۔سائنسدان ایم ایس سوامی ناتھن نے دھان کی زیادہ پیداوار دینے والی اقسام تیار کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا، جس نے اس بات کو یقینی بنانے میں مدد کی کہ ہندوستان کے کم آمدنی والے کسان زیادہ پیداوار حاصل کرسکیں۔ کسانوں کے لیے بنائے گئے قومی کمیشن کے چیئرمین کے طور پر انھوں نے تجویزپیش کی تھی کہ ایم ایس پی پیداوار کی اوسط لاگت سے کم از کم 50 فیصد زیادہ ہونی چاہیے۔
نئی دہلی: ہندوستان میں سبز انقلاب کے بانی کے طور پر مشہور زرعی سائنسدان ایم ایس سوامی ناتھن کا جمعرات (28 ستمبر) کو چنئی میں انتقال ہوگیا۔ وہ 98 سال کے تھے۔
انہوں نے دھان کی زیادہ پیداوار دینے والی اقسام تیار کرنے میں کلیدی رول ادا کیا، جس نے اس بات کو یقینی بنانے میں مدد کی کہ ہندوستان کے کم آمدنی والے کسانوں کو زیادہ پیداوار حاصل ہو۔
سوامی ناتھن نے اپنے دور میں مختلف محکموں میں مختلف عہدوں پر کام کیا تھا۔
وہ انڈین ایگریکلچرل ریسرچ انسٹی ٹیوٹ (1961-72) کے ڈائریکٹر، آئی سی اے آر کے ڈائریکٹر جنرل اور حکومت ہند کے زرعی تحقیق اور محکمہ تعلیم کے سکریٹری (1972-79)، وزارت زراعت کے پرنسپل سکریٹری (1979-80)، قائم مقام نائب صدر اور بعد میں ممبر (سائنس اینڈ ایگریکلچر)، پلاننگ کمیشن (1980-82) اور انٹرنیشنل رائس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ، فلپائن کے ڈائریکٹر جنرل کے طور پر (1982-88) خدمات انجام دیں۔
انڈین ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق، 2004 میں سوامی ناتھن کو کسانوں کے لیے بنائے گئے قومی کمیشن کا چیئرمین مقرر کیا گیا تھا، جو خودکشی کے خطرناک واقعات کے درمیان کسانوں کی پریشانی کو دور کرنے کے لیےتشکیل دیا گیا تھا۔
کمیشن نے 2006 میں اپنی رپورٹ پیش کی اور اپنی سفارشات میں تجویز پیش کی کہ ایم ایس پی پیداوار کی وزنی اوسط لاگت سے کم از کم 50 فیصد زیادہ ہونی چاہیے۔
پسماندگان میں ان کی تین بیٹیاں سومیہ سوامی ناتھن، مدھورا سوامی ناتھن اور نتیہ سوامی ناتھن ہیں۔ ان کی اہلیہ مینا کا 2022 میں انتقال ہو گیا تھا۔
بتادیں کہ 7 اگست 1925 کو تمل ناڈو کے تنجاور ضلع میں پیدا ہوئے سوامی ناتھن ایک زرعی سائنس دان ہونے کے ساتھ ساتھ پودوں کے جینیاتی ماہر اور انسان دوست بھی تھے۔
ہندوستان ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق، انہوں نے 1949 میں آلو، گندم، چاول اور جوٹ کی جینیات پر تحقیق کر کے اپنے کیریئر کا آغازکیا تھا۔ جب ہندوستان ایک بہت بڑے قحط کے دہانے پر تھا، جس کی وجہ سے خوراک کی قلت کا مسئلہ پیدا ہوا، تب انہوں نے نارمن بورلاگ اور دیگر سائنسدانوں کے ساتھ مل کر گندم کی اعلیٰ پیداوار دینے والی قسم کے بیج تیار کیے تھے۔
سوامی ناتھن کو اقوام متحدہ کے ماحولیاتی پروگرام کے ذریعہ ‘فادر آف اکنامک ایکولوجی’ کے طور پر جانا جاتا ہے۔ انہوں نے ‘سبز انقلاب’ کی کامیابی کے لیے 1960 اور 70 کی دہائی کے دوران سی سبرامنیم اور جگ جیون رام کے سمیت زراعت کے وزراء کےساتھ کام کیا تھا۔
سبز انقلاب ایک ایسا قدم تھا، جس کی وجہ سے کیمیائی حیاتیاتی ٹکنالوجی کی موافقت کے ذریعےگندم اور چاول کی پیداواری صلاحیت میں تیزی سے اضافے کی راہ ہموار ہوئی تھی۔
سوامی ناتھن کو زیادہ پیداوار دینے والی گندم اور چاول کی اقسام کو تیار کرنے اور ان کی قیادت کرنےکے لیے سوامی ناتھن کو1987 میں پہلا عالمی فوڈ پرائز دیا گیا تھا، جس کے بعد انہوں نے چنئی میں ایم ایس سوامی ناتھن ریسرچ فاؤنڈیشن کا قیام کیا تھا۔
سوامی ناتھن کو پدم شری، پدم بھوشن اور پدم وبھوشن سے بھی نوازا جا چکا ہے۔
انہیں1971 میں ریمن میگسیسے ایوارڈ اور 1986 میں البرٹ آئنسٹائن ورلڈ سائنس ایوارڈ سے نوازا گیا تھا۔ کئی بین الاقوامی ایوارڈز کے علاوہ انہیں ایچ کے فرودیا ایوارڈ، لال بہادر شاستری نیشنل ایوارڈ اور اندرا گاندھی ایوارڈ سے بھی نوازا جا چکا ہے۔
ملک میں اپنے کام کے علاوہ سوامی ناتھن عالمی سطح پر بھی ایک مشہور شخصیت تھے۔ انہوں نے مختلف بین الاقوامی زرعی اور ماحولیاتی اقدامات میں تعاون کیا۔ ٹائم میگزین نے انہیں 20 ویں صدی کے 20 بااثر ایشیائی لوگوں میں سے ایک قرار دیا تھا۔