مہاکمبھ کا مایا جال: وی آئی پی کا جلوہ اور عام لوگ بے حال

حادثے کے دو دن بعد بھی پریاگ راج میں صورتحال ابتر ہے۔ دودھ اور اخبار بھی لوگوں کے گھروں تک نہیں پہنچ پائے ہیں۔ شہر کی سڑکوں پر بے تحاشہ بھیڑ کے درمیان گاڑیاں پھنسی ہوئی ہیں۔

حادثے کے دو دن بعد بھی پریاگ راج میں صورتحال ابتر ہے۔ دودھ اور اخبار بھی لوگوں کے گھروں تک نہیں پہنچ پائے ہیں۔ شہر کی سڑکوں پر بے تحاشہ بھیڑ کے درمیان گاڑیاں پھنسی ہوئی ہیں۔

 (بائیں سے – کلاک وائز) مہا کمبھ میں ہوئی بھگدڑ، صفائی کے کارکن ، 31 جنوری کو شہر میں لگا ٹریفک جام، جمعرات کو سنگم علاقے میں بی جے پی لیڈر وسندھرا راجے اور جمعہ کو شہر میں عقیدت مندوں کا ہجوم۔

(بائیں سے – کلاک وائز) مہا کمبھ میں ہوئی بھگدڑ، صفائی کے کارکن ، 31 جنوری کو شہر میں لگا ٹریفک جام، جمعرات کو سنگم علاقے میں بی جے پی لیڈر وسندھرا راجے اور جمعہ کو شہر میں عقیدت مندوں کا ہجوم۔

پریاگ راج: مہا کمبھ کے دوران ہوئے حادثے کو دو دن ہوچکے ہیں، لیکن شہر میں اب بھی افراتفری کا ماحول ہے۔ پچھلے دو دنوں سے لوگوں کے گھروں میں اخبار اور دودھ نہیں آیا ہے۔ 2 فروری کو بسنت پنچمی کی وجہ سے جو عقیدت مندمونی اماواسیہ پر آئے ہیں، ان میں  بڑی تعداد میں لوگ اسنان کے لیے شہر میں ٹھہرے ہوئے ہیں۔ لیکن ان کے قیام، کھانے اور رہائش کے مناسب انتظامات نہ ہونے کی وجہ سے نہ صرف انہیں بلکہ شہر کے لوگوں کو بھی شدید پریشانیوں  کا سامنا کرنا پڑ رہاہے۔

دوسری جانب شہر میں جن لوگوں کے گھر اور کمرے خالی ہیں وہ ایک رات کے 2 سے 5 ہزار روپے وصول کر رہے ہیں۔ چونکہ شہر کی سڑکوں پر فور وہیلر نہیں چل رہے ہیں، تو جن کے پاس دو پہیہ گاڑیاں ہیں وہ لوگوں سے دو کلومیٹر تک لے جانے کے  200-500 روپے وصول کر رہے ہیں۔

میلے میں کئی لوگوں کے رشتہ دار ابھی تک لاپتہ ہیں۔ لوگ بھوکے پیاسے ہیں اور بدحواسی کے عالم میں انہیں تلاش کر رہے  ہیں۔ لوگ سمجھ نہیں پا رہے کہ کیا کریں اور کہاں جائیں؟ کئی زخمیوں اور ہلاک ہونے والوں کے اہل خانہ کا الزام ہے کہ ان سے ایمبولینس کے چارج بھی وصول کیے جا رہے ہیں۔

دریں اثنا، ریلوے نے اعداد و شمار جاری کیے ہیں کہ 29 جنوری مونی اماوسیہ کے دن 26652 ٹکٹ رد کیے گئے۔ اس سے ایک دن پہلے 28 جنوری کو 19516 کو ریزرو ٹکٹ ردکیے گئے۔ یعنی دو دنوں میں 46168 ٹکٹ رد ہوئے۔ اس کے لیے ریلوے نے دو دنوں میں ٹکٹ کینسل ہونے کی وجہ سے 4.07 کروڑ روپے واپس کیے ہیں۔

