آر بی آئی نے کہا تھا کہ الیکٹورل بانڈ اور آر بی آئی ایکٹ میں ترمیم کرنے سے ایک غلط روایت شروع ہو جائےگی۔ اس سے منی لانڈرنگ کو بڑھاوا ملےگا اور م سینٹرل بینکنگ قانون کے بنیادی اصولوں پر ہی خطرہ پیدا ہو جائےگا۔
سابق وزیر خزانہ ارون جیٹلی اور سابق آر بی آئی گورنر ارجیت پٹیل (فوٹو : پی ٹی آئی)
نئی دہلی: مودی حکومت نے انتخابی چندے کو انتہائی خفیہ بنانے والے الیکٹورل بانڈ اسکیم پر ریزرو بینک کے مشوروں اور انتباہ کو خارج کر دیا تھا۔
ہف پوسٹ انڈیا کی رپورٹ سے یہ جانکاری ملی ہے۔معلوم ہو کہ الیکٹورل بانڈ اسکیم سیاسی جماعتوں کو چندہ دینے والوں کی جانکاری دیےبنا بے شمار چندہ لینے کی سہولت دیتی ہے۔ رپورٹ کے مطابق ،اس وقت کے وزیر خزانہ ارون جیٹلی کے سال 2017 کی بجٹ اسپیچ سے چار دن پہلے ایک ٹیکس افسر کو دستاویز کی جانچ پڑتال کے دوران اس کا احساس ہوا کہ ان تبدیلیوں کے لئے ریزرو بینک آف انڈیا ایکٹ میں ترمیم کرنی ہوگی۔
اس کے بعد 28 جنوری 2017 کو اس افسر نے ان ترمیمات کا ایک ڈرافٹ بنایا اور اس کو اپنے سینئر افسروں کے پاس بھیجا، جنہوں نے اس کو آر بی آئی کے اس وقت کے ڈپٹی گورنر راما سبرامنین گاندھی کے پاس فوری تبصرہ کے لئے بھیجا۔ اس پر آر بی آئی نے سوموار یعنی 30 جنوری، 2017 کو اپنا احتجاج ظاہر کرتے ہوئے جواب دیا۔
آر بی آئی نے کہا کہ الیکٹورل بانڈ اور آر بی آئی ایکٹ میں ترمیم کرنے سے ایک غلط روایت شروع ہو جائےگی۔ اس سے منی لانڈرنگ کو بڑھاوا ملےگا، انڈین کرنسی پر بھروسہ ٹوٹےگا اور نتیجتاً مرکزی بینکنگ قانون کے بنیادی اصولوں پر ہی خطرہ پیدا ہو جائےگا۔ اس وقت کے ریونیو سکریٹری ہنس مکھ ادھیا نے آر بی آئی کے ان اعتراضات کو حاصل کرنے کے تقریباً فوراً بعد ہی خارج کر دیا۔ انہوں نے اقتصادی امور کے سکریٹری تپن رے اور ارون جیٹلی کو ایک نوٹ لکھا، جس میں کہا گیا کہ آر بی آئی ان کی تجویز کو سمجھ نہیں پایا۔
بعد میں جیٹلی نے بجٹ اسپیچ میں اس اسکیم کا اعلان کیا اور لوک سبھا نے منی بل پاس کیا۔ اس کو منی بل کہتے ہوئے حکومت نے راجیہ سبھا میں پیش نہیں کیا۔ پچھلے ہفتے سپریم کورٹ نے اس معاملے کو ایک بڑی بنچکے پاس بھیج دیا کہ کیا اس کو منی بل کے طور پر منظور کرانا صحیح تھا یا نہیں۔ ہف پوسٹ انڈیا کی رپورٹ کے مطابق، آر بی آئی کے اعتراضات پر کوئی اقتصادی دلیل دینے کے بجائے مرکز نے سیدھا یہ کہا کہ آر بی آئی ایکٹ میں تبدیلی کو لےکر آر بی آئی کے پاس ویٹو پاور نہیں ہے۔ انہوں نے کہا، ‘ پارلیامنٹ سپریم ہے اور اس کو آر بی آئی ایکٹ سے متعلق قانون بنانے کا حق ہے۔ ‘
جون 2017 تک وزارت خزانہ نے یہ اصول تیار کر لئے تھے کہ یہ بانڈ کس طرح سے کام کریںگے۔ اس کے مطابق، ‘ خریدار اور حاصل کنندہ کے بارے میں جانکاری بینک کے ذریعے خفیہ رکھی جائےگی۔ یہ تفصیل آر ٹی آئی کے دائرے سے باہر ہوگی۔ ‘ پارٹیوں کو بھی یہ جانکاری نہیں رکھنی ہوگی کہ کون الیکٹورل بانڈ کے ذریعے چندہ دے رہا ہے۔
جولائی 2017 میں وزارت خزانہ، آر بی آئی اور الیکشن کمیشن کے افسروں سے ملاقات کرنے اور االیکٹورل بانڈ کیسے کام کریںگے، اس پر گفتگو کرنے کے لئے کہا گیا۔ آر بی آئی کے افسر اس میٹنگ میں شامل نہیں ہوئے تھے۔ حالانکہ بعد میں 28 جولائی 2017 کو ارجیت پٹیل نے اس معاملے پر چرچہ کے لئے جیٹلی سے ملاقات کی تھی۔
اس میٹنگ کے بعد اگست میں آر بی آئی نے وزارت کو خط لکھکر بتایا کہ کیوں ان کا ماننا ہے کہ الیکٹورل بانڈ ایک صحیح خیال نہیں ہے۔ مرکزی حکومت نے آر بی آئی کے تقریباً تمام مشوروں کو خارج کر دیا اور صرف ایک ہی مشورہ کو منظور کیا کہ ان الیکٹورل بانڈ کی مدت صرف 15 دن کی ہوگی۔
نہ صرف حکومت نے مرکزی بینک کی اندیکھی کی، بلکہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس معاملے پر اس نے کسی باہری ذرائع سے صلاح لی ہے۔ ہف پوسٹ انڈیا کے ذریعے حاصل کئے گئے دستاویزوں میں ایک شروعاتی نوٹ تھا، جس پر نہ تو کوئی تاریخ تھی اور نہ ہی کسی نے دستخط کیا تھا۔ ایک ریٹائرڈ آئی اے ایس افسر نے بتایا، ‘ ایسا لگتا ہے کہ حکومت سے باہر کے کسی آدمی نے اس کو لکھا ہے اور سرکار کو نوٹ کے طور پر دیا ہے۔’