
پی یو سی ایل کی اتر پردیش یونٹ نے اپنی ابتدائی تحقیقات میں پایا کہ یوگی حکومت نے کمبھ میں ہونے والی اموات کی حقیقی تعداد کو چھپانے کے لیے کئی طریقے استعمال کیے، جیسے لاشوں کو دو مختلف پوسٹ مارٹم مراکز میں بھیجا گیا اور کچھ معاملوں میں ان کی برآمدگی کی جگہ اور تاریخ میں ہیرا پھیری کی گئی۔

مہا کمبھ میں بھگدڑ کے بعد کی صورتحال۔ (تصویر بہ شکریہ: ایکس/اکھلیش یادو)
نئی دہلی: پیپلز یونین فار سول لبرٹیز (پی یو سی ایل) نے اتر پردیش حکومت پر مہا کمبھ میں حالیہ بھگدڑ میں ہونے والی ہلاکتوں کی حقیقی تعداد کو چھپانے کا الزام لگایا ہے۔
رپورٹ کے مطابق ، پی یو سی ایل نے ایک بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ پی یو سی ایل کی اتر پردیش یونٹ نے اپنی ابتدائی تحقیقات میں پایا ہے کہ اتر پردیش حکومت نے اموات کی حقیقی تعداد کو چھپانے کے لیے کئی طریقے استعمال کیے ہیں۔ لاشوں کو دو مختلف پوسٹ مارٹم مراکز میں بھیجا گیا اور بعض صورتوں میں ان کی برآمدگی کی جگہ اور تاریخ میں ہیرا پھیری کی گئی۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ الہ آباد کے سوروپ رانی ہسپتال میں پی یو سی ایل کے اراکین نے رجسٹر میں چسپاں نامعلوم مردہ افراد کی تصاویر دیکھی ہیں۔
اس میں مزید کہا گیا ہے کہ لاشوں کی حالت سے واضح ہوتا ہے کہ ان میں سے کئی کو کچل دیا گیا تھا۔ لیکن ایک حالیہ نوٹس میں تصاویر لینے پر پابندی لگا دی گئی ہے۔
بیان کے مطابق، ‘پی یو سی ایل اتر پردیش کے پریاگ راج میں مہا کمبھ میلے کے دوران 29 جنوری 2025 کو ہونے والی بھگدڑ پر گہرے دکھ کا اظہار کرتا ہے اور یاتریوں کی موت پر تعزیت کرتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی اتر پردیش حکومت سے شفافیت اور جوابدہی کا مطالبہ کرتا ہے کہ وہ اپنی سب سے بنیادی آئینی ذمہ داری، جو کہ تمام افراد کے زندگی کے حق کی حفاظت کرنا ہے، ادا کرنے میں کیوں ناکام رہی ہے۔
پی یو سی ایل نے مطالبہ کیا ہے کہ وزیر اعظم کی سربراہی میں نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے) بھگدڑ کی وجوہات کے بارے میں اپنی تشخیص کو عام کرے۔
قابل ذکر ہے کہ مہا کمبھ میں بھگدڑ کے بعد اتر پردیش حکومت نے مرنے والوں کی جو تعداد جاری کی ہے اسے گمراہ کن بتایا جا رہا ہے۔ بھگدڑ کے تقریباً پندرہ گھنٹے بعد ریاستی حکومت نے کہا تھا کہ 28 جنوری کو دیر گئے سنگم نوز کے علاقے میں ہونے والی بھگدڑ میں 30 افراد ہلاک اور 60 زخمی ہوئے تھے۔
جبکہ اب میڈیا کی مختلف رپورٹس سے یہ بات واضح ہو گئی ہے کہ بھگدڑ ایک جگہ نہیں بلکہ کئی مقامات پر ہوئی تھی۔ سنگم نوز کے علاوہ جھونسی میں بھی اسی رات بھگدڑ ہوئی تھی، جس کے بارے میں میلے کے ڈی آئی جی ویبھو کرشنا نے کہا کہ،’پولیس کے پاس ایسی کوئی جانکاری نہیں ہے۔’
ظاہر ہے کہ جب پولیس کے پاس اس بات کی کوئی اطلاع نہیں تھی کہ جھونسی کے علاقے میں بھی بھگدڑ ہوئی ہے، توحکومت نے وہاں مرنے والوں کی تعداد بھی نہیں بتائی۔ جھوسی کے علاقے کے عینی شاہدین نے میڈیا کو بتایا کہ وہاں 24 افراد اکی موت ہوئی۔ اس طرح مرنے والوں کی تعداد 54 ہو جاتی ہے۔
سوالوں کا سلسلہ یہیں ختم نہیں ہوتا۔ بہت سے سوالات ابھی بھی جواب طلب ہیں۔ میلے والے علاقے میں 2500 سے زائد سی سی ٹی وی کیمرے اور ہر کونے پر سیکورٹی اہلکار ہونے کا دعویٰ کرنے والی انتظامیہ بھگدڑ کو روکنے میں کیسے ناکام ہو گئی؟ انتظامیہ کو جھونسی کے علاقے میں بھگدڑ کا علم کیوں نہیں ہوا؟ اگر بھگدڑ کی کوئی اطلاع نہیں تھی تو پھر کس کے حکم پر بھگدڑ کے مقام پر بکھرے ہوئے کپڑے، چپل اور دیگر چیزیں بڑے ٹرکوں میں ہٹوائی جا رہی تھیں۔
معلوم ہو کہ اس معاملے کو لے کر سپریم کورٹ میں مفاد عامہ کی عرضی بھی دائر کی گئی تھی ۔ اس میں مہا کمبھ میں بھگدڑ میں مبینہ لاپرواہی کے لیے اتر پردیش حکومت کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ تاہم، عدالت نے اس پر غور کرنے سے انکار کر دیا اور عرضی گزار کو الہ آباد ہائی کورٹ جانے کو کہا۔
سماعت کے دوران چیف جسٹس آف انڈیا (سی جے آئی) سنجیو کھنہ اور جسٹس سنجے کمار کی بنچ نے کہا تھا، ‘یہ ایک افسوسناک واقعہ ہے اور یہ تشویشناک ہے۔ لیکن ہائی کورٹ سے رجوع کریں، خاص طور پر جب وہاں ایک پٹیشن پہلے ہی زیر التوا ہو۔’