تخلیقی سرگزشت: ’مجھے لکھنے کی بھوک لگتی ہے اس لیے لکھتا ہوں‘

چند بڑی طاقتیں احساس دلانا چاہتی ہیں کہ عام انسانوں کی محنت اور کوشش انہی کی طرح حقیر ہیں۔ انہیں اندیشہ لگا رہتا ہے کہ اگر پیاسے انسان کو آبیاژوں سے بہلایا نہ گیا تو پیاس کی شدت صبرو تحمل کا بند توڑ سکتی ہے اور اگر بند ٹوٹا تو ان کے پاؤں کے نیچے سے پانی کھسک سکتا ہے۔ میں اور میرے عہد کی تخلیقی سرگزشت کی اس قسط میں پڑھیے شاعر،ناقد اورمعروف فکشن نویس غضنفر کو۔

چند بڑی طاقتیں احساس دلانا چاہتی ہیں کہ عام انسانوں کی محنت اور کوشش انہی کی طرح حقیر ہیں۔ انہیں اندیشہ لگا رہتا ہے کہ اگر پیاسے انسان کو آبیاژوں سے بہلایا نہ گیا تو پیاس کی شدت صبرو تحمل کا بند توڑ سکتی ہے اور اگر بند ٹوٹا تو ان کے پاؤں کے نیچے سے پانی کھسک سکتا ہے۔ میں اور میرے عہد کی تخلیقی سرگزشت کی اس قسط میں پڑھیے شاعر،ناقد اورمعروف فکشن نویس غضنفر کو۔

میں نے ادب کے مختلف راستوں پر سفر کیا۔ ناول لکھے، افسانے تحریر کیے، خاکے قلمبند کیے، تدریسی اور تنقیدی کتابیں لکھیں۔

دفتری کاغذوں میں میرا نام غضنفر علی درج ہے، مگر ادبی صفحہ قرطاس پر غضنفر چھپتا ہے۔  پہلے میں نے  جی اے  غضنفر اور پھر غضنفر علی غضنفر کے نام سے لکھنا شروع کیا۔

میری پہلی تنقیدی کتاب ‘مشرقی معیارِ نقد’ پر بھی یہی نام یعنی غضنفر علی غضنفر درج ہے۔ بعد میں جب رسالہ شب خون میں میری غزلیں چھپیں تو شمس الرحمان فاروقی نے اس ریمارک کے ساتھ غضنفر علی غضنفر میں سے غضنفر علی ہٹا دیا کہ ایک غضنفر ہی کافی ہے۔

فاروقی صاحب کی یہ ترمیم مجھے پسند آئی اور میں نے اسی نام کو اپنا قلمی نام اورتخلص بنا لیا۔ اس مختصر نام پر مشہور مزاح نگار مجتبیٰ حسین نے ایک بڑا ہی خوبصورت تبصرہ بھی کیا ہے؛

غضنفر کی تحریروں میں ایک عجیب طرح کا انو کھاپن ہے۔ انوکھاپن ان کے نام میں بھی ہے‌ ۔میں نے اتنا مختصر نام آج تک نہیں سنا۔ یوں ہر ادیب یا شاعر کو  اس کے چاہنے والے اس کے نام کے کسی جز سے ہی یاد رکھتے ہیں لیکن کتابوں پر شعرا اور ادیبوں کے پورے نام لکھے جاتے ہیں۔ غضنفر کے نام کا اختصار ان کی قامت کو مختصر نہیں کرتا بلکہ اس کو اور بلند کرتاہے۔

     میں 9 مارچ 1953ء کو ضلع گوپال گنج ،صوبہ بہار کے ایک گاؤں چوراؤں میں پیدا ہوا۔

   مسلم معاشرتی رواج کے مطابق میرے تعلیمی سلسلے کا آغاز مدرسے میں مذہبی تعلیم سے ہوا، لیکن مدرسے کے پابند اور خشک ماحول اور حافظ صاحبان کی بے رحم چھڑی نے جلد ہی مجھے مدرسے سے مکتب میں پہنچا دیا۔

ابتدائی تعلیم گاؤں کے مکتب میں ہوئی۔ 1970میں وی ایم ایم ایچ ای اسکول گوپال گنج سے ہائر سکینڈری،1973 میں گوپال گنج کالج گوپال گنج سے بی اے آنرس اور 1974 میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے امتیاز کے ساتھ ایم اے کیا ۔

پھر 1983 ‘مولانا شبلی نعمانی کے تنقیدی نظریات’ پر مقالہ لکھ کر پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔حصولِ تعلیم کے بعد شعبہ اردو علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں بحیثیت لکچرر درس و تدریس کا سلسلہ شروع کیا۔ 1982 میں گورنمنٹ آف انڈیا کےمشہور و معروف ادارہ سینٹرل انسٹی ٹیوٹ آف انڈین لینگویجز میسور کی ایک ذیلی شاخ اردو ٹیچنگ اینڈ ریسرچ سینٹر سولن، ہماچل پردیش میں لیکچرر کم جونیئر ریسرچ آفیسر بنا اور اسی ادارے کے لکھنؤ سینٹر میں 1990 میں پرنسپل کے عہدے پر فائز ہوا۔

اسی دوران تین سال تک علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے شعبہ اردو میں ریڈر کی حیثیت سے کام کیا۔ کسی وجہ سے علی گڑھ کو چھوڑ کر مجھے دوبارہ لکھنؤ کی پرنسپل شپ جوائن کرنی  پڑی۔پرنسپل شپ کے دوران سندھی اکادمی بڑودہ کا ڈائریکٹر انچارج بھی رہا۔ 2008میں اکادمی برائے فروغِ استعدادِ اردو میڈیم اساتذہ، جامعہ ملیہ اسلامیہ،دہلی کا پروفیسر اور ڈائریکٹر مقرر ہوا ۔

   ملازمت کے دوران مختلف انجمنوں ،تنظیموں اور اداروں مثلاً گیان پیٹھ، این سی ای آرٹی ،این ٹی ایم، این ٹی ایس ،سی آئی ایل وغیرہ کاممبر بھی رہا ۔

 میں نے ادب کے مختلف راستوں پر سفر کیا۔ ناول لکھے ،افسانے تحریر کیے،خاکے قلمبند کیے، تدریسی اور تنقیدی کتابیں لکھیں ،ڈرامے تحریر کیے اور شعروادب کی مختلف ہئیتوں میں تخلیقی و فنی تجربے بھی کیے۔

    اب تک میرے دس ناول : پانی، کینچلی، کہانی انکل، دویہ بانی، فسوں، وش منتھن ، مم، شوراب ،مانجھی اور دیکھ لی دنیا ہم نے، دو افسانوی مجموعے ؛ حیرت فروش اور پارکنگ ایریا،دو شعری مجموعے ؛ آنکھ میں لکنت اور سخن غنچہ، چار خاکوں کے مجموعے ؛ سرخ رو اور روئے خوش رنگ،خوش رنگ چہرے اور صورتیں، دو تنقیدی مجموعے ؛ مشرقی معیارِ نقد اورفکشن سے الگ، چار تدریسی کتب؛ زبان و ادب کے لسانی پہلو،تدریس شعروشاعری لسانی کھیل  اورجدید طریقہ تدریس ادو ڈرامے ؛ کوئلے سے ہیرا اور پاپا میاں،تین مثنویاں؛ مثنوی کربِ جاں، مثنوی قمر نامہ اور مثنوی حرزِ جاں، ایک داستان ‘ مرد ِ جنوں پسند اور ایک انسائکلو پیڈیا’ اردو تہذیب کے رنگا رنگ الفاظ شائع ہوچکے ہیں۔

دویہ بانی اور کہانی انکل کا ہندی میں بھی ترجمہ ہوچکا ہے۔

میں ‘اردو اسٹائل مینول’کا ایڈیٹربھی رہا۔جامعہ ملیہ اسلامیہ سے ایک تدریسی مجلہ’تدریس نامہ’بھی نکالا جو اردو میں اپنی نوعیت کا منفرد و انوکھا رسالہ تھا۔

  ان دنوں ریختہ اردو اسکرپٹ  لرننگ کورس میں آن لائن اردو سکھا رہا ہوں۔

♦♦♦

مجھے لکھنے کی بھوک لگتی ہے اس لیے میں لکھتا ہوں

ان باتوں سے قطع نظرکہ میں کیوں لکھتا ہوں اور کس طرح لکھتا ہوں؟ تو اس سوال کا جواب یہ ہے کہ مجھے لکھنے کی بھوک لگتی ہے اس لیے میں لکھتا ہوں۔

میرے نزدیک لکھنا ویسا ہی ہے جیسے پیاس کی حالت میں پانی پینا اور بھوک کی حالت میں کھانا کھانا۔یعنی مجھے لکھنے کی بھوک اور پیاس لگتی ہے۔

مجھ پر  باہراور اندر سے دباؤ پڑتا ہے۔اس دباؤ کے انعکاس  کے لیے میں لکھتا ہوں۔

یہ دباؤ یا جبر سیاسی،سماجی،اخلاقی،اقتصادی،نفسیاتی ہر طرح کا ہو سکتا ہے۔جب بھی کوئی جبر مجھ پر دباؤ ڈالتا ہے تو میرا احساس  میرے ہاتھ میں قلم پکڑا دیتا ہے میرا تخیل مجھے ایڑ لگانے لگتا ہے اور جذبہ لفظوں میں خون جگر گھولنے لگتا ہے۔

  میں یہاں نہایت ایمانداری اور صاف گوئی سے اپنے تخلیقی عمل پر اظہار خیال کروں تو ممکن ہے کہ میری بعض باتیں آپ کو معمولی لگیں اور قابلِ ذکر نہ معلوم ہو ں مگر وہ بھی میرے نزدیک اہم ہیں اس لیے کہ وہ میرے تخلیقی عمل کا حصہ ہیں۔

   کبھی تو میرا تخلیقی عمل یوں شروع ہوتا ہے کہ مجھے کوئی خیال سوجھتا ہے یا کسی صورتحال کو دیکھ کر یا اس سے گزرتے ہوئے میرے ذہن میں ایک خیا ل (آئیڈیا)پیدا ہو تا ہے اور اس پر میرے اندر تخلیقی پروسس شروع ہو جاتا ہے۔

مثلاً ہندوستان کی سیاسی صورتحال، سیاسی پارٹیوں کی چال ڈھال اور سیاست دانوں کے اعمال کو دیکھ کر میرے ذہن میں ‘ققنس’ کا خیال آیا اور اس خیال کے آتے ہی ققنس کے منہ میں بنے بے شمار سوراخ اور ان سے نکلنے والے سریلے بول، اس بول پر معصوم پرندوں کی اس کی جانب پرواز، اس کی کھلتی ہوئی چونچ، اس چونچ میں دبے پرندے ،اس کا خاکستر اور اس خاستر سے جنم لینے والا ایک اورققنس’ ایک ایک کرکے ابھر تے چلے گئے اور ان سب کے جمع ہونے سے میرا افسانہ ‘ ایک اور ققنس’وجود میں آگیا۔

اور دوسری کہانی ‘تصویر تخت سلیمانی’ میں ققنس کا محرک عالمی سطح پر روا رکھا جانے والا وہ  رویہ ہے جو ساری دنیا پر حکمرانی کرنے کے لیے روا رکھا جاتا ہے۔

    اسی طرح  کبھی کوئی جبر مجھ پر دباؤ ڈالتا ہے اور اس جبر کے خلاف میرا تخلیقی عمل حرکت میں آجا تا ہے۔ مثال کے طور پر ذبح کیے جانے والے جانور کی طرح پچھاڑ کر زدو کوب کر کے انسانوں کے سر اور داڑھی کے بال مونڈے جانے والے ایک دلدوز سانحے کے دباؤ نے مجھ سے’پہچان’لکھوائی۔

بسوں اور ٹرینوں مین گھس کر انسانوں کو ننگا کرکے گھناؤنی تلاشیوں اور قومی و تہذیبی شناخت کی نشانیوں کی بنا پر بے گناہ لوگوں کے بہیمانہ قتل و غارت گری کے واقعے نے ‘ خالد کا ختنہ’کو جنم دیا۔

بین الاقوامی ڈھونگ’بڑی طاقتوں کے مکرِ شاعرانہ،ان کی تنی ہوئی مونچھوں کے آگے درمیانی طاقتوں کی دم ہلائی اورکمزوروں کی بے دست و پائی کے زیر اثراصلاح الوحشیان کی تخلیق عمل میں آئی۔

ایک کمزور اور معصوم بچے کی نحیف پیٹھ پر لدے پندرہ سبجیکٹ کے چھ سات کلووزن والے اسکولی بستے اور پاؤ بھر کی بوتل میں ایک کلو تیل ڈالنے والے تعلیمی سسٹم کے پتھروں سے ملبے پر کھڑی عمارت کی بنیاد پڑی۔

اورکبھی تو کوشش کر کے مو ضوع سوچتا ہوں اور جب کوئی موضوع ہاتھ آجا تا ہے تو اس پر کہانی کا خاکہ بنانا شروع کر دیتا ہوں۔ مثلاً آٹے کی دلد ل، رمی کا جو کر، عمارت، یوکلپٹس ،اس نے کیا دیکھا وغیر میں میری شعوری کاوش کا عمل دخل رہاہے۔

بعض اوقات تخلیق کا پروسس فوراً مکمل ہوجاتاہے اور بعض اوقات مہینوں تک خیال تخلیقی پر وسس سے گزر تا رہتا ہے۔کہانی شروع کرتے وقت میرے ذہن میں کبھی تو واضح اختتام ہوتا ہے اور کبھی دھندلا اور مبہم سا۔

بعض اوقات جب ذہن میں کہانی کا اختتام واضح نہیں ہوتاتو دھند لے اختتام سے پہلے ہی کہانی ختم ہوجاتی ہےاور بعض اوقات آگے نکل جاتی ہے۔کبھی یوں بھی ہوتا ہے کہ کہانی مکمل ہوجانے کے بعد جب اس پر نگاہ ڈالتا ہوں تو محسوس ہوتا ہے کہ کہانی جہاں ختم کی گئی ہے، اس سے کچھ پہلے ہی مکمل ہوگئی ہے۔

چنانچہ بعد کا حصہ میں کاٹ دیتا ہوں یا کبھی یوں بھی ہوتا ہے کہ یہ احساس ہوجانے پر کہ بات ابھی بنی نہیں تو افسانوں میں دو چارجملے یا ایک آدھ پیراگراف اور ناولوں میں ایک آدھ باب بلکہ کبھی کبھی تو کئی کئی باب اور لکھنے پڑتے ہیں۔

   اور کبھی یہ بھی ہوتا ہے کہ کہانی بالکل بنی بنائی اور ڈھلی ڈھلائی کا غذ پر اتر آتی ہے۔ کئی مرتبہ تو ایسا بھی ہواہے کہ خواب میں جیسے کسی نے افسانہ سنا دیا اور صبح آنکھ کھلتے ہی میں نے اسے کاغذ پر اتاردیا۔

تخلیق کاطریقہ کار بھی ہمیشہ یکساں نہیں رہتا۔کبھی تو فارم موضو ع کی مناسبت سے ابھر تا چلاآتا ہے اور کبھی موضوع کو سامنے رکھ کر اس کے مطابق کوئی ہم آہنگ ہیئت و تکنیک یا اسلوب اختیار کرنا پڑتا ہے۔ کئی بار تو ایسا بھی ہوا ہے کہ کسی خیال کو میں نے افسانے کا روپ دیا اور اسی خیال کو پھر نظم میں بھی پیش کر دیا۔

مثلاً میری کہانی ‘ یوکلپٹس ‘میں جس مو ضوع کو بیان کیا گیا ہے وہ میری ایک نظم کا بھی موضوع ہے۔

اسی طرح میرے ناول ‘ فسوں’اور مثنوی ‘وہ جو تاریک راہوں میں مارے گئے’ دونوں میں کم و بیش ایک ہی خیال کو پیش کیا گیا ہے۔

میرے ناول ‘ فسوں’اور مثنوی ‘وہ جو تاریک راہوں میں مارے گئے’ دونوں میں کم و بیش ایک ہی خیال کو پیش کیا گیا ہے۔

یہاں یہ مفروضہ بھی ٹوٹتا ہوا محسوس ہو رہا ہے کہ خیال اپنا فارم خود تلاش کرتا ہے۔ یہاں یہ بات بھی قابل غور ہے کہ جو تخلیق کار صرف ایک صنف پر قدرت رکھتا ہے اس کے ذہن میں پیدا ہونے والا کوئی بھی خیال صرف اسی صنف  میں ظاہر ہوگا اس کے بر عکس جو فن کار ایک سے زیادہ اضاف پر عبور رکھتا ہے اس کے یہاں خیال مختلف شکلوں میں ابھر کر سامنے آسکتاہے۔

     جیسا کہ میں نے ذکر کیا کہ میرے یہاں کہانی کبھی الہامی انداز میں اتر آتی ہے اور کبھی شعوری طورپر مجھے اتار نا پڑتا ہے۔’ ناول پانی’ مجھ پر خود بخود اترا اسے لکھنے سے پہلے میں نے اس کی منطقی یا میکا نکی تر تیب قائم نہیں کی ۔

بس پیاس اور پانی کی ایک صورتحال سے دورچار ہوا۔اس سے میرے دل و دماغ پر دباؤپڑا اور میرے اندر تخلیقی عمل شروع ہو گیا۔

تخلیق ایک مختصر افسانے کی شکل میں اختتام تک پہنچ گئی اور اس کا ایک عنوان ‘ داستان نکلنا بے نظیر کا باغ سے اور وارد ہونا بیان میں’بھی قائم ہوگیا،  مگر میں نے جب اسے پڑھا تو محسوس ہوا کہ پانی کا کرب ابھی پوری طرح جوش پر نہیں آیا اور اس احساس کے ساتھ ہی برق کی سی سرعت کے ساتھ میرا تخلیقی عمل دوبارہ دردِ زہ میں مبتلا ہو گیا۔

خیال کے بنیادی دھارے میں پانی کے ذرائع تالاب، جھیل، آب زمزم، کو ثرو تسنیم، شیر سا گر، چشمہ حیواں، سراب سب ملتے چلے گئے۔ان کی آپسی کڑیاں جڑ تی گئیں۔

’ ناول پانی’ مجھ پر خود بخود اترا اسے لکھنے سے پہلے میں نے اس کی منطقی یا میکا نکی تر تیب قائم نہیں کی۔

باب پر باب بنتا گیا اور ایک مقام پر پہنچ کر محسوس ہوا کہ پانی کی کہانی جس احساس کے زیراثر شروع ہوئی تھی، اب اس کی تکمیل ہوگئی ہے اور اس طرح پانی کی کہانی اختتام تک پہنچ گئی۔

یہاں آپ یہ ضرور جاننا چا ہیں گے کہ وہ کون سی بات تھی جس نے پانی کی کہانی مجھ سے رقم کروائی تو میں یہی کہوں گا کہ پیاس اور پانی کی ایک صورتحال سے دوچار ہوتے ہوئے مجھے یہ محسوس ہوا کہ عام انسان سنجیدہ جدو جہد اور مسلسل تگ ودوکرنے کے با وجود پانی یعنی زندگی کے وسائل کو حاصل نہیں کر پاتا، اس لیے کہ زندگی کے ذرائع پر چند بڑی قو تیں قابض ہیں جو عام آدمی کو ان وسیلوں تک پہنچنے نہیں دیتیں۔

اس لیے نہیں کہ عام آدمی کی وہاں تک رسائی ہوجانے سے ان میں کوئی کمی واقع ہوجائے گی بلکہ اس لیے کہ وہ طاقتیں ضرورتوں کے ذرائع پر اپنا کنٹرول بنائے رکھنا چاہتی ہیں تاکہ ان کی اجارہ داری مونوپولی اور  اولیگارکی قائم رہ سکے۔

یہ طاقتیں اتنے پر ہی اکتفا نہیں کر تیں بلکہ عام آدمی کی جان توڑ محنت ،اس کی مسلسل کوشش اور بے تکان تگ و دو پر قہقہہ بھی لگاتی ہیں۔ مذاق بھی اڑاتی ہیں ۔

اپنے تو ہین آمیز قہقہوں سے یہ احساس دلانا  چاہتی ہیں کہ عام انسان کی محنت اورکوشش بھی اسی کی طرح حقیر ہیں۔ مجھے تو یہ بھی محسوس ہوا کہ فلاحی اداروں اور ان بڑی طاقتوں کے درمیان کو ئی سازش کوئی خفیہ سانٹھ گانٹھ ضرور ہے کہ یہ ادارے بھی مسئلے کا حل تلاش کرنے کے بجائے عام آدمیوں کو آبیاژوں (بہلاؤں) میں الجھا نے کے جتن میں مصروف رہتے ہیں۔

تہذیبی میلے اور ادب و فنون کے مظاہرے بھی مجھے آبیاژہ ہی محسوس ہوتے ہیں۔ فلاحی اداروں کے ذریعے ان میلوں اور مظاہروں کا اہتمام اس لیے ہوتا ہے کہ عام آدمی ان میں الجھا رہے کیوں کہ انھیں اس بات کا اندیشہ لگا رہتا ہے کہ اگر پیاسے انسان کو آبیاژوں سے بہلا یا نہ گیا تو اس کی پیاس کی شدت اس کے صبرو تحمل کا بند توڑ سکتی ہے اور اگر بند ٹوٹا تو بڑی طاقتوں کے پاؤں کے نیچے سے پانی کھسک سکتا ہے۔

