نصاب میں منواسمرتی اور بابر نامہ: یونیورسٹی پڑھائی کی جگہ ہے، کیرتن کی نہیں

کسی بھی شخص یا متن کو مطالعہ کا موضوع بنانے کا مطلب اس کا تنقیدی جائزہ لینا ہے۔ تعلیم کا مطلب تبلیغ نہیں ہے۔ مذہب کے مطالعہ کے حوالے سے ایک بحران پیدا ہوتا ہے کیونکہ مذہبی لوگ مذہب کو عقیدے کا موضوع سمجھتے ہیں تنقید کا نہیں۔ لیکن عقیدت اور جذبے سے آزادی کلاس میں داخل ہونے کی پہلی شرط ہے۔

کسی بھی شخص یا متن کو مطالعہ کا موضوع بنانے کا مطلب اس کا تنقیدی جائزہ لینا ہے۔ تعلیم کا مطلب تبلیغ نہیں ہے۔ مذہب کے مطالعہ کے حوالے سے ایک بحران پیدا ہوتا ہے کیونکہ مذہبی لوگ مذہب کو عقیدے کا موضوع سمجھتے ہیں تنقید کا نہیں۔ لیکن عقیدت اور جذبے سے آزادی کلاس میں داخل ہونے کی پہلی شرط ہے۔

(السٹریشن : پری پلب چکرورتی/ دی وائر)

(السٹریشن : پری پلب چکرورتی/ دی وائر)

جیسے ہی میں آرٹس فیکلٹی کی عمارت میں داخل ہوا، نوٹس بورڈ پر لگے ایک پرچے نے اپنی جانب میری توجہ مبذول کرائی : ‘سیو اکیڈمک  اسپیس آف بھارت’۔ ‘بھارت’ کے اکیڈمک اسپیس کو خطرہ ہے، یہ جاننے کے بعد مجھے تجسس ہوا ۔ لگتا تھا کہ 10 سالوں میں ہر ‘اسپیس’ کا بھارتیہ کرن کیا جا چکا ہے اور ہر جگہ محفوظ کی جا چکی ہے۔ پھر کون سی جگہ رہ گئی جسے بچائے جانے کی ضرورت ہے؟ جاننے کی خواہش ہوئی  کہ کون یہ اپیل کر رہا ہے۔ جلی حروف میں ادارےکا نام لکھا تھا جس نے یہ پرچہ  جاری کیا تھا: اسٹوڈنٹس فار اکیڈمک جسٹس (ایس اے جے)۔

آج تک لوگ ‘اکیڈمک فریڈم’ کے لیے فکرمندتھے۔ اب ‘اکیڈمک جسٹس’ کے لیے کام کرنے والا ایک نیا طبقہ آ گیاہے۔ اس سے ‘فریڈم ‘ والوں کو تقویت ہی ملےگی کیونکہ ہمارے آئین میں ‘فریڈم’ اور ‘جسٹس’ ساتھ ساتھ آتے  ہیں۔

اپیل  اور اپیل کرنے والے کا نام انگریزی میں دیکھ کر تسلی  ہوئی کہ انگریزی کو اب ہندوستانی مان لیا گیاہے کیونکہ ہندوستان میں تعلیمی جگہ کو بچانےکی اپیل  انگریزی میں کی جارہی ہے اور ہندوستان سے متعلق  تشویش میں مبتلا ادارے کا نام بھی انگریزی میں ہے۔

پرچے  کا عنوان ایک سوال کی شکل میں تھا: نصابی اصلاحات یا بائیں بازو کا ایجنڈا! فجائیہ نشان دیکھ کر ایسا لگا جیسے ادارہ سوال نہیں پوچھ رہا، حیران ہے کہ نصابی اصلاحات کے نام پر بائیں بازو کے ایجنڈے پر عمل کیا جا رہا ہے۔ یہ حیران کن ہے  بھی کیونکہ جب ہندوستان میں ہندوتوا کا دور چل رہا ہے اور اب سب کچھ ہندوستانیوں کے ہاتھ میں ہے تو نصابی اصلاحات کے نام پر بائیں بازو کے ایجنڈے کو کیسے نافذ کیا جا سکتا ہے۔

