اسرائیل کے این ایس اوگروپ نے ملٹری گریڈ کے جاسوسی اسپائی ویئر پیگاسس کوتیار کیا ہے، جس پر ہندوستان سمیت کئی ممالک میں تمام رہنماؤں، صحافی اور کارکنوں وغیرہ کے فون پر نظر رکھنے کے الزام لگ رہے ہیں۔وزارت دفاع کے این ایس وگروپ سے لین دین کے سلسلےمیں انکار پر کانگریس رہنما پی چدمبرم نے کہا کہ وزارت دفاع صحیح ہےتو ایک وزارت/محکمہ کو اس سے الگ کر دیتے ہیں، لیکن باقی تمام وزارتوں/محکموں کی جانب سے صرف وزیر اعظم ہی جواب دے سکتے ہیں۔
نئی دہلی: پیگاسس جاسوسی تنازعہ کے بیچ سرکار نے گزشتہ سوموار کو کہا کہ اس نے این ایس او گروپ کے ساتھ کوئی لین دین نہیں کیا ہے۔ پیگاسس اسرائیل کے این ایس او گروپ کا ملٹری گریڈ کایہ جاسوسی سافٹ ویئر ہے، جو حال کے دنوں میں کافی تنازعات میں ہے۔
وزیر مملکت برائے دفاع اجئے بھٹ نے کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا(ایم)کے ممبر وی شیوداسن کے ایک سوال کے تحریری جواب میں راجیہ سبھا کو یہ جانکاری دی۔ ان سے سوال کیا گیا تھا کہ کیا سرکار نے این ایس او گروپ کے ساتھ کوئی لین دین کیا تھا۔
بھٹ نے اس کے جواب میں کہا، ‘وزارت دفاع نے این ایس او گروپ ٹکنالوجی کے ساتھ کوئی لین دین نہیں کیا ہے۔’
قابل ذکر ہے کہ اسرائیل کی سافٹ ویئر نگرانی کمپنی این ایس اوگروپ پر ہندوستان سمیت کئی ممالک میں لوگوں کے فون پر نظر رکھنے کے لیے پیگاسس سافٹ ویئر کا استعمال کرنے کے الزام لگ رہے ہیں۔
JUST IN: Ministry of Defence informs the Rajya Sabha that it has not had any transaction with NSO Group Technologies. #ParliamentWatch #RajyaSabha pic.twitter.com/B4IhwE4Jnh
— The Leaflet (@TheLeaflet_in) August 9, 2021
پیگاسس جاسوسی مدعے کو لےکرپارلیامنٹ کے مانسون سیشن میں اپوزیشن لگاتار ہنگامہ کر رہا ہے، جس سے دونوں ایوانوں کی کارر وائی متاثر ہوتی رہی ہے۔اپوزیشن پیگاسس جاسوسی مدعے پر پارلیامنٹ میں بحث کی مانگ کر رہا ہے۔
آئی ٹی اور مواصلات کے وزیر اشونی ویشنو نے ہندوستانیوں کی جاسوسی کے لیے پیگاسس اسپائی ویئر کے استعمال سےمتعلق میڈیا رپورٹس کو خارج کر دیا تھا۔ انہوں نے کہا تھا کہ پارلیامنٹ کے مانسون سیشن سے ٹھیک پہلے لگائے گئے الزاموں کا مقصد ‘ہندوستانی جمہوریت کی امیج کو خراب’کرنا ہے۔
اشونی ویشنو نے پیگاسس اسپائی ویئر کے ذریعےہندوستانیوں کی جاسوسی کرنے سے متعلق خبروں کو سوموار کو خارج کرتے ہوئے کہا کہ پارلیامنٹ کے مانسون سیشن سے ٹھیک پہلے لگائے گئے یہ الزام ہندوستانی جمہوریت کی امیج کوخراب کرنے کی کوشش ہیں۔
پارلیامنٹ کے دونوں ایوانوں میں دیے گئے اپنے ایک بیان میں ویشنو نے کہا تھا کہ جب ملک میں کنٹرول اور نگرانی کا سسٹم پہلے سے ہے، تب غیرمجازی شخص کے ذریعےغیرقانونی طریقے سے نگرانی ممکن نہیں ہے۔
ان کا یہ بیان میڈیا میں آئی ان خبروں کے مد نظر تھا کہ کچھ سیاسی رہنماؤں، سرکاری افسروں ،صحافیوں سمیت کئی ہندوستانیوں کی نگرانی کے لیے پیگاسس اسپائی ویئر کا استعمال کیا گیا تھا۔
بھٹ نے اپنے جواب میں کہا کہ سال 2020-21 میں وزارت دفاع نے 471378 کروڑ روپے خرچ کیا، جبکہ بجٹ تخمینے کے مرحلے میں اسے 485726.93 کروڑ روپے مختص کیے گئے۔
انہوں نے بتایا کہ 2019-20 میں غیرملکی ذرائع سےخریداری پر 47961.47 کروڑ روپے خرچ کیے گئے، جبکہ 2020-21 میں 53118.58 کروڑ روپے خرچ کیے گئے۔
اس بیچ کانگریس کے سینئر رہنماپی چدمبرم نے اسرائیلی کمپنی این ایس او کے ساتھ کوئی لین دین نہیں کرنےسےمتعلق وزارت دفاع کے بیان کو لےکر منگل کو کہا کہ اس معاملے پر صرف وزیر اعظم نریندر مودی جواب دے سکتے ہیں، لیکن وہ چپ کیوں ہیں؟
MoD has ‘absolved’ itself of any deal with the NSO Group, Israel
Assuming, MoD is correct, that takes out one Ministry/Department.
What about the remaining half a dozen usual suspects?
Only the PM can answer on behalf of ALL ministries/departments. Why is he silent?
— P. Chidambaram (@PChidambaram_IN) August 10, 2021
سابق وزیر داخلہ نے ٹوئٹ کیا،‘وزارت دفاع نے این ایس او گروپ(اسرائیل)کے ساتھ کسی بھی سودے سے انکار کیا ہے۔ اگروزارت دفاع صحیح ہے، تو ایک وزارت/محکمہ کو اس معاملے سے الگ کر دیتے ہیں۔ لیکن بقیہ آدھا درجن مشتبہ کے بارے میں کیا کہیں گے؟’
چدمبرم نے سوال کیا،‘تمام وزارت/محکموں کی جانب سے صرف وزیر اعظم ہی جواب دے سکتے ہیں۔ وہ چپ کیوں ہیں؟’
بتا دیں کہ دی وائر اور بین الاقوامی میڈیااداروں نے پیگاسس پروجیکٹ کے تحت یہ انکشاف کیا تھا کہ اسرائیل کی این ایس او گروپ کمپنی کے پیگاسس اسپائی ویئر کے ذریعےرہنما،صحافی ، کارکن، سپریم کورٹ کے عہدیداروں کے فون مبینہ طور پر ہیک کرکے ان کی نگرانی کی گئی یا پھر وہ ممکنہ نشانے پر تھے۔
این ایس او گروپ یہ ملٹری گریڈ اسپائی ویئر صرف سرکاروں کو ہی فروخت کرتی ہیں۔حکومت ہند نے پیگاسس کی خریداری کو لےکر نہ تو انکار کیا ہے اور نہ ہی اس کی تصدیق کی ہے۔ اس معاملے میں کئی پی آئی ایل سپریم کورٹ میں دائر کی گئی ہیں، جن پرشنوائی جاری ہے۔
(خبررساں ایجنسی بھاشاکے ان پٹ کے ساتھ)