اقلیتی کمیشن کو سکھ، بودھ اور پارسیوں سے ملنے والی شکایتوں میں اضافہ

04:43 PM Dec 03, 2021 | گورو وویک بھٹناگر

قومی اقلیتی کمیشن کومالی سال2020-21 میں سکھ، بودھ اور پارسی کمیونٹی سے بالترتیب99،28 اور دو شکایتیں موصول ہوئی تھیں،لیکن رواں مالی سال کے آٹھ مہینوں میں ہی ان سے ملنے والی شکایتوں کی تعداد  اس سے زیادہ  ہو گئی ہے۔

(علامتی تصویر: پی ٹی آئی)

نئی دہلی: قومی اقلیتی کمیشن(این سی ایم)کو رواں مالی سال(2021-22)کے پہلے آٹھ مہینوں میں ہی سکھ، بودھ اور پارسی کمیونٹی سے پچھلے پورے سال کےمقابلے زیادہ شکایتیں موصول ہوئی  ہیں۔

سرکار کی جانب سے پارلیامنٹ میں پیش کیے گئے اعدادوشمار سے یہ جانکاری سامنے آئی ہے۔

اس کے ساتھ ہی ان اعدادوشمار سے یہ بھی اشارہ  ملتا ہے کہ پچھلے دومالی سال(2019-20 اور 2020-21)میں کمیشن کو ملی کل شکایتوں میں گراوٹ کے بعد اس بار(مالی سال2021-22)اس میں اضافہ دیکھا جا سکتا ہے۔

اس سلسلے میں بی جے پی ایم پی راکیش سنہا نے راجیہ سبھا میں سوال پوچھا تھا، جس کا جواب اقلیتی امور کی وزارت نے دیا ہے۔

اعدادوشمارکے مطابق رواں مالی سال کے پہلے آٹھ مہینوں میں اقلیتی کمیشن کو سکھ  کمیونٹی سے 115، بودھ سے 35 اور پارسی کمیونٹی سے پانچ شکایتیں موصول ہوئی ہیں، جو کہ اس کے پچھلے سال بالترتیب 99، 28 اور دو شکایتوں کے مقابلےبہت زیادہ ہے۔

اسی طرح اس مدت میں مسلمانوں سے 864 شکایتیں، عیسائی سے 88 شکایتیں، جین سے 39 شکایتیں اور دیگر سے 88 شکایتیں موصول ہوئی ہیں۔

اقلیتی کمیشن کو رواں مالی سال کے پہلے آٹھ مہینوں میں مجموعی طور پر1234 شکایتیں موصول ہوئی ہیں۔

کمیشن  کوملی شکایتوں کی تفصیلات۔

اس سے پہلے سال 2020-21 میں کمیشن کو مسلمانوں سے سب سے زیادہ 1103 شکایتیں، عیسائی سے 102، جین سے 50 اور دیگر سے 78 شکایتیں موصول ہوئی تھیں۔

کمیشن کو مالی سال2020-21 میں کل 1463 شکایتیں،2019-20 میں 1670 شکایتیں اور 2018-19 میں کل 1871 شکایتیں موصول ہوئی تھیں۔

اقلیتی امور کے وزیرمختار عباس نقوی نے پارلیامنٹ میں دیے اپنےتحریری جواب میں ان شکایتوں کی نوعیت کی تفصیلات پیش کی ہیں۔ اس کے مطابق اکثر شکایتیں نظم ونسق سے وابستہ ہیں۔

مالی سال2018-19 میں کمیشن کو موصول ہوئی کل 1871 شکایتوں میں سے 1040 شکایتیں لاء اینڈ آرڈر  سے وابستہ  تھیں۔ اسی طرح 2019-20 میں کل 1670 شکایتوں میں سے 1019 شکایتیں اور 2020-21 میں کل 1463 شکایتوں میں سے 449 شکایتیں لاء اینڈ آرڈر سے وابستہ تھیں۔

کمیشن کو حاصل ہوئی شکایتوں کی نوعیت۔

وہیں زمینی تنازعہ، سروس معاملے، تعلیمی معاملے، وقف معاملے، مذہبی حقوق جیسے معاملوں کی حصے داری کافی کم ہے۔

مختار عباس نقوی نے کہا کہ کمیشن کے ضابطوں، ریگولیشن اورعمل کے مطابق، شکایتیں حاصل ہونے پر اقلیتی کمیشن یا تومتعلقہ اتھارٹی سے رپورٹ طلب کرتی ہے اور اگر ضروری ہو تو انہیں بلایا جاتا ہے اور اس کے بعد مناسب سفارشات یا ضروری کارروائی کرنے کے لیے اتھارٹی  کوہدایت  دی جاتی ہے۔

انہوں نے یہ بھی کہا کہ پروموشنل، جھوٹی، فضول اور گمنام قرار دی جاتی ہیں انہیں مجاز اتھارٹی کی منظوری سے بند کر دیا جاتا ہے۔

(اس رپورٹ کو انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔)