مہاکمبھ اور مسلمان: الہ آبادیت اور انسانیت کا پرچم

کہا جاتا ہے کہ جب کوئی گنگا نہا کر گھر آتا ہے تو اس کے پاؤں میں لگ کر گنگا کی ماٹی بھی ان لوگوں کے لیے چلی آتی ہے جو گنگا تک نہیں جا پائے۔ مہاکمبھ میں بھگدڑ کی رات جب عقیدت مند میلے کے علاقے سے نکل کر شہر میں پھنس گئے تو جن مسلمانوں کو کمبھ میں حصہ لینے سے روکا گیا تھا، کمبھ خود ہی ان کےگھروں اور مسجدوں میں چلا آیا۔

کہا جاتا ہے کہ جب کوئی گنگا نہا کر گھر آتا ہے تو اس کے پاؤں میں لگ کر گنگا کی ماٹی بھی ان لوگوں کے لیے چلی آتی ہے جو گنگا تک نہیں جا پائے۔ مہاکمبھ میں بھگدڑ کی رات جب عقیدت مند میلے کے علاقے سے نکل کر شہر میں پھنس گئے تو جن مسلمانوں کو کمبھ میں حصہ لینے سے روکا گیا تھا، کمبھ خود ہی ان کےگھروں اور مسجدوں میں چلا آیا۔

چوک علاقے میں واقع یادگارحسینی انٹر کالج میں عقیدت مند۔ (تصویر: اسپیشل ارینجمنٹ)

چوک علاقے میں واقع یادگارحسینی انٹر کالج میں عقیدت مند۔ (تصویر: اسپیشل ارینجمنٹ)

الہ آباد: بھارت رتن شہنائی نواز بسم اللہ خان کا ایک بہت ہی مشہور قصہ ہے،جس کے راوی وہ خود ہیں۔ دراصل وہ ایک پروگرام کے لیے امریکہ گئے ہوئے تھے، جہاں ایک امریکی افسر نے ان سے کہا کہ خان صاحب آپ یہیں رہ جائیے۔ یہاں کے لوگوں کو شہنائی سکھائیے۔ اس پر خان صاحب بولے کہ سکھانے کے لیےتو سال دو سال رہنا پڑے گا۔ لیکن ہم اکیلے تو نہیں ہیں۔ پھر امریکی بولا، کوئی بات نہیں، کار لیجیے، موٹر لیجیے، ڈالر لیجیے۔ 40-50 جتنے آدمی ہوں آپ کے، سب کو لے آئیے۔ اس پر بسم اللہ صاحب نے کہا کہ ہمارے لوگوں کو آپ لا دیں گے، لیکن آپ یہاں ہماری گنگا کیسے لائیں گے۔

اسی طرح کا ایک قصہ  پٹنہ کی گنگا مسجد کا ہے کہ وہاں لوگ  گنگا کے پانی سے وضو کرنے کے بعد نماز پڑھتے  تھے۔ خلاصہ یہ ہے کہ گنگا کا تعلق کسی ذات یا مذہب سے نہیں ہے۔ گنگا ان کی ہے جنہوں نے گنگا کو اپنے اندر بسا لیا ہے۔

لیکن یہ بات ملک اور ریاست کے حکمرانوں کی سمجھ میں نہیں آتی،یہی وجہ ہے کہ انہوں نے مہا کمبھ کو فرقہ وارانہ تقسیم کی بنیاد پر کھڑا کرنے کی کوشش کی ہے۔ان کی  اس کوشش کو باباؤں اور شنکراچاریوں کی حمایت بھی حاصل ہوئی۔ اتر پیٹھ (جیوتش) کے شنکراچاریہ اویمکتیشورانند نے میلے کے آغاز سے پہلے ایک بیان دیا کہ ‘مسلمانوں کی سب سے بڑی زیارت گاہ مکہ شریف میں ہندوؤں کو 40 کلومیٹر پہلے ہی روک دیا جاتا ہے۔ وہ ہمیں کیوں روکتے ہی، وہ اس لیے نہ کہ یہ ہمارا مسلمانوں کے لیےزیارت گاہ ہے، تمہارا کیا کام ہے؟ تو ٹھیک ہے ہم بھی کہہ رہے ہیں کہ یہ ہمارا کمبھ ہے، تمہارا کیا کام ہے۔ غلط کیاہے؟’

ان کا مزید کہنا تھا کہ مسلمان’دھرم کو خراب کرنا چاہتے ہیں۔ وہ ہمیں ناپاک بنانا چاہتے ہیں، اس لیے ‘انہیں ہمارے پاس مت آنے دو۔’

کہا جاتا ہے کہ جب کوئی گنگا میں نہا کر گھر آتا ہے تو اس کے پاؤں سے لگ کر گنگا کی ماٹی  بھی چلی آتی ہے، ان  لوگوں کے لیے جو گنگا تک  نہیں جا پائے۔جب  مہا کمبھ میں بھگدڑ کی رات عقیدت مند میلے کے علاقےسے نکل کر شہر میں پھنس گئے تو علماء نے ان کے لیے مساجد کے دروازے کھول دیے اور اس طرح جن مسلمانوں کو کمبھ میں شرکت سے روکا گیا، کمبھ خود ہی ان کے گھروں اور مسجدوں  میں چلا آیا۔

شہر کے ممتاز محل علاقے کے رہائشی مظفر صاحب کا کہنا ہے کہ ‘پولیس نے رکاوٹیں لگا کر ہماری گلیوں کو پیک کر دیا تھا۔ وہ ہمیں باہر جانے کی اجازت نہیں دے رہے تھے۔ یہاں وہاں پولیس بیٹھی تھی۔ لیکن 29 جنوری کو جب حالات خراب ہوئے تو تمام پولیس والے بھاگ گئے۔ لوگوں نے رکاوٹیں توڑ دیں۔ اور ہم نے اپنے گھروں کے دروازے کھول دیے اور ان کا احترام کیا۔’

مظفرصاحب مزید کہتے ہیں کہ 29 جنوری کی رات بہت مجبور اور لاچار لوگ اتنے تھکے ہوئے تھے کہ پیر  پکڑکر بیٹھے جا رہے تھے۔ جو زنانہ (خواتین) تھیں اور بھی تکلیفوں سے گزر رہی تھیں۔ ہم نے اپنے گھروں کے دروازے کھول دیے۔ عورتیں، بچے، مرد سب اندر آئے۔ انہوں نے ہمیں اتنی دعائیں دیں۔ اس وقت ان لوگوں کی نظر میں کوئی ہندو اورمسلمان نہیں تھا۔ ہم نے انہیں اپنے کمبل، چادر اور بچھونے دیے۔ کھانے پینے اور رہائش کا انتظام کیا۔ منصور پارک، جامع مسجد، کچہری بازار، روشن باغ، وصی اللہ صاحب کی مسجد کی گلیوں میں تمام گھروں کے دروازے کھول دیےگئے۔’

الہ آباد کا  جوروشن باغ علاقہ، سی اے اے- این آر سی کی کے خلاف جدوجہد کا گواہ ہے، اس رات گنگا جمنی ثقافت کو پروان چڑھانے کے لیے روشن ہوا۔ الہ آباد کی بڑی مسجد وصی اللہ مسجد کے امام صاحب کی قیادت میں روشن باغ پارک میں مہا کمبھ کے عقیدت مندوں کے لیے پانی اور کھانے کا انتظام کیا گیا۔

