تخلیقی سرگزشت: ’آزادی اظہار پر پہرے بٹھا دیے گئے ہیں‘

ان دنوں غیر اعلانیہ ایمر جنسی نے ہمارے معاشرے میں فرقہ واریت، منافرت اور عدم رواداری کا زہر اس طرح گھول دیا ہے کہ ملک کی صدیوں پرانی گنگا جمنی تہذیب اور قدریں پامال ہو رہی ہیں۔ ملک کے ادیب و شاعر اور دانشوران بھی سراسیمگی کے عالم میں جی رہے ہیں۔ میں اور میرے عہد کی تخلیقی سرگزشت کی اس قسط میں پڑھیے معروف فکشن نویس اور ممتاز صحافی سید احمد قادری کو۔

ان دنوں غیر اعلانیہ ایمر جنسی نے ہمارے معاشرے میں فرقہ واریت، منافرت اور عدم رواداری کا زہر اس طرح گھول دیا ہے کہ ملک کی صدیوں پرانی گنگا جمنی تہذیب اور قدریں پامال ہو رہی ہیں۔ ملک کے ادیب و شاعر اور دانشوران بھی سراسیمگی کے عالم میں جی رہے ہیں۔ میں اور میرے عہد کی تخلیقی سرگزشت کی اس قسط میں پڑھیے معروف فکشن نویس اور ممتاز صحافی سید احمد قادری کو۔

میں نے کبھی قلم کی حرمت کو پامال نہیں کیا۔

میری پیدائش ریاست بہارکےچھوٹے سے شہر اورنگ آباد کے ایک متوسط گھرانے میں ہوئی۔ اس وقت ہمارے ملک ہندوستان کوآزاد ہوئے چھ سات سال ہی گزرے تھے۔پورے ملک میں انگریزوں کے تسلط سے آزادی کی خوشیوں کا سلسلہ چل رہا تھا، لیکن دوسری جانب تقسیم کادردوکرب بھی تھا۔

یہ تقسیم صرف دو ملکوں کانہیں ہوا تھا بلکہ ہزاروں لاکھوں گھروں اورخاندانوں کاتھا۔بیٹی،ماں باپ سے جداہوگئی تھی، ماں باپ سے بیٹا الگ ہوگیاتھا۔ بھائی بہن ایک دوسرے سے بچھڑ گئے تھے۔ مستقبل کے سنہری خواب اورسیاست دانوں کی انانیت مفاد پرستی اور ناعاقبت اندیشی نے نہ جانے کتنے خاندانوں کواپنے ملک اور اپنی جڑوں کوچھوڑ کر ہجرت کرنے پر مجبورکردیاتھا۔

ان لاکھوں خاندان میں میرا بھی خاندان شامل تھا اوریہ باتیں میری سمجھ میں بہت دیر سے اس وقت آئیں، جب میں نے اپنی دادی ماں کو اپنی اکلوتی بیٹی کی جدائی میں آنسو بہاتے دیکھا، اپنی ماں کواپنے پورے میکہ کے بچھڑ نے پرہمیشہ غمزدہ اور افسردہ دیکھا کرتا تھا – کسی نے کہا ہے نہ کہ؛

 یہ جبربھی دیکھاہے تاریخ کی نظروں نے

لمحوں نے خطاکی تھی صدیوں نے سزا پائی

میرے ہوش سنبھالنے تک زمینداری ختم ہوچکی تھی،لیکن اثرات باقی تھے۔ میرے والد جناب سید بدرالدین قادری (قلمی نام بدر اورنگ آبادی) کلکتہ کی ملازمت اور صحافت چھوڑ کرمرکزی حکومت کے اے جی آفس رانچی میں آڈیٹر کی حیثیت سے بحال ہوچکے تھے۔

آڈٹ کی ذمہ داری نے انھیں اس زمانے میں زیادہ تر سفرپر رکھا۔اس لیے ہم سبھی یعنی میری والدہ میری  بہنیں اوربھائی دادا ابا حافظ سید غلام غوث صاحب مرحوم کے زیرنگرانی اورنگ آباد ہی میں رہے اورابتدائی تعلیم بھی میں نے یہاں کے ٹاؤن ہائی اسکول سے حاصل کی۔

    مجھے اس بات پر فخر ہے کہ میری جنم بھومی اورنگ آباد ہے۔اسی اورنگ آباد میں،میں نے پہلا افسانہ لکھا تھا اور اب تک میرے چار افسانوی مجموعے منظر عام پر آچکے ہیں،جنھیں بہار، اتر پردیش اور مغربی بنگال اردو اکادمیوں کے قومی سطح کے ایوارڈ بھی مل چکے ہیں۔


اسی اورنگ آباد کی سرزمین پر 1974 ء میں جئے پرکاش نرائن تحریک کے تعلق سے ہفت روزہ ‘آدرش’ میں شائع ہونے والی میری ایک ابتدائی صحافتی رپورٹنگ پر سی آئی ڈی والوں نے مجھ سے بازپرس کی تھی۔

سی آئی ڈی والوں کی باز پرس سے میں ڈر ا نہ سہما اور نہ ہی میری ہمت و حوصلہ میں کوئی کمی آ ئی تھی بلکہ مجھے خوشی ا س بات کی تھی کہ میری شائع ہونے والی رپورٹ میں اتنا دم ہے کہ حکومت خوف زدہ ہو گئی ہے اور آج میری شناخت ایک بے باک اور بے خوف صحافی کی حیثیت سے ہے۔


میری اسی صحافتی خدمات کے اعتراف میں  1992ء میں مر کزی حکومت کے محکمہ تعلیم و ثقافت کی طرف سے فیلو شپ ایوار ڈملا۔1995ء میں کے کے بر لا فاؤنڈ یشن، نئی دہلی نے فیلوشپ ایوارڈ دیا۔1996ء میں انگریزی روزنامہ ‘ٹائمس آف انڈیا’نے بہاری آف دی ایئر کا اعزاز بخشا۔

ادبی نقوش

کے کے برلا فاؤنڈیشن، نئی دہلی جیسے باوقار ادارہ نے اب تک کا پہلا اور آخری فیلو شپ ایوارڈ مجھے دیا تھا۔ اس فیلو شپ کے تحت تصنیف ہونے والی میری کتاب ‘اردو صحافت بہار میں’  بہار اور جھارکھنڈ کی یونیورسٹیوں کے نصاب میں شامل ہے۔

      اورنگ آباد میں صبح صبح دادا ابّا حافظ سید غلام غوث (مرحوم) کے فجر کی نماز کی قرأت اور پھر تلاوت قران پاک اب تک میرے دل ودماغ میں محفوظ ہے۔کہانیاں سننے کا شوق ہر بچے کی طرح مجھے بھی تھا اور میرا یہ شوق کبھی امی جان اور کبھی دادا ابااپنے سر،پیر دبواتے وقت پورا کیا کرتے تھے۔

