پروینہ آہنگر کا کہنا ہے کہ میڈیا ان کی دکھ بھری کہانیوں کو ‘فروخت’ کرتا ہے۔ ان کی دکھ بھری کہانی پڑھی بھی جاتی ہے لیکن کوئی ان کی مدد نہیں کرتا، کوئی ان کے بیٹے کو ڈھونڈھنے میں پہل نہیں کر تا ہے۔قابل ذکر بات یہ ہےکہ ہندوستان میں پروینہ کی جد و جہد سے کو ئی متاثر ہوا ہو یا نہیں لیکن عالمی سطح پر پروینہ کی آواز ضرور سنی گئی۔
برطانوی صحافی اور ادیب
ردیارڈ کِپلنگ نے کتنی،خوبصورت بات کہی ہے کہ خدا، ہر جگہ نہیں ہو سکتا اس لیے اس نے مائیں بنائی ہیں۔ ممتا ایک اعزاز ہے جو خدا وند کی جانب سے خواتین کو ودیعت کی گئی ہے۔ اور شاید یہی وجہ ہے کہ ماں سے محبت اور اس کی تکریم کی جاتی ہے۔ مادرانہ جبلت وہ شئے ہے جو ہر جاندار میں پائی جاتی ہے۔ہرسال دنیا کے بیشتر ممالک میں’مدر س ڈے’ یعنی یوم مادر کے طور پر منایا جاتا ہے۔ اس دن اولادیں اپنی ماؤں سے اپنے احساس اور جذبات کا اظہار مختلف پیرا ئے میں کرتی ہیں۔ لیکن کشمیر کی ایسی دکھیاری مائیں بھی ہیں جن کی کوکھ اجڑ چکی ہے۔ اولادیں جننے کے باوجود وہ اپنے لخت جگر کی ایک جھلک دیکھنے کو تڑپ رہی ہیں۔
یوم مادر کے موقع پرسیکڑوں مائیں اپنے گمشدہ لخت جگر کی بازیابی کے لیے سرینگر میں احتجاج کرتی ہیں اور اپنے جگر گوشوں کو ڈھونڈھ نکالنے کے لیے حکام سے فریاد کرتی ہیں۔سکیورٹی فورسز کے ساتھ ہو ئے انکاؤنٹر میں ہلاک ہونے والے کسی عسکریت پسند کی ماں ہو یا پھر تفتیش کے نام پر گھروں سے اٹھا لیے جانے والے گمشدہ نوجوانوں کی مائیں ہوں ان کا درد یکساں ہیں۔ اپنے جگر کے ٹکڑوں کی جدائی میں ان کا ایک ایک پل درد و کرب سے گرتا ہے۔ ہر آہٹ اور ہر آواز پر وہ چونک پڑتی ہیں کہ شاید ان کے جگر گوشے آگئے۔کچھ ایسی ہی حالت ہے پروینہ کی۔60 سالہ پروینہ آہنگر کا لخت جگر جاوید احمد30برس قبل لاپتہ ہو گیا اورتب سے آج تک پروینہ اپنے بیٹے کی بازیابی کے لیے جنگ لڑی رہی ہیں۔پروینہ کہتی ہیں کہ؛
اپنے گمشدہ بیٹے کی تلاش میں انہوں نے کشمیر کا ہر علاقہ چھان مارا، پاؤں میں چھالے پڑ گئے۔
پروینہ بڑھاپے کی دہلیز پر پہنچ گئیں لیکن ان کا بیٹا نہیں ملا۔ ماں کا انتظار بھی کہیں جیتے جی ختم ہوتا ہے پروینہ بھی اپنے بیٹے کے انتظار میں ہے۔تاہم اس دوڑ دھوپ اور خاک چھاننے کے دوران پروینہ کی ایسی سیکڑوں خواتین سے ملاقات ہوئی جن کے دکھ یکساں تھے، وہ سب اپنے لاڈلے بیٹوں اور اپنے شوہرکی تلاش میں سرگرداں تھیں۔پروینہ نے اپنے دکھ اور درد کو ان گمشدہ افراد کی ماؤں کا درد بنا دیاہے۔ 1994 میں ایسو سی ایشن آف پیرنٹس آف ڈس اپیئرڈ پرسنز (اے پی ڈی پی)تنظیم کی بنیاد رکھی اور تین ہزار سے زائد خواتین اس تنظیم کا حصہ بن چُکی ہیں۔
پروینہ کہتی ہیں کہ دنیا کی توجہ ان گمشدہ افراد کی طرف مبذول کرانے کے لیے ہر ماہ سرینگر میں کیمپ منعقد کرتی ہیں۔پروینہ بتاتی ہیں کہ گزشتہ تین دہائیوں کے دوران ابھی تک 10 ہزار سے زائد افراد لاپتہ ہو گئے ہیں۔ وہ زندہ ہیں یا گزر گئے، کہاں ہیں انہیں اس کی کوئی خبر نہیں ہے۔پروینہ کے مطابق کئی سیاسی رہنماؤں نے ان گمشدہ افراد کی بازیابی کے وعدے کیے لیکن زمینی سطح پر ان کے یہ وعدے کھوکھلے ثابت ہوئے۔پروینہ کہتی ہے کہ یہ سیاسی رہنما اپنے سیاسی مفاد کے لیے یہ کھوکھلے وعدے کر رہے تھے اور اب انہیں ان سیاسی رہنماؤں پر کوئی بھروسہ نہیں رہا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ میڈیا ان کی دکھ بھری کہانیوں کو ‘فروخت’ کرتا ہے۔ ان کی دکھ بھری کہانی پڑھی تو جاتی ہے لیکن کوئی ان کی مدد نہیں کرتا، کوئی ان کے بیٹے کو ڈھونڈھنے میں پہل نہیں کر تا ہے۔ہندوستان میں پروینہ کی جد و جہد سے کو ئی متاثر ہوا ہو یا نہیں لیکن
عالمی سطح پر پروینہ کی آواز ضرور سنی گئی۔ انسانی حقوق کی تحفظ کے لیے غیر معمولی خدمات سر انجام دینے کے لیے ناروے حکومت کی جانب سے انہیں2017 میں ایواڑ سے نوازا گیا۔
2015 میں پروینہ کا نام ان ایک ہزارخواتین کی فہرست میں شامل کیا گیا تھا جنہیں نوبل انعام برائے امن کے لیے نامزد کیا گیا تھا۔پروینہ جیسی اور بھی کشمیری مائیں ہیں جن کے لاڈلے برسوں سے گمشدہ ہیں۔ضلع بڈگام سے تعلق رکھنے والی رحتی بیگم کو وہ دن اچھی طرح سے یاد ہے جب 28 برس قبل ان کے بیٹے محمد رمضان کو سکیورٹی فورسز مبینہ طور سے اٹھا لے گئ تھی۔نم آنکھوں سے اپنے لخت جگر کا تذکرہ کرتے ہوئے رحتی بیگم کا کہنا تھا کہا کہ ان کا بیٹا رمضان احمد ایک عارضی ملازم تھے جسے سکیورٹی فورسز نے گھر سے گرفتار کیا تھا، اسی دن سے اپنے بیٹے کی تلاش کی میں در در کی ٹھوکریں کھا رہی ہیں۔رحتی بیگم بیٹے کی جدائی میں نفسیاتی مریض بن چُکی ہیں۔ وہ ہمہ وقت اپنے بیٹے کےتصور میں گم رہتی ہیں اور اس انتظار میں وہ اپنے گھر کے دروازے کھلا رکھتی ہیں کہ ایک دن ان کا بیٹا لوٹ آئے گا۔
پروینہ اور رحتی بیگم جیسی نہ جانے کتنی ہی کشمیری مائیں ہیں جو اپنے جگر کے ٹکڑوں کو دیکھنے کی حسرت میں اس دنیا سے رخصت ہو گئیں۔
(محمد رضوان سرینگر میں مقیم آزاد صحافی ہیں۔)