گزشتہ 9 اگست کی رات رتلام ضلع میں مسلمانوں کے ایک گروپ نے انسٹاگرام پر اسلام مخالف پوسٹ ڈالنے والے شخص کے خلاف احتجاجی مظاہرہ کیاتھا۔ الزام ہے کہ احتجاج کے دوران پوسٹ کرنے والے شخص کے بارے میں مبینہ طور پر ‘سر تن سے جدا’ کا متنازعہ نعرہ لگایا گیا تھا۔
نئی دہلی: مدھیہ پردیش کے وزیر داخلہ نروتم مشرا نے کہا ہے کہ رتلام ضلع میں کچھ لوگوں، جنہوں نے مبینہ طور پرسوشل میڈیاپراسلام پرقابل اعتراض پوسٹ ڈالنے والے شخص کا سر قلم کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے نعرے لگائے تھے، ا ن کے خلاف سخت نیشنل سکیورٹی ایکٹ (این ایس اے) کے تحت کارروائی کی جائے گی۔
یہ واقعہ 9 اگست کی رات کو پیش آیا، جہاں مسلم کمیونٹی کے لوگوں کا ایک بڑا گروپ رتلام کے دین دیال نگر تھانہ حلقہ کے تحت آنے والےایک پولیس اسٹیشن کے باہرجمع ہوا اوراس شخص کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا، جس نےانسٹاگرام پر ان کے مذہب کے خلاف قابل اعتراض مواد پوسٹ کیاتھا۔
رتلام کے ایڈیشنل ایس پی راجیش کھاکا نے نامہ نگاروں کو بتایا،’ایک کمیونٹی (مسلمان) کے لوگ ایک سوشل میڈیا پوسٹ پر ناراض ہو گئے اور پولیس چوکی پر جمع ہو کر اس معاملے میں ایف آئی آر درج کرنے کا مطالبہ کرنے لگے۔’
بعد میں یہ بتایا گیا کہ پولیس چوکی کے باہر کچھ مظاہرین نے مبینہ طور پر ‘سر تن سے جدا’ کا متنازعہ نعرہ لگایا تھا، جسے اکثر شدت پسند توہین رسالت کے معاملات میں استعمال کرتے تھے۔ مبینہ نعروں کا ویڈیو سوشل میڈیا پر بڑے پیمانے پر شیئر کیا گیا ہے۔
دی وائر کو قابل اعتراض پوسٹ تک رسائی حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ملی اور نہ ہی یہ آزادانہ طور پر متنازعہ نعرے والے ویڈیو کی صداقت کی تصدیق کر سکتا ہے۔
اس کے بعد جمعہ 11 اگست کو ایک صحافی کے سوال کا جواب دیتے ہوئے وزیر داخلہ مشرا نے کہا کہ نعرہ لگانے والے ملزمین کو گرفتار کیا جائے گا اور ان کے خلاف این ایس اے کے تحت کارروائی کی جائے گی۔ انہوں نے تفصیلات بتائے بغیر کہا، ایف آئی آر پہلے ہی درج ہو چکی ہے اور ملزمین کی شناخت کر لی گئی ہے۔
انہوں نے کہا، ‘میں واضح کر دوں، یہ راجستھان نہیں ہے اور نہ ہی یہاں کانگریس کی حکومت ہے۔ یہ مدھیہ پردیش ہے۔ اور ایسے دہشت گردانہ نعرہ لگانے والوں کو 24 گھنٹے میں احساس ہو جائے گا… محتاط رہیں،نہیں تو انہیں سمجھ میں نہیں آئے گا کہ کیا کیا جدا ہوجائے گا۔’
قبل ازیں بدھ کو دیررات گئے رتلام کے ایڈیشنل ایس پی نے کہا کہ قابل اعتراض موادپوسٹ کرنے والے شخص کے خلاف آئی پی سی کی دفعہ 295اے (جان بوجھ کر اور مذہبی جذبات کو مشتعل کرنے کے مقصد سے کیا گیا کام) کے تحت مقدمہ درج کر لیا گیا ہے اور اس کے خلاف سخت کارروائی کرنے کا وعدہ کیا گیا ہے۔
رتلام سپرنٹنڈنٹ آف پولیس راہل کمار لوڑھا نے 11 اگست کو کہا کہ قابل اعتراض مواد پوسٹ کرنے والے شخص کے خلاف کارروائی کی گئی ہے، جس کے لیے مقامی مسلمانوں نے احتجاج کیا تھا۔ تاہم، پولیس نے ابھی تک ملزم کی شناخت ظاہر نہیں کی اور یہ بھی نہیں بتایا کہ ملزم کو گرفتار کیا گیاتھایا نہیں۔
لوڑھا نے یہ بھی کہا کہ پولیس چوکی کے باہر ‘غیر قانونی اجتماع’ کے لیےآئی پی سی کی دفعہ 188 کے تحت- جو ایک سرکاری ملازم کے حکم کی جان بوجھ کر نافرمانی سے متعلق ہے، کا بھی ایک کیس درج کیا گیا تھا۔ ان کے مطابق، کچھ لوگوں نے دوسروں کو بھیڑ میں شامل ہونے اور پولیس چوکی کے باہر جمع ہونے کے لیے اکسایا۔ لوڑھا نے ایک ویڈیو بیان میں کہا، ’مذکورہ افراد کی سی سی ٹی وی فوٹیج کے ذریعے شناخت کی جائے گی اور ان کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔‘
پولیس افسر نے رتلام کے لوگوں سے سوشل میڈیا پر قابل اعتراض اور اشتعال انگیز مواد پوسٹ کرنے سے روکنے کی بھی اپیل کی ہے۔ انہوں نے کہا، ‘ہم شہر کی سماجی ہم آہنگی کو بگاڑنے والے کسی کو بھی نہیں بخشیں گے۔’
(انگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں۔)