ممکن ہے پانی کے تخلیقی پروسس میں وہ محسوسات بھی شامل رہے ہوں، جو مطالعے کے وقت بلراج کو مل،رشید امجد ،انور خاں ، خالد اشرف،اسلم پرویز ،آزاد گلائی ، پیغام آفاقی، بیگ احساس ، علی احمد فاطمی، عشرت ظفر ، وقارناصری وغیرہ کی گرفت میں آئے ہیں۔

اس لیے کہ’ پانی ‘ پر ان کے خیالات اور پانی سے نکالے گئے ان کے موضوعات میرے متذکرہ موضو ع سے مختلف ہوتے ہوئے بھی مجھے ایسا محسوس نہیں ہوتے کہ وہ پانی سے الگ ہیں ممکن ہے پانی کا بہاؤ انہیں بھی اپنے اندر سمیٹ لایا ہو۔

پانی کے اسلوب کے سلسلے میں بھی میں نے پہلے سے کوئی پلاننگ نہیں کی۔ لکھتے وقت میرے ذہن میں یہ نہیں تھا کہ پانی کے لیے مجھے استعاراتی ، علامتی ، تمثیلی اور داستانی طریقہ کار اپنا نا ہے۔

ممکن ہے میرے لاشعور میں یہ بات ہو کہ پانی کا مرکزی کردار بے نظیر ایک داستانی کردار ہے اس لیے اس کی رعایت سے داستانی فضا آگئی ہو یا یہ بھی ممکن ہے کہ پانی کے طریقہ کار کے پیچھے مجھ میں موجود شاعرکا ہاتھ رہا ہو یا میرے اس جدت پسند لاشعور کا جو روایت سے ہٹ کر الگ ڈھنگ سے کچھ کہنا چا ہتا ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ موضوع کا تقاضا یہی ہو۔

البتہ یہ ضرورہے کہ پانی میں میرا لاشعور مختلف سچویشن کے وقت زبان و بیان اور فضا آفرینی کے سلسلے میں سچو یشن کے تقاضے کے مطابق کام کرتا رہا ہے۔

مثلاً بے نظیر ایک جگہ ایک خوبصورت خواب دیکھتا ہے اور اس خواب سے جب باہر نکلتا ہے تو ایک بھیانک حقیقت سے دوچار ہوتاہے ۔خواب کے اندر اور خواب کے باہر دونوں جگہوں کی زبان کے فرق کو واضح طور پر محسوس کیا جاسکتا ہے ۔ مثلاً خواب ناک ما حول کی زبان؛

‘ بے نظیر کی نگاہوں میں رنگ و نور کی شعاعیں اتری جارہی تھیں اور آنکھیں حیرت و ستعجاب سے بھرتی جارہی تھیں۔ وہ سرا سیمگی کے سمندر میں مبہوت کھڑا تھا کہ رنگ و نور کا ایک اور نقش نگاہوں میں آبسا ۔ آنکھیں اور پھیل گئیں اور پتلیاں کسی مجسمے کی مردمکِ چشم کی طرح ساکت ہوگئیں ۔سامنے ایک پری پیکر ، گل اندام ، غزال چشم ، رشکِ چمن معتبرمشک فتن، لباس مر صع سے مزیں دو شیزۂ دل نواز ناز وا نداز کے ساتھ کھڑی درافشانی میں مشغول تھی؛

وہ پیکر جمال ، مجسمہ بے مثال خراماں خراماں چلتی ، پازیب کی نقرئی جھنکار سناتی ، شاخِ گل کی طرح لچکتی، خوشبو ئیں بکھیرتی ، فضا کو معطر کرتی اور ما حول کو ترنم بناتی بے نظیر کے قریب آگئی اور اپنی بلو ریں گداز باہیں پھیلادیں؛

‘ اے جواں سال تشنہ لب، گرفتارِ طلسم تا ب و تب ۔ آمرے حلقہ آغوش میں آ۔ آمرے جسمِ معطر میں سما ۔بر آئے گی ہر مراد تری ۔ تجھ کو مل جائے گی اک لال پری ۔ دور ہوجائے گی تھکن ساری مٹ کے رہ جائے گی بدن کی بے قراری مے کشی کا مزا اٹھا ئے گا ۔ تشنگی کا پتا نہ پائے گا۔ جسم و جاں میں نشہ سمائے گا۔ چشم سے استعجاب جائے گا ۔’

      اور اب حقیقت کی زبان؛

‘ اچانک آوازوں کا ایک ریلا آیا ۔ بند پلکیں کھل گئیں۔ بے نظیر ہڑ بڑا کر اٹھ بیٹھا ۔ نگاہوں کے آگے پہاڑ کی وادی میں بہت سے جانور ایک شکار کے تعا قب میں دوڑ رہے تھے ۔ شکار اپنی جان بچانے کے لیے جا ن توڑ کو شش کر رہا تھا اور شکاری شکار کی جان کے پیچھے اپنی جان پر کھیل رہے تھے۔ شکار بے تحاشا بھاگ رہا تھا۔ اس کی اکھڑی ہوئی سانسوں کی صدا بے نظیر کے کانوں میں صاف صاف سنائی دے رہی تھی ۔ شکاری بنا دم لیے اسے دوڑا رہے تھے۔شکار پہاڑ کے پاس سے مڑ کر پیچھے کی طرف وادی میں آگیا۔ شکاری بھی شکار کی جانب مڑ گئے۔ دوڑا دوڑا کر آخر کار شکار یوں نے شکار کو اپنے نر غے میں لے لیا ۔ شکار زمین پر گر کر ڈھیر ہو گیا۔’

زبان و بیان کے علاوہ یہ فرق پانی کے مکالموں میں بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ میرا لا شعور صرف اتنا ہی نہیں جانتا کہ مکالمہ ادا کرتے وقت کردار کو وہی زبان بولنی چاہیے بلکہ اس سے آگے بڑ ھ کر وہ اس حقیقت سے بھی واقف ہے کہ گفتگو کرتے وقت اپنے سامنے والے کی حیثیت،اپنی پوزیشن،اپنی اندرونی حالت اور اس وقت کی مخصوص صورتحال جس میں وہ ہے اور اپنے اور اپنے مخاطب کے موڈ اور اس کی زبان کا بھی خیال رکھنا پڑتا ہے۔

Click to view slideshow.

یہی سبب ہے کہ غارِ رہبان میں سفید ریش بزرگ اور شیر سا گر کے کنارے مکٹ دھاری دیوتا سے بات کرتے وقت بے نظیر کی زبان میں فرق محسوس ہوتا ہے۔ دونوں جگہوں کی صورتحال مخاطب اور ان کے پس منظر کے پیشِ نظر بے نظیر کی لفظیات میں تبدیلی آجاتی ہے؛ مثلاً غارِ رہبان کے سفید ریش بزرگ  سے گفتگو کا انداز یوں ہوتا ہے؛

‘کون؟’

‘ بے نظیر !  ایک پیاسا انسان’

‘ بیاباں نوردی کا سبب ؟’

‘ پانی کی تلاش’

‘ جستجوئے آب میں کب سے بھٹک رہے ہو؟’

‘جب سے ہماری آنکھ کھلی ہے ہمیں پیاس محسو ہوئی ہے اور ہم سے ہمارا تالاب چھنا ہے’

‘ ہوں، سرابوں کے تعا قب کا یہی انجام ہوتا ہے۔’

‘ میں سمجھا نہیں’

‘ میں سمجھا تا ہوں۔ غورسے سنو اور ایک ایک لفظ پر دھیان دو۔ سب کچھ سمجھ میں آجائے گا ۔ یہ دنیاایک سراب ہے ۔ ایک نابود و نا پید شے ہے۔ یعنی کہ معدوم ہے۔ ٹھہرو، شا ید تمہاری سمجھ میں نہیں آیا ہاں اب تمہاری سمجھ میں آجائے گا۔ بتاو یہ کیا ہے؟

‘ یہ  …  یہ میرا سایہ ہے۔’

‘ اور یہ ؟ ‘

‘یہ قلم ہے۔ یعنی میرے اس قلم کا سایہ ‘

‘ اچھا یہ بتاؤ کیا تمہارا سایہ مجھے یہ قلم دے سکتا ہے؟’

‘ یہ کیسے دے سکتا ہے ؟ یہ تو محض میرا عکس ہے’

‘ یعنی تمہار ا یہ سا یہ اپنی جیب کا قلم مجھے نہیں دے سکتا ہے’

‘ ہرگز نہیں دے سکتا’

‘ اس کا مطلب یہ ہوا کہ یہ بے جان ہے’

‘ ہاں ، سو فیصد بے جان ہے۔’

‘ گو یا اس کا اپنا کو ئی وجود نہیں؟’

‘ بے شک اس کااپنا کوئی وجود نہیں۔’

‘ یعنی یہ ہوتے ہوئے بھی نہیں ہے؟’

‘ ہاں ، نہیں ہے’

‘ مطلب معدوم ہے’

‘ ہاں، ہاں ہے لیکن آپ کا مدعا کیا ہے؟’

اور شیر سا گر کے مکٹ دھاری دیوتا کے ساتھ ہونے والی بات چیت کا طرز یوں ہے؛

‘ تم کو ن ہو؟ اِدھر کیا کررہے ہو؟’

‘میں ایک پیاسا انسان ہوں پانی ڈھونڈ رہا ہوں’

تم منشیہ ہو؟

‘ہاں ، میں منشیہ ہوں اور بہت پیا سا ہوں۔’

‘پرنتو ادھر پانی کہاں ہے ، سا گر تو کب کا متھ چکا ہے۔’

‘کیا ادھر کوئی ساگر بھی ہے؟’

‘ہاں ، ہے شیر ساگر !  پرنتو وہ متھا جا چکا ہے۔ اس کا پانی بہو مو لیہ رتنو ں میں پرورتِت ہو چکا ہے۔’

وہ لوگ کیا پی رہے ہیں؟۔

‘وہ  …  وہ امرت پی رہے ہیں۔’

‘امرت !  پیاس تو اس سے بجھ جاتی ہوگی ‘

‘مورکھ!  امرت سے پیاس کیول بجھتی ہی نہیں بلکہ سدیو کے لیے سما پت بھی ہو جاتی ہے۔’

‘ کیا مجھے اس کی کچھ بوند یں مل سکتی ہیں؟’

‘نہیں ، کداپی نہیں، یہ رتن ہمارے لیے

‘ارتھات ہم دیوتاؤں کے لیے بنا ہے۔ اس کا سیون کیول  دیوتا ہی کر سکتے ہیں۔’

‘ آپ دیوتا ہیں!’

‘ہاں ، میں دیوتا ہوں۔’

‘چھما کیجیے مہاراج! مجھ سے بڑی بھو ل ہوگئی ۔ میں آپ کو پہچان نہ سکا پر بھو! میرا پرنام سویکار کیجیے۔’

‘آنند ت رہو، چرن جیوی۔’

‘مہاراج !  میں آپ کے آگے سر جھکا تا ہوں، ونتی کر تا ہوں مجھ پر دیا کیجیے۔’امرت کی کیول دو چار بوندیں دے دیجیے میں برسوں کا پیاساہوں،مجھ پر آپ کی بڑی کر پا ہوگی۔

‘تمہارا یہ ولاپ ویرتھ ہے بالک !’

دونوں مکالموں کی زبان سے یہ اندازہ ہو جاتا ہے کہ میرا لا شعور زبان و بیان کے سلسلے میں کس حد تک با شعور ہے۔

   ‘پانی’ کے بر عکس ‘مم’ میں مجھے شروع سے آخر تک پلاننگ کرنی پڑی۔ ‘مم’ کی کہانی کسی صورتحال سے دوچار ہونے کے نتیجے میں نہیں پیدا ہوئی بلکہ یہ ایک سوال کہ بے نظیر کو پانی کیوں نہیں ملا؟ اور پانی کیسے ملے گا؟ پر مسلسل سوچتے رہنے کے نتیجے میں وجود میں آئی۔

مم کی زبان اور اس کے طریقہ کار میں بھی میرے شعور کا دخل زیادہ ہے۔ اس میں میں نے سوچ سمجھ کر شاعرانہ اسلوب اختیار کیا۔

     اِن سوالوں پر غور و خوض کے دوران مجھے وہ اسباب بھی نظر آئے جن کی بدولت بے نظیر کو پانی حا صل کرنے میں ناکامی ہوئی اور وہ قوتیں بھی سامنے آئیں جن کے سہارے ‘مم’ کے سفر میں بے نظیر کو پانی نصیب ہوا۔

   ان سوالوں پر جب میں سوچنے بیٹھا تو میرے مرا قبے میں فطرت سمٹ آئی جس کے سینے میں بعض کا میابیوں کے راز پنہاں ہوتے ہیں اور وہ ہستیاں بھی ابھر آئیں جن کی نگاہوں نے کامرانیوں کی کنجیاں اپنے باطن میں تلاش کیں ۔اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ وہ بر گزیدہ ہستی بھی جلوہ گر ہوئی جس کا سینہ استغراق کے عمل سے روشن ہوا اور جس کی روشنی سے جہالت کی دھند چھٹی اور صحرا بھی سر سبزو شاداب ہو گئے ۔ بنجر زمینوں میں بھی پھول کھِل اٹھے۔

      وہ شخصیت بھی نمو دار ہوئی جس کا گیان دھیان سنسکار کے سنکٹوں کا ندان اور مو کش کا سامان بنا ۔ منش سے مہارشی بنا مہا رشی ددھیچی بھی ابھر ا جس نے اپنے یش سے اگنی کو ، وایو کو، ورشا کو ، جل کو، تھل کو، آکاش کو، پاتال کو’ سب کو اپنے بس میں کر لیا تھا اور جس نے اپنی ہڈیوں کے شستر : اجگو ، گانڈیو اور سارنگ سے دیوتاؤں کی وانوؤں سے رکشا کی تھی۔

      اس طرح جیسا کہ میں نے اوپر عرض کیا ‘مم’ کی کہانی ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت پائے تکمیل تک پہنچی۔

     مم کی زبان اور اس کے طریقہ کار میں بھی میرے شعور کا دخل زیادہ ہے۔ اس میں میں نے سوچ سمجھ کر شاعرانہ اسلوب اختیار کیا۔ اس لیے کہ اس ناول میں مرکزی کردار بے نظیر کی جس انداز میں قلبِ ماہیت ہوئی ہے اس کے لیے شاعرانہ اسلوب ہی مناسب اور موزوں تھا۔ شروع سے آخر تک زبان کی تر تیب بھی شاعری کے انداز میں رکھی گئی اور اختصارو ایجاز سے کام لیا گیا۔

