موت کی کتاب: ایک حقیقی ادبی تخلیق

فرانسیسی نقاد پیترک ابراہم کا تبصرہ: خالد جاوید کا ناول ’موت کی کتاب‘ اپنی گہری تاریکی اور معنوی تہہ داری کے باعث ایک عظیم تخلیقی شہ پارہ ہے۔ یہ ہمیں ہماری اپنی داخلی تاریکیوں سے روشناس کراتا ہے اور ہمیں اس بات کے لیے مجبور کرتا ہے کہ اس کا مطالعہ بار بار کیا جائے۔

فرانسیسی نقاد پیترک ابراہم کا تبصرہ: خالد جاوید کا ناول ’موت کی کتاب‘ اپنی گہری تاریکی اور معنوی تہہ داری کے باعث ایک عظیم تخلیقی شہ پارہ ہے۔ یہ ہمیں ہماری اپنی داخلی تاریکیوں سے روشناس کراتا ہے اور ہمیں اس بات کے لیے مجبور کرتا ہے کہ اس کا مطالعہ بار بار کیا جائے۔

موت کی کتاب، فوٹو بہ شکریہ: متعلقہ پبلی کیشن

موت کی کتاب، فوٹو بہ شکریہ: متعلقہ پبلی کیشن


پیترک ابراہم کا یہ تبصرہ فرانسیسی زبان میں شائع ہوا ہے، محمد ریحان کے شکریے کے ساتھ یہاں اس کا اردو ترجمہ پیش کیا جا رہا ہے۔(ادارہ)


یہ یقیناََ ایک خوش آئند خبر ہے کہ معاصر ہندوستانی ادیب پروفیسر خالد جاوید کا ناول ’موت کی کتاب‘ ایڈیشن بنیان کے زیرِ اہتمام شائع ہو کر منصۂ شہود پر آ گیا ہے، بالخصوص اس پس منظر میں کہ فرانسیسی زبان میں اردو ادب کے تراجم خال خال ہی نظر آتے ہیں۔

اردو ادب ہمارے لیے ایک غیر دریافت شدہ براعظم کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس شاندار اقدام کے لیے ڈیوڈ ایمے کو ہم مبارک باد دیتے ہیں اور روزن-آلس ویئے کو ان کے غیر معمولی اور معیاری ترجمے پر خراجِ تحسین پیش کرتے ہیں۔

’موت کی کتاب‘ مختصر ہونے کے باوجود اپنی گہری تاریکی اور معنوی تہہ داری کے باعث ایک عظیم تخلیقی شہ پارہ ہے۔

یہ ایک ایسا ناول  ہے جو پہلی ہی قرأت میں ذہن و روح پر نقش ہو جاتا ہے، ہمیں ہماری اپنی داخلی تاریکیوں سے روشناس کراتا ہے اور ہمیں اس بات کے لیے مجبور کرتا ہے کہ اس کا مطالعہ بار بار کیا جائے۔

والٹر شیلر نامی شخص، جو سیوکاریگ فورٹ یونیورسٹی کے شعبۂ آثارِ قدیمہ سے وابستہ ہے، اپنی ’تمہید‘ (صفحہ 1-6) 2211 میں قلمبند کرتا ہے۔ اس میں وہ ایک ایسے مخطوطے کی دریافت کا ذکر کرتا ہے، جو ایک فراموش شدہ زبان میں تحریر تھا اور جسے سمجھنے میں بے حد دشواری پیش آئی تھی۔

یہ تحریر ’گرگٹہ تل ماس‘ کے کھنڈرات میں ملی تھی، جہاں تقریباً دو صدی قبل، اس قصبے کو ہائیڈرو الکٹرک ڈیم کی تعمیر کے لیے غرق آب کیے جانے سے پہلے، ایک ’پاگل خانہ‘ قائم تھا۔

اس کے بعد مسودے کے مصنف کا درد میں ڈوبا ہوا مگر ظرافت سے بھرپور یکطرفہ مکالمہ شروع ہوتا ہے۔ ہمیں اس کے عہد کا سراغ ملتا ہے، نہ ہی اس سرزمین کا جہاں اس نے اپنی زندگی بسر کی، اگرچہ ہمارا قیاس یہی کہتا ہے کہ وہ شمالی ہند کا باسی ہے۔

اس کردار کا وجود ایک ایسی داخلی اجنبیت کے احساس پر مبنی ہے جو اسے دنیا سے ہم آہنگ ہونے کی صلاحیت سے محروم رکھتا ہے۔

وہ موت کے خیال کی زنجیروں میں جکڑا ہوا ہےاور خودکشی کا آسیب کسی ناگزیر سائے کی مانند اس کے شعور پر سایہ فگن رہتا ہے۔ مگر اس کے لیے خودکشی محض ایک ترغیب، ایک خیال نہیں بلکہ ایک مجسم ہستی ہے، جو کبھی اس کا ساتھ نہیں چھوڑتی ہے۔

483527155_9483265428385970_8536707087862918278_n

یہ خود کشی پالتو گلہری کی شکل میں اس کی پتلون کی جیب میں جا بیٹھتی ہے۔ جب وہ افسردگی کے عالم میں چہل قدمی کرتا ہوا ریلوے لائن کے قریب پہنچتا ہے (صفحہ 19-23)، تو یہی خود کشی اسے مشورہ دیتی ہے کہ وہ خود کو ٹرین کے حوالے کر دے۔

کئی اشارے اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ یہ وجودی اضطراب صرف بچپن کے دنوں تک محدود نہیں (صفحہ 43-46، 47-53، 54-59، 60-62)، بلکہ اس کی بازگشت پیدائش سے پہلے کی گھڑیوں میں بھی سنائی دیتی ہے (صفحہ 113-114)۔

تاہم، یہ قیاس کیا جا سکتا ہے کہ اگر کوئی ابتدائی دور کا صدمہ موجود ہے تو اس کی جڑیں کسی محض اتفاقی حادثے میں نہیں، بلکہ کسی گہری اور پیچیدہ حقیقت میں پیوست ہیں۔ اس پس منظر میں ’موت کی کتاب‘ کا علمی و فکری مطالعہ نہایت موزوں معلوم ہوتا ہے۔ میں اگلے صفحات پر اس پہلو پر مزید روشنی ڈالوں گا۔

راوی اپنی ماں کی موت کے بعد، جو مسلسل تشدد اور محرومیوں کے نتیجے میں واقع ہوتی ہے، شادی کر لیتا ہے، مگر اس کے دل میں باپ کے قتل کی خواہش اور دونوں کے مابین نفرت کی دیوار جوں کی توں قائم رہتی ہے۔

اس کی زندگی میں ایک معشوقہ بھی ہے، جس کی ہتھیلیاں زردی مائل اور آنکھیں ویران ہیں۔ وہ، اس کی بیوی کے برعکس، دل کی اتھاہ گہرائیوں سے اس سے محبت کرتی ہے، مگر اس کے ساتھ خوش نہیں ہے (صفحہ 16-18، 19-23، 24-25)۔

سنیما کی بات کو پس پشت ڈال دیں تو جدید ہندوستانی ادب عموماً جنسی موضوعات کے بیان میں جھجک کا مظاہرہ کرتا ہے، مگر خالد جاوید اپنے المناک کردار کے ازدواجی اور ناجائز تعلقات کو بڑی بے باکی کے ساتھ پیش کرتے ہیں۔


یہ بھی پڑھیں: نعمت خانہ: سماجی مسائل کے بطن میں انسانی زندگی کے فلسفے کی تلاش …


ناول کا اختتام ایک جہنمی موسم (صفحہ 84-91، 92-103) پر ہوتا ہے، جہاں راوی خود کو ایک ایسی مایوسی میں قید کر لیتا ہے جس سے فرار ممکن نہیں، اور وہ نہایت منظم انداز میں اپنی ہی ذات سے گھن کھانے لگتا ہے۔ اس کے مکروہ اور بدنما خودبیانیہ پرغور کرنا دلچسپی سے خالی نہیں، جو اس کی گہری نفرت کی عکاسی کرتا ہے، بالکل ویسے ہی جیسے لوترے آموں (Lautréamont) کے اسلوب میں دکھائی دیتا ہے۔ کیا روزن-آلس ویئے اور ڈیوڈ ایمے کو اس بات کا علم ہے کہ خالد جاوید نے Les Chants de Maldoror کا مطالعہ کیا ہے اور کیا وہ اس سے متاثر ہوئے ہیں؟

لوترےآموں ’لے شوں‘ (IV, 5) میں لکھتا ہے؛

’میں غلیظ ہوں۔ جوئیں میرے جسم کو کھا رہی ہیں۔ سور مجھے دیکھ کر قے کر دیتے ہیں۔ کوڑھ کے زخموں کی پپڑیاں میری جلد سے اتر چکی ہیں، اور میرا جسم پیلے رنگ کے پیپ میں لت پت ہے۔‘

خالد جاوید اپنے ناول (صفحہ 87، 92) میں لکھتے ہیں؛

’میں نے جسم کا خیال رکھنا بالکل ہی چھوڑ دیا ۔ میں گندا اور غلیظ رہنے لگا۔ (…) زخم سے پیپ کی دوری ختم ہوتی جا رہی ہے۔ جلد ہی میں ایک قد آدم زخم کے اندر چلوں گا۔‘

راوی کا باپ اور اس کی بیوی اسے ایک پاگل خانے میں داخل کرانے کا فیصلہ کرتے ہیں (صفحہ 104-115)، ایک مشکل آزمائش، جس سے نجات اسے صرف اپنے والد کی موت کے بعد ہی ملتی ہے۔ رہائی کے بعد، وہ بارش میں اس پاگل خانے کی’سیاہ اور دیو ہیکل دیواروں‘ سے دور نکل جاتا ہے اور بالآخر بیکٹ کے کسی کردار کی مانند، کیچڑ سے بھرے ایک گڑھے میں پناہ لے لیتا ہے (صفحہ 118-124)۔

یہ کتاب ابواب کے بجائے’اوراق‘ میں منقسم ہے،کل انیس اوراق۔ بیسواں ورق(صفحہ 125) خالی رہتا ہے اور کتاب ایک پُراسرار جملے پر اس طرح ختم ہوتی ہے؛’لامحدود اور بیکراں زمانوں تک……‘ اور یہ جملہ، جیسا کہ خالد جاویدلکھتے ہیں (عرض مصنف، صفحہ i-ii) ، سنسکرت زبان کے ایک پراسرار حرف ’ری‘ (ऋ) کی جانب اشارہ کرتا ہے، جس کی دھاتو پر غور کریں تو اس کا مطلب ’پتھر پر خراشیں ڈالنا‘ یا ’مصنف اور اس کی تحریر کے درمیان کوئی دوئی یا دوری نہ باقی رہے‘ ہو سکتا ہے۔

اس میں نفسیاتی مریضوں کے ہسپتال، پاگل خانے کا ذکر ہے۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہمیں بیان کردہ واقعات پر کتنا اعتبار کرنا چاہیے۔ آخر ہم اس راوی کی باتوں پر کہاں تک یقین کریں؟ کیا یہ کسی کا ایک بے باک اعتراف ہے یا کسی دیوانے کی ڈائری؟

والٹر شیلر، جو خود کو تئیسویں صدی کا ماہرِ آثارِ قدیمہ ظاہر کرتا ہے، حقیقت میں وہی اس متن کا مصنف تو نہیں؟ کیا والٹر شیلر، اس کی ’سیوکاریگ فورٹ یونیورسٹی‘، اور اس کا دوست ’ژاں ہیوگو،جو ’گارساں دَ تاسی‘ کی نسل سے ہے اور اس مخطوطے کا مترجم بھی، کیاواقعی میں یہ سب کوئی حقیقی وجود رکھتے ہیں؟

