ایک رپورٹ میں انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیم ہیومن رائٹس واچ نے فیس بک اور انسٹاگرام پر اُ ن آوازوں کو غیر منصفانہ طور پر دبانے اور ہٹانے کے ایک پیٹرن کادستاویز تیار کیا ہے، جس میں فلسطین کی حمایت میں پرامن اظہار اور انسانی حقوق کے بارے میں عوامی بحث شامل ہے۔
نئی دہلی: انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیم ‘ہیومن رائٹس واچ’ نے اپنی ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ اسرائیل اور فلسطین کے درمیان 7 اکتوبر کو شروع ہوئی جنگ کے بعد سے میٹا منظم طریقے سے انسٹاگرام اور فیس بک ( میٹا کی سوشل میڈیا کمپنیاں) پر فلسطین کے حق میں اٹھنے والی آوازوں کو دبا رہا ہے۔
اس جنگ میں تقریباً 20000 فلسطینیوں کے مارے جانے کی اطلاعات ہیں ۔
‘میٹاز بروکین پرامسز: سسٹیمک سنسرشپ آف پلیسٹین (فلسطین) کنٹینٹ آن انسٹا گرام اینڈ فیس بک‘ کے عنوان سے 51 صفحات پر مشتمل رپورٹ میں اس انسانی حقوق کے گروپ نے ان آوازوں کو غیر منصفانہ طور پر دبانے اور ہٹانے کے ایک پیٹرن کادستاویز تیار کیا ہے، جس میں فلسطین کی حمایت میں پرامن اظہار اور انسانی حقوق کے بارےمیں عوامی بحث شامل ہے۔
اس میں کہا گیا ہے کہ اس نے ‘سنسرشپ کے چھ اہم پیٹرن کی نشاندہی کی ہے، جن میں سے ہر ایک کو کم از کم 100 معاملات میں بار بار دہرایا گیا ہے’۔
ان میں ‘مواد کو ہٹانا’، اکاؤنٹس کی معطلی یا ہٹانا، مواد کے ساتھ مشغول ہونے میں ناکامی، اکاؤنٹس کو فالو کرنے یا ٹیگ کرنے میں ناکامی، انسٹاگرام/فیس بک لائیو جیسی خصوصیات کے استعمال پر پابندیاں، اور ‘شیڈو پابندی’، یعنی ‘جو بغیر اطلاع کے کسی شخص کی پوسٹ یا اکاؤنٹ کی رسائی میں کمی کو ظاہر کر تا ہے، وغیرہ شامل ہیں۔
اس کے علاوہ، 300 سے زائد معاملوں میں یہ پایا گیا کہ ‘صارفین مواد یا اکاؤنٹ کو ہٹانے کے سلسلے میں اپیل کرنے سے قاصر تھے، کیونکہ اپیل کے سسٹم میں خرابی تھی، جس کی وجہ سے انہیں کسی بھی حل تک مؤثر رسائی نہیں ملی۔’
ہیومن رائٹس واچ میں ایسوسی ایٹ ٹکنالوجی اور انسانی حقوق کی ڈائریکٹر ڈیبرا براؤن نے کہا، ‘فلسطین کی حمایت والے مواد پر میٹا کی سنسر شپ ناقابل بیان مظالم اور جبر کے وقت زخموں پر نمک چھڑکتی ہے، جو پہلے سے ہی فلسطینیوں کے اظہار کو دبا رہی ہے۔’
انہوں نے کہا، ‘سوشل میڈیا لوگوں کے لیے گواہی دینے اور بدسلوکی کے خلاف بات کرنے کے لیے ایک ضروری پلیٹ فارم ہے، جبکہ میٹا کی سنسر شپ فلسطینیوں پر ہونے والےمصائب کو مٹانے میں مدد کر رہی ہے۔’
ہیومن رائٹس واچ نے کہا کہ اس نے 60 سے زیادہ ممالک میں آن لائن سنسر شپ کے 1050 معاملوں کا جائزہ لیا ہے۔ اس میں کہا گیا ہے کہ سینکڑوں معاملات میں میٹا نے اپنی ‘ڈینجرس آرگنائیزیشن اینڈ انڈیویزولز'(ڈی او آئی)پالیسی کو لاگو کیا تھا، جو ‘دہشت گرد تنظیموں’ کی امریکی فہرست کا مکمل احاطہ کرتی ہے۔
اس کا الزام ہے کہ میٹا نے پرتشدد اور گرافک مواد، تشدد اور اشتعال انگیزی، نفرت انگیز تقریر، عریانیت اور جنسی سرگرمیوں پر بھی اپنی پالیسیوں کو ‘غلط طریقے سے لاگو’ کیا ہے۔
انسانی حقوق کی تنظیم نے کہا، میٹا نے مبینہ طور پر اپنی ‘ نیوزورتھی الاؤنس‘ کی پالیسی کو غیر منصافانہ طور پر لاگو کیا ہے، فلسطینیوں کے زخم اور اموات سے متعلق دستاویز تیار کرنے والےمواد کے درجنوں پوسٹوں کو ہٹا دیاہے، نیوز کے طور پر جن کی اہمیت ہے۔
گزشتہ اکتوبر میں ایک تجزیے میں نیوز ویب سائٹ الجزیرہ نے پوچھا تھا کہ کیا سوشل میڈیا کمپنیاں اسرائیل کی جنگ کے دوران فلسطینی حامی آوازوں کو سنسر کر رہی ہیں؟
اس میں کہا گیا ہے کہ ‘امریکہ سے لے کر یورپ اور ہندوستان تک کے صارفین اور کارکنوں کا کہنا ہے کہ دنیا کے سب سے بڑے سوشل میڈیا پلیٹ فارم اسرائیل کے لیے تنقیدی مواد کی رسائی کو کم کر رہے ہیں۔’
انگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں۔