مقامی رہائشی محمد تاسو ان لوگوں میں سے ایک ہیں،جنہوں نے 29 اور 30 جنوری کی شب شہر کے چوک علاقے میں واقع یادگار حسینی انٹر کالج میں 4000-5000 عقیدت مندوں کے لیے انتظامات کیے تھے۔ تاسو بتاتے ہیں کہ 31 تاریخ کو بھی تقریباً ایک ہزار عقیدت مند آئے اور یہاں ٹھہرے۔

گوہر اعظمی یادگارحسینی انٹر کالج کےمنتظم ہیں۔ وہر کہتے ہیں،’30 جنوری کی رات کو بھی ہزاروں کی تعداد میں عقیدت مند یہاں آئے ۔ ان کے قیام کے لیے پورا کالج کھول دیا گیا ہے۔ چائے، بسکٹ، کھانا، بستر، ہر چیز کا انتظام کیا گیا ہے۔ صرف ہم ہی نہیں، بہت سے مقامی لوگوں نے بھی الہ آباد کے دیہی علاقوں میں سڑک کے کنارے ہر ایک کے لیے کھانے، پانی اور رہائش کا انتظام کیا۔’

ایسے ہی ایک اور شخص محمد انس ہیں جو الہ آباد کے ایک مارکیٹنگ کمپلیکس انور مارکیٹ کے مالک ہیں۔ اس رات انس نے پوری انور مارکیٹ کھول دی۔ گدے، لحاف، چائے، ناشتے، کھانے اور گرم پانی کا انتظام کیا۔ فیس بک کے ذریعے بھی خبرپھیلادی۔

وہ کہتے ہیں،’مہا کمبھ میں بہت سے باباؤں نے بیان دیا کہ یہاں مسلمانوں کی دکانیں نہیں لگائی جائیں گی اور اس کا بڑا اثر ہوا۔ 99 فیصد مسلمانوں نے وہاں دکانیں نہیں لگائیں، صرف خوف کی وجہ سے۔’

ان کا کہنا ہے کہ مسلمانوں کے خلاف اس پروپیگنڈے کے باوجود پوری کمیونٹی نے متاثرین کی مدد کی اور اس وقت کسی نے یہ نہیں پوچھا کہ ہم مسلمان کے ہاتھ سے کھانا اور پانی کیوں لیں۔ ‘یہ سرکار کے منہ پر طمانچہ ہے۔’

یادگار حسینی، مجیدیہ اسلامیہ اور وصی اللہ مسجد کے اماموں نے لنگر شروع کیا۔ نوراللہ روڈ کے مسلم نوجوانوں نے مختلف مقامات پر چائے اور بسکٹ کے مفت اسٹال لگائے۔ مسیحی برادری نے  ہسپتال کے سامنے کھانے اور آرام کا انتظام کیا۔ فادر وپن ڈی سوزا کی قیادت میں عقیدت مندوں کے لیے ایک بہت بڑےلنگر کا اہتمام کیا گیا۔ ایڈوکیٹ چارلی پرکاش نے میور آباد چرچ کمپاؤنڈ کے قریب لنگر کا اہتمام کیا۔ ہائی کورٹ کے وکیل ورچسووا واجپئی ماکو اور الہ آباد انٹر کالج کے منتظم راجیش اگروال پورے انتظام کے ساتھ ساتھ ایک پیر پرکھڑے رہے۔

الہ آباد ہائی کورٹ کے سینئر وکیل کمل کرشن رائے کہتے ہیں،’یہی ہے الہ آباد کا مطلب ۔ جب ضرورت پڑتی ہے۔ جب مشکل وقت آتا ہے، مصیبت کا وقت آتا ہے، تب نہ ہندو رہتا ہے نہ مسلمان۔ پھر الہ آبادیت اور انسانیت کا پرچم لہراتا ہے۔’

(سشیل مانو آزاد صحافی ہیں۔)

Next Article

یورپ کی سیاست میں ہلچل کیوں مچی ہے؟

یورپ اچانک ایسی صورتحال کے ایک سلسلے سے دو چار ہے، جس کی شروعات یوکرین بحران سے ہوئی تھی اور یہ جرمنی میں دائیں بازو کی پارٹی کے عروج کے ساتھ ہی ڈونالڈ ٹرمپ کی تخریبی پالیسیوں تک جا تی ہے۔ اس بارے میں ذیشان کاسکر سے بات کر رہے ہیں دی وائر ہندی کے مدیر آشوتوش بھاردواج ۔

Next Article

اپریل 2026 سے انکم ٹیکس افسران کسی بھی شخص کے ای میل اور سوشل میڈیا اکاؤنٹ کی جانچ کر سکیں گے

موجودہ آئی ٹی ایکٹ،1961 میں ٹیکس چوری کا شبہ ہونے پر دفعہ 132 کے تحت انکم ٹیکس افسران کے پاس تلاشی لینے، جائیداد اور اکاؤنٹ سے متعلق دستاویز کو ضبط کرنے کا اختیارتھا، لیکن نئے آئی ٹی بل نے اس اختیار کو شہریوں کے موبائل فون اور کمپیوٹر سسٹم تک رسائی دے دی ہے۔

(السٹریشن: پری پلب چکرورتی/ دی وائر)

(السٹریشن: پری پلب چکرورتی/ دی وائر)

نئی دہلی: 1 اپریل، 2026 سےانکم ٹیکس حکام کسی بھی فرد کے سوشل میڈیا اکاؤنٹ، ذاتی ای میل، بینک، آن لائن سرمایہ کاری، ٹریڈنگ کھاتوں اور دیگر تمام مواد تک رسائی حاصل کرنے کے اہل ہوں گے۔

رپورٹ کے مطابق ، اگر حکام کو شبہ ہے کہ کسی شخص نے انکم ٹیکس چوری کیا ہے یا ان کے پاس یہ یقین کرنے کی وجہ ہے کہ اس شخص کے پاس کوئی غیر اعلانیہ آمدنی، رقم، سونا، زیورات یا قیمتی اشیاء یا اثاثے ہیں جن پر انکم ٹیکس ایکٹ 1961 کے مطابق قابل اطلاق انکم ٹیکس ادا نہیں کیا گیا ہے، تو وہ اس شخص کی ڈیجیٹل موجودگی تک رسائی حاصل کر سکیں گے۔

موجودہ آئی ٹی ایکٹ، 1961 کی دفعہ 132 کے مطابق، اب تک انکم ٹیکس حکام کے پاس تلاشی لینے، املاک اور اکاؤنٹ بک کو ضبط کرنےکا اختیار تھا،  اگر ان کے پاس  یہ معلومات اور یقین کرنے کی وجہ ہے کہ کسی شخص کے پاس کوئی غیر اعلانیہ آمدنی، اثاثے یا دستاویزہیں، جنہیں وہ ٹیکس سے بچنے کے لیے چھپا  رہے ہیں۔

اس سے انہیں کسی بھی دروازے، باکس یا لاکر کا تالا توڑنے کی اجازت ملتی ہے، اگر ان کی چابیاں دستیاب نہ ہوں اور اگر ان کے پاس شک کرنے کی کوئی وجہ ہے کہ کوئی غیر اعلانیہ اثاثہ یا اکاؤنٹ سے متعلق دستاویز وہاں ہیں۔

تاہم، نئے آئی ٹی بل نے اس اختیار کو شہریوں کے موبائل فون اور کمپیوٹر سسٹم تک بڑھا دیا ہے، جسے وہ ‘ورچوئل ڈیجیٹل اسپیس’ کہتے ہیں۔ یعنی پہلے حکام کو صرف فزیکل املاک کو تلاش کرنے اور ضبط کرنے کا حق تھا لیکن اب اسے ورچوئل ڈیجیٹل اسپیس تک بڑھا دیا گیا ہے۔

انکم ٹیکس بل 2025 کی وفعہ 247 کے تحت درج اختیارات میں کہا گیا ہے:

‘… شق (i) میں دیے گئے اختیارات کا استعمال کرنے کے لیے کسی بھی دروازے، باکس، لاکر، سیف، الماری، یا دیگر رسیپٹیکل کا تالا توڑیں، کسی بھی عمارت، جگہ، وغیرہ میں داخل ہوں اور تلاشی لیں، جہاں اس کی چابیاں دستیاب نہیں ہیں یا ایسی عمارت، جگہ وغیرہ تک رسائی دستیاب نہیں ہے، یا کسی بھی کمپیوٹر سسٹم، یا ورچوئل ڈیجیٹل اسپیس تک رسائی کوڈ کو اوور رائیڈ کرکے رسائی حاصل کریں، جہاں رسائی کوڈ دستیاب نہیں ہے۔’

نیا بل ‘ورچوئل ڈیجیٹل اسپیس’ کی تعریف اس طرح کرتا ہے:

‘ایک ایسا ماحول، علاقہ یا جگہ جو جسمانی، ٹھوس دنیا سے الگ ہو اور کمپیوٹر ٹکنالوجی کے ذریعے تعمیر اور تجربہ کیا گیا ہو اسے ڈیجیٹل اسپیس میں شامل کیا جاتا ہے۔ یہ حکام کو صارفین کے کمپیوٹر سسٹم، کمپیوٹر نیٹ ورک، کمپیوٹر وسائل، کمیونی کیشن ڈیوائسز، سائبر اسپیس، انٹرنیٹ، ورلڈ وائڈ ویب اور ابھرتی ہوئی ٹکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے تعمیر، ذخیرہ کرنے یا تبادلے کے لیے الکٹرانک شکل میں ڈیٹا اور معلومات کا استعمال کرتے ہوئے بات چیت، مواصلات اور سرگرمیوں کو جاری رکھنے کی اجازت دیتا ہے۔’

ان میں ای میل سرور، سوشل میڈیا اکاؤنٹس، آن لائن انویسٹمنٹ اکاؤنٹس، ٹریڈنگ اکاؤنٹس، بینکنگ اکاؤنٹس، وغیرہ، کسی بھی ویب سائٹ جو کسی پراپرٹی کی ملکیت کی تفصیلات کو ذخیرہ کرنے کے لیے استعمال ہوتی ہے، ریموٹ سرورز یا کلاؤڈ سرورز، ڈیجیٹل ایپلی کیشن پلیٹ فارمز اور اسی نوعیت کا کوئی دوسرا مقام۔

تشویش کی وجہ؟

اس ایکٹ میں حکام کے’یقین کرنے کی وجہ’ کی حد کی وضاحت نہیں کی گئی ہے، جو کہ تشویشناک ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ انکم ٹیکس حکام ٹیکس چوری کے شبہ میں ‘کسی بھی مبینہ کمپیوٹر سسٹم، یا ورچوئل اسپیس’ تک رسائی کو اوور رائیڈ کر سکتے ہیں۔

نتیجے کے طور پر، اس نے صارفین کی ڈیجیٹل رازداری کے بارے میں خدشات کو جنم دیا ہے۔

انفوسس کے سابق سی ایف او موہن داس پائی نے ایکس پر ایک پوسٹ میں وزیر اعظم کو ٹیگ کرتے ہوئے کہا،’ان معاملات میں اگلے مالی سال سے انکم ٹیکس کے اہلکار آپ کے ای میل اور سوشل میڈیا اکاؤنٹس تک رسائی حاصل کر سکتے ہیں – یہ ہمارے حقوق پر حملہ ہے! حکومت کو غلط استعمال کے خلاف تحفظ فراہم کرنا چاہیے اور ایسا کرنے سے پہلے عدالتی حکم لینا چاہیے۔’

اکنامک ٹائمز سے بات کرتے ہوئے کے ایس  لیگل اینڈ ایسوسی ایٹس کی منیجنگ پارٹنرسونم چندوانی کہتی ہیں،’اگرچہ حکومت ٹیکس چوری اور غیر اعلانیہ ڈیجیٹل اثاثوں کو روکنے کے اقدام کے طور پر اس کا جواز پیش کر سکتی ہے، لیکن ورچوئل ڈیجیٹل اسپیس کی وسیع اور مبہم لازمی طور پر کسی فرد کی مالیاتی  اور نجی ڈیجیٹل موجودگی پر غیر محدود نگرانی کی اجازت دیتی ہے۔’

وہ مزید کہتی ہیں؛’عدالتی نگرانی یا مخصوص طریقہ کار کے تحفظات کی عدم موجودگی میں، یہ شق صوابدیدی تحقیقات کا ذریعہ بن سکتی ہے۔’

آئینی جواز

آج کی دنیا میں ڈیجیٹل ترقی کو مدنظر رکھتے ہوئے ڈیجیٹل اسپیس کو ٹیکس کی جانچ پڑتال میں لانااہم ہے۔ تاہم ماہرین نے خدشات کا اظہار کیا ہے کہ نیا آئی ٹی بل اپنی موجودہ شکل میں ٹیکس حکام تک بلا روک ٹوک رسائی فراہم کرتا ہے، جو ڈیٹا پرائیویسی کے اصولوں کے خلاف ہے۔

حفاظتی اقدامات کے بغیر اس طرح کے وسیع نگرانی کے اختیارات کسی فرد کے رازداری کے حقوق کی خلاف ورزی کرتے ہیں، اس طرح یہ آئین کے آرٹیکل 21 کے لیے ایک چیلنج ہے۔

شنوائی میں جسٹس کے ایس پٹا سوامی بنام یونین آف انڈیا، 2017 میں سپریم کورٹ نے کہا تھا کہ رازداری کا حق  ‘آئین کے آرٹیکل 21 کا ایک اہم پہلو‘ ہے اور ریاست کی طرف سے کسی بھی مداخلت کو اس ‘قانونی جواز کے امتحان’ سے گزرنا ہوگا۔

مزید برآں، نئے آئی ٹی بل کے تحت غیر محدود نگرانی آئین کے آرٹیکل 19(1) کو بھی چیلنج کرتی ہے، جو کہ آزادی اظہار اور اظہار رائے کے فرد کے حق کو قانونی طور پر کمزور اور مشکوک بناتی ہے۔

Next Article

دہلی فسادات:پانچ سال بعد بھی متاثرین معاوضے سے محروم، رپورٹ میں حکومت کی ناکامی اجاگر

دہلی فسادات کی پانچویں برسی پر کاروانِ محبت کی جانب سے جاری کی گئی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ متاثرین کو معاوضہ دینے کے لیے ایک کمیشن کا قیام عمل میں آیا تھا، لیکن اس کے معیارات نا معلوم تھے۔ رپورٹ کے مطابق، ہندوستان کی تاریخ میں فرقہ وارانہ تشدد کے بعد معاوضے کی ادائیگی کی یہ ممکنہ طور پر بدترین صورتحال ہے۔

شمال -مشرقی دہلی میں تشدد کے فوراً بعد مصطفی آباد میں ایک گیراج۔ یہ تصویر 6 مارچ 2020 کو لی گئی تھی۔ (فوٹو: سوم شری سرکار/ دی وائر)

شمال -مشرقی دہلی میں تشدد کے فوراً بعد مصطفی آباد میں ایک گیراج۔ یہ تصویر 6 مارچ 2020 کو لی گئی تھی۔ (فوٹو: سوم شری سرکار/ دی وائر)

کولکاتہ: 2020 کے تشدد کے بعد صرف ایک ہفتے کے اندر، میں اور میرے ایک ساتھی شمال- مشرقی دہلی کے مصطفیٰ آباد علاقے میں ایک پناہ گاہ  پہنچے تھے۔ ہمیں وہاں لمبی قطاریں نظر آئیں۔ یہ قطاریں ایک لمبی میز کے پاس ختم ہو رہی تھیں، جہاں چار نوجوان خواتین بیٹھی تھیں۔ وہ  وکیل تھیں اور ان لوگوں کی تفصیلات درج کر رہی تھیں، جنہیں شدید نقصان ہوا تھا۔ کچھ لوگوں نے ہم سے بات کی اور بتایا کہ ان کے خاندان کے افراد لاپتہ ہیں۔ بعض نے کہا کہ ان کی دکانیں جلا دی گئیں۔ ان کے لیے جلد از جلد معاوضے کا عمل شروع ہونا بہت ضروری تھا۔

پانچ سال بعد، کاروانِ محبت    کی ایک رپورٹ، ‘دی ایبسنٹ اسٹیٹ:کامپریہنسیو اسٹیٹ ڈینائل آف رپریشن اینڈ ری کمپینسٹ آف دی  2020 دلی پوگرم’ بتاتی ہے کہ نصف دہائی بعد بھی متاثرین  کو کوئی ٹھوس معاوضہ نہیں دیا گیا ہے۔ فوری امداد اور موت کے معاوضے کے علاوہ متاثرین کو درحقیقت کوئی مدد نہیں ملی۔ یہ مختلف سرکاری اہلکاروں کی اپنی ذمہ داریوں سے دستبردار ہونے کی حیران کن کہانی ہے۔

رپورٹ کے مصنفین کا کہنا ہے کہ،’یہ ہندوستان کی تاریخ میں فرقہ وارانہ تشدد کے بعد معاوضے کی ادائیگی کی ممکنہ طور پر بدترین صورتحال ہے۔’

انسانی حقوق کے کارکن ہرش مندر کی قیادت  والے کاروانِ محبت اور قانونی امدادی گروپ امن برادری ٹرسٹ ان تنظیموں میں شامل ہیں جو اب بھی تشدد کے متاثرین کی نمائندگی، تعاون اور ان کے ساتھ منسلک ہو کر کام کر رہی ہیں۔

تشدد کی پانچویں برسی پر شائع ہونے والی 117 صفحات پر مشتمل رپورٹ کے  مصنفین وکیل سرور مندر اور سواتی ڈریک ہیں، جبکہ محققین میں آکانکشا راؤ، آیوشی اروڑہ  اور سید روبیل حیدر زید شامل ہیں۔ ہرش مندر نے بھی رپورٹ میں تعاون کیا ہے۔

رپورٹ میں مرکزی حکومت اور عام آدمی پارٹی کی قیادت والی  ریاستی حکومت کی ناکامی کو اجاگر کیا گیا ہے، جو تشدد کے دوران اور بعد میں بچاؤ، راحت، بحالی، معاوضہ اور سماجی دوری  کو ختم کرنے میں ناکام نظر آئی ۔

رپورٹ بتاتی ہے کہ تشدد کے دوران دہلی پولیس نے مداخلت کے لیے کیے گئے  ہنگامی فون کال کو نظر انداز کیا۔ صورتحال اتنی سنگین تھی کہ ریٹائرڈ جج جسٹس ایس مرلی دھر کو آدھی رات کو مداخلت کرنا پڑی اور اس دوران رپورٹ کے مصنفین میں سے ایک سرور مندر نے بھی اہم کردار ادا کیا ۔ اس حکم کی وجہ سے درجنوں جانیں بچائی جا سکیں۔

رپورٹ کے مطابق، جب تشدد اپنے عروج پر تھا، تب ریاستی حکومت کے اعلیٰ عہدے دار مندروں میں پوجا کر رہے تھے۔ شروعات میں حکومت نے ریلیف کیمپ بھی نہیں لگائے۔ بعد میں، پہلے سے موجود اورمکمل طور پر بھرے ہوئے بے گھر پناہ گاہوں کوہی  ریلیف کیمپوں میں تبدیل کر دیا گیا، جسے رپورٹ نے ‘سفاکانہ  مذاق’ قرار دیا ہے۔

رپورٹ کے مطابق، دہلی حکومت نے معاوضے کی رقم کو 1984 کے دہلی فسادات کے متاثرین کو دیے گئے معاوضے سے بہت کم  رکھا۔ اس کے علاوہ دہلی حکومت نے خود ہی معاوضہ طے کرنے کی اپنی ذمہ داری کوہائی کورٹ کے ذریعے نارتھ ایسٹ دہلی رائٹ کلیمز کمیشن کو سونپ دی۔ یہ کمیشن بنیادی طور پر املاک کے نقصان کا اندازہ لگانے اور فسادیوں سے اس کی وصولی کے لیے بنایا گیا تھا۔ اگرچہ عدالتوں اور کمیشنوں نے املاک کے نقصان کا اندازہ  تولگایا لیکن اس کے مطابق کوئی معاوضہ ادا نہیں کیا گیا۔

نارتھ ایسٹ دہلی رائٹ کلیمز کمیشن نے پرائیویٹ ایویلیویٹر مقرر کیے، جن کے معیار متاثرین کو معلوم نہیں ہیں۔ متاثرین کو نہ تو اس بارے میں کوئی اطلاع دی گئی اور نہ ہی انہیں ایک بار بھی عوامی سماعت کے لیے بلایا گیا۔

کاروان محبت نے  ایک آر ٹی آئی درخواست دائر کی جس میں تشخیص کاروں کی اہلیت اور نقصانات کا اندازہ لگانے کے رہنما خطوط کے بارے میں معلومات طلب کی گئیں، لیکن اسے کوئی جواب نہیں ملا۔

رپورٹ میں ایک متاثرہ نے بتایا،’میں نے اکثر دن بھر دفتر میں انتظار کیاتاکہ یہاں کے سکریٹری سے اپنے دستاویزات کی تصدیق کروا سکوں۔ کئی بار وہ ہم سے  ملتے ہی نہیں یا دستیاب نہیں ہوتے۔’