شعری تر تیب کا اہتمام اس لیے کیا گیا تاکہ ایک ایک منظر پوری طرح دکھائی دے سکے۔ایک ایک بات اچھی طرح متشکل ہوسکے ۔ ایک ایک نکتہ ٹھیک سے ذہن نشیں ہو سکے ۔ اختصار کا سبب بھی یہی رہا کہ قاری کا ذہن اِدھر اُدھربھٹکنے کے بجائے ایک نقطے پر مرکوز رہے اور بات  کرسپ اور پوائنٹیڈہوکر سامنے آسکے ۔

یہ نکتہ بھی پیش نظر رہا کہ آج کے ذہین قاری کے لیے طوالت یا جزئیات و تفصیلات کی گنجائش بہت کم رہ گئی ہے۔ اس کے لیے اشارہ ہی کافی ہے ۔

’مم’ میں ذات کی شناخت کائنات کے وسیع تر تناظر میں ایک کشفی روحانی عمل کا حصہ ہے ۔ چنانچہ اسلوب میں ایک نئی طرح کی دبازت اور معنویت کا التزام نا گزیر تھا۔

آپ یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ میں نے شعری وسائل کو معنوی دبازت ‘کشفیانہ کیفیت اور بیان میں زور اور جاذبیت پیدا کرنے کے لیے استعمال کیا ہے اور انھیں تخلیقی سطح پر اپنے اسلوب کا حصہ بنایا ہے۔

اس ناول میں کہانی کار ایک کردار بن کر ابھرا ہے جو کہانی کی قوت کو ایک ایسی تا ریخی ، فکری اور ترسیلی قوت کی طرح پیش کر تا جونابالغ نسل کو بھی بالغ کر دیتی ہے۔

    اسی طرح میں نے’کہانی انکل’ میں بھی پلاننگ سے کام لیا ۔ اس ناول کے بنیادی خیال (آئیڈیا)کو سپورٹ کرنے کے لیے اپنے کچھ شائع شدہ افسانوں کا انتخاب کیا۔ ان کے درمیان ایک ربط کوہیرنس پیداکرنے کی کو شش کی ۔ ایک ایسے کردار یعنی سوتر دھار کی تخلیق کی جسے تخلیقی مفکر کا نام دیا جا سکتا ہے، میرے اس ناول میں کہانی کار ایک کردار بن کر ابھرا ہے جو کہانی کی قوت کو ایک ایسی تا ریخی ، فکری اور ترسیلی قوت کی طرح پیش کر تا جونابالغ نسل کو بھی بالغ کر دیتی ہے۔

کہانی انکل ایسی روح پھونکتا ہے کہ مری ہوئی کہانی بھی زندہ ہو اٹھتی ہے اور وہ کہانی پوری ایک نسل کو نہ صرف یہ کہ بیدار کردیتی ہے بلکہ اس کے اندر ایک ایسی قوت بھر دیتی ہے کہ جس سے معاشرہ متحرک ہو جاتا ہے اور بڑی بڑی طاقتیں تھرا اٹھتی ہیں۔

کہانی انکل میں شامل کہانیوں کو مجھے نئے سرے سے لکھنا پڑا اور کہانی کے مخاطب کے پیش نظر بول چال کی زبان اور روز مرہ پر خاص توجہ دینی پڑی اور ایسا کرتے وقت سچویشن کے تقا ضے کے مطا بق اردو الفاظ کے بجائے بعض ہندی اور انگریزی لفظوں کا استعمال کرنا پڑا ۔

اس ناول میں اس بات کی میں نے پوری کو شش کی کہ ایک ایسی زبان  استعمال کروں جو ہرطرح کے سامع کی سمجھ میں آسانی سے آسکے اور کہانی کے راستے میں کہیں بھی کوئی لفظ حائل نہ ہوسکے اور اس بات کا بھی التزام رکھا کہ کہانی میں بڑوں کی دلچسپی بھی بنی رہے ۔کہانی کی زبان ‘بچوں کی ذہنی سطح اور ان کے ذخیرۂ الفاظ سے ہم آہنگ رہے۔

کینچلی کے اسلوب کے لیے بھی مجھے کچھ نہیں کرنا پڑا ۔یہ کہانی اپنے آپ ایک سانچے میں ڈھلتی چلی گئی۔

      کینچلی کا تخلیقی پرو سس مم اور کہانی انکل سے مختلف رہا ۔ اس کے موضوع اور زبان کسی میں بھی میں نے کوئی پلاننگ نہیں کی۔ ایک انسانی جوڑے کی مضطرب زندگی کینچلی میں اتر تی چلی گئی جس نے خود بھی اپنے دل و دماغ پر اذیت ناک احساسات کی کینچلی چڑھارکھی تھی۔

اذیت ناک احساسات کی کینچلی میں بند چھٹپٹاتی ہوئی زندگی پر جب میرے تخلیق کار کی نگاہ پڑی تو وہ مضطرب ہواٹھا اور اس کینچلی کو ذہن و دل سے اتار پھینکنے کے عمل میں مصروف ہوگیا۔اور اس عمل میں ایک ایسے رشتے کی کہانی رقم ہوگئی جو تمام رشتوں سے مختلف ہے۔

یہی ایک رشتہ ہے جو مذہبی،اخلاقی اور معاشرتی دباؤکے پیدا کردہ احسا سات کی کینچلی کو انسان کے دل و دماغ سے اتار سکتا ہے اور اسی سے انسان اپنے کرب واضطراب سے نجات پا سکتا ہے۔یہ ایک ایسا رشتہ ہے جو زندگی کی جلتی ہوئی بھٹیوں سے گزر نے کے بعد پیدا ہوتاہے اور فطرت کی وسعت میں پر وان چڑھتاہے۔

    کینچلی کے اسلوب کے لیے بھی مجھے کچھ نہیں کرنا پڑا ۔یہ کہانی اپنے آپ ایک سانچے میں ڈھلتی چلی گئی۔

کچھ لوگ مجھ سے یہ سوال کرتے ہیں کہ کینچلی میں بھی میں نے پانی والا آزمودہ اسلوب کیوں نہیں اختیارکیا، جس کی بدولت پانی کی حوصلہ افزا پذیرائی ہوئی تو میرا جواب یہ ہوتا ہے کہ کینچلی کے موضوع کا تقاضا یہ تھا کہ اسے کسی اور اسلوب کے بجائے راست بیانیہ انداز میں پیش کیا جائے۔

       ‘فسوں’میرا ایسا ناول ہے جس کی تخلیق میں میں نے شروع سے آخر تک منصوبہ بندی سے کام لیا ۔میں نے پلاننگ کی کہ یونیورسٹی کے ان طالبعلموں کی سرگرمیوں کو قلم بند کروں جو عام طلبہ کے معمولات سے مختلف تھیں۔ جن میں دانشورانہ حرارت اور فنکارانہ حرکات محسوس ہوتی تھیں۔ میں ان طالبعلموں کی محفلوں میں شریک ہوا۔ان کے کمروں میں دیر تک ان کے ساتھ بیٹھا ۔ان کی باتیں سنیں۔ ان کی فکر تک پہنچنے کی کو شش کی ۔ان کے پس منظر اور پیش منظر دونوں کی طرف سفر کیا۔ان کے اندر کی آگ کی آنچ محسوس کی۔ ان کے ساتھ دور تک گیا۔ ان کی سر گرمیوں میں شرکت کی۔ ان سرگرمیوں کے رد عمل کو دیکھا ۔

کچھ کے نتا ئج کو آنکھوں سے ملا خطہ کیا اور کچھ کا تصور کیااور سب کو ایک لڑی میں پرونے کی کوشش کی۔ یہ بھی سعی کی کہ ہر کردار کا منفرد رنگ پکڑ میں آجائے۔ ہر ایک کے بیان کے سُرتک رسائی ہوسکے۔

مختلف صورتحال اور عالم میں کی جانے والی گفتگو کے فرق کا سِرا ہاتھ آسکے۔ میں نے اس کی بھی کو شش کی کہ عشام جو محفوظ سے مختلف ہے، انصار جو درخشید سے جدا ہے، تبریزی جو الماس سے الگ ہے اور نسیم جو عالم بھائی سے منفردہے، اپنی اپنی شناخت قائم رکھ سکیں۔ سب آسانی سے پہچان لیے جائیں ۔

میں نے تمام پیکروں کے عنوانات قائم کرنے اور ان میں باہمی ربط پیدا کرنے کی بھی کوشش کی اور فسوں سازی کے لیے استادِ محترم شہریار کی کلیات کی ورق گردانی بھی کی اور اس شعر کے انتخاب کے لیے ہفتوں سرکھپا یا ؛

چل گیا مجھ پہ بھی آخر کو فسوں دنیا کا

     ‘دویہ بانی’ کی تخلیق ‘فسوں’ کے برعکس عمل میں آئی۔ کسی مظلوم کے کرب کی ضرب سے اٹھے سوالوں نے مجھے مراقبے میں بٹھا دیا ۔ سوالوں کے دائرے پھیلتے چلے گئے ۔ جواب کی تلاش میں ذہن دور دور تک بھٹکنے لگا۔ جواب میں دو یہ بانی اترتی گئی۔ اور ان دویہ بانیوں کی تر تیب سے ایک کہانی بنتی چلی گئی۔ ایسی کہانی جو ظالم،مظلوم اور ظلم کی داستان کے محر کات و عوامل کو ابھارنے لگی۔

بعض لوگوں کا یہ کہنا ہے کہ دو یہ بانی کی زبان اردو نہیں ہندی ہے یا یہ کہ یہ اردو کا نہیں ہندی کا ناول ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ سوفیصد اردو کا ناول ہے۔

اس سازش کا پردہ فاش کرنے لگی جو صدیوں پہلے ایک چھو ٹے طبقے نے ایک بڑے طبقے کے حواس کوڈیمیج کرنے کے لیے رچی تھی۔ جس کے نتیجے میں انسانوں کا ایک بڑا طبقہ جانور سے بھی بدتر بن گیا۔

جانور تو پھر بھی بعض چیزیں جوان کے لیے مضر ہوتی ہیں یا جو انہیں پسند نہیں آتیں انہیں سونگھ کر چھوڑ دیتے ہیں مگر انسانوں کا ایک بڑا گروہ بغیر کسی رد عمل کے خاموشی سے ہر وہ چیز کھالیتاہے جسے اس کا مالک اس کے آگے ڈال دیتاہے۔

بہت سارے اساطیر مثلاً پھول سونگھنے سے بھوت پکڑ لیتا ہے،محض اس لیے گڑھے گئے کہ وہ چیزیں جن سے دل و دماغ کو تاز گی ملتی ہے اور حواس بیدار ہوتے ہیں، ان تک ذہن کی رسائی نہ ہوسکے۔

اس سازش کا ایک راز یہ بھی ہے کہ ایسا کرنے سے و ہ چیزیں وافر مقدار میں اس چھوٹے سے طبقے کے حصے میں آسکتی ہیں اور وہ ان کا بھر پور فائدہ اٹھا سکتا ہے۔

      دو یہ بانی کی زبان اگر چہ عام اردو سے مختلف ہے اور اس میں قدرے گاڑھی ہندی کی آمیزش بھی ہے مگر اس زبان کے لیے مجھے کوشش نہیں کرنی پڑی بلکہ مو ضوع اور ما حول کی مناسبت سے یہ زبان بھی اپنے آپ استعمال ہوتی چلی گئی۔

بعض لوگوں کا یہ کہنا ہے کہ دو یہ بانی کی زبان اردو نہیں ہندی ہے یا یہ کہ یہ اردو کا نہیں ہندی کا ناول ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ سوفیصد اردو کا ناول ہے۔ اس کا ڈسکرپشن اردو کا ہے۔ اس کے جملوں کی ساخت اردو کی ہے، ہاں کہیں کہیں پر ہندی کے الفاظ ضرور استعمال ہوئے ہیں۔

اس لیے کہ ان سے حالات اور ما حول کی عکا سی ہوسکے اور ایسا صرف دو یہ بانی میں پہلی بار نہیں ہوا ہے بلکہ اردو کے بہت سے ناولوں میں ضرورت کے مطابق ناول نگاروں نے اپنے اردو ڈسکرپشن میں بھی ہندی کے الفاظ استعمال کیے ہیں، اور اس کی بہترین مثال قرۃالعین حیدر کا ناول’ آگ کا دریا’ہے۔

کردار چوں کہ ایک خاص ماحول اور زمانے سے تعلق رکھتے ہیں اس لیے ان کی گفتگو میں اس مخصوص ماحول اور زمانے کا رنگ بھرنے کے لیے ضروری تھا کہ وہی زبان استعمال کی جائے یا اسی زبان میں مکالمے لکھے جائیں جو وہ بولتے ہیں۔

شوراب سے ہماری کیسی کیسی سرسبز وشاداب زمینیں بے آب ہوئی ہیں۔

    شوراب کا محرک میرے محلے کا ایک نوجوان بنا جس نے اردو میں امتیاز کے ساتھ ایم اے کا امتحان پاس کیا۔سرسید احمد خان کی ادبی خدمات پراچھی اور معیاری  تحقیق کی۔اس کا تحقیقی مقالہ چھپ کر منظرِ عام پر بھی آیا۔

ملازمت پانے کے لیے اس نے بہت ہاتھ پاؤں مارے مگر اسے اپنے ملک میں نوکری نہ مل سکی۔ مجبوراٌ اسے عرب کا رخت سفر باندھنا پڑا اور ایک ایسی نوکری کرنی پڑی جو ہر طرح سے ناقابل ِ پسند تھی۔

   میں نے جس دن اس کے عرب جانے کی خبر سنی اسی دن شوراب کی بنیاد پڑ گئی۔میں نے اپنے حافظےکو ٹٹولنا شروع کیا کہ سر زمینِ عرب کے ریگ زاروں نے کس کو کس کو کس کس طرح سے جھلسایاہے اور انسانی ذہن و دل میں کس کس طرح سے شوراب بھرا ہے اور شوراب سے ہماری کیسی کیسی سرسبز وشاداب زمینیں بے آب ہوئی ہیں۔

کس زمین کی تہذیبی روایتیں،اس کی انسانی قدریں، دریائے صحرا میں جا کر غرقاب ہوئی ہیں۔یہ ساری باتیں میرے ذہن سے نکل نکل کر میری تحریر میں جگہ پاتی گئیں۔ حروف کی سیاہ لکیروں میں زرد شورہ ترتیب سے جمع ہوتا گیااور ایک دن ان سے ناول ‘شوراب’ بن گیا۔

مانجھی’میں مجھے ایک ایسا کردار ہاتھ آگیا جس کانام ویاس ہے اور جو ہے تو ملاح مگر یاتریوں کو مہا بھارت سناتا ہے اور ماضی کی مہا بھارت میں حال کی مہا بھارت کی تصویریں دکھاتا ہے۔

     مانجھی کا محرک سنگم میں کیا گیا وہ  دریائی سفر ہے جسے میں نے پیغام آفاقی،ابن  کنول، ثروت خان وغیرہ کے ساتھ علی احمد فاطمی کی چھوٹی بیٹی انجو کی شادی کی تقریب کے موقع پر کیا تھا اور دورانِ سفر غیر ملکی پرندوں کے ڈار ہمارے سروں پر منڈراتے رہے تھے اور ہم میں سے کچھ لوگ خلا میں دانے اچھالتے جارہے تھے اوران دانوں پر وہ پرندے ایسے جھپٹ پڑتے تھے جیسے وہ برسوں کے بھوکے ہوں۔

دانوں کے اچھلنے اوران پر پرندوں کے جھپٹنے سےجو منظر بن رہا تھا وہ ناؤ پر بیٹھے مسافروں کے لیے تفریح کا سامان بنتا جا رہا تھا۔سب مزے لے رہے تھے۔ قہقہے لگا رہے تھے۔تالیاں بجا رہے تھے،جوش میں بڑھ چڑھ کر دانے اچھال رہے تھے مگر میری آنکھوں میں وہ منظر کچھ اور ہی منظر بساتا جا رہا تھااور میرے ذہن و دل میں بسنے والا منظراندر ہی اندر مجھ میں کوئی پیکر بناتا جارہا تھا۔

الہ آباد کے سفر سے میں جب واپس دہلی پہنچا تو وہ پیکر ایک دن کاغذ کے کینوس پر اتر آیا جس کا عنوان میں نے’مانجھی’رکھ دیا۔

   ‘مانجھی’میں مجھے ایک ایسا کردار ہاتھ آگیا جس کانام ویاس ہے اور جو ہے تو ملاح مگر یاتریوں کو مہا بھارت سناتا ہے اور ماضی کی مہا بھارت میں حال کی مہا بھارت کی تصویریں دکھاتا ہے۔چوں کہ وہ ایک مخصوص بیک گراؤنڈ سےآنے والا کردار ہے اور اس کے زیادہ تر مخاطب وہ یاتری ہیں جن کی زبان ہندوستانی ہے اس لیے اردو کےاس ناول میں مجھے ہندی کے الفاظ بھی استعمال کرنے پڑے۔

اس تخلیقی سرگزشت کے اختتام پر میرا جی چاہتا ہے کہ میں ایک اور سوال کا جواب بھی دے دوں جو میرے قارئین سیاست کے متعلق مجھ سے پوچھتے ہیں کہ آپ کے افسانوں میں سیاست اس طرح نظر نہیں آتی جس طرح آپ کے بعض معاصرین  کے یہاں نظر آتی ہے،بالکل صاف شفاف میان سے نکلی چمچماتی ہوئی تلوار کی طرح۔ آپ سیاست کو میان میں بند کرکے رکھتے ہیں،ایسا کیوں ہے؟

   ان کے اس سوال کا میرا یہ جواب ہوتا ہے کہ   سیاست میرے یہاں ڈھکے چھپے انداز میں اس لیے آتی ہے کہ میرا ماننا ہے کہ تخلیقی نگارشات میں سیاست اگر شفاف اور واشگاف صورت میں آتی ہے تو ایسے میں اسے صحافت بن جانے کا خطرہ لاحق ہو سکتاہے۔

اور ایک وجہ یہ بھی ہے کہ میں ادب میں  پردے کا حامی ہوں۔میرا اس بات پر پختہ یقین ہے کہ حسن دکھانے سے زیادہ چھپانے میں نظر آتاہے۔

اور چھپانے میں ایجازی طریقہ کار کو اپنانا پڑتا ہے ۔میری آنکھوں نے جو کچھ دیکھا اسے ایجاز و اختصار والے طریقے سے بیان کرنا چاہوں تو میں یہ کہوں گا کہ میری آنکھوں نے دنیا  کی جو حالت دیکھی ہے وہ یہ ہے کہ آدمی آدمی سے بیزار، دل ،دماغ ،جسم ،روح سب میں انتشار، مادہ پرستی کا دباؤ،قدروں کا بکھراؤ،اعصاب کا تناؤ…

تہذیب کی ہلی ہوئی بنیادیں،معاشرت کی گرتی ہوئی دیواریں،معیشت کی بیٹھتی ہوئی چھتیں،مضبوط مذہنی جڑوں میں گھلتا ہوا شوراب،دین کے تنو مند تنوں سے ادھڑتی ہوئی چھالیں،عقیدے کی سوکھی ہوئی شاخیں ،ایمان و یقین کی پیلی پڑتی ہوئی پتیاں۔

انسانی وجود کا کایا پلٹ،بوڑھاپے میں تبدیل ہوتاہوا شباب، جوان چہروں پر جھلملاتی ہوئی جھریاں،پیشانیوں سے جھانکتی ہوئی شکنیں،آنکھوں میں ڈولتی ہوئی وحشت ناک پرچھائیاں،لبوں پر چیختی ہوئی بے چینیاں ،نفرت کا گھناؤنا روپ،معصوم جسموں کے دھڑا دھڑ کٹتے ہوئے اعضا،دھڑ سے کٹ کرزمین پر گرتے ہوئے انسانی گوشت کے ٹکڑے،کھٹا کھٹ ان کی بنتی ہوئی فلمیں،فیس بک اور دیگر ایپس پر ان تصویروں کی پوسٹنگ اور بے شمار لوگوں کی لائکنگ۔

جری نڈر اور بہادروں کی آنکھوں میں خوف، دانشوری کی بے بسی،سچ کی شکست، انصاف کا قتل،محبت کی ہزیمت اور نفرت کی جیت۔

  ان سب کو دیکھ کر محسوس ہوتا ہے کہ یہ دنیا جس گائے کے سینگوں پر ٹکی ہوئی ہے اس کے کان میں کوئی مچھر گھس گیا ہے یا ناک پر کوئی مکھی بیٹھ گئی ہے یا پیٹھ پر شاید کوئی کن کھجورا چڑھ گیا ہے جس کے سبب اس گائےکے جسم میں تھرتھری ہونے لگی ہے۔

اور اس کے پاؤں لرزنے لگے ہیں۔ڈر ہے کہ گائے کہیں چکر کھا کر گر نہ پڑے۔ اگر ایسا ہوا تو یہ چلتی پھرتی دنیا بھی کسی لمحے بیٹھ جائے گی اور اپنی ہی آگ سے جل کر راکھ میں تبدیل ہو جائے گی اوراس کے پاس تو ققنس  کی صفات بھی نہیں کہ اپنی خاکستر سے دوبارہ جی اٹھے۔

اس سیریز کے مضامین  پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