سن شعور کو پہنچا تو میرا داخلہ اورنگ آباد کے ٹاؤن ہائی اسکول میں کرا دیا گیا،جہاں مجھے اردو کے سیدھے سادے استاد جناب وسیم الحق، سخت گیر فارسی کے استاد مولانا لطافت حسین شمسی کے ساتھ ساتھ ماسٹر قدوس اور بندیشوری بابو وغیرہ جیسے استاد سے تعلیم حاصل کرنے کا موقع ملا۔

اورنگ آباد میں اسکول کے زمانے کے میرے قریبی دوست نوشی، حلیم، کشور وغیرہ تھے۔ اس ابتدائی زمانے میں، میں نے اورنگ آباد کی اردو لائبریری میں موجود بچوں کے لیے دستیاب تقریباََ ساری کتابیں پڑھ ڈالیں۔ راجہ رانی کی،دیو پریوں،جادوگروں کی اور کئی مشاہیر کی بچوں کے لیے لکھی کتابیں۔

میرے والد جناب بدر اورنگ آبادی اپنے دور کے مشہور افسانہ نگار تھے اور اے جی آفس کی ملازمت سے قبل کلکتہ میں صحافت سے بھی وابستہ تھے۔مرکزی حکومت کے اے جی آفس، رانچی میں آڈیٹر کے عہدہ پر فائز ہونے کے بعد ایس اے ایس کا امتحان پاس کیا اور اے جی آفس،رانچی میں پہلے مسلم اکاؤنٹس آفیسر کے عہدہ پرفائز ہوئے۔

لمبی چھٹیوں میں وہ اورنگ آباد آیا کرتے تھے۔رانچی میں جب انھیں اپنے بچوں کی دوری ستانے لگی،تب سبھوں کو رانچی لے گئے۔ ہم لوگ رانچی،ڈورنڈہ کے لکشمی پاڑہ محلہ میں کرایہ کے ایک مکان میں آباد ہو گئے ۔

جہاں تک اورنگ آباد کی تاریخی حیثیت کا سوال ہے تو یہاں اورنگ زیب کے قافلہ گزرنے کی بات سامنے آتی ہے، جس کے نام پر یہ شہر آباد ہوا۔اس کی تاریخ میں جاؤں گا تو باتیں بہت ہی تفصیل طلب ہو جا ئیں گی، ہاں فی الوقت میں یہ ضرور بتا سکتا ہوں کہ ہمارا اورنگ آباد شہر مردم خیز علاقہ ہے، یہاں کئی ایسی شخصیات پیدا ہوئی ہیں، جن کی کئی لحاظ سے شناخت ہے۔یہاں نہ جانے کتنے لعل وگہر پیدا ہوئے اور شہرت و مقبولیت کے افق پر چھا گئے۔

اس ضمن میں سب سے پہلا نام بے اختیار ذہن کے پردے پر روشن ہوتا ہے،وہ  نام ہے پروفیسر عبدالمغنی اور ان کے والد مولانا عبد الرؤف کا۔ جنھوں نے اپنی علمی، ادبی، لسانی اور تنظیمی صلاحیتوں سے پورے برصغیر میں نام روشن کیا ہے۔

آج بھی ان کے مقبول ٹی وی ڈرامہ سیریل ‘الف نون’ کو لوگ نہیں بھولے ہیں اور الّن کی اداکاری سے کمال احمد رضوی اپنے فن کا کمال دکھا کر لوگوں کے دل و دماغ پرچھائے ہوئے ہیں۔

ان کے علاوہ اورنگ آباد ضلع کے رفیع گنج سے تعلق رکھنے والی بین الاقومی شہرت کی حامل شخصیت کمال احمد رضوی کی ہے، جو اپنے وطن رفیع گنج سے ہجرت کرنے پر مجبور ہوئے اور پاکستان میں انھیں ایک ڈرامہ نگار اور اداکار کی حیثیت سے جو شہرت اور مقبولیت حاصل ہوئی وہ کم لوگوں کے حصہ میں آئی ہے۔

آج بھی ان کے مقبول ٹی وی ڈرامہ سیریل ‘الف نون’ کو لوگ نہیں بھولے ہیں اور الّن کی اداکاری سے کمال احمد رضوی اپنے فن کا کمال دکھا کر لوگوں کے دل و دماغ پر چھاہوئے ہیں۔

تیسرا نام اسی رفیع گنج سے تعلق رکھنے والی مشہور شخصیت رضی رضوی کا ہے۔ جنھوں نے وائس آف امریکہ(واشنگٹن) کے اردو پروگرام کو عالمی مقبولیت عطا کی اور اس شعبہ میں ایک اعلیٰ افسراور براڈکاسٹر کی حیثیت سے بھی اپنی پہچان بنانے میں کامیاب ہوئے۔

رفیع گنج کے قریب کے ہی ایک گاؤں عماد پور کے رہنے والے شفق عمادپوری کی شاعرانہ قد و قامت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس گاؤں میں جب اورنگ آباد کے ایس ڈی او کی حیثیت سے مشہور ادیب قدر ت اللہ شہاب جاتے ہیں،تو بطور خاص ان سے ملنے کی خواہش ظاہر کرتے ہیں۔

اس خصوصی ملاقات کا ذکر انھوں نے اپنی مشہور کتاب ‘شہاب نامہ’ میں بڑے دلچسپ انداز میں کیا ہے۔

        میرے گھر کا ماحول ہر لحاظ سے مذہبی اور تہذیبی تھا۔اب جہاں تک بدلتے وقت کے ماحول سے گزرتی ہوئی تبدیلیوں کو قبول کرنے کی بات ہے توہر زمانے اور عہد میں گزرے زمانے کو بہتر اور تاریخی بتایا گیا ہے اور کسی فلسفی نے یہ بھی کہا ہے کہ زمانے کو برا مت کہو کہ زمانہ ہم سے ہے زمانے سے ہم نہیں۔

بس ان ہی گتھیوں میں وقت کا پہیہ آگے بڑھتا گیا اور میں اورنگ آباد سے رانچی آ گیا۔رانچی کے ڈورنڈہ محلّہ میں گھر کے قریب ہی واقع ایس ایس وی وی ہائی اسکول میں میراداخلہ بہت سخت ٹیسٹ میں کامیابی کے بعد نویں جماعت میں ہوا۔

اس اسکول کے ہیڈ ماسٹر گھوش بابو بہت سخت گیر تھے۔ وہ انگریزی پڑھایا کرتے تھے۔ اکثر مجھے ان کے عتاب کا شکار ہونا پڑتا تھا، پوئم یاد نہیں کیے جانے کی پاداش میں ان کے دفتر میں اکثر مرغا بھی بننا پڑا۔

اسکول میں کلاس شروع ہونے سے قبل صبح صبح پریئر(دعائیہ) میں،میں دو تین بچوں کے ساتھ مل کر اونچے برآمدہ میں کھڑے ہوکر علّامہ اقبال کامشہور ترانہ’سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا…‘ ایک خاص انداز سے پیش کیا کرتا تھا اور نیچے کھڑے سینکڑوں بچے اس ترانہ کو دہراتے تھے جو بلا شبہ بڑا اچھا لگتا تھا، اچھا یہ بھی لگتا تھا کہ میں ترانہ پیش کرتے ہوئے سینکڑوں بچوں کی نگاہوں کا مرکز ہوتا تھااور ترانہ میں موجود اپنے ملک ہندوستان کی گنگا جمنی تہذیب، یکجہتی اور پیار ومحبت کے جو پیغام تھے، وہ ہم تمام بچوں کوسرشار کرتے تھے۔

اس شاندار پیشکش کے باعث میں اسکول کے اساتذہ اور طلبہ کے درمیان اپنی شناخت بنا چکا تھا۔ اسی شناخت کے باعث مجھے زبردستی اسکاؤٹ اینڈ گائڈ میں شامل کیا گیا تھا۔ لیکن زبردستی شمولیت کے بعد اس میں میری دلچسپی بڑھتی گئی اور مجھے بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملا۔

رانچی کا ماحول اورنگ آباد سےمختلف تھا۔ بچوں کی کتابیں یہاں آسانی سے دستیاب نہیں تھیں۔ لے دے کر کبھی ’کھلونا‘ یا ’ٹافی‘ جیسے رسائل پر ہی اکتفا کرنا پڑتا تھا۔ یہ رسائل جب گھر پر آتے۔تو ان پر پہلا حق میری باجی کا ہوا کرتا تھا۔

ایک دن رسالہ ’کھلونا‘ کے لیے ہم دونوں میں پہلے پڑھنے کو لے کر لڑائی ہو گئی اور باجی نے اپنی عادت کے مطابق میری پٹائی کر دی۔میں رونے لگا تو میرے والد نے مجھے چپ کرانے اور بہلانے کی غرض سے اپنے بک شیلف سے ابن صفی کے چند ناول دیے اور کہا’لو،تم انھیں پڑھو۔‘

ظاہر ہے یہ ناول اس وقت میری سمجھ سے پرے تھے،پھر بھی میں نے اپنی باجی کو مرعوب کرنے کے لیے کہ دیکھو میں وہ کتاب پڑھ رہا ہوں،جو ابا پڑھتے ہیں، ان کی ورق گردانی  کرتا رہا۔

قاسم کی غوں غاں‘ اس کی حماقتیں‘ عمران کا کھلنڈراپن‘ اس کی بے حد دلچسپ اور ہنستے ہنستے پیٹ میں بل پڑ جانے والی باتیں، حمید کا اسمارٹنس،اس کی حرکتوں پرکرنل فریدی کی ڈانٹ پھٹکار، جوزف سےچھیڑ چھاڑ، رشیدہ اورانورکی نوک جھوک…ابتداء میں یہ سب مجھے بڑااچھالگا…ان کرداروں سے میری اتنی زیادہ دلچسپی بڑھ گئی کہ میں نے پوراناول پڑھنا شروع کردیا۔

باتیں کچھ سمجھ میں آتیں اورکچھ سرکے اوپرسے گزر جاتیں ،لیکن دلچسپی میں کمی نہیں آئی،بلکہ بڑھتی چلی گئی اوردھیرے دھیرے مجھے کرنل فریدی کی آہنی اورمقناطیسی شخصیت میں دلچسپی پیداہونے لگی۔

کرنل فریدی کی شخصیت نے مجھے سب سے زیادہ متاثرکیا۔اس کی بے پناہ صلاحیتیں،اس کی ذہانت،اس کی دانشورانہ گفتگو،اس کاوقار، اس کے اصول کی پابندی،اس کی دوستی،اس کی دشمنی …ان ساری خوبیوں نے مجھے کرنل فریدی کافین بنادیا اورشعوری ولاشعوری طورپر میں خود کواس کی شخصیت میں ڈھالنے لگا۔

اس کے نئے نئے کیس اباجان کے خوف سے نصابی کتابوں میں چھپاچھپا کرپڑھتااورسوچاکرتاکہ میں بھی بڑاہوکرکرنل فریدی بنوں گااورملک وقوم اورسوسائٹی کے کوڑھ کوان کے کیفرکردارتک پہنچاؤں گا۔

لیکن ناول کی دنیااورحقیقی دنیامیں بڑافرق ہوتا ہے…یہاں ہرشخص کئی چہرے رکھتاہے،کبھی کچھ اورکبھی کچھ‘ جو نہیں رکھتے وہ مجبورہوکررکھنے لگتے ہیں اورجومجبور ہوکربھی نہیں رکھتے،ان کی قسمت میں دکھ،مصیبتیں در در کی ٹھوکریں ہوتی ہیں۔

شروع میں،میں نے ایسے کئی چہرے دیکھے تومجھے بہت حیرت ہوئی،بہت افسوس ہوا اورپھرمیں ایسے دوہرے چہروں کا عادی ہوتاگیا۔

جگن ناتھ آزاد، شوکت صدیقی اور شام بارکپوری کے ساتھ۔

میرے اندرکاکرنل فریدی آہستہ آہستہ مرتاچلاگیا۔میں نے اپنے ایک مضمون ‘ابن صفی کے ناول، میرا شوق، میرا جنون‘ میں بہت تفصیل سے روشنی ڈالی ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ ابن صفی کے ناولوں نے مجھ پر بھی بہت سارے لوگوں کی طرح نشہ ساکر دیا تھا اور مجھے یہ اعتراف ہے کہ ابن صفی کے ناولوں سے میں نے بہت کچھ سیکھا ہے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ ابن صفی کے ناولوں سے اپنی پسندیدگی کا اعتراف  اعجاز حسین، سلیم احمد، مولوی عبدالحق،مجنوں گورکھپوری، حسن عسکری، عبدالمغنی اور شمس الرحمٰن فاروقی وغیرہ جیسے بہت سارے ادیبوں، شاعروں، سائنسدانوں اور دانشوروں نے بھی کیا ہے۔

   رانچی، ڈورنڈہ کے ایس ایس وی وی ہائی ا سکو ل سے میٹرک کا امتحان 1970 ء میں پاس کیا اور ایک بار پھرمیں اپنے دادا، دادی کی خدمت اور ان کی سرپرستی میں تعلیم حاصل کرنے اورنگ آباد پہنچ گیا۔

اس سنہا کالج کے پری یونیورسٹی کے سال اول میں داخلہ لیا۔ جہاں مجھے پروفیسر ظہیر احسن جیسے اردو کے استاد، جنھوں نے لندن جا کر فو رٹ ولیم کالج پر تحقیقی مقالہ لکھا تھا، ملے۔ شعبہ حیوانات کے پروفیسر وصی کریم کا اپنا ایک وقار تھا، جس کے لیے وہ جانے جاتے تھے۔ بوٹنی میں اوجھا جی اور گپتا جی میرے خاص استاد تھے اور کیمیسٹری میں اودئے سنگھ جی کے ساتھ ساتھ فزکس کے استاد جگدیش جی کو میں اب تک نہیں بھولا ہوں۔

اورنگ آباد کے سنہا کالج میں داخلہ لینے کے بعد ایک واقعہ جو نئی نسل کے لیے درس کی حیثیت رکھتا ہے۔ اسے سنانا چاہتا ہوں۔مجھے کالج جانے کے لیے ایک سائیکل ملی تھی۔ سائیکل پر سوار ہو کر کالج کے لیے نکلتا تو راستے میں اکثر اپنے ٹاؤن اسکول کے سخت گیر استاد مولانا لطافت حسین شمسی،جو بہت ہی باوقار طریقے سے رہا کرتے تھے، کالج کے راستے میں آگے آگے جاتے ہوئے مل جاتے۔

میری ہمت نہیں ہوتی کہ میں سائیکل پر سوار ہو کر ان سے آگے نکل جاؤں۔ دور سے ان پر نظر پڑتے ہی میں سائیکل پر سے اتر جاتا اور بڑی خاموشی سے ان کے پیچھے پیچھے چلتا جاتا۔ کئی دنوں تک یہ سلسلہ جاری رہا، لیکن ایک دن اچانک انھوں نے محسوس کیا کہ ان کے پیچھے پیچھے کوئی چل رہا ہے۔ انھوں نے پیچھے مڑکر مجھے دیکھا، میں نے انھیں سلام کیا۔ انھوں نے بڑی محبت سے سلام کا جواب دیا اور’کہا جاؤ جاؤ، کالج میں تم کو دیر ہو جائے  گی۔‘

اس اجازت کے بعد ہی میں سائیکل پر بیٹھ کر آگے بڑھنے کی  ہمت کر سکا۔ اسے کہتے ہیں اپنے استاد کی عزّت و احترام، جو آج کم کم دیکھنے کو ملتا ہے۔

افسوس کہ بدلتے وقت نے ایسی ساری قدروں کو پامال کر دیا ہے۔

حسن کمال اور سید احمد قادری

بہرحال میں ایک بار پھر اورنگ آباد کی اردو لائبریری کی پناہ میں آ گیا۔ جہاں مجھے طرح طرح کے رسائل و جرائداور کتابیں پڑھنے کو ملیں۔ کرشن چندر، منٹو،بیدی، عصمت، سہیل عظیم آبادی، زکی انور وغیرہ کے افسانے ذہن پر چھانے لگے۔

اورنگ آباد کی اس واحد اور قدیم اردو لائبریری سے میرے والہانہ لگاؤ کو دیکھتے ہوئے اورنگ آباد کے بعض سرکردہ لوگوں نے مجھے اس لائبریری کا سکریٹری بنانا چاہا، لیکن سیاست حاوی ہو گئی اور میں اپنے ایک قریبی دوست کے مخالفت میں دیے گئے ایک ووٹ سے ہار گیا تھا۔

اس شکست کی تلافی میں لوگوں نے  3 مارچ  1974 ء کوایک ادبی انجمن ‘ادبی مجلس’ کے نام سے قائم کی۔اس ادبی مجلس کا صدر جمال الدین ساحل(سابق  پروگرام ایگزیکٹو، اردو پروگرام، پٹنہ ا ورڈائریکٹر دور درشن، ڈالٹین گنج) کو اور جنرل سکریٹری مجھے بنایاگیا۔

میں اپنے گھر کی چھت پر ہی ہر ماہ  پابندی سے بڑے تزک و احتشام کے ساتھ ادبی نشستیں منعقدکیا کرتا تھا۔ میرے ساتھ ابو انعام اختر (مدیر، ہندی ماہنامہ ’آرسی‘ رانچی، دہلی) کے علاوہ چند ہی لوگ افسانے سنایا کرتے  تھے۔

اس کے بعد مشاعرہ کی محفل سجتی۔ کئی بار باہر سے اورنگ آباد تشریف لائی ہوئی اہم شخصیات ان نشستوں میں شامل ہوا کرتی تھیں۔

ان تما م نشستوں کی رپورٹنگ میں خود کیا کرتا تھا، جو اس زمانے پٹنہ سے شائع ہونے والے اردو کے مشہور روزنامے’سنگم’ اور’صدائے عام’  کے ساتھ ساتھ  ہفت روزہ ‘عظیم آباد اکسپریس’ اور ‘آدرش’  (گیا)میں  تواتر سے شائع ہوتی تھیں۔

اسی ادبی مجلس میں، میں نے اپنا پہلا افسانہ ’بوجھ‘ اور دوسراافسانہ’ضرب احساس‘ پیش کیا تھا۔ جو چند ماہ بعد ہی مشہور افسانہ نگار اور صحافی رضوان احمد کی ادارت میں پٹنہ سے شائع ہونے والے رسالہ ’زیور‘ میں دسمبر  1973  ء اور اگست 1974 ء میں بالترتیب شائع ہوئے تھے۔

سید محمد اشرف اور دیگر کے ہمراہ۔

ان افسانوں کی اشاعت اورلوگوں کی پذیرائی نے میرا حوصلہ بڑھایا اور میں افسانوی سفر پرچل پڑا۔ کلام حیدری،غیاث احمد گدی جیسے بڑے افسانہ نگار میرے گھرپر اکثرآیا کرتے تھے۔

ان لوگوں کے درمیان میں خاموش رہتا تھا اور ان  کی صحبت میں بہت کچھ سیکھتا تھا۔ بعدمیں ان دونوں کی قربت براہ راست مجھ سے بھی ہوگئی۔ وہ شاید میری سعادت مندی اور انکساری سے متاثر ہوئے تھے۔

کلام حیدری صاحب جیسے معروف افسانہ نگار اورصحافی سے میں نے بہت کچھ سیکھااور انہوں نے ہی مجھے صحافت اورتنقید نگارکی حیثیت سے اپنے ہفتہ وار اخبار’مورچہ’ اورادبی ماہنامہ ‘آہنگ’ میں بحیثیت صحافی اور ناقد متعارف ہی نہیں کرایا بلکہ مجھے بریک دیا۔

ساتھ ہی ساتھ کلام حیدری (انکل) نے جب میری افسانہ نگاری پر ایک مختصر سا مضمون لکھاتو اس مضمون کاعنوان ‘شہر افسانہ نگاری کامعزز شہری سید احمد قادری’ ہی چونکانے والا تھا۔ اس طرح دیکھاجائے توکلام حیدری صاحب نے مجھے صحافت،تنقید اور افسانہ نگاری کے میدان میں میری صلاحیتوں کاپہلے امتحان لیااورپھر مجھے کامیاب قراردیا۔

غیاث احمدگدی صاحب نے مجھے ایسے درجنوں خطوط لکھے، جن میں ان کی نصیحتیں شامل ہیں، ان کی یہ نصیحتیں میرے لیے بہت اہمیت رکھتی تھیں اورآج بھی ان کی اپنی سی اہمیت ہے۔

ان ہی کے توسط سے ان کے چھوٹے بھائی الیاس احمدگدی (ساہتیہ اکاڈمی ایوارڈ/ فائر ایریا)کی بھی مجھے محبتیں حاصل ہوئیں اور ان سے متعدد ملاقاتوں اور ان کے نصیحت بھرے سینکڑوں خطوط آج بھی مجھے روشنی بخشتے ہیں۔

ان دونوں کے افسانوی مجموعے’سارادن دھوپ’ (غیاث احمدگدی) اور’تھکاہوادن’ (الیاس احمدگدی) کو میں نے ہی سے الہ آباد جاکر چھپوایا تھا۔

اپنے ناول ‘فائرایریا’ کا مسودہ بھی الیاس صاحب نے شائع کرانے کے لئے مجھے دیاتھا اورکئی ماہ تک یہ مسودہ میرے پاس رکھا رہا،لیکن بعض مالی مجبوریوں کی وجہ کر میں اسے نہیں چھپواسکا۔

ان بزرگ افسانہ نگاروں کے بعداپنے دورکے مشہورصحافی رضوان احمداورنامور ادیب مناظر عاشق ہرگانوی میرے دوستوں کی مختصر فہرست میں شامل ہوئے اورمجھے ہمیشہ ادب اورصحافت کے تعلق سے ان کی رہنمائی ملتی رہی اورمیں آگے بڑھتاگیا۔

میری افسانہ نگاری کا سفر پانچ دہائیوں پر محیط ہے۔

اب تک میرے چار افسانوی مجموعے ریزہ ریزہ خواب،دھوپ کی چادر،پانی پر نشان،ملبہ شائع ہو چکے ہیں اور مجھے خوشی ہے کہ یہ چاروں افسانوی مجموعے پسند کیے گئے۔

ان میں سے کئی افسانے موضوع بحث بھی بنے۔ جہاں تک سوال ہے موضوعات کی پسند کا تو اس کا  فیصلہ وقت اور حالات کرتے ہیں۔

ویسے میں نے اپنے افسانوں میں ہمیشہ جبروظلم،استحصال،حق تلفی،ناانصافی،انسانی رشتوں کی پامالی،عدم رواداری، منافرت،تشدد کے خلاف آواز بلند کی ہے، عام طور پر یہی میرے افسانوں کے موضوعات ہیں اور بقول سارتر لکھنے کا عمل ہی وابستگی کااعلان ہے۔

مختلف اوقات میں بہت سارے موضوعات ایسے ہوتے ہیں جو حساس ذہن کو جھنجھوڑ تے ہیں۔ میں نے ایسے موضوعات پر بھی افسانے لکھے ہیں۔

مثال کے طور پر امریکہ میں ورلڈ ٹریڈ ٹاور کا انہدام بلا شبہ عالمی موضوع بنا۔ ہزاروں افراد اس میں ہلاک ہوئے۔ میں نے اس سانحہ کو ٹیلی ویژن پر دیکھا اور بہت شدت سے مرنے والوں کے لوگوں کے درد و کرب کو محسوس کیا تھا۔

لیکن اس موضوع پر افسانہ لکھنے کا میرا کوئی ارادہ نہیں تھا۔ لیکن جب میں امریکہ کے سفر پر ٹھیک اس جگہ پہنچا تو ٹی وی پر دیکھے گئے گرد و غبار میں آگ اور خون میں لت پت مناظر، انسانی چیخ و پکار، ہرطرف بکھرے ملبے تھے اور ان ملبوں میں نہ جانے کتنی کہانیاں دم توڑ چکی تھیں۔

نیو یارک کے ورلڈ ٹریڈ سینٹر سے لوٹ کر گھر واپس آیا تو رات بھر بے چین رہا اور پھر میرا وہ افسانہ ’ملبہ‘ تخلیق ہوا۔جس کے بارے میں لوگوں کا خیال ہے کہ عالمی تناظر کے اس سانحہ پر اردو میں ایسا افسانہ نہیں لکھا گیا ہے۔

 میری افسانہ نگاری کا سفر دیکھا جائے تو پانچ دہائیوں پر محیط ہے۔ان پانچ دہائیوں میں، میں نے زندگی کے بہت سارے نشیب و فراز‘ تہذیبوں اور قدروں کا زوال، ٹوٹتے بکھرتے سماجی رشتے اور سیاست کی بساط پر انسانیت‘ حیوانیت کی شہہ ومات کی چال کو کبھی قریب سے کبھی دور سے دیکھا اور شدت سے محسوس کیا ہے۔

ان مشاہدات اور موضوعات کو افسانوی قالب میں،میں نے اس فنکارانہ حسن و معیار کے ساتھ اس انداز سے ڈھالنے کی کوشش کی ہے کہ میرے افسانے زندگی کے متنوع مسائل کا آئینہ بن جائیں۔جن میں ہمارے سماج اور معاشرے کی کریہہ تصویریں بہت ہی واضح طور پر نظر آئیں۔

ظلم، تشدد، بربریت، سماجی نا انصافی اور استحصال کے خلاف میں نے کئی  افسانے لکھے ہیں۔ سماجی رشتوں کا بکھراؤ، روایات اور قدروں کی پامالی بھی میرے افسانوں کے خاص موضوعات رہے ہیں۔

مثال کے طور پر میرے افسانہ ’پت جھڑ’ کو دیکھیے۔کس طرح سماجی رشتے آج کے صارفیت کے دور میں متاثر ہو رہے ہیں۔

میرامشہور افسانہ ‘اپنی عدالت’ اگر ایک طرف انصاف اور انتقام کی دلدوز کہانی سُناتا ہے تو دوسری طرف ایک ایسی پراسر ارطاقت کی نشان دہی بھی کرتا ہے جس نے دبے کُچلے لوگوں کو انصاف دلانے کے لیے اپنی ایک متوازی عدالت اور پولیس کا شعبہ قائم کر رکھا ہے۔ جہاں سے کوئی ظالم بچ کر نہیں نکل سکتا۔

ظلم، تشدد، بربریت، سماجی نا انصافی اور استحصال کے خلاف میں نے کئی افسانے لکھے ہیں۔

       اردو تنقید اور تحقیق سے میرا رشتہ حادثاتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ میرامیدان افسانہ نگاری اورصحافت رہاہے۔ کلام حیدری صاحب نے اپنے ادبی ماہنامہ ‘آہنگ’ کے ہنگامہ خیزفکشن نمبرکے لیے مجھ سے تین بڑے اور اہم افسانہ نگاروں کے افسانے، افسانہ نگاروں کے نام خفیہ رکھ کرتجزیہ کے لیے دیے تھے۔ جنھیں میں نے اپنا امتحان سمجھ کر بڑی محنت سے تجزیہ کیا تھا۔

جواتفاق سے کلام حیدری انکل کو پسند آئے اور انہوں نے اس خاص نمبر میں میرے اس تنقیدی مضمون کوشامل کرتے ہوئے باضابطہ ‘نقاد’ لکھ کر مجھے نقادکی پدوی دے ڈالی۔

اس کے بعد سے میں اپنے عم محترم کی عطا کردہ اس پدوی کی لاج رکھنے کی ہرممکن کوشش کررہاہوں۔

اب تک میری کئی تنقیدی کتابیں شائع ہو چکی ہیں اور بہار، بنگال و اترپردیش کی اردو اکاڈمیوں سے انعامات بھی پا چکی ہیں۔

اب تک میری کئی تنقیدی کتابیں مثلاََ فن اور  اور فنکار(تنقیدی مضامین)1986 ء،  افکار نو(تنقیدی مضامین)1996 ء  شاعر اور شاعری (تنقید)2007  ء افسانہ نگار اور افسانے  (تنقید)2008  ء، اقدار و امکان (تنقید)2014 ء  وغیرہ شائع ہو چکی ہیں اور بہار، بنگال و اترپردیش کی اردو اکاڈمیوں سے انعامات بھی پا چکی ہیں۔

