مہاراشٹر کی ناسک جیل میں گزشتہ سات اکتوبر کو31سالہ قیدی کی لاش پھندے سے لٹکی ہوئی ملی تھی۔ پوسٹ مارٹم میں ان کے پیٹ میں پلاسٹک میں بندھا سوسائیڈ نوٹ پایا گیا، جس میں انہوں نے پانچ جیل اہلکاروں پرہراساں کرنے کے الزام لگائے ہیں۔ جیل کے چھ دیگر قیدیوں نے بھی انتظامیہ کے ذریعے ہراساں کرنے کی بات کہی ہے۔
ممبئی: مہاراشٹر کی ناسک جیل میں گزشتہ سات اکتوبر کو ایک31سالہ قیدی اصغر علی منصوری نے جیل انتظامیہ پرہراساں کرنے کا الزام لگاتے ہوئے مبینہ طور پرخودکشی کر لی۔ وہ ایک قتل معاملے میں پچھلے 14 سالوں سے زیادہ عرصےسے جیل میں تھے۔
حیرانی کی بات یہ ہے کہ انتطامیہ کے ذریعےموت کی اصل وجہ کو ضائع کیے جانے کے ڈر سے منصوری نے خودکشی کرنے سے پہلے ایک پلاسٹک میں اپنا سوسائیڈ نوٹ باندھ کر نگل لیا، جس کوپوسٹ مارٹم کے دوران برآمد کیا گیا۔
متاثرہ نے اس نوٹ میں پانچ جیل اہلکاروں کا ذکر کیا ہے۔ ناسک روڈ تھانے کی انسپکٹر منیشا راؤت نے دی وائر سے اس بات کی تصدیق کی ہے۔
انہوں نے کہا، ‘اس نوٹ میں جیل میں ان کے ساتھ ہوئی ہراسانی کے بارے میں تفصیل سے بتایا گیا ہے۔ انہوں نے باوسکر، چوہان، سرپڑے، گتے اور کر کر کے نام کا ذکر کیا ہے۔ ہم نے اس خط کے بارے میں ان کے گھروالوں کو بتا دیا ہے۔’
یہ پوچھے جانے پر کہ نوٹ ملنے کے بعد کیا پولیس نے اس بارے میں معاملہ درج کیا، راؤت نے کہا کہ پولیس نے گھروالوں سے کہا ہے کہ وہ آگے آکر معاملے میں شکایت درج کرائیں۔راؤت نے دعویٰ کیا ہے،‘یہ چٹھی مراٹھی میں لکھی ہے، لیکن گھروالوں کا کہنا ہے کہ منصوری کو لکھنا پڑھنا نہیں آتا تھا، تو ہم معاملے کی تفتیش کر رہے ہیں۔’
اصغر علی منصوری کی بہن روبینہ نے بتایا کہ پچھلے چھ مہینے میں گھرکے لوگ ان سے مل نہیں پائے تھے، لیکن ویڈیو کال کے ذریعے بات چیت ہو جاتی تھی۔ انہوں نے کہا، ‘وہ ایک زندہ دل انسان تھے اور ہم سے کبھی کسی طرح کے تناؤکی بات نہیں کی۔’
لیکن موت سےتقریباً دو ہفتے پہلے منصوری نے کچھ ایسی بات کہی تھی، جس کا مطلب گھروالوں کو ان کی موت کے بعد سمجھ آیا ہے۔ان کی بہن نے بتایا،‘انہوں نے کہا کہ اب زندگی میں ان کی دلچسپی ختم ہو گئی ہے۔ میں نے انہیں ڈانٹا، تو انہوں نے کہا کہ مذاق کر رہے ہیں۔ میں نے اس بارے میں زیادہ سوچا نہیں، لیکن دو ہفتے بعد وہ نہیں رہے۔’
روبینہ نے کہا کہ وہ اس بات کو لےکر حیران نہیں ہے کہ سوسائیڈ نوٹ مراٹھی میں لکھا ہوا تھا، ہو سکتا ہے کہ انہوں نے کسی کی مدد سےیہ لکھا ہوگا۔ انہوں نے آگے کہا، ‘حیرانی کی بات یہ ہے کہ کسی نےیہ خط لکھنے میں مدد کی، لیکن خودکشی سے نہیں روکا۔’
نام نہ ظاہر کرنےکی شرط پر ایک افسر نے بتایا،‘7 اکتوبر کو صبح 5.45 کے قریب جب حاضری لینے کے لیے جیل حکام سیل میں آئے تھے، تب منصوری ٹھیک تھا، لیکن چھ بجے جب قیدیوں کو ان کےمعمول کی سرگرمیوں کے لیے بلایا گیا تب وہ وہاں نہیں تھا۔ بعد میں وہ پھندے سے لٹکا ہوا پایا گیا۔’
جیل کے ذرائع کے مطابق کپڑے کے جس ٹکڑے کے سہارے منصوری لٹکے ہوئے پائے گئے، وہ باریکی سے سلا ہوا تھا۔ذرائع نے بتایا کہ اس کو سلائی محکمہ میں جانے کی اجازت تھی، اس نے اسے کچھ وقت سے تیار رکھا ہوگا۔’
ایک ذرائع کےمطابق منصوری کو مردہ قراردیےجانےاورناسک روڈ پولیس اسٹیشن میں ایکسیڈینٹل ڈیتھ رپورٹ (اے ڈی آر)درج کیے جانے کے فوراً بعد کچھ پولیس والوں نے جیل کا دورہ کیا تھا۔حالانکہ انہوں نے دعویٰ کیا کہ منصوری کے پڑوسی اور قریبی قیدیوں کو اپنا بیان درج کرانے کی اجازت نہیں دی گئی۔
انہوں نے کہا،‘اس کےبجائے جیل حکام نے اپنے لوگوں سے جھوٹا بیان دلوایا۔ چونکہ اس معاملے میں ایک سینئر جیلر کا نام سامنے آیا ہے، اس لیے جیل اہلکار اسے دبانے کی ہرممکن کوشش کر رہے ہیں۔’
ذرائع نے یہ بھی بتایا کہ پہلے منصوری کو ایک کامن سرکل میں بند کیا گیا تھا لیکن بعد میں‘سزا’ دینے کے لیے انہیں چھ مہینے کے لیے ایک الگ جیل میں ڈال دیا گیا۔ انہوں نے یہ بھی کہا پچھلے ہفتے انہیں ایک ایسے کمرے میں بند کیا گیا جہاں پنکھا بھی نہیں تھا۔
ذرائع نے بتایا کہ گزشتہ چھ اکتوبر کو جب سینئر جیلر اشوک کر کرسمیت دیگرجیل حکام جائزہ لینےآئے تو منصوری نے ان سے گزارش کی کہ انہیں واپس سرکل میں بھیج دیا جائے، کیونکہ انہیں غلط سزا دی جا رہی ہے۔ لیکن کر کر نے سب کے سامنے انہیں گالی دی تھی۔
دی وائر نے کر کر سےرابطہ کرنے کی کوشش کی، لیکن ان کا کوئی جواب نہیں ملا۔ اگر ان کا ردعمل آتا ہے تو اس کو رپورٹ میں جوڑا جائےگا۔ذرائع کے مطابق،جیل حکام نے اس معاملے میں لیپا پوتی کرنے کےلیےدعویٰ کیا ہے کہ منصوری ذہنی طور بیمار تھے۔
انہوں نے کہا، ‘یہ ایک جھوٹ ہے۔ اصغر سالوں سے جیل وارڈر تھے۔ ایک ہفتے پہلے ہی باوسکر نے یہ ذمہ داری ان سے چھین لی تھی۔ اگر وہ ذہنی طور پر ٹھیک نہیں تھے، تو محکمہ انہیں ایسی ذمیداری نہیں دیتا۔ اگروہ ذہنی طور پربیمار بھی تھے تو محکمہ کو ان کے لیے علاج و معالجہ کا انتظام کرنا چاہیے تھا، لیکن ایسا نہیں ہوا۔’
جس قتل کے الزام میں منصوری کئی سالوں سے ناسک جیل میں تھے، ان کی بہن نے بتایا کہ اس جرم کے وقت وہ نابالغ تھے۔ چونکہ پولیس نے ان کے والد کو کسٹڈی میں لے لیا تھا، اس لیے منصوری نے اپنا جرم قبول لیا اور 14 سال جیل میں گزارے۔
روبینہ نے کہا، ‘ہم امید کر رہے تھے کہ اچھے رویےکی وجہ سے جلد ہی انہیں چھوڑ دیا جائےگا اور وہ گھروالوں کے پاس واپس آ جائیں گے۔’
دوسرے قیدیوں نے بھی لگایا ہراساں کرنے کا الزام
صرف منصوری ہی نہیں دیگر قیدیوں نے بھی جیل انتظامیہ کے ذریعے ہراساں کرنے کے الزام لگائے ہیں۔ دی وائر کے پاس کم سے کم ایسے چھ خط ہیں جس میں ساتھی قیدیوں نے منصوری کی حمایت کی ہے۔
ان میں سے ایک نے کہا،‘اصغر ایک زندہ دل اور مددگار شخص تھے۔ صوبیدار باوسکر طویل عرصے سے انہیں پریشان کر رہے تھے۔ باوسکر جیل میں گانجا اور ایک سیل فون کی اسمگلنگ کرتے تھے اور انہیں شک تھا کہ اصغر اعلیٰ حکام کو اس بارے میں مطلع کر رہے تھے۔ اس لیے انہوں نے یقینی بنایا کہ اصغر کو دوسرے قیدیوں سے الگ کر دیا جائے اور سرکل سیل سے الگ سیل میں منتقل کر دیا گیا۔’
ایک دوسرے قیدی نے بھی اسی طرح کی کہانی بتائی اور کہا کہ باوسکر جانبداری سے کام لیتے تھے اور جو قیدی ان کی بات نہیں مانتا تھا، اسے سزا کاٹنی پڑتی تھی۔تمام چھ قیدیوں نے کہا ہے کہ وہ مجسٹریٹ کے سامنے آئی پی سی کی دفعہ164کے تحت اپنا بیان درج کرانا چاہتے ہیں۔ انہوں نے اپنی جان کے خطرے کے خدشات کا بھی اظہاکیا ہے۔
ایک قیدی نے لکھا،‘اگر انہیں پتہ چلےگا کہ یہ خط میں نے لکھا ہےتو وہ(ملزم اہلکار)مجھے مار ڈالیں گے یا دوسرے قیدیوں سے مجھ پر حملہ کروائیں گے۔’ان چھ قیدیوں نے بامبے ہائی کورٹ کے چیف جسٹس، جیل کے انسپکٹر جنرل، ناسک ضلع عدالت کے چیف جج اوردیگر کو اپنے خط بھیجے ہیں۔ اس کے بعد بھی پولیس نے ابھی تک ایف آئی آر درج نہیں کی ہے۔
ان سب نے منصوری کے سوسائیڈ نوٹ میں بتائے گئے اہلکار کے خلاف کارروائی کی مانگ کی ہے، ان کا کہنا ہے کہ ان کے خلاف آئی پی سی کی دفعہ306(خودکشی کے لیے اکسانا)کے تحت معاملہ درج کیا جائے۔چونکہ قیدیوں کو ڈر تھا کہ اعلیٰ حکام سے شکایت کرنے کے باوجود کوئی کارروائی نہیں کی جائےگی، اس لیے انہوں نے حال ہی میں جیل سے رہا ہوئے ایک قیدی کے ساتھ خفیہ طور پریہ خط بھیجا تھا۔
جیل سے باہر آئے اس شخص نے وکیل واحد شیخ سے رابطہ کیا، جو کیس لڑنے میں منصوری کےگھروالوں کی مدد کر رہے ہیں۔شیخ جیل حقوق کے کارکن اور ایک سابق قیدی بھی ہیں، جنہیں سال 2006 کے ممبئی سیریل ٹرین بلاسٹ معاملے میں نو سال سے زیادہ عرصے تک قید میں رکھا گیا تھا اور بعد میں بری کر دیا گیا۔
شیخ نے دی وائر کو بتایا کہ ایک قیدی کے اچانک خودکشی کرنے کے فیصلے کے پیچھے کی وجوہات کو جاننا ناممکن ہے۔
انہوں نے کہا، ‘اصغر یہ اچھی طرح سے جانتا تھا کہ اس کی موت سے بھی اس کو انصاف نہیں ملےگا۔ وہ جانتا تھا کہ اگر وہ اپنے بغل میں کوئی نوٹ چھوڑتا ہے، تو جیل اہلکار اس کوضائع کر دیں گے اس لیے اس کو اپنی زندگی ختم کرنے سے پہلے اسے نگلنے کے لیے مجبور ہونا پڑا۔ یہ بڑی بات ہے کہ اس معاملے میں سوسائیڈ نوٹ کو برآمد کیا گیا ہے۔ اب یہ یقینی بنانا ہے کہ پولیس معاملے کی تہہ تک جائے اور اس کے گھروالوں کو انصاف ملے۔’
یہ پہلی بار نہیں ہے جب جیل حکام پر قیدیوں کو ہراساں کرنےیا ان پر حملہ کرنے کے الزام لگے ہیں۔ جون 2017 میں بھائےکھلاخاتون جیل میں منجلا شیٹے نام کی ایک قیدی پر جیلر سمیت پانچ جیل اہلکاروں نے حملہ کیا تھا، جس کے بعد ان کی موت ہو گئی تھی۔
جیل میں موت ہونا بھی نئی بات نہیں ہے۔ معلوم ہو کہ سال 2019 میں کم سے کم 1775 قیدیوں کی جیل میں موت ہوئی۔ اس سے پہلے سال 2018 میں یہ اعدادوشمار سب سے زیادہ تھا، جہاں 1845 لوگوں کی جیل میں موت ہوئی تھی۔
(اس رپورٹ کو انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔)