گزشتہ دنوں ملک بھر میں پی ایف آئی کے دفاتر پر چھاپوں اور سینکڑوں کارکنوں کی گرفتاری کے بعد مرکزی وزارت داخلہ نے یو اے پی اے کے تحت اس پر پابندی لگا دی ہے اور دعویٰ کیا ہے کہ وہ ملک میں عدم تحفظ کا احساس پیدا کر کے ایک کمیونٹی میں شدت پسندی کو فروغ دینے کے مقصد سےخفیہ طور پر کر کام کر رہے ہیں۔
نئی دہلی: حکومت نے دہشت گردانہ سرگرمیوں میں مبینہ طور پر ملوث ہونے اور آئی ایس آئی ایس جیسی دہشت گرد تنظیموں کے ساتھ روابط کے الزام میں پاپولر فرنٹ آف انڈیا ( پی ایف آئی) اور اس سے وابستہ کئی دیگر تنظیموں پر پانچ سال کی پابندی عائد کر دی ہے۔
حکومت نے یہ قدم پی ایف آئی اور اس کے لیڈروں سے منسلک مقامات پر چھاپوں کے بعد اٹھایا ہے۔
یو اے پی اے کے تحت جن تنظیموں پر پابندی عائد کی گئی ہے ان میں ری ہیب انڈیا فاؤنڈیشن (آر آئی ایف)، کیمپس فرنٹ آف انڈیا (سی ایف)، آل انڈیا امام کونسل (اے آئی آئی سی)، نیشنل کنفیڈریشن آف ہیومن رائٹس آرگنائزیشن (این سی ایچ آر او)، نیشنل ویمن فرنٹ، جونیئر فرنٹ، امپاور انڈیا فاؤنڈیشن اور ری ہیب فاؤنڈیشن (کیرالہ) کے نام شامل ہیں۔
پی ایف آئی کی تشکیل 19 دسمبر 2006 کو ‘کرناٹک فورم فار ڈگنیٹی’ اور ‘نیشنل ڈیولپمنٹ فرنٹ’ (این ڈی ایف) کے انضمام سے ہوئی تھی اور این ڈی ایف ایودھیا میں بابری مسجد کے انہدام اور اس کے بعد 1993 میں ہونے والے فسادات کے بعد تشکیل دی گئی تھی۔
منگل کو اس 16 سالہ پرانی تنظیم کے خلاف سات ریاستوں میں چھاپوں کے بعد 150 سے زائد افراد کو حراست میں لیا گیا یا گرفتار کیا گیا تھا۔
Ministry of Home Affairs declares Popular Front of India (PFI) and its affiliates as ‘Unlawful Association’. (1/2)@HMOIndia @MIB_India @PIB_India @PBNS_India @DDNewslive @airnewsalerts pic.twitter.com/80wtO23oYL
— Spokesperson, Ministry of Home Affairs (@PIBHomeAffairs) September 28, 2022
اس سے پانچ روز قبل بھی ملک بھر میں پی ایف آئی سے منسلک مقامات پر چھاپے مارے گئے تھے اور اس کی مختلف سرگرمیوں کے کے لیے 100 سے زائد افراد کو گرفتار کیا گیا تھا، جبکہ بڑی تعداد میں جائیدادیں بھی ضبط کی گئی تھیں۔
منگل کو دیر رات گئے مرکزی وزارت داخلہ کی طرف سے جاری کردہ ایک نوٹیفکیشن کے مطابق، پی ایف آئی کے کچھ بانی ممبران اسٹوڈنٹس اسلامک موومنٹ آف انڈیا (سیمی) کے رہنما ہیں اور پی ایف آئی کے تارجماعت المجاہدین بنگلہ دیش (جے ایم بی) سے بھی جڑےہیں۔ جے ایم بی اور سیمی دونوں ہی کالعدم تنظیمیں ہیں۔
نوٹیفکیشن میں کہا گیا ہے کہ ‘اسلامک اسٹیٹ آف عراق اینڈ سیریا’ (آئی ایس آئی ایس) جیسی دہشت گرد تنظیموں کے ساتھ پی ایف آئی کے روابط کے کئی معاملے بھی سامنے آئے ہیں۔
نوٹیفکیشن میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ پی ایف آئی اور اس کے اتحادی یا مورچے ‘ملک میں عدم تحفظ کے احساس’ کو پھیلا کر ایک کمیونٹی میں شدت پسندی کو فروغ دینے کے مقصد سے خفیہ طور پر کام کر رہے ہیں، جس کی تصدیق اس حقیقت سے ہوتی ہے کہ پی ایف آئی کے کچھ کارکنان بین الاقوامی سطح پر متحرک دہشت گرد تنظیموں میں شامل ہوئے ہیں۔
نوٹیفکیشن میں کہا گیا ہے کہ، مذکورہ بالا وجوہات کی بناء پر مرکزی حکومت کا پختہ خیال ہے کہ پی ایف آئی کی سرگرمیوں کو دیکھتے ہوئے، اسے اور اس سے وابستہ اداروں یا محاذوں کو فوری اثر سے غیر قانونی تنظیم قرار دیناضروری ہے۔متعلقہ ایکٹ کی وفعہ 3 کی ذیلی دفعہ (3) میں درج اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے، اسے غیر قانونی قرار دیا جاتا ہے۔
مرکزی وزارت داخلہ نے کہا کہ اتر پردیش، کرناٹک اور گجرات کی حکومتوں نے بھی پی ایف آئی پر پابندی لگانے کا مشورہ دیا ہے۔
نوٹیفکیشن میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ پی ایف آئی، اس کے اتحادی یا اس سے منسلک مورچے’ملک میں دہشت کا ماحول پیدا کرنے کے ارادے سے پرتشدد دہشت گردانہ کارروائیوں میں ملوث رہے ہیں، جو ریاست کی سلامتی اور امن عامہ کے لیے خطرہ ہیں۔
نوٹیفکیشن میں الزام لگایا گیا ہے کہ پی ایف آئی دہشت گردی پر مبنی جابرانہ نظام کو فروغ دینے، ملک کے تئیں بدامنی پیدا کرنے اور سماج کے ایک خاص طبقے کو شدت پسند بنانے کے لیے ملک مخالف جذبات کو بڑھاوادینے کی کوشش کر رہی ہے۔
اس میں مزید کہا گیا ہے کہ تنظیم ایسی سرگرمیوں کو فروغ دے رہی ہے، جو ملک کی سالمیت، سلامتی اور خودمختاری کے لیے خطرہ ہیں۔
وزارت داخلہ نے دعویٰ کیا کہ تحقیقات میں پی ایف آئی اور اس کے اتحادیوں یا محاذوں کے درمیان روابط کے واضح ثبوت ملے ہیں۔
نوٹیفکیشن میں کہا گیا ہے کہ ‘ری ہیب انڈیا فاؤنڈیشن’ پی ایف آئی ممبران کے ذریعے فنڈ اکٹھا کرتی ہے۔ پی ایف آئی کے کچھ ممبران ‘کیمپس فرنٹ آف انڈیا’، ‘امپاور انڈیا فاؤنڈیشن’ اور ‘ری ہیب فاؤنڈیشن (کیرالہ)’ کے بھی ممبر ہیں۔
اس کے علاوہ، ‘جونیئر فرنٹ’، ‘آل انڈیا امام کونسل’ (اے آئی آئی سی)، ‘نیشنل کنفیڈریشن آف ہیومن رائٹس آرگنائزیشن’ (این سی ایچ آر او سی) اور ‘نیشنل ویمن فرنٹ’ کی سرگرمیوں پر پی ایف آئی کے رہنمانظر رکھتے ہیں۔
نوٹیفکیشن میں کہا گیا ہے کہ پی ایف آئی نے سماج کے مختلف طبقوں جیسے نوجوانوں، طلباء، خواتین، اماموں، وکلاء یا سماج کے کمزور طبقات تک اپنی رسائی کو بڑھانے کے لیے اپنے الگ الگ محاذ بنائے ہیں، جس کا واحد مقصد اپنے اثر و رسوخ کو بڑھانا ہے۔ اثر و رسوخ کو بڑھانا اور پیسہ جمع کرتے رہنا۔
انڈین ایکسپریس کے مطابق، نوٹیفکیشن میں کہا گیا ہے، ‘ پی ایف آئی اور اس سے منسلک ادارے کھلے طور پرسماجی، اقتصادی، تعلیمی اور سیاسی تنظیموں کے طور پر کام کرتے ہیں، لیکن وہ سماج کے ایک خاص طبقے کو شدت پسند بنانے کے لیے خفیہ ایجنڈے پر عمل پیرا ہیں تاکہ جمہوریت کے تصور کو کمزور کر سکیں اور ملک کی آئینی حکومت اور آئینی ڈھانچے کی ہتک کرتے ہیں۔
نوٹیفکیشن میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ پی ایف آئی کے کارکن ملک بھر میں کئی دہشت گردانہ کارروائیوں اور کئی لوگوں کے قتل میں ملوث رہے ہیں۔ یہ وحشیانہ قتل امن عامہ کو خراب کرنے اور عوام کے ذہنوں میں دہشت کا راج قائم کرنے کے واحد مقصد کے لیے کیے گئے ۔
ایک اور نوٹیفکیشن میں مرکز نے ریاستی حکومتوں کو ان تنظیموں کے خلاف کارروائی کرنے کا اختیار دیا ہے جو پی ایف آئی سے وابستہ تھیں۔ انہیں گرفتار کیا جا سکتا ہے اور جائیداد وغیرہ بھی ضبط کی جا سکتی ہیں۔
وزارت داخلہ نے کہا کہ ان اتحادیوں یا اس سے منسلک تنظیموں یا محاذوں کا آپس میں گہرا تعلق ہے۔ محکمہ انکم ٹیکس نے ‘ری ہیب انڈیا فاؤنڈیشن’ کا رجسٹریشن بھی ردکر دیا ہے۔
(خبر رساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)