اسی طرح تحقیق کے میدان میں اترنے کاخیال میرے وہم وگمان میں بھی نہیں تھا۔ لیکن 1995 ء میں کے کےبرلافانڈیشن جیسے باوقار ادارہ کی جانب سے خلاف توقع ‘اردو صحافت بہار میں’ جیسے موضوع پرتحقیقی کام کے لئے مجھے فیلوشپ ایوارڈ دیا گیا۔

جومیرے لیے ایک بڑا امتحان اور چیلنج تھا۔ اس امتحان میں کامیابی پر خطیر رقم بھی ملنے والی تھی۔ نتیجہ میں تحقیق کے میدان میں کودپڑا اور اللہ کاشکر ہے کہ میں اس امتحان میں بھی کامیاب رہا۔

کئی حلقوں سے اس کتاب کو ہندی اورانگریزی میں شائع کرنے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔

اس طرح دیکھا جائے تو تنقید اورتحقیق کے میدان میں میرا داخلہ حادثاتی طورپر ہوا۔ ‘اردو صحافت بہار میں’جب کتابی شکل میں پہلی بار 2003 ء سامنے آئی۔ صحافت کے موضوع پریہ کتاب مستقل مختلف حوالوں میں رہتی ہے۔ اب تک اس کے دو ایڈیشن (دوسرا ایڈیشن 2016 ء) شائع ہو چکے ہیں۔

تحقیق کے لیے اخبارات و رسائل کا براہ راست مطالعہ سے بڑا فائدہ یہ ہوا کہ حوالوں میں دیے گئے بہت سارے اساتذہ اور قاضی عبد الودود جیسے جید محقق کی غلطیو ں کی نشاندہی کرکے، میں اصول تحقیق کو پورا کرنے میں بھی کامیاب رہا نیز تحقیق وتنقید جیسے خشک موضوع کے بوجھل پن کو دور کرنے کے لیے عام فہم بیان کو ترجیح دیتے ہوئے اسے قابل مطالعہ بنانے کی کوشش کی ہے۔

کتاب کی ایسی پذیرائی ہوگی ایسی توقع مجھے قطعی نہیں تھی۔ دراصل اس موضوع پرکوئی تحقیقی و تنقیدی کام ہی نہیں ہواتھا۔اس لیے بھی اس کتاب کی اہمیت اور افادیت کو تسلیم کیا گیا۔

کئی حلقوں سے اس کتاب کو ہندی اورانگریزی میں شائع کرنے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔ دیکھیے ہوپاتاہے یا نہیں۔ اس لیے کہ اس کتاب کی پزیرائی کے بعداس طرح کے کئی دوسرے پروجیکٹس پرکام کررہا ہوں۔

میرے لیے یہی اعزاز کیا کم ہے کہ مجھے لوگ بہتر کلمات کے ساتھ یاد کرتے ہیں۔

جب میں امریکہ پہنچا تو وہاں بھی مجھے جاننے اور چاہنے والے موجود تھے اور وائس آف امریکہ کے خصوصی اردو پروگرام میں مجھ سے نصف گھنٹے کا انٹرویو لیا گیا، میرے اعزاز میں کئی نشستیں ہوئیں،ٹی وی چینلوں پر مجھ سے گفتگو کی گئی۔ اب اس سے زیادہ کیا چاہیے۔ جوڑ توڑ اور مدح سرائی کے فن سے میں واقف ہی نہیں ہوں۔

    اب جہاں تک میرے تخلیقی سفر سے تنقیدی سفر کا تعلق ہے اور ان سے باہمی رشتے کی بات ہے تو میرے خیال میں  اردو  ادب میں تخلیق سے ہی تنقید کا وجود ہے۔ تخلیقی عمل دراصل Creation ہے۔

نیا خیال پیدا کرنا تخلیقی کاوش ہے اور تخلیقیت میں تخیل شامل ہوتا ہے۔ احساسات وجذبات کا فنکارانہ اظہار ہی تخلیق ہے۔ جبکہ تنقیدی عمل،عمل جراحی ہے۔

جب عصمت چغتائی نے کہا ‘یہ ہوئی نہ بات۔’

تنقید پر تنقید کیے جانے کی مثبت روایت رہی ہے۔ لیکن نقادوں کی بے لگام اور اردو ادب کے تخلیقی اظہار میں مغربی اصولوں پر پرکھنے کے عمل میں کے باعث بہت سارے تخلیق کار خفا نظر آتے ہیں۔

قرۃالعین حیدر بھی نقادوں کی بے لگام تنقید سے اکثر شاکی رہا کرتی تھیں۔ ایک بار انھوں نے یہاں تک کہا تھا کہ ہمارے یہاں اینٹی انٹلیکچوئل ایٹیٹیوڈ چل رہا ہے۔


عصمت چغتائی کی تنقید سے بے زاری کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ایک بار ترقی پسند مصنفین سیمینار میں رام لعل صاحب نے مجھے عصمت چغتائی سے یہ کہہ کر ملوایا کہ یہ سید احمد قادری ہیں جو بہت اچھے ناقد ہیں۔

اتنا سننا تھا کہ ان کی بھویں تن گئیں اور بڑے ترش لہجہ میں ‘نقاد ….یہ کیا ہوتا ہے؟’

رام لعل صاحب کو  ان کی خفگی کا احساس ہو گیا اور وہ جلدی سے بولے ‘یہ بہت اچھے افسانہ نگار بھی ہیں۔’یہ سنتے وہ نرم پڑ گئیں اور بے ساختہ کہا ‘یہ ہوئی نہ بات’۔


پھر وہ بہت دیر تک اردو نقادوں کے سلسلے میں اپنی خفگی کا اظہار کرتی رہیں۔ ویسے میرے خیال میں معاصر اردوتنقیدمایوس کن ہے۔اس امر کااظہار یوں تو بہت سارے لوگوں نے کیا ہے۔

میں جید ناقد شمس الرحمن فاروقی کا ایک جملہ دہرانا چاہتاہوں انہوں نے کہیں لکھاتھا کہ ’ہند وپاک دونوں طرف کے تنقید نگار اپنے پسندیدہ ادیبوں کے گروہ رکھتے ہیں اوران سے باہر نکلنا وہ پسندنہیں کرتے۔‘

ایسے حالات میں معاصر تنقیدنگاروں سے کسی منصفانہ تنقید کی توقع کرناکہاں تک درست ہوگا۔ اب ایسے گروہی تنقید سے اردو ادب کو نفع یااردو تنقیدکوکیافائدہ پہنچ سکتاہے۔یہی وجہ ہے کہ اب تخلیق کار ہی اپنے فکر و فن کے ناقد بھی بن کر سامنے آ رہے ہیں۔

اب میں صحافتی سفر پر آتا ہوں۔

گزشتہ پچاس سالوں میں صحافتی سفر میں میرا قلم کس طرح کے پیچ  وخم سے گزرا اور کس کی رہنمائی میں، میں نے اس سفر کا آغاز کیا اور سیکھے ہوئے وہ کون سے ایسے اصول ہیں جو آج بھی میری قلم کو متحرک اور مؤثر  بنائے ہوئے ہیں۔

یہ میرے لیے بڑا اہم سوال بھی ہے جو اکثر مجھ سے پوچھا جاتا ہے۔

اس کا جواب میرے خیال میں یہ ہے کہ  اپنے دور کے قومی سطح پر بے حد مشہور اور مقبول اردو ہفتہ وار’بلٹز’ نے میری صحافتی سرگرمیوں کومتحرک اور فعال کرنے کے ساتھ ساتھ مجھے شہرت اور مقبولیت بھی عطا کی ہے ۔

اس سے قبل کلام حیدری صاحب نے ایک دن میرا صحافتی امتحان لینے کے لیے کہاکہ’تم مورچہ کے لیے اداریہ لکھ سکتے ہو؟’

میں تذبذب میں پڑ گیا اس لیے کہ اس زمانہ میں ‘مورچہ’ شہرت کی بلندیوں پرتھا اور اپنے مواد اور معیار کے لحاظ سے قارئین کے ایک بڑے حلقہ کا پسندیدہ ہفتہ وار اخبار تھا۔

پھربھی میں نے ہمت کی اور ایک مختصرسااداریہ لکھ کر کلام حیدری انکل کے پاس لے گیا۔انھوں نے اسے بغور پڑھا۔ اور کہا، ‘ٹھیک ہے جاؤ’اس کے آگے کوئی سوال کرنے کی ہمت کہاں تھی میری،لیکن اگلے ہی ہفتہ یعنی 27 دسمبر 1980ء کے ‘مورچہ’ میں میرا اداریہ بہ عنوان ‘پاکستان میں ہندی’ شائع ہوکرسامنے آیا تو میری خوشی کاٹھکانہ نہ رہا۔

اس اداریہ میں گرچہ میرانام شامل نہیں تھا۔ پھر بھی میں بہت خوش ہوا۔

اس کے بعد، ان کے مطالبہ پرایک اوراداریہ لکھ کر دیا،جو’مورچہ’کے10 جنوری 1981ء کے شمارہ میں ‘اندرانے ایک سال پورے کیے’کے زیر عنوان شائع ہوااور اس اداریہ کے نیچے نہ صر ف میرانام شائع ہوا، بلکہ ‘مدیر معاون’بھی لکھاگیاتھا۔

یہ دیکھ کر میری باچھیں کھل گئیں۔مجھے ایسا لگا جیسے میں ایک لمبی چھلانگ لگانے میں کامیاب ہوا ہوں۔

یہ سلسلہ کئی برسوں تک قائم رہا،1983ء سے ‘بلٹز’میں بہارکانمائندہ رہا۔ حسن کمال اور محمود ایوبی کی ادارت میں پورے ملک کے مشہور اخبار’بلٹز’میں میری کئی ہنگامہ خیز رپورٹیں شائع ہوئیں۔

لیکن 19 نومبر1983ء کو’بلٹز’ کے درمیان کے دوصفحہ پر دس کالمی سرخی کے ساتھ میرا ایک مضمون بہ عنوان ‘قاتل اورخونی فرقہ پر ستوں کی یہ ہمت تودیکھیے۔بہارکوآسام بنانے کی سازش’ کی اشاعت نے تو تہلکہ مچادیا تھا۔

ایسی کئی رپورٹ کی اشاعت کے بعد ملک گیر سطح پرمیری صحافتی خدمات کااعتراف کیاگیا ساتھ ہی ساتھ یہ بھی بتادوں کہ اتنی بڑی اوراہم رپورٹ کااس وقت معاوضہ پچاس روپے کی بجائے مجھے دوسوروپے ملے تھے ۔

دس سال تک مسلسل بڑی جانفشانی کے ساتھ اخبار کوجاری رکھا۔

ایسی رپورٹوں کی اشاعت کے بعد میرے اندر خود اعتمادی کے ساتھ ساتھ حوصلہ بڑھتاگیا اورمیں نے ‘بلٹز’ کوچھوڑکر 15اگست 1984ء سے اپناایک ہفتہ وار اخبار ‘بودھ دھرتی’ کااجراء کیا-اس زمانے میں جب کہ کمپیوٹر اور پریس کی سہولیات میسر نہیں تھیں،پھربھی دس سال تک مسلسل بڑی جانفشانی کے ساتھ اخبار کوجاری رکھا۔

میری صحافت نگاری میں بلا شبہ کلام حیدری، حسن کمال، محمود ایوبی اور رضوان احمدوغیرہ کی رہنمائی حاصل رہی ہے اور جو لوگ ان لوگوں کی صحافت سے واقف ہیں وہ بخوبی اس بات سے واقف ہیں کہ ان لوگوں نے کبھی بھی اپنی صحافت میں مصلحت اور مصالحت کو قبول نہیں کیا۔

بے باکی، بے خوفی ،ہمت و جرأت مندی ہی ان کی پہچان رہی ہے۔ اب ظاہر ہے کہ ایسے بڑے صحافیوں سے جو میں نے سیکھا ہے، ان ہی کے اصولوں پر میں چل رہا ہوں اور مجھے فخر ہے کہ میں نے کبھی بھی اپنی قلم کی حرمت کو پامال نہیں کیا اور نہ ہی کبھی مشکل وقت اور حالات میں اس کا سودا کیا۔

میری قلم کو خریدنے کی کئی بار کوششیں کی گئیں لیکن اب تک کوئی میری قلم کی عظمت کی قیمت نہیں لگا سکا ہے۔

گزشتہ 8  فروری 2015 ء سے مسلسل قومی سطح پر مشہور اور مقبول روزنامہ ‘راشٹریہ سہارا’ میں مسلسل سیاسی و سماجی موضوعات پر میرے کالم شائع ہو رہے ہیں۔

یہی مضامین بعد میں منصف، ممبئی اردو نیوز، اردوٹائمز، قومی تنظیم، آگ، چٹان، اودھ نامہ، سالار، سیاست، اخبار مشرق،کشمیر عظمی، عوامی نیوز وغیرمیں بھی بڑے اہتمام سے ادارتی صفحہ پرشائع ہوتے ہیں اور ان کی اشاعت کے بعد پورے ملک سے پسندیدگی کے جتنے فون آتے ہیں ان سے بھی میرا حوصلہ بڑھتا ہے۔

پریم چند کے فرزند امرت رائے سے لیے گئے انٹرویو میں میرے کئی سوالات پر ان کی جھنجلاہٹ اور خفگی دیکھنے لائق ہے۔

میں نے ادب و صحافت کے میدان کئی نامور شخصیات کے انٹرویوز بھی کیے ہیں۔ ان انٹرویوزکاایک مجموعہ بھی ‘مکالمہ’ کے نام سے شائع ہوچکاہے جسے کافی پسند کیاگیا۔

انٹرویولینے سے قبل میں متعلقہ شخصیت کے تعلق سے حاصل تمام معلومات اور اس شخصیت کے مختلف پہلوؤں پرنظر رکھتے ہوئے سوالات مرتب کیاکرتاتھا۔

بعض اوقات اس شخصیت سے ایسے سوالات بھی ضروری سمجھتاتھا جواس کی دکھتی رگ ہواور وہ جواب میں تلملاکر ایسے حقائق بیان کردے جوعام طورپر وہ ظاہر نہیں کیاکرتا۔

یہی وجہ رہی کہ میرے بیشتر انٹر ویو ز میں کئی چونکانے والی باتیں سامنے آتی ہیں جوقارئین کی حیرت کے ساتھ ساتھ دلچسپی کابھی سامان ہوتاتھا۔

مثلاً نامورافسانہ نگار ذکیہ مشہدی سے جب میں نے واجدہ تبسم کے حوالے سے سوال کیا توانہوں نے ان کی ادبی حیثیت سے ہی انکار کیا اور ان  کے افسانوں کو فحاشی سے بھرے ہوئے بتائے تھے اور اب تو واجدہ تبسم اور منٹو کا موازنہ کیا جا رہا ہے۔

اسی طرح پریم چند کے فرزند امرت رائے سے لیے گئے انٹرویو میں میرے کئی سوالات پر ان کی جھنجلاہٹ اور خفگی دیکھنے لائق ہے۔

ویسے میں بہت زیادہ متنازعہ سوالات سے گریز کیا کرتا تھا لیکن میرے ہر انٹرویو میں ان شخصیات کے حوالے سے کوئی نہ کوئی نئی بات ضرورسامنے لانے میں،میں کامیاب ہوتا تھا۔ روایتی انداز کے سوالات سے بھی میں حتی الامکان گریز کیاکرتاتھا۔

اتنا کچھ لکھ جانے کے باوجود مجھے لگتا ہے کہ میں اور میرے عہد کی تخلیقی سرگزشت جو کہ نصف صدی پر محیط ہے، وہ مکمل نہیں ہوسکی ہے۔ بلاشبہ میں نے کئی ایسے ادوار دیکھے ہیں جو کئی لحاظ سے تاریخی نوعیت کے ہیں، جنھیں سامنے بھی لانا چاہیے تھا، لیکن تنگی صفحات کے ساتھ ساتھ اس بات کا بھی خوف غالب ہے کہ کہیں میری کوئی بات موجودہ حکومت کی خفگی کا باعث نہ بن جائے اور میں حکومت کے عتاب کا شکار نہ ہو جاؤں۔

دراصل گزشتہ دو دہائیوں سے بر سر اقتدار حکومت کے اشارے پر ملک کے اندر ایسے ایسے غیر آئینی، غیرانسانی اور غیر جمہوری سانحات ، واقعات اور حادثات کا مشاہدہ کیا گیا ہے جو ایمر جنسی کے دور سے بھی زیادہ بدترین ہیں۔

پہلے تو اعلانیہ ایمر جنسی کا نفاذ عمل میں آیا تھا، لیکن ان دنوں غیر اعلانیہ ایمر جنسی نے ہمارے پورے معاشرے میں فرقہ واریت، منافرت اور عدم رواداری کا زہر دانستہ طور پر اس طرح گھول دیا  ہے کہ ملک کی صدیوں پرانی گنگا جمنی تہذیب اور قدریں پامال ہو رہی ہیں۔

بڑھتے خوف و دہشت سے ملک کے ادیب و شاعر اور دانشوران بھی سراسیمگی کے عالم میں جی رہے ہیں۔

آزادی اظہار پر پہرے بٹھا دیے گئے ہیں۔ ہر طرف خوف و دہشت کا عالم ہے۔

ایسے بدترین حالات میں جن لوگوں نے بھی حکومت کے خلاف باغیانہ اظہار کی جرات کی، ایسے لوگوں کو یا توجیل کی سلاخوں کے پیچھے ڈالا جا رہا ہے یا پھر دابھولکر، پنسارے ، کلبرگی اور گوری لنکیش جیسی سیکولر شخصیات کو ان کے سیکولرزم نظریہ رکھنے کی پاداش میں ہلاک کیا جا رہا ہے۔

ایسے نا گفتہ بہ حالات میں ہم لکھنے والے کتنی اذیت میں جی رہے ہیں ، اس کا بس اندازہ ہی لگایا جا سکتا ہے ۔

آخر میں، میں اپنے تعلق سے یہ ضرور کہنا چاہوں گا کہ میں نے اب تک جو کچھ لکھا ہے انھیں لوگو ں نے توجہ سے پڑھا اور اپنے قیمتی تاثرات سے بھی نوازا ہے۔

ان تاثرات اور توصیفی کلمات کو1998ء میں شیریں اختر نے اپنی کتاب ‘سید احمد قادری:شخصیت اور فن’ میں یکجا کر شائع کیا تھا۔

جس کی اشاعت فخرالدین علی احمد میموریل کمیٹی، لکھنؤ کے مالی تعاون سے ہوئی تھی۔

اور دوسری کتاب  انظر اللہ کی 2017 ء میں ‘سید احمد قادری بحیثیت افسانہ نگار’ قومی کو نسل برائے فروغ اردو زبان، نئی دہلی کے مالی تعاون سے شائع ہوئی ہے۔

ان دونوں کتابوں میں میری شخصیت اور خدمات کے حوالے سے کئی سرکردہ قلمکاروں کے مضامین شامل ہیں۔

بہت ممکن ہے کہ کچھ لوگوں کو میری دو ٹوک باتیں پسند نہ آتی ہوں، لیکن میں عام طور پرجھوٹ نہیں بولتا اور مجھے اپنی انا، خودداری،اصول کی پابندی اور وضع داری پر ناز ہے۔

کچھ محبت کرنے والے میرے اندر کے ان وصف کی نشاندہی کرتے ہیں تو مجھے  انسانی فطرت کے مطابق اچھا لگتا ہے۔

پروفیسر فاروق احمد صدیقی (سابق صدر شعبۂ اردو، بہار یونیورسٹی، مظفر پور)جیسی باوقارشخصیت  جب میرے تعلق سے یہ لکھتی ہے کہ؛


 ان کی شخصیت کاایک دل نوازپہلویہ ہے کہ وہ کبھی انجمن توصیف باہمی کے رکن نہیں رہے نہ کبھی کوئی ادبی گروہ بندی کی اورنہ کسی ادبی مناقشہ میں گھرے۔

وہ ہمیشہ ادب کی صالح قدروں کے امین و علمبرداررہے۔ فکرونظرکی سا  لمیت اورصالحیت بہت بڑی دولت ہے۔یہ خاصانِ خدا کوہی ملاکرتی ہے۔اپنی خودداری اورعزت نفس کاوہ بے حد خیال رکھتے ہیں۔

کبھی کسی انعامی ادارے یاصاحبانِ اقتدار کی طرف دستِ طلب نہیں پھیلایا۔(روزنامہ قومی تنظیم،  8  ستمبر 2025  ء)


         ایسے خلوص اور محبت بھرے جملے مجھے سکون و اطمینان بخشتے ہیں اور میرے لیے زندگی بھر کی تپسیا کا یہی اعزاز ہے۔

اس سیریز کے مضامین  پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