غور طلب ہے کہ 29 جنوری کو وارانسی-نئی دہلی وندے بھارت، آگرہ- وارانسی وندے بھارت سمیت ایک درجن سے زیادہ روٹین ٹرینیں رد کردی گئی تھیں۔ اس کے علاوہ جو ٹرینیں پریاگ راج جنکشن سے روانہ ہونے والی تھیں انہیں روانگی سے عین قبل چھونکی منتقل کر دیا گیا، جس کی وجہ سے کئی مسافروں کی ٹرینیں چھوٹ گئیں۔ شہر میں شدید ٹریفک جام اور ٹرانسپورٹ کی عدم دستیابی کی وجہ سے کئی مسافر بروقت اسٹیشن نہیں پہنچ سکے۔ ایسے میں ان کے پاس شہر میں رکنے کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا۔

دوسری جانب امن و امان کے نام پر حکومت نے میلے میں 4 فروری تک گاڑیوں کے داخلے پر پابندی عائد کر دی ہے۔  اس کے باوجود حکومت میلہ کے علاقے خصوصی طور پر سنگم کے علاقے میں وی آئی پی موومنٹ کو ہٹانے کے لیے تیار نہیں ہے۔ اس سلسلے میں جمعہ کو 116 ممالک کے سفارت کاروں کو سنگم اسنان کے لیے لے جایا جائے گا۔ اریل گھاٹ پر تمام ممالک کےجھنڈے لگیں گے جس کے بعد انہیں میلے کی سیر پر لے جایا جائے گا۔

گزشتہ 30 جنوری کو بی جے پی لیڈر اور راجستھان کی سابق وزیر اعلیٰ وسندھرا راجے سندھیا  نےاریل سیکٹر 23 میں بنے وی آئی پی گھاٹ پر سنگم میں اسنان کیا۔

گزشتہ 29 جنوری کے حادثے کے بعد یہ دعویٰ کیا گیا تھا کہ میلے والے علاقے میں وی آئی پی پاس بند کر دیے گئے تھے، تاہم 30 جنوری کو راجستھان کی سابق سی ایم وسندھرا راجے یہاں پہنچی تھیں۔

گزشتہ 29 جنوری کے حادثے کے بعد یہ دعویٰ کیا گیا تھا کہ میلے والے علاقے میں وی آئی پی پاس بند کر دیے گئے تھے، تاہم 30 جنوری کو راجستھان کی سابق سی ایم وسندھرا راجے یہاں پہنچی تھیں۔

میلے میں بدانتظامی

کمبھ میلے میں لاتعداد ہورڈنگ اور بینر لگائے گئے ہیں، جن پر وزیر اعلیٰ اور وزیر اعظم کی تصاویر کے ساتھ اس کمبھ کا نعرہ ہے – ‘سناتن گرو مہا کمبھ پرو’۔

یہ جملہ میلے کی بدانتظامی کو چھپانے کی کوشش کرتی ہے، جس کے بارے میں مین اسٹریم میڈیا کچھ نہیں بول رہا۔ مونی اماوسیہ سے صرف تین چار دن پہلے میلہ کے علاقے کے سیکٹر 7-8 میں عارضی سڑکیں نہیں بنی تھیں، میڈیا والے انتظامیہ کے وہاٹس ایپ گروپ پر مسائل کے بارے میں بات کر رہے تھے اور بڑی سکرین پر کہہ رہے تھے-آل از ویل۔ اس طرح وہ لوگوں کو مونی اماوسیہ اسنان میں ریکارڈ تعداد میں شرکت کرنے کی ترغیب دے رہے تھے۔ وہ انہیں گھر سے نکل کر میلے میں آنے پر اکسا رہے تھے۔

جب 27 جنوری کو مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ اور وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ گنگا میں نہانے کے لیے میلے والے علاقے میں آئے تو تمام پنٹون پل بند کر دیے گئے تھے اور صرف دو پل کھلے تھے اور لوگ پیدل چل  چل کر پریشان  ہوگئے تھے۔

مونی اماوسیہ سے ایک شام پہلے گھاٹوں پر ہجوم ۔ (تصویر: سشیل مانو)

مونی اماوسیہ سے ایک شام پہلے گھاٹوں پر ہجوم ۔ (تصویر: سشیل مانو)