اس متاثرہ کو نارتھ ایسٹ دہلی رائٹس کلیمز کمیشن کے دفتر سے دعویٰ کی درخواست اور مطلوبہ دستاویزات جمع کرانے کے لیے کال موصول ہوئی۔ لیکن جب انہوں نے دستاویزات جمع کرائے تو انہیں نہ تو کوئی رسید ملی اور نہ ہی کوئی ثبوت ملا کہ اس کی فائل کمیشن میں جمع کرائی گئی ہے، جس سے غیر یقینی صورتحال برقرار رہی۔

رپورٹ میں معاوضے کے 146 معاملوں کا ذکر کیا گیا ہے، جن میں سے 81 فیصد جائیداد کے نقصان سے متعلق ہیں، جس میں رہائشی اور تجارتی املاک یا دونوں شامل ہیں۔ جسمانی چوٹوں سے معاملے متعلق کل  معاملوں کا 18فیصد ہیں۔ کسی بھی معاملے میں ابھی تک کوئی رقم ادا نہیں کی گئی ہے۔

دہلی حکومت کا کل بجٹ 75000 کروڑ روپے سے زیادہ ہے (حالیہ بجٹ کے مطابق)، لیکن ریلیف کے لیے صرف 153 کروڑ روپے مانگے گئے، جس میں سے صرف 21 کروڑ روپے ہی منظور کیے گئے۔

رپورٹ کے مطابق، مسلمانوں سے متعلق کل 139 مقدمات درج کیے گئے، جن میں سے 114 املاک کو نقصان پہنچانے کے اور 25 جسمانی چوٹ کے کیس تھے۔ اس کے برعکس، دیگر کمیونٹیز سے صرف 5 کیس رپورٹ ہوئے، جن میں سے 3 املاک کو نقصان اور 2 جسمانی چوٹ کے تھے۔

قابل ذکر ہے کہ اس تشدد کی دہلی پولیس کی تحقیقات کے نتیجے میں مسلم کارکنوں اور دانشوروں کو جیل بھیجا، جبکہ نفرت انگیز تقاریر کرتے ہوئے ریکارڈ پر پکڑے گئے ہندو رہنماؤں کے خلاف ابھی تک مقدمہ درج نہیں کیا گیا ہے۔

بتادیں کہ کئی نچلی عدالتوں نے پولیس کی جانچ پر تنقید کی ہے۔

رپورٹ میں معاوضے کے عمل میں حائل رکاوٹوں اور انتظامی تاخیر کی تفصیلی وضاحت کی گئی ہے۔ اس سے واضح ہے کہ طویل انتظار نے تشدد کے زخم مزید گہرے کر دیے ہیں۔

(انگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں ۔)

Next Article

دہلی فسادات: پولیس نے کپل مشرا کے خلاف ایف آئی آر کی مخالفت کرتے ہوئے کہا ان کا کوئی رول نہیں ہے

دہلی کے یمنا وہار کے رہنے والے محمد الیاس نے دہلی فسادات کے سلسلے میں بی جے پی لیڈر کپل مشرا اور دیگر چھ افراد کے کردار کی تحقیقات کا مطالبہ کرتے ہوئے دسمبر 2024 میں عدالت سے رجوع کیا تھا۔ دہلی پولیس نے اس کی مخالفت کی ہے۔

موج پور لال بتی کے قریب ڈی سی پی(نارتھ-ایسٹ)وید پرکاش سوریہ کےساتھ بی جے پی رہنما کپل مشرا(فوٹو : ویڈیو اسکرین گریب/ٹوئٹر)

موج پور لال بتی کے قریب ڈی سی پی(نارتھ-ایسٹ)وید پرکاش سوریہ کےساتھ بی جے پی رہنما کپل مشرا(فوٹو : ویڈیو اسکرین گریب/ٹوئٹر)

نئی دہلی: دہلی پولیس نے بدھ (5 مارچ) کو 2020 کے دہلی فسادات میں مبینہ کردار کے لیےبھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے رہنما اور موجودہ ایم ایل اے کپل مشرا کے خلاف ایف آئی آر کا مطالبہ کرنے والی عرضی کی مخالفت کی۔

رپورٹ کے مطابق ، یمنا وہار کے محمد الیاس کی طرف سے دائر درخواست کا جواب دیتے ہوئےپولیس نے کہا کہ فرقہ وارانہ تشدد میں مشرا کے مبینہ کردار کی پہلے ہی جانچ کی جا چکی ہے اور کچھ بھی  قابل اعتراض نہیں پایا گیا ہے۔

معلوم ہو کہ الیاس نے دسمبر 2024 میں دہلی فسادات کے سلسلے میں کپل مشرا اور چھ دیگر کے کردار کی تحقیقات کا مطالبہ کرتے ہوئے عدالت سے رجوع کیا تھا۔ اس دنگے میں 53 افراد ہلاک اور 700 سے زائد زخمی ہوگئے تھے۔

اس کیس کی سماعت ایڈیشنل چیف جوڈیشل مجسٹریٹ ویبھو چورسیا کی عدالت  میں کی گئی۔

دی ہندو کی رپورٹ کے مطابق،اس  درخواست میں فسادات میں مبینہ طور پر ملوث ہونے کے لیے کپل مشرا کے ساتھ ہی مصطفیٰ آباد کے ایم ایل اے اور ڈپٹی اسپیکر موہن سنگھ بشٹ، اس وقت کے ڈی سی پی (نارتھ ایسٹ)، دیال پور تھانے کے اس وقت کے ایس ایچ او اور سابق بی جے پی ایم ایل اے جگدیش پردھان کو نامزد کیا گیا ہے۔

الیاس نے دعویٰ کیا ہے کہ 23 فروری 2020 کو اس نے مشرا اور دیگر کو کردم پوری میں ایک سڑک کو بلاک کرتے اور سڑک پر ٹھیلوں کو تباہ کرتے ہوئے  دیکھا تھا۔ انہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ سابق (نارتھ ایسٹ) ڈی سی پی اور کچھ دیگر افسران مشرا کے ساتھ کھڑے تھے، جب انہوں نے شہریت ترمیمی قانون کے خلاف احتجاج کرنے والے لوگوں کو دھمکی دی تھی۔

الیاس نے اپنی درخواست میں یہ بھی دعویٰ کیا  ہےکہ انہوں نے دیال پور کے سابق ایس ایچ او اور دیگر کو شمال -مشرقی دہلی میں مساجد میں توڑ پھوڑ کرتے دیکھا تھا۔

معلوم ہو کہ عدالت اس درخواست پر اپنا فیصلہ 24 مارچ کو اگلی سماعت میں سنائے گی۔

دہلی فسادات کیس اور مشرا کی اشتعال انگیز تقریر

غورطلب  ہے کہ 2020 کے دہلی فسادات کے سلسلے میں پولیس نے عمر خالد، گلفشاں  فاطمہ اور شرجیل امام سمیت کئی طلبہ رہنماؤں اور کارکنوں کو فسادات کی  سازش کرنے والوں کے طور پر نامزد کیا ہے۔

تاہم، اس معاملے میں دہلی اقلیتی کمیشن کی طرف سے تشکیل دی گئی 10 رکنی فیکٹ فائنڈنگ ٹیم نے کہا تھا کہ دہلی میں تشدد ‘منصوبہ بند تھااور ہدف بنا کرکیا گیا’ تھا اور اس کے لیےکمیٹی  نے کپل مشرا کو ذمہ دار ٹھہرایا تھا۔

رپورٹ میں کہا گیاتھا کہ 23 فروری 2020 کو موج پور میں کپل مشرا کی مختصر تقریر کے فوراً بعد مختلف علاقوں میں تشدد پھوٹ پڑا، جس میں انہوں نےکھلے طور پر شمال -مشرقی دہلی کے جعفرآباد میں مظاہرین کو زبردستی ہٹانے کا مطالبہ کیا تھا۔ اس کے باوجود ان  کے خلاف کوئی مقدمہ درج نہیں کیا گیا۔

اس میں کہا گیاتھا کہ مشرا نے واضح طور پر کہا تھا کہ وہ اور ان کے حامی اس معاملے کو اپنے ہاتھ میں لیں گے، ‘اگر تین دن کے بعد سڑکیں خالی نہیں کی گئیں تو ہم پولیس کی بات نہیں سنیں گے…’

رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ دہلی فسادات کیس کی تحقیقات امتیازی تھی۔ زیادہ تر معاملات میں پولیس نے  پہلے مسلم ملزمان کے خلاف چارج شیٹ داخل کی ہے۔

کمیٹی نے کہا کہ پولیس کی بات ‘نہ سننے’ کا کھلا اعتراف اور ماورائے قانونی حربوں کو وہاں موجود افسران کے تشدد پر اکسانے کے طور پر دیکھا جانا چاہیے تھا۔ لیکن ڈی سی پی وید پرکاش سوریا کے ساتھ کھڑہونے کے باوجود پولیس کے مشرا کو گرفتار نہیں کرنے پرکمیٹی نے کہا کہ وہ تشدد کو روکنے اور جان و مال کی حفاظت کے لیے ضروری پہلا اور فوری حفاظتی قدم اٹھانے میں ناکام رہے۔

واضح ہو کہ کپل مشرا اب بھارتیہ جنتا پارٹی کی قیادت والی دہلی حکومت میں قانون اور انصاف کے وزیر ہیں۔

بتادیں کہ دہلی میں دنگا بھڑکنے سے ایک دن پہلے 23 فروری کو کپل مشرا نے ایک ویڈیو ٹوئٹ کیا تھا، جس میں وہ موج پور ٹریفک سگنل کے پاس سی اے اےکی حمایت میں جمع ہوئی بھیڑ کوخطاب کرتے دیکھے جا سکتے ہیں۔ اس دوران ان کے ساتھ شمال مشرقی دہلی کے ڈی ایس پی ویدپرکاش سوریہ بھی کھڑے ہیں۔

مشراکہتے ہیں،‘وہ(مظاہرین)دہلی میں کشیدگی پیدا کرنا چاہتے ہیں، اس لیے انہوں نے سڑکیں بند کر دی ہیں۔ اس لیے انہوں نے یہاں فسادات  جیسے حالات پیدا کر دیے ہیں۔ ہم نے کوئی پتھراؤ نہیں کیا۔ ہمارے سامنے ڈی ایس پی کھڑے ہیں اور آپ کی طرف سے میں ان کو یہ بتانا چاہتا ہوں کہ امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کے ہندوستان  میں رہنے تک ہم علاقے کو پرامن چھوڑ رہے ہیں۔ اگر تب تک سڑکیں خالی نہیں ہوئیں تو ہم آپ کی(پولیس)بھی نہیں سنیں گے۔ ہمیں سڑکوں پر اترنا پڑےگا۔’

اس سے پہلے دہلی کی ایک عدالت نے ان دو درخواستوں پر پولیس سے جواب طلب کیا تھا، جس میں شمال -مشرقی دہلی فسادات کے سلسلے میں بی جے پی لیڈر کپل مشرا اور دیگر کے خلاف ایف آئی آر درج کرنے کی مانگ کی گئی تھی۔

شمال- مشرقی دہلی کے رہنے والے دو شکایت کنندگان نے کڑکڑڈوما کورٹ میں عرضی دائر کی تھی جس میں مطالبہ کیا گیا تھا کہ بی جے پی لیڈر کپل مشرا کے خلاف ان کے علاقے کے امن اور ہم آہنگی کو خراب کرنے اور فسادات بھڑکانے میں مدد کرنے کے لیے ایف آئی آر درج کی جائے۔

اسی معاملے میں دہلی کی ایک عدالت نے و سماجی کارکن ہرش مندر کی شکایت پر بھی دہلی پولیس کوایکشن رپورٹ داخل کرنے کی ہدایت دی تھی۔ اس درخواست میں کپل مشرا کے خلاف ایف آئی آر درج کرنے کی بھی درخواست کی گئی تھی۔

وہیں، ستمبر 2020 میں دہلی پولیس نے اپنی چارج شیٹ میں کہا تھا کہ جولائی کے آخری ہفتے میں دہلی پولیس کے اسپیشل سیل نے شمال -مشرقی دہلی میں فسادات کے سلسلے میں بی جے پی لیڈر کپل مشرا سے  پوچھ گچھ کی تھی ۔ پوچھ گچھ کے دوران انہوں نے دعویٰ کیا تھاکہ وہ اس علاقے میں معاملے کو حل کرنے کے لیے گئے  تھے۔

مشرا نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ انہوں نے وہاں تقریر نہیں کی تھی  اور ایک ڈی سی پی کے ساتھ کھڑے ہوکر انہوں نے جو کچھ کہا اس کا مطلب صرف یہ تھا کہ وہ سی اے اے مخالف مظاہرین کے خلاف دھرنا شروع کریں گے۔

Next Article

سرجیکل دستانے کی خریداری میں دھاندلی: وزارت صحت سے آ رہے نوٹس پر ایمس کی خاموشی

ملک کا سب سے اہم طبی ادارہ ایمس کئی الزامات کا سامنا کر رہا ہے۔ مرکزی وزارت صحت ایمس کے ڈائریکٹر کو خط لکھ کر تحقیقاتی رپورٹ مانگ رہی ہے، لیکن انتظامیہ کے پاس کوئی جواب نہیں ہے۔ نئی دہلی میں واقع اس ادارے پر دی وائر کی سیریز کی یہ پہلی قسط ہے، جو سرجیکل دستانے کی خریداری میں ہونے والی بے ضابطگیوں پرمرکوز ہے۔

(تصویر: انکت راج/ دی وائر )

(تصویر: انکت راج/ دی وائر )

نئی دہلی: نئی دہلی میں  واقع آل انڈیا انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز (ایمس) کئی طرح کی بے ضابطگیوں میں گھرا ہوا ہے — بدعنوانی کے الزامات سے لے کر جنسی طور پر ہراساں کرنے کے ملزم  افسر کی ترقی تک ۔ صورتحال اس قدر بگڑ گئی ہے کہ مرکزی وزارت صحت نے ایمس کے ڈائریکٹر کو خط لکھ کر  رپورٹ طلب کی ہے، لیکن ملک کا سب سے بڑا طبی ادارہ خاموش ہے۔

ایمس پر دی وائر  کی اس سیریز کی پہلی قسط سرجیکل دستانے کی خریداری میں ہونے والی بے ضابطگیوں پر مرکوز ہے۔ الزام ہے کہ ایمس انتظامیہ نے سستے داموں پر دستیاب دستانے کو نظر انداز کیا اور کہیں زیادہ قیمت پران کی سپلائی کی اجازت دی، جس سے سرکاری خزانے کو شدید نقصان ہوا۔

وزارت صحت نے گزشتہ پندرہ مہینوں میں دو بار ایمس کو دستانوں کی خریداری کے سلسلے میں خط لکھا ہے، لیکن ڈائریکٹر نے اب تک کوئی جواب تک نہیں دیا ہے۔

دستانے کی خریداری

واقعہ مئی 2023 میں اس وقت شروع ہوا، جب ایمس  نے انڈین اسٹینڈرڈ (آئی ایس  4148) کے مطابق تصدیق شدہ ہائی کوالٹی (کیو 3 گریڈ) والے 58 لاکھ پاؤڈ-فری سرجیکل دستانے کی خریداری کے لیے ٹینڈرز طلب کیے تھے۔

Bid-Document-768x529

مجموعی طور پر 33 کمپنیوں نے ٹینڈر بھیجے لیکن دو کے علاوہ کوئی بھی کمپنی تکنیکی بولی کا پہلا مرحلہ پار  نہیں کر پائی ، یعنی وہ تکنیکی طور پر موزوں نہیں پائی گئیں۔

وہ دو کمپنیاں جو مالیاتی بولی کے لیے اہل پائی گئیں ، وہ تھیں —اے ایس ہیلتھ کیئر اور براؤن بایوٹیک لمیٹڈ۔ اے ایس ہیلتھ کیئر نے 21.50 روپے فی جوڑی دستانے کے حساب سے 12 کروڑ 47 لاکھ روپے کی بولی لگائی۔ جبکہ براؤن بایوٹیک لمیٹڈ نے 16 کروڑ 24 لاکھ روپے کی بولی لگائی۔

بارہ  کروڑ 47 لاکھ روپے میں 58 لاکھ دستانے کی فراہمی کا ٹینڈر۔

بارہ  کروڑ 47 لاکھ روپے میں 58 لاکھ دستانے کی فراہمی کا ٹینڈر۔

اس طرح اے ایس ہیلتھ کیئر کو 16 اکتوبر 2023 کو ٹھیکہ مل گیا۔

(تصویر: انکت راج/ دی وائر)

(تصویر: انکت راج/ دی وائر)

‘کرپشن’ کہاں ہوا؟

دی وائر کے حاصل کردہ دستاویزوں سے پتہ چلتا ہے کہ فروری 2023 میں ڈاکٹر امت لٹھوال کی سربراہی میں ایمس کے ایک شعبہ سی این سی ( کارڈیوتھوراسک اینڈ نیورو سائنس سینٹر ) نے ایک اور کمپنی سے 13.56 روپے فی جوڑی کی شرح سے پاؤڈر-فری دستانے خریدے تھے۔

مئی 2023 میں مدعو کیے گئے ہائی ریٹ ٹینڈر کے بعد  قیمتوں کے تفاوت کے بارے میں ایمس  کے حکام کے درمیان ایک طویل بات چیت  ہوئی جو اکتوبر 2023 تک جاری رہی۔ ان کے درمیان یہ سوال پیدا ہوا کہ جب سی این سی نے دو ماہ قبل دستانے کم قیمت پر خریدے تھے تو اس بار ایمس انہیں زیادہ قیمت پر کیوں خرید رہا ہے؟

دی وائر کے پاس اس مسئلہ پر ہونے والی بات چیت کی فائل نوٹنگز ہیں جو یہ ثابت کرتی ہیں کہ ایمس کے سینئر ڈاکٹر اور انتظامی عہدیدار اس بڑھتی ہوئی شرح سے پوری طرح واقف تھے۔ کچھ اہلکار اس قیمت کا دفاع کر رہے تھے تو کچھ اس کے خلاف تھے۔

اسٹور کیپر رویندرا نے یہ کہتے ہوئے بلند شرح کا دفاع کیا تھا،سی این سی میں خریدے گئے دستانے کو ہسپتال کے مرکزی اسٹور کی تکنیکی تفصیلات اور تشخیص کمیٹی نے تکنیکی طور پر غیر موزوں قرار دیا تھا۔ اس لیے کسی ایسی پراڈکٹ کا موازنہ کرنا جس کو تکنیکی طور پر غلط قرار دیا گیا ہو، مناسب نہیں ہے۔’اس دستانے کو اگست 2023 میں غیر موزوں قرار دیا گیا تھا۔

نوٹ 42 میں اسٹور کیپر رویندر نے قیمت کا دفاع کرتے ہوئے یہ دلائل دیے تھے۔

نوٹ 42 میں اسٹور کیپر رویندر نے قیمت کا دفاع کرتے ہوئے یہ دلائل دیے تھے۔

سی این سی  نے یہ خریداری اے ایس ایم اے  نامی کمپنی سے کی تھی۔ لیکن غور کریں، جس اے ایس ایم اے کمپنی کے دستانے رویندر کے مطابق اگست 2023 میں تکنیکی طور پر کمتر پائے گئے تھے، اسی کمپنی کے اسی قسم کے دستانے (پاؤڈر فری) ایمس نے اس کے نو ماہ بعد خریدے اور وہ بھی اے ایس ہلیتھ کیئر  سے خریدے گئے دستانے سے 6.19 روپے کم قیمت پر۔

مئی 2024 میں ایمس  نے اے ایس ایم اے کے ساتھ ایک سال کے لیے 9 کروڑ 18 لاکھ 60 ہزار روپے یعنی 15.31 روپے فی جوڑا کی شرح سے 60 لاکھ دستانے کا معاہدہ کیا۔

مئی 2024 میں ہوا معاہدہ۔

مئی 2024 میں ہوا معاہدہ۔

رویندرا نے اپنے نوٹ میں کئی کمپنیوں کی مثالیں بھی دیں جو کئی ہسپتالوں کو اے ایس ہیلتھ کیئر کی طرف سے ادا کی گئی قیمت سے زیادہ قیمت پر سپلائی کر رہی تھیں۔ لیکن انہوں نے اس حقیقت کو نظر انداز کیا کہ اسی عرصے کے دوران، بہت سے دوسرے ہسپتال بھی کم قیمت پر اسی طرح کے دستانے خرید رہے تھے۔

ایمس نے جس اے ایس ہیلتھ کیئر سے ‘ٹرسکن’ برانڈ کے پاؤڈر فری دستانے 21.50 روپے فی جوڑا خریدا، اسی مدت کے دوران ملک کے مختلف ہسپتال 14.00 روپے سے 18.55 روپے فی جوڑا کے حساب سے خرید رہے تھے۔

ٹرسکن برانڈ کے دستانے ملک بھر کے دیگر ہسپتال ₹ 14.00 سے ₹ 18.55 میں خریدے ہیں۔

ٹرسکن برانڈ کے دستانے ملک بھر کے دیگر ہسپتال ₹ 14.00 سے ₹ 18.55 میں خریدے ہیں۔

جب ہم نے ایمس کے ڈائریکٹر سے پوچھا کہ اتنی زیادہ قیمت پر خریداری کیوں کی گئی، سرکاری خزانے کو کیوں نقصان پہنچا گیا، جبکہ  بہتر آپشن دستیاب تھے، تو انہوں نے جواب دینے سے انکار کردیا۔

فائل نوٹنگ کے مطابق، پروکیورمنٹ کے انچارج اور ایڈیشنل میڈیکل سپرنٹنڈنٹ ڈاکٹر لٹھوال ان عہدیداروں میں شامل تھے، جنہوں نے زیادہ قیمت پر تشویش کا اظہار کیا تھا او ٹینڈر کو منسوخ کرنے کی تجویز پیش کی تھی۔ انہوں نے کہا تھا، ‘اس ٹینڈر میں قیمت سی این سی کی قیمت سے بہت زیادہ ہے۔ …لہذا، یہ تجویز ہے کہ اس ٹینڈر کو منسوخ کر کے فوری طور پر نیا ٹینڈر جاری کیا جائے۔’

لٹھوال نےسی این سی کی طرف سے خریدے گئے دستانے کومسترد کرنے پر بھی احتجاج کیا تھا،’ سی این سی کی طرف سے غیر تسلی بخش کارکردگی کی بنیاد پر دو کمپنیوں کو نااہل قرار دیا گیا، لیکن سی این سی  سے اس سلسلے میں کوئی آفیشیل فیڈ بیک  نہیں لیا گیا۔’

ڈاکٹر لٹھوال اس خریداری کے حق میں نہیں تھے۔

ڈاکٹر لٹھوال اس خریداری کے حق میں نہیں تھے۔

لیکن اس وقت کی ڈپٹی ڈائریکٹر (ایڈمن) منیشا سکسینہ نے لٹھوال کی تجویز کو مسترد کرتے ہوئے کہا،’ہنگامی ضرورت کو مدنظر رکھتے ہوئے…تین ماہ کی سپلائی حاصل کی جا سکتی ہے…مزید خریداری کے لیے…فوری طور پر ایک نیا ٹینڈر جاری کرنے کے لیے کہا جا سکتا ہے۔‘

منیشا سکسینہ نے نوٹ 42 میں اسٹور کیپر کی طرف سے اٹھائے گئے نکتے کو ترجیح دی۔

منیشا سکسینہ نے نوٹ 42 میں اسٹور کیپر کی طرف سے اٹھائے گئے نکتے کو ترجیح دی۔

منیشا سکسینہ کی تجویز کو ایمس کے ڈائریکٹر ایم سرینواس سے ہری جھنڈی مل گئی اور دو دن بعد اے ایس ہیلتھ کیئر کے ساتھ معاہدہ کیا گیا۔

ایمس  کے ڈائریکٹر ایم سرینواس نے 13 اکتوبر 2023 کو خریداری کے لیے 'اوکے' کیا اور 16 اکتوبر 2023 کو معاہدہ ہو گیا۔

ایمس  کے ڈائریکٹر ایم سرینواس نے 13 اکتوبر 2023 کو خریداری کے لیے ‘اوکے’ کیا اور 16 اکتوبر 2023 کو معاہدہ ہو گیا۔

بالآخر، ایمس نے 21.50 روپے فی جوڑے کی قیمت پر کل 15 لاکھ دستانے 3 کروڑ 22 لاکھ 50 ہزار کی پر خریدے۔

اگر ایمس نے یہ دستانے فروری 2023 کی شرح سے اپنے ہی ڈپارٹمنٹ سی این سی کے ذریعے خریدے ہوتے یعنی 13.55 روپے فی جوڑا، تو اسے اتنے دستانے کے لیے صرف 2 کروڑ 3 لاکھ 25 ہزار روپے ادا کرنے پڑتے۔ یعنی ایمس کو 1 کروڑ 19 لاکھ 25 ہزار روپے کا نقصان اٹھانا پڑا۔

اور اگر ایمس نے انہیں مئی 2024 کی شرح سے خریدا ہوتا یعنی 15.31 روپے فی جوڑا، تو اسے اتنے دستانے کے لیے 2 کروڑ 29 لاکھ 65 ہزار روپے ادا کرنے پڑتے، یعنی ایمس کی ادائیگی سے 92 لاکھ 85 ہزار روپے کم۔

معاہدے کی معلومات

معاہدے کی معلومات

وزارت کے پا س پہنچی شکایت

یہاں سوال صرف نقصان کا نہیں ہے بلکہ ایمس انتظامیہ کی خاموشی کا بھی ہے۔ اس موضوع پر ایک شکایت تمام دستاویزات کے ساتھ دسمبر 2023 میں وزارت تک پہنچی۔ اس معاملے کی تحقیقات کے لیے وزارت نے پہلا خط ایمس کے ڈائریکٹر کو 28 دسمبر 2023 کو لکھا تھا۔ خط میں ایمس سے کہا گیا کہ وہ معاملے کی تحقیقات کرے اور جلد از جلد رپورٹ وزارت کو بھیجے۔

ایک سال گزرنے کے بعد بھی کوئی جواب نہ ملنے کے بعد وزارت نے 12 دسمبر 2024 کو ایمس کو دوسرا خط لکھا، اور یاد دلایا کہ ایک سال قبل بھی انسٹی ٹیوٹ سے اس معاملے کی تحقیقات کرنے اور وزارت کو رپورٹ بھیجنے کی درخواست کی گئی تھی۔

وزارت نے لکھا، ‘اس معاملے کی مکمل چھان بین کریں اور جلد از جلد رپورٹ وزارت کو فراہم کریں۔’ لیکن آج تک ایمس نے کوئی جواب نہیں دیا ہے۔

دسمبر 2023 کے بعدوزارت نے دسمبر 2024 میں دوبارہ خط بھیجا، لیکن ایمس کے ڈائریکٹر نے جواب تک نہیں دیا۔

دسمبر 2023 کے بعدوزارت نے دسمبر 2024 میں دوبارہ خط بھیجا، لیکن ایمس کے ڈائریکٹر نے جواب تک نہیں دیا۔

جب پوچھا گیا کہ وزارت کو جواب کیوں نہیں بھیجا گیا، ایمس کی میڈیا انچارج ڈاکٹر ریما دادا نے دی وائر  کو بتایا،’ایمس اس معاملے کی اپنی سطح پر تحقیقات کر رہا ہے۔’

ہم نے اس سلسلے میں ایمس کے ڈائریکٹر کو بھی سوالات بھیجے ہیں لیکن ان کا جواب نہیں ملا ہے۔

جب ہم نے اس تاخیر کے بارے میں وزارت میں انڈر سکریٹری نیلم سے رابطہ کیا، جنہوں نے وزارت کی جانب سے ایمس کو آخری خط لکھا تھا۔ لیکن انہوں نے بھی  کچھ کہنے سے انکار کر دیا۔

(اگلی قسط: لانڈری بل کا تنازعہ، جس  میں  نہ صرف ایمس کا پیسہ برباد ہوا بلکہ اس کی شبیہ بھی خراب ہوئی۔)