین کی، بلکہ ‘سنیکت مہاراشٹر آندولن'(1950 کی دہائی میں)میں ممبئی کے لیےجدوجہد کرنے والوں کی قربانیوں کی بھی توہین کی ہے۔
کنگنا نے ایسا کس طرح سے کیا ہے، اس کے بارے میں کچھ نہیں کہا گیا ہے۔ ان سب کے بیچ سینا کی بالادستی والی بی ایم سی نے ان کے گھر کا ایک حصہ توڑدیا ہے، جبکہ اس کارروائی پر روک کے لیے ان کی عرضی جس میں انہیں راحت دی گئی پر شنوائی ہی ہو رہی تھی۔
میونسپل کی جانب سے اس سطح کی کارکردگی دہائیوں میں نہیں دیکھی گئی۔یہ صاف ہے کہ یہ کارروائی انتقامی جذبے سے کی گئی، اس لیے کہ انہوں نے ممبئی کی‘توہین’کی۔مہاراشٹر میں مقتدرہ تین پارٹیوں کے اتحاد کے لوگوں کا کہنا ہے کہ کنگنا یہ سب بی جے پی کی شہ پر کر رہی ہیں اور انہیں بی جے پی کی مکمل حمایت ہے۔
حالات کے حساب سے دیکھا جائے تو یہ بات درست لگتی ہے کہ سابق وزیراعلیٰ دیویندرفڈنویس نے ان کا دفاع کیا ہے اور ان کے مکان پر بی ایم سی کی کارروائی کو ‘بزدلی اور بدلے’ کا کام بتایا ہے۔مرکز نے کنگنا کو وائی پلس سکیورٹی فراہم کی ہے، جو صاف طور پر پر ایک سیاسی قدم ہے، جس کا مقصد مہاراشٹر میں ان پر ممکنہ خطرے کی نشاندہی کرنا ہے۔ بی جے پی کے دیگر رہنما بھی ان کی حمایت کر رہے ہیں۔
ریاست کےسینا-این سی پی-کانگریس گٹھ بندھن کے رہنماؤں کے بیچ عام تصوریہ ہے کہ یہ سب ادھو ٹھاکرے کو کمزور کرنے کی چال ہے، جس کا مقصد ان کی سرکار کو گرانا ہے، کیونکہ پچھلے سال کےاسمبلی انتخابات میں ریاست کے ہاتھ سے نکل جانے کے بعد سے بی جے پی خود کو اب تک تسلی نہیں دے پائی ہے۔
پچھلے کچھ وقت سے وہاٹس ایپ پر ٹھاکرے کے خلاف ایک پروپیگنڈہ چل رہا ہے، جس میں یہ کہا جا رہا ہے کہ سشانت سنگھ راجپوت کی موت، جو خودکشی معلوم ہوتی ہے، میں کسی نہ کسی طور پرنوجوان آدتیہ ٹھاکرے شامل ہیں۔مریجوانا(ڈرگس)رکھنے کے لیے ریا چکرورتی کی گرفتاری کے بعد رناوت نے خود ہی‘ریا کے پیچھے کھڑے لوگوں’ کی طرف اشارہ کیا ہے۔ سینا کے ڈر کے پیچھے ایک وجہ ہو سکتی ہے۔
لیکن رناوت بھاڑے کی بندوق نہیں ہیں وہ تابڑ توڑ نفرت اور غیرمہذب لفظوں کے گولے داغنے میں خوشی محسوس کرتی ہیں اور ایسا کرنے کے لیے انہیں کسی کی مدد کی ضرورت نہیں ہوتی۔جب کرن جوہر کے شو میں انہوں نے اقرباپروری کے لیے جوہر کی تنقید کی، تو اسے ہاتھوں ہاتھ لیا گیا اور وہ ہیروئن کی طرح دیکھی جانے لگیں۔
انہوں نے خود کو بالی ووڈ کے مافیاؤں کے خلاف اکیلی جنگ لڑ رہی آؤٹ سائیڈر کے طور پر پیش کیا اور اس کے لیے انہیں‘لبرلز’ کی بھی تعریف ملی، جو ہمیشہ ان ہی کی عادتوں اور تصورات کے سانچوں میں فٹ ہونے والے کسی شخص کی تلاش میں لگے رہتے ہیں۔
رناوت نے کچھ اچھی فلمیں بنائی ہیں اور اپنی صلاحیت ثابت کی ہے، لیکن جلدی ہی ان کےسیاسی نظریات صاف ہو گئے ان کے نیشنل ازم کو لےکر کیے گئے ٹوئٹس، پاکستان کے ایک پروگرام کے لیے دعوت کوقبول کرنےپر شبانہ اعظمی اور جاوید اختر کی تنقید اور اور یہ کہنا کہ عدم تشدد کی وکالت کرنے والے لوگوں کا چہرہ کالا کرکے انہیں گدھے پر بٹھاکر گھمانا چاہیے، ان کے سیاسی نظریات کو لےکر کوئی بھرم نہیں رہنے دیتا۔
بھگوا رنگ میں رنگی ان کی فلم جھانسی کی رانی، جس میں رانی کی گایوں کے لیے ممتا کو دکھایا گیا تھا، اس بات کا صاف اشارہ تھا کہ کنگنا کہاں کھڑی ہیں۔ وہ بی جے پی کے لیے پوری طرح سے مناسب تھیں۔لیکن یہ سب جب ہو رہا تھا، تب بی جے پی سین میں کہیں نہیں تھی یہ کنگنا خود تھیں، جو اپنی ایک شخصیت گڑھ رہی تھیں، جس کے بارے میں انہیں پتہ تھا کہ وہ نایاب ہے اور انہیں کافی انعام دلا سکتا ہے۔
بی جے پی ان میں اپنا فائدہ دیکھ سکتی ہے اور وہ بھی اس کے ساتھ جانے میں خوشی محسوس کریں گی۔ وہ شیوسینا کو اکسانے کے بی جے پی کے بڑے کھیل کامہرہ ہو سکتی ہیں۔ لیکن سینا اور اس کے اتحادیوں کی انتہاپسندی غیرضروری ہے۔وہ آسانی سے ان کے لفظ کےتیروں کو نظر انداز کر سکتے ہیں اور انہیں وہ پروپیگنڈہ اور اعتبار دینے سے محروم کر سکتے ہیں، جس کی کنگنا کو تلاش ہے۔
رپورٹس کی مانیں تو این سی پی چیف شرد پوار، جو ریاست کے سب سے تجربہ کار اورتیز سیاست داں ہیں، نے ادھو ٹھاکرے کو ایسا ہی کرنے کو کہا ہے۔شیوسینا کے لیے اس مبینہ توہین کا جواب دینا ایک سیاسی مجبوری ہے۔ چونکہ سینا نے اپنی امیج مراٹھی مانش اور ممبئی کے رکھوالے کے طور پر بنائی، اس لیے اس کے لیے شہر کے وقار کی حفاظت کے لیے کھڑا دکھنا ضروری ہے۔
اور اس کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ وہ ایک جارحانہ اور اگر ضروری ہو تو پرتشدد راستہ بھی اپنائے جو ‘سینا کی شیلی’ مانی جاتی ہے اور جسے وہ کسی تمغے کی طرح پہنتی ہے۔یہ اچھی طرح سے جانتے ہوئے کہ وہ اب سرکار میں ہے اور ایک نئی طرح کی پارٹی کے طور پر نیا اوتار گرہن کر رہی ہے، وہ منھ کالا کرنے جیسے پرانے ہتھکنڈے کا استعمال نہیں کر سکتی ہے۔
اس لیے اس کی جگہ سیناتلخ بیانات اور کنگنا کے گھر پر بلڈوزر بھیجنے پر اتر آئی ہے۔ شیوسینا کی ایک وومین ونگ نے رناوت کی تصویر کی پٹائی کولہاپوری چپل سے بھی کی۔ اسے بھلے اس سے تسلی نہ ملے، لیکن اسے ایسا کرنا ہوگا۔لیکن غیر ضروری ردعمل ایک دیگر اور زیادہ بڑے سوال بھی اٹھاتی ہے۔ ممبئی کے وقار کی حفاظت کرنا ہمیشہ خوش آئند ہے، لیکن یہ کہنا کہ شیوسینا شہر کی محافظ ہے، اپنے آپ میں پریشانی کا باعث ہے۔
اسی طرح شہر کی توہین کا خیال بھی بحث طلب ہے کنگنا نے جو کہا وہ ٹھیک ٹھیک کس طرح سے توہین ہے اور وہ بھی اتنا بڑا کہ انہیں اس کی قیمت الگ الگ طریقوں سے چکانی پڑے؟آئے دن ممبئی کے لوگ شہر کے خستہ حال بنیادی ڈھانچے کی شکایت کرتے ہیں سڑکوں پر گڑھے، ہر مانسون میں پانی بھرجانا اور پبلک ٹرانسپورٹ اوردیگربہت سی باتوں کو لےکر۔
بی ایم سی کا ذکر لوگ اس کی الگ الگ نااہلی کو لےکر کرتے ہیں۔ سچائی یہ ہے کہ بی ایم سی کے اسٹاف کافی محنتی ہیں، بی ایم سی کے کئی شعبوں میں کچھ حقیقت میں باصلاحیت لوگ ہیں، لیکن ایک عام آدمی کے لیے سڑکوں پر دکھنے والے گڑھے خراب انتظام اور انتظامیہ کی گواہی دیتے ہیں۔
بی ایم سی پچھلے 25 سالوں سے شیوسینا کے ماتحت ہے ایسے میں اس کے پاس اپنےدفاع کا کوئی بہانہ نہیں رہ جاتا۔ لیکن جب بھی کوئی نامورشخص بی ایم سی کی تنقید کرتا ہے، تو وہ مشتعل ہو جاتی ہے۔کپل شرما نے ایک بار ٹوئٹ کیا تھا کہ ان سے 5 لاکھ روپے رشوت کے طور پر مانگے گئے۔ اس کے بعد ان کے گھر کے کچھ حصوں کو توڑ دیا گیا۔
ایک معروف ریڈیو جا کی ملیشکا مینڈونسا، جنہوں نے بارش کے موسم میں ممبئی کی پریشانیوں کو لےکر ایک چالاکی بھرا گانا گایا تھا، انہیں فوراً بی ایم سی نے یہ اطلاع دی کہ ان کی ماں کے اپارٹمنٹ میں مچھر پنپ رہے ہیں اور انہیں قانونی کارروائی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
وہیں شیوسینا کے ایک کونسلر نے کہا کہ ان کے خلاف 500 کروڑ روپے کا ہتک عزت کا مقدمہ دائر کرنا چاہیے۔ پارٹی نے ہمیشہ سے خود کو مراٹھی مانش کے مفاد کے محافظ کے طور پر پیش کیا ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اس شہر کے سچے باشندے ہیں۔
اس پارٹی کاقیام باہروالوں کے خلاف نفرت کو جنم دےکر ہوا بہت سے لوگوں کو یہ یاد نہیں ہے کہ شروعات میں یہ گجراتیوں کے خلاف بھی تھی، جو ممبئی کو گجرات کا حصہ بنانا چاہتے تھے۔جلدی ہی مختلف طرح کے نارتھ انڈین‘لنگی والے’- ان کے مرکز میں آ گئے، جن کے ریستوراں اور املاک کی توڑ پھوڑ کی گئی(کئی سالوں بعد نارتھی انڈین کی پٹائی کی گئی)۔
اس کاہندوتواوالااوتارنسبتاًنیا ہے 1980 کی دہائی کے آخر کے بعد کا۔ اس کے اہم حمایتی مراٹھی بھاشی ہیں جو چاہتے ہیں کہ کوئی ان کی نمائندگی کرے۔یہاں بھی شیوسینا پر اپنی حمایت گنوانے کا خطرہ ہے، کیونکہ ہندوتوا کے بڑے بھائی کے رول میں بی جے پی ہے اور مراٹھی یوتھ اس کی طرف مڑ سکتے ہیں۔
وہ یقینی طور پر نریندر مودی کی طرف راغب تھے اس کے علاوہ ممبئی حلقہ کے باہر شیوسینا کی حالت اتنی مضبوط نہیں ہے۔اپنی حمایت کو بچائے رکھنا اس کے لیے بےحد اہم ہے۔ ایسے میں کنگنا جیسے لوگ اس کے لیے اپنی سیاست کو دھار دینے کا اچھا موقع دیتے ہیں۔
لیکن شہر کے بقیہ حصہ، جو شیوسینا پر پوری طرح سے یقین نہیں کرتے ہیں، کو بنا کہی ہوئی بات بھی سمجھ میں آ گئی ہے کہ وہ آج بھی ‘باہری’ ہیں، اس لیے انہیں زبان سنبھال کر بولنا چاہیے۔
کنگنا کا برتاؤ چاہے کتنا بھی قابل مذمت رہا ہو، وہ بھی ممبئی کی اتنی ہی شہری ہیں، جتنا کہ کوئی اور جتنا کوئی رکشہ کھینچنے والا، کوئی نوجوان پیشےور، کوئی کاروباری، ہزاروں مرداورعورت جو شہر میں کام کرنے کے لیے آتے ہیں، یہاں رہتے ہیں، ٹیکس بھرتے ہیں اور روز کے سفر کی تکلیف اورپریشانی برداشت کرتے ہیں۔
ممبئی کے بننے میں ان سب کے خون پسینے کا بھی اتنا ہی رول ہے، جتنا مہاراشٹر کے لوگوں کا، جو یہاں کی ٹیکسٹائل ملوں میں کام کرنے کے لیے آئے اور انہوں نے یہاں کی تہذیب اور دانشورانہ زندگی میں بھی خدمات دیں۔لیکن ساتھ ہی پارسیوں، گجراتیوں، کچھیوں، بوہرہ جیسی مسلم کمیونٹی کاتجارتی شعور ، کماٹھی مزدوروں کے سخت محنت اور کئی یوروپیوں،عربیوں اور یہاں بسنے اور اپنی زندگی بنانے کے لیے آئے یہودیوں کا بھی اس شہر کی تعمیر میں اتنا ہی رول ہے۔
ممبئی کی تاریخ لوگوں کےاستقبال کی تاریخ ہے، نہ کہ لوگوں کو چلے جانے کے لیے کہنے کا۔ ممبئی ان سب سے ہے اور ان سب کی ہے، نہ کہ مقامی لوگوں کے فخرکی کوئی فرضی تعمیر، جیسا کہ ایک سیاسی پارٹی پیش کرتی ہے۔اور وہ لوگ اس وقت لمبی مسافرت، تیزی سے بڑھتی کووڈ 19، دن بہ دن خراب ہوتے معاشی حالات اور یقینی طور پر سڑکوں کے گڑھوں سے پریشان ہیں۔ کنگنا رناوت اور ان کے بڑبولے پن میں ان کی بالکل بھی دلچسپی نہیں ہے۔
شیوسینا اور ان کے ساتھی اس لیے ریاست کی ایک بڑی خدمت کریں گے اگر وہ کنگنا اور ان کی باتوں کو پوری طرح سے بھول جاتے ہیں اور اس بارے میں بات کرتے ہیں کہ وہ ان پریشانیوں کاحل کیسے کریں گے۔عالمی وبا اور لاک ڈاؤن کے شروعاتی دور میں ادھو ٹھاکرے کی تعریف ہوئی تھی اور ابھی بھی لوگوں کی دعا ان کے ساتھ بچی ہے۔ وہ اپنے عوامی بیانات میں کافی نپے تلے رہے ہیں اور نوجوان آدتیہ بھی اپنے لیے عزت کما رہے ہیں۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ وہ اپنی ساری توجہ پھر سے ایڈمنسٹریشن پر لگائیں اور پارٹی سے کنگنا کے ہاتھوں میں کھیلنے کی جگہ امن بنائے رکھنے کو کہیں۔اور ساتھ ہی ساتھ شیوسینا کو اور کچھ نہیں تو اپنےسیاسی مستقبل کے لیے اس پیغام کو مشتہر کرنا چاہیے کہ یہ ممبئی میں رہنے والے اور اسے پیار کرنے والے تمام لوگوں کی پارٹی ہے اور وہ اس شہر کو اور بہتر بنانے کے لیے ہر ممکن کوشش کرےگی۔