یہ کوئی معنی نہیں رکھتا کہ اس میں کیا حقیقی ہے اور کیا نہیں۔ کیوں کہ یہ نہ تو کسی طبی معائنے کے لیے پیش کردہ’دستاویز‘ ہے، نہ ہی خودنوشت کہانی (جو ان دنوں فرانس میں بے حد مقبول ہے) اور نہ ہی کوئی ایسا سنسنی خیز افسانہ جس کی کہانی گھسے پٹے انداز میں بُنی گئی ہو۔ بلکہ یہ ایک حقیقی ادبی تخلیق ہے (یونانی مفہوم میں ایک نظم کے مترادف) جس کے سوالات کے جواب صرف اس کے بیانیے کے اندر ہی تلاش کیے جا سکتے ہیں۔


یہ بھی پڑھیں: ’میری ہر تحریر موت کی ایک کتاب ہے‘


اس ناول کا عنوان بھی اپنی طرف متوجہ کرتا ہے۔ اس کی تعبیر کیسے کی جائے؟ اس حوالے سے کئی عبارتیں موجود ہیں جو اس کی تفہیم میں ہماری رہنمائی کرتی ہیں (صفحہ 89، 106، 115، 119)۔ ’موت کی کتاب‘شاید وہی کتاب ہے جس میں ’ہمارے گناہوں کا اندراج ہوگا‘ اور جو صرف اس وقت قابلِ مطالعہ ہوگی جب ہم خودفنا ہو چکے ہوں گے، یعنی اس وقت جب بہت دیر ہو چکی ہوگی۔

مگر اس سے بھی زیادہ پریشان کن بات یہ ہے کہ اس کتاب کی ترتیب کئی جنم پہلے ہی مکمل ہو چکی تھی، کیونکہ اسے ’کرموں کے لگاتار بہتے ہوئے سنسکاروں نے گڑھا ہے‘، جن پر ہمارا ’کوئی اختیار‘ نہیں تھا۔’ (ہمارے) سارے اعمال اور (ہمارے) سارے گناہ (ہمارے) جنم لینے سے پہلے ہی(ہمارے) تعاقب میں ہیں۔‘

یہ مفروضہ اور بھی زیادہ حیرت انگیز ہو سکتا ہے جہاں غنوصی تعبیر از سر نو ابھر کر سامنے آتی ہے؛ کیا یہ کتاب خدا اور شیطان کی مشترکہ تخلیق نہیں،جس میں ’شیطان کے قلم کی سیاہی اڑنے والی نہیں‘ ہے؟ کیا خدااور شیطان (خدا اپنے ہی کھیل میں شیطان کی شمولیت قبول کرنے پر مجبور ہے) مل کر ہماری زندگیاں لکھ رہے ہیں، ہماری بدبختی کی، اور وہ بھی ہماری لاعلمی میں؟

مجھے امید ہے کہ میں یہ واضح کر نے میں کامیاب ہوں کہ خالد جاوید کا پہلا ناول (’موت کی کتاب‘ عربی میں لفظ ’کتاب‘ ’مقدس کتاب‘ کے معنی میں بھی استعمال کیا جاتا ہے) فکر و معنی کے بے شمار در وا کرتا ہے، کسی حتمی نتیجے پر نہیں پہنچتا اور ناول کا یہی پہلو اسے مسحور کن بنا دیتا ہے۔

سال 2025 کا Le Prix Médicis étranger انعام، جو غیرانگریزی ہندوستانی ادب کو عالمی توجہ دلانے کا مؤثر ذریعہ بھی بن سکتا ہے، اگر اس ناول کو دیا جائے تو کسی طور پر غیر مناسب نہ ہوگا۔

(پیترک ابراہم افرانسیسی تنقیدنگار، صحافی اور مصنف ہیں۔ وہ عصری ادب پر اپنے بصیرت افروز تبصرے اور مضامین کے لیےمعروف ہیں۔)