غازی آباد: ڈاسنہ مندر میں ’غلطی‘ سے جانے والے دس سالہ مسلم بچے سے پولیس کی پوچھ تاچھ

ڈاسنہ مندر کے پجاری اوررائٹ ونگ کےشدت پسند رہنمایتی نرسنہانند سرسوتی نےالزام لگایا کہ بچے کو ان پر نظر رکھنے کے لیے بھیجا گیا تھا۔پولیس کا کہنا ہے کہ بچہ اس علاقے سے واقف نہیں تھا اور انجانے میں مندر میں چلا گیا تھا۔ اس کے بیان کی سچائی جاننے کے بعد اسے چھوڑ دیا گیا۔

ڈاسنہ مندر کے پجاری اوررائٹ ونگ کےشدت پسند رہنمایتی نرسنہانند سرسوتی نےالزام لگایا کہ بچے کو ان پر نظر رکھنے کے لیے بھیجا گیا تھا۔پولیس کا کہنا ہے کہ بچہ اس علاقے سے واقف نہیں تھا اور انجانے میں مندر میں چلا گیا تھا۔ اس کے بیان کی سچائی جاننے کے بعد اسے چھوڑ دیا گیا۔

بچے کے ساتھ کھڑا یتی نرسنہانند سرسوتی۔ (فوٹو: اسکرین گریب)

بچے کے ساتھ کھڑا یتی نرسنہانند سرسوتی۔ (فوٹو: اسکرین گریب)

نئی دہلی: اتر پردیش کے غازی آباد کے ڈاسنہ دیوی مندر میں10سالہ مسلم بچے کے‘انجانے میں داخل’ ہونے کے بعد پولیس نے اس سے پوچھ تاچھ کی۔

سوشل میڈیا پر وائرل ہو رہےایک ویڈیو میں مندر کے پجاری اوررائٹ ونگ کےشدت پسند رہنمایتی نرسنہانند سرسوتی نے الزام لگایا کہ بچے کو ان پر نظر رکھنے کے لیے بھیجا گیا تھا۔

نرسنہانند نے یہ بھی کہا کہ بچہ جس کمیونٹی سے آتا ہے اس میں اس کی عمر کے‘تربیت تافتہ قاتل’ہوتے ہیں۔ ویڈیو میں نرسنہانند کو بچے کے پاس کھڑا دیکھا جا سکتا ہے۔

ویڈیو میں پجاری بچےپر الزام لگا رہے ہیں کہ وہ ریکی کرنے کے مقصد سے مندر میں گھسا تھا۔ نرسنہانند نے کہا کہ بچہ کو ‘چھوا یا تھپڑ نہیں مارا’گیا ہے۔

پجاری نے کہا کہ وہ وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ اور پولیس کے تمام سینئر حکام کو بتانا چاہتے ہیں کہ انہیں (نرسنہانند) مارنے کی سازش رچی جا رہی ہے۔

حالانکہ لڑکے نے پولیس سے کہا کہ وہ مندر کے بغل میں واقع کمیونٹی ہیلتھ سینٹر(سی ایچ سی)میں بھرتی اپنی حاملہ بھابھی سے ملنے آیا تھا۔اس نے کہا کہ وہ انجانے میں مندر میں چلا گیا لیکن انتظامیہ(جس میں نرسنہانند بھی شامل ہیں)نے اسے پکڑ لیا اور پولیس کو سونپ دیا۔

پولیس نے بتایا کہ بچہ کے بیان کی سچائی جاننے کے بعد اسے چھوڑ دیا گیا۔

ایس پی(دیہی)نے کہا کہ لڑکے کی فیملی یہاں ایک سال پہلےآئی ہے اور وہ علاقے سے واقف نہیں ہیں، اس لیے لڑکا انجانے میں مندر میں چلا گیا۔

ایس پی نے بتایا کہ ڈاسنہ دیوی مندر کی انتظامیہ پولیس کے ساتھ تعاون نہیں کر رہی ہے اور نوراتری اتسو کے دوران مندر میں آنے والے لوگوں  کی تلاشی اور آئی ڈی  جانچنے سےمنع کر رہی ہے۔

انہوں  نے کہا کہ پہلے ہوئےواقعات کےتناظر میں سخت جانچ کی جا رہی ہے۔انہوں نے کہا کہ پجاری کو تحفظ دینے کے لیے50 پولیس اہلکار تعینات کیے گئے ہیں۔

نرسنہانند اور ان کے نام نہاد شاگردوں کو آئے دن مسلمانوں کے خلاف پرتشدد اور ہیٹ اسپیچ  دیتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔

معلوم ہو کہ ڈاسنہ مندر اس سال مارچ مہینے میں اس وقت تنازعات میں آیا تھا، جب مندر میں پانی پینے گئے 14سالہ مسلم لڑکے کی وہاں کام کرنے والے شرنگی نندن یادو نام کےایک شخص نے بے رحمی سے پٹائی کی تھی۔ اس شخص کو گرفتار کیا گیا تھا۔ حالانکہ بعد میں نرسنہانند نےملزم کی حمایت کی تھی۔

اس معاملے کو بھی لےکر ایک ویڈیو وائرل ہوا تھا، جس میں ملزم شخص متاثرہ  کا نام پوچھتے ہوئے اس سے مذہبی مقام میں داخل ہونےپر پوچھ تاچھ کرتا نظر آ رہا ہے۔اس پر لڑکا اپنا اور اپنے والد کا نام بتاتا ہے اور کہتا ہے کہ وہ پانی پینے کے لیے آیا ہے۔

اس کےفوراً بعد ملزم اسے گالیاں دیتے ہوئےاور اس کی بے رحمی سےپٹائی کرتے ہوئے دکھائی دیتا ہے۔ ویڈیو میں ملزم کو لڑکے کے نجی حصوں پر لگاتار لات سے مارتے ہوئے بھی دیکھا جا سکتا ہے۔

دی وائر نے پہلے بھی اپنی رپورٹ میں بتایا تھا کہ نرسنہانند نے میڈیااداروں کو ایک بیان دیا تھا، جس میں انہوں نے کہا تھا کہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، جامعہ ملیہ اسلامیہ اور دارالعلوم دیوبند جیسے کچھ چنندہ تعلیمی اداروں کےطالبعلم ہندوستان کےآئین کےتئیں سچی عقیدت اور احترام کا جذبہ نہیں رکھ سکتے اور ہندوستان کی سالمیت اور یکجہتی کو بنائے نہیں رکھ سکتے۔

اس کےعلاوہ دہلی میں ایک پریس کانفرنس کے دوران پیغمبرمحمد کےخلاف نازیبا تبصرہ کرنے پر مذہبی جذبات کو مجروح کرنے کے الزام میں نرسنہانند کے خلاف اس سال اپریل میں بھی معاملہ درج کیا گیا تھا۔

اس کے علاوہ دی وائر نے ایک رپورٹ میں بتایا تھا کہ کس طرح نرسنہانند کے ذریعے دی گئی ہیٹ اسپیچ کی وجہ سے فروری2020 میں شمال- مشرقی دہلی میں بھیانک دنگے بھڑکے تھے۔

(خبررساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)