یہ صرف اسی دن نہیں ہوا۔ جب سے میلہ شروع ہوا ہے یہی صورت حال تھی۔ میلے میں مسلسل وی آئی پی موومنٹ رہی۔ کوئی بھی دن ایسا نہیں گزرا جب مرکزی یا ریاستی حکومت کا کوئی وزیر میلے میں نہ آیا ہو۔ وزیر اعلیٰ خود میلہ شروع ہونے کے بعد 7 سے 8 مرتبہ میلے کے علاقے کا دورہ کر چکے ہیں، جس کی وجہ سے انتظامیہ ان کی’جی حضوری’ میں  کھڑا نظر آیا اور آخری وقت تک انتظامیہ کو اتنا وقت اور وسائل نہیں ملے کہ وہ عام آدمی کے لیے انتظامات کو منظم کر سکے۔ شہر میں مسلسل ٹریفک جام کا مسئلہ ہے۔

میلے کے پہلے ہی دن سے گاڑیوں کو میلے کے علاقے سے 10 کلومیٹر پہلے ہی روک دیا گیا تھا۔ تمام پڑوسی اضلاع کے تحصیل بلاکوں میں لگائے گئے کمبھ کے اشتہاری ہورڈنگز لوگوں کو ہر اذیت  کو برداشت کرتے ہوئے میلے میں آنے کے لیے راغب کرنے میں کامیاب رہے۔

یہ سلسلہ 28 جنوری کی رات تک جاری رہا، یہاں تک کہ حکومت نے الہ آباد ضلع سے متصل 8 اضلاع کی سرحدوں کو سیل کر کے ٹریفک کوون وے نہیں بنا دیا۔ اس کے بعد لوگ اپنی گاڑیوں سے اتر کر میلے کی طرف پیدل چلنے لگے۔ 28 جنوری کو سنگم علاقے سے بابا باگیشور کے نام سے معروف دھیندر شاستری نے کہا تھا، ‘سب کو مہا کمبھ میں آنا چاہیے۔ جو نہیں آئے گا وہ پچھتائے گا اور (دیش دروہی) غدار کہلائے گا۔’

گزشتہ 28 جنوری کی شام سے مین اسٹریم میڈیا کے تمام اینکر مونی اماوسیہ میں  نہانے کے لیے آنے والے لوگوں کی تعداد کو بڑھا چڑھا کر بتا رہے تھے، جیسے کوئی عالمی ریکارڈ بننے والا ہو۔

الہ آباد شہر کے اننت مشرا 12ویں جماعت کے طالبعلم ہیں۔ وہ کہتے ہیں، ‘میں پہلے ہی میلے والے علاقے کا دورہ کر چکا تھا۔ ہجوم کے درمیان میلے میں جانے کا میرا کوئی ارادہ نہیں تھا۔ لیکن جس طرح سے ہجوم میلے میں جا رہا تھا اس نے مجھے ان کا حصہ بننے کے لیےمسحور کر دیا۔ کچھ دوستوں اور رشتہ داروں نے اصرار کیا تو ہم 28 تاریخ کو رات 8 بجے سنگم کے لیے روانہ ہوئے۔ ہم ٹھیک 12 بجے سنگم کے اس مقام پر تھے۔ آگے کا راستہ بند تھا۔ لوگ ادھر ادھر دھکیل رہے تھے… ہم خوش قسمت تھے کہ ہم نے واپس لوٹنے کا سوچا۔’

مونی اماوسیہ سے 4 دن پہلے تک سڑک تیار نہیں ہو سکی تھی۔ (تصویر: سشیل مانو)

مونی اماوسیہ سے 4 دن پہلے تک سڑک تیار نہیں ہو سکی تھی۔ (تصویر: سشیل مانو)

بھگدڑ کا واقعہ ، دعوے اور حقائق

شہر کے رہائشی کرشن کمار پانڈے کہتے ہیں،’سب سے پہلے 28 جنوری کی صبح دشاسوامیدھ گھاٹ پر بھگدڑ مچی۔ لیکن اس واقعہ میں کسی جانی یا مالی نقصان کی اطلاع نہیں ملی۔ اس کے باوجود انتظامیہ نے بھگدڑ کے اس واقعے سے کوئی سبق نہیں سیکھا حالانکہ اس واقعے کے بعد انہیں تیاری کے لیے 24 گھنٹے سے زیادہ کا وقت ملا تھا۔’

پھر وہی ہوا جس کا اندیشہ میلہ شروع ہونے کے ایک ہفتہ بعد اتر پیٹھ (جیوتش) کے شنکراچاریہ اویمکتیشورانند سرسوتی جی نے جتایا تھا۔ مونی اماوسیہ کے دن میلے کے علاقے میں بھگدڑ کی وجہ سے دو حادثات ہوئے۔ پہلا حادثہ 28-29 جنوری کی درمیانی رات سنگم نوز پر پیش آیا جس میں سینکڑوں لوگ کچلے گئے۔ جبکہ دوسرا حادثہ 29 جنوری کی صبح مکتی مارگ پر جھونسی کی طرف پیش آیا۔ یہ حادثہ اس وقت پیش آیا جب مہامنڈلیشور کی گاڑی وہاں سے گزر رہی تھی۔ اس حادثے میں چھ خواتین اور ایک بچے کی موت ہو گئی۔ لیکن دوسرے حادثہ کو پہلے حادثہ کے سایے میں دبا دیا گیا۔

دیر شام وزیر اعلیٰ نے مرنے والوں کے لواحقین کو 25 لاکھ روپے معاوضہ دینے اور واقعے کی تحقیقات کے لیے تین رکنی عدالتی تحقیقاتی کمیٹی تشکیل دینے کا اعلان کیا۔ شام 6.30 بجے میلہ کے افسر وجئے کرن آنند اور ڈی آئی جی ویبھو کرشنا نے 3 منٹ کی پریس کانفرنس میں کہا کہ بھگدڑ میں 30 عقیدت مندوں کی موت ہوگئی۔ 60 افراد زخمی ہیں۔ 25 لاشوں کی شناخت کر لی گئی ہے۔ بھگدڑ میں مرنے والے زیادہ تر لوگ (19) اتر پردیش کے ہیں۔ 2 مرنے والوں کا تعلق اتراکھنڈ سے ہے۔ اس کے بعد 4 کا تعلق کرناٹک سے ہے۔ جبکہ گجرات اور آسام سے ایک ایک کی شناخت ہوئی ہے۔

مونی اماوسیہ کی صبح نہاون مہورت کا انتظار کرتے لوگ۔ (تصویر: سشیل مانو)

مونی اماوسیہ کی صبح نہاون مہورت کا انتظار کرتے لوگ۔ (تصویر: سشیل مانو)

‘راستے الگ ہوتے تو حادثہ نہ ہوتا’

جونپور کی ایک عینی شاہد کملا دیوی جو جائے حادثہ پر موجود تھیں، نے کہا، ‘سنگم کنارے آنے اور جانے کا ایک ہی راستہ تھا۔ لوگ اسی سے آمدورفت کر رہے تھے۔ انتظام ایسا ہونا چاہیے تھا کہ لوگ ایک طرف یا ایک راستے سے آتے، نہاتے اور دوسری طرف سے واپس چلے جاتے۔ پولیس چاہتی تو درمیان میں بانس کی باڑ لگا کرراستے کو الگ کر سکتی تھی۔ اگر ایسے انتظامات کیے جاتے تو بھگدڑ نہ مچتی۔’

گاؤں کی خواتین کے ساتھ نہانے کے لیے سنگم آئی کملا دیوی مزید کہتی ہیں،’رات 1 سے 1:30 کے درمیان وہ لوگ نہانے کے لیے سنگم کی طرف جا رہے تھے، جبکہ بالکل سامنےسے لوگ نہا کر واپس لوٹ  رہے تھے۔ دونوں طرف کے لوگ آمنے سامنے آئے تو ایک دوسرے کو روندنے لگے۔ اسی وجہ سے یہ بھگدڑ ہوئی۔ اس وقت وہاں کوئی پولیس اہلکارنہیں تھا۔ آگے بیریئر پر صرف دو سے تین پولیس اہلکار ڈیوٹی پر تھے۔ سیکورٹی کے کوئی ٹھوس انتظامات نہیں تھے۔’

پرتاپ گڑھ ضلع کے رام لال جو عینی شاہد ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں، کہتے ہیں،’وہ لوگ ایک ہی  راستے سے آمد و رفت کر رہے تھے۔ آنے جانے والے لوگ آمنے سامنے ہوئے تو لوگ دھکے مارنے لگے۔ نہانے کے بعد واپس آنے والے لوگوں کی وجہ سے راستہ رکا ہوا تھا، اسی وقت پیچھے سے لوگوں کا ایک ہجوم آیا اور لوگوں کوزور کا دھکا دیا۔’

انہوں نےمزید کہا، ‘اس کی وجہ سے لوگ ایک دوسرے پر گرنے لگے۔ اس وقت ایسا لگتا تھا کہ اب جان نہیں بچے گی۔زندہ  بچ گیا ہوں تو  لگ رہا ہےکہ اتنی بھیڑ میں آ کر میں نے بہت بڑی غلطی کر دی۔‘

دور دراز کے اضلاع سے آئی خواتین۔ (تصویر: سشیل مانو)

دور دراز کے اضلاع سے آئی خواتین۔ (تصویر: سشیل مانو)

اس طرح انتظامیہ کا یہ دعویٰ مشکوک معلوم ہوتا ہے کہ بھیڑ  راستے میں سو رہی تھی،جس کو سنگم پر نہانے جانے والی بھیڑ نے کچل دیا۔

گزشتہ 29 جنوری کی شام کو میلے کے علاقے سیکٹر 20سے جھونسی سمندر منتھن مارگ کی طرف میلے سے باہر نکلتے ہوئے پھول پور کے مقامی باشندہ دواریکا ناتھ بھی بھیڑ اور دھکا مکی کی زد میں آگئے۔

وہ کہتے ہیں،’میں گنگا نہا کر میلے سے نکل رہا تھا۔ سامنے سے ایک بڑاہجوم آرہا تھا۔ دائیں بائیں کی تفریق ختم ہو چکی تھی۔ جس کو جہاں سےراستہ مل رہا تھا وہ وہاں سے گھسا آ رہا تھا۔ میرے کندھے سےبیگ  لٹکا ہوا تھا۔ سامنے سے آتی بھیڑ سے سٹ کربیگ  پیچھے کھنچتا چلا گہا اور میرا کندھا کستا گیا۔ میں زور لگاتے لگاتے ں پسینے سے بھیگ گیا۔ اس کوشش میں نیچے گرتے گرتے بھی بچا۔ اگر میں گرجاتا توپھر اٹھ نہیں پاتا۔ لوگ کچل کر نکل کر جاتے۔ وہ تو پیچھے سے آنے والے شخص نے نہ صرف مجھے گرنے سے بچایا بلکہ اس کے پیچھے والے نے میرا بیگ بھی چھڑایا اور مجھے آگے بڑھایا، تبھی میری جان بچ گئی۔’

نہانے کے بعد 24 گھنٹے سے زیادہ وقت تک پھنسے رہے لوگ

انتظامیہ کا دعویٰ ہے کہ بدھ کو کمبھ میلے میں 9 کروڑ سے زیادہ لوگ پہنچے۔ اس طرح وہ 10 کروڑ کی بھیڑ جمع کرنے کے اپنے دعوے کے قریب پہنچ گئے ہیں۔ تاہم، 29 جنوری کی شام تک انتظامیہ نے شہر کے 8 داخلی راستوں کو بند کر دیا جس کی وجہ سے بھدوہی- وارانسی سرحد پر 20 کلومیٹرلمبا جام لگ گیا ہے۔  چترکوٹ بارڈر پر 10 کلومیٹر لمبا جام ہے۔ کوشامبی بارڈر پر 50 ہزار سے زیادہ گاڑیوں کو سڑک سے پارکنگ تک روک دیا گیا ہے۔ فتح پور- کانپور بارڈر پر بھی گاڑیوں کی لمبی قطاریں لگی ہوئی ہیں۔

ایک اندازے کے مطابق پرتاپ گڑھ سرحد پر 40 ہزار گاڑیوں کو روک دیا گیا ہے۔ جونپور سرحد پر بدلا پور میں پولیس نے الہ آباد جانے والی تمام بسوں کو روک دیا۔ مرزا پور بارڈر پر بھی گاڑیوں کی لمبی قطار لگ گئی تھی، جبکہ ریوا بارڈر پر 50 ہزار گاڑیاں روک دی گئیں۔

گزشتہ 30 جنوری کی دوپہر تک حالات ایسے تھے کہ الہ آباد ضلع کے تمام آٹھ پڑوسی اضلاع کے ساتھ سرحدیں سیل کر دی گئیں اور تمام سرحدوں پر 2-3 لاکھ گاڑیوں کا ہجوم تھا۔

(سشیل مانو آزاد صحافی ہیں۔)