لیکن ایسا لگتا ہے کہ آج بھی ہندوستان میں بائیں بازو کا اثر و رسوخ برقرار ہے۔ 10 سالوں میں ان کو ختم کرنا تو دور، ان کو بے اثربھی نہیں کیا جا سکا ہے۔

بہرحال! پرچہ کو پڑھنے کے بعد معلوم  ہوا کہ اس ‘اکیڈمک اسپیس ‘ کو خطرہ محکمہ تاریخ سے پیدا ہواہے۔ محکمہ نے گریجویشن کی  سطح پر ‘منواسمرتی’ اور ‘بابرنامہ’ کو مطالعہ کے مواد کے طور پر تجویز کیا ہے۔ ایس اے جے کو ان دونوں پر اعتراض ہے۔

تعجب اس بات پر ہونا چاہیے کہ بائیں بازو والوں نے ‘منواسمرتی’ پڑھنے کو کیوں کہا؟ کچھ عرصہ قبل جب محکمہ قانون نے ‘منواسمرتی’ کو نصاب میں شامل کیا تھا، تو بائیں بازو کے ایک طبقے نے اعتراض کیا تھا۔ جو دلیل ان  کی تھی  وہی اس پمفلٹ کو جاری کرنے والوں کی ہے۔ یہ کتاب خواتین مخالف، دلتوں، پسماندہ طبقات کے خلاف اور آئینی اقدار کے خلاف ہے۔ اس لیے اسے پڑھنے کے لیے نہیں کہا جانا چاہیے۔ کم از کم ایک جگہ پر بائیں بازو اور قوم پرستوں کے خیالات مل رہے ہیں۔

لیکن قوم پرست اسے بائیں بازو کی چالاکی سمجھ رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ بائیں بازو والے دراصل منواسمرتی کو اس لیے پڑھانا چاہتے ہیں تاکہ یہ معلوم ہو جائے کہ ہندو مذہب کا بنیادی متن رجعت پسند، خواتین مخالف، دلت مخالف اور مساوات کے خلاف ہے۔ اس طرح وہ ہندو مذہب کے خلاف نفرت پھیلانا چاہتے ہیں۔

بابر نامہ  توبالکل نہیں پڑھایا جا سکتا کیونکہ بابر حملہ آور اور ظالم تھا۔ ایس اے جے نے سوال کیا ہے کہ کیا ہمارے پاس اس سے زیادہ عظیم کردار نہیں ہیں جن کے بارے میں پڑھایا جا سکتا ہے؟ ایس اے جے کی تشویش یہ ہے کہ ہمارے طلباء کہیں بابر کو ایک مثالی شخص اور منواسمرتی کو ایک مثالی کتاب نہ  مان بیٹھیں۔ لیکن وہ اس سے زیادہ فکرمند ہیں کہ کہیں منواسمرتی کو پڑھنے سے ہندومت کے بارے میں غلط تاثر نہ پیدا ہو  جائے۔

ایس اے جے چاہے کچھ بھی سوچے اور بائیں بازو جو بھی سوچے، ہمیں اس پر ضرورسوچنا چاہیے کہ ہم کچھ بھی یونیورسٹی میں کیوں پڑھتے ہیں۔ کیا ہم طلبہ کو کمیونسٹ بنانے کے لیے ‘کمیونسٹ مینی فیسٹو’ پڑھاتے ہیں؟ یا ‘ہند سوراج’ پڑھا کر طلبہ کو گاندھیائی بنانا چاہتے ہیں؟ کیا ہم سارتر کو پڑھا کر کسی کو وجودیت پسند بننے کے لیے کہہ رہے ہیں؟ یا وہ ساورکر کو پڑھا کر ہندوتوا کی تبلیغ  کررہے ہیں؟

درحقیقت کسی بھی شخص یا متن کو مطالعہ کا موضوع بنانے کا مطلب اