ہریانہ کے وزیر اعلیٰ منوہر لال کھٹر نے یہ بھی کہا کہ ضلع انتظامیہ کا کھلی جگہوں پر نماز کے لیے کچھ جگہوں کو محفوظ رکھنے کاقبل کا فیصلہ واپس لے لیا گیا ہے اور ریاستی حکومت اب اس مسئلے کا پرامن حل تلاش کرے گی۔ گڑگاؤں میں پچھلے کچھ مہینوں میں، کچھ ہندو تنظیموں کے ارکان ان جگہوں پر جمع ہوتے ہیں اور ‘بھارت ماتا کی جئے’ اور ‘جے شری رام’کے نعرے لگاتے ہیں جہاں مسلمان نماز ادا کرتے ہیں۔
نئی دہلی: ہریانہ کے گڑگاؤں شہر میں کھلی جگہوں پر نماز جمعہ ادا کرنے پر کئی ہندو تنظیموں کے اعتراضات کے درمیان، ریاست کے وزیر اعلیٰ منوہر لال کھٹر نے کہا کہ کھلے میں نماز ادا کرنے کی روایت کو ‘برداشت نہیں کیا جائے گا۔’
کھٹر نے یہ بھی کہا کہ کھلی جگہوں پر نماز کے لیے کچھ جگہوں کو محفوظ رکھنے کے ضلع انتظامیہ کے پہلےکے فیصلے کو واپس لے لیا گیا ہے اور ریاستی حکومت اب اس مسئلے کا پرامن حل تلاش کرے گی۔
وزیر اعلیٰ نے گڑگاؤں میں دائیں بازو کی تنظیموں کی طرف سے نماز جمعہ پر کیے گئے اعتراضات کے سلسلے میں ایک سوال کے جواب میں نامہ نگاروں کو بتایا،یہاں(گڑگاؤں)کھلے میں نماز پڑھنے کی روایت کو برداشت نہیں کیا جائے گا، لیکن ہم اس مسئلے کا پرامن حل تلاش کریں گے۔
کھٹر نے کہا،‘سب کو (عبادت کی )سہولت ملنی چاہیے، لیکن کسی کو بھی دوسروں کے حقوق کی خلاف ورزی نہیں کرنی چاہیے۔ اس کی اجازت نہیں دی جائےگی۔’
کھلے مقامات پر نماز کے لیے کچھ جگہیں مختص کرنے کےضلعی انتظامیہ کے فیصلے کو واپس لینے پرانہوں نے کہا، ہم نے پولیس اور ڈپٹی کمشنر سے اس مسئلے کو حل کرنے کو کہا ہے۔
انڈین ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق وزیر اعلیٰ کھٹر نے مزید کہا کہ ،اس کے حل کے لیے ہر کوئی اپنی اپنی جگہ پر نماز ادا کرتا ہے، کوئی نماز پڑھتا ہے، کوئی تلاوت کرتا ہے، کوئی عبادت کرتا ہے، ہمیں کوئی اعتراض نہیں ہے۔اور مذہبی مقامات انہی مقاصد کے لیے بنائے جاتے ہیں کہ وہاں عبادت کی جا سکے۔ کھلے میں اس طرح کی روایت نہیں ہونی چاہیے، کھلے میں نماز پڑھنے کا یہ رواج ہرگز برداشت نہیں کیا جائے گا۔
وزیر اعلیٰ گڑگاؤں میں پی ڈبلیو ڈی ریسٹ ہاؤس میں گڑگاؤں میٹروپولیٹن ڈیولپمنٹ اتھارٹی کی میٹنگ کی صدارت کے بعد اظہار خیال کر رہے تھے۔
منوہر لال کھٹر نے کہا کہ کمیونٹی کے ساتھ بات چیت کے بعد اس مسئلے کا حل نکالا جائےگا۔
انہوں نے کہا ہے، ان کے پاس بہت سی جگہیں ہیں جہاں انہیں اجازت دی جانی چاہیے۔ وقف بورڈ کے تحت ان کی کچھ جائیدادوں یا زمینوں پر تجاوزات ہیں، انہیں کس طرح فراہم کرایا جاسکتا ہے، اس پر بات کی جارہی ہے۔ یا تو وہ اپنے گھروں میں نماز پڑھ سکتے ہیں۔ ہم کھلے میں نماز پڑھنے اور اس کے ساتھ جاری تصادم کی اجازت نہیں دیں گے۔
انہوں نے کہا،‘مشورے کے بعد ایک فیصلہ کیا گیا تھا، لیکن وہ فیصلہ، جس میں کچھ جگہیں(نماز کے لیے) محفوظ تھیں، ہم نے اسے واپس لے لیا ہے۔ اب پھر نئے سرے سے بات چیت کی جائےگی۔ ہر کسی کو سہولت ملنی چاہیے۔کسی کےحقوق کی پامالی نہیں ہونی چاہیے،لیکن کسی کےساتھ زبردستی نہیں کی جائے گی۔’
گڑگاؤں شہر میں، پچھلے کچھ مہینوں میں کچھ ہندو تنظیموں کے اراکین ان جگہوں پر جمع ہوجاتے ہیں جہاں مسلمان کھلی جگہوں پر’نماز’پڑھتے ہیں اور ‘بھارت ماتا کی جئے’ اور ‘جے شری رام’ کے نعرے لگاتے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق جمعہ کو جب وزیر اعلیٰ یہ بیانات دے رہے تھے تو کچھ مقامی باشندوں اور ہندو نواز گروپوں کے ارکان نے سیکٹر 37 تھانے کے باہر کے علاقے پر قبضہ کر لیا تھا، جسے نماز کے لیے مختص کیا گیا تھا۔
انہوں نے 8 دسمبر کو ہیلی کاپٹر حادثے میں سی ڈی ایس بپن راوت، ان کی اہلیہ اور دیگر دفاعی اہلکاروں کی موت پر تعزیت کے لیے ایک تعزیتی اجلاس کا اہتمام کیا تھا۔
پولیس کی تعیناتی کے باوجود، گروپ نے جمعہ کو ٹرکوں اور گاڑیوں کو وہاں کھڑا کر دیا اور ‘جئے شری رام’ اور ‘بھارت ماتا کی جئے’کے نعرے لگائے۔
رپورٹ کے مطابق جب ایک چھوٹا گروپ نماز پڑھنے وہاں پہنچا تو کھانڈسا، محمد پور جھارسا، بیگم پور کھٹولا اور آس پاس کے گاؤں کے لوگوں نے انہیں وہاں سے جانے کو کہا جس کے بعد دونوں فریقین میں بحث بھی ہوئی۔
اس کے علاوہ گڑگاؤں کے سیکٹر 44 اور سیکٹر 29 میں بھی مسلمانوں کو نماز جمعہ ادا کرنے کی اجازت نہیں دی گئی۔ یہاں پہلے ہی مقررہ جگہوں پر نماز میں رکاوٹ پیدا کی جاچکی ہے۔
نومبر کے آخری ہفتے میں کئی گاؤں کے لوگ اس مخصوص جگہ پر پہنچے تھے جو سیکٹر 37 تھانے کے قریب ہے۔ ان لوگوں نے یہاں ہون کیا تھا اور دعویٰ کیا تھا کہ یہ ممبئی دہشت گردانہ حملے کے شہیدوں کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے کیا جا رہا ہے۔
ایک مہینہ پہلے بی جے پی لیڈر کپل مشرا نے گڑگاؤں کے سیکٹر 12 اے کے اس مقام پر گئووردھن پوجا میں شرکت کی تھی جہاں مسلمان ہر ہفتے نماز ادا کرتے ہیں۔
رپورٹ کےمطابق،شہر میں عوامی مقامات پر نماز کے خلاف احتجاج کر رہے لوگوں کی سنیکت ہندو سنگھرش سمتی کے زیر اہتمام منعقد گئوردھن پوجا میں عزت افزائی بھی کی گئی تھی۔
معلوم ہو کہ رائٹ ونگ گروپوں کے حمایتی اورممبر پچھلے دو مہینے سے زیادہ سے ہر جمعہ کو گڑگاؤں میں نماز کی جگہوں پر احتجاج کر رہے ہیں۔اس میں سے ایک سیکٹر12ہے، جہاں مسلمان انتظامیہ سے اجازت لےکرعوامی پراپرٹی پر نمازادا کرتے آئے ہیں۔
اس کے بعد ہندوتوا تنظیموں کے دباؤ کے بیچ انتظامیہ نے گزشتہ تین نومبر کو 37مختص مقامات میں سے آٹھ پر نماز ادا کرنے کی اجازت رد کر دی تھی۔
اسی طرح سال 2018 میں بھی گڑگاؤں میں کھلے میں نماز ادا کر رہے مسلموں پر لگاتار حملے ہوئے تھے۔ کچھ لوگوں نے عوامی مقامات پر نماز ادا کر رہے مسلمانوں پر حملہ کیا تھا اور ان سے مبینہ طور پر جئے شری رام کے نعرے لگوائے تھے۔
(خبررساں ایجنسی بھاشاکے ان پٹ کے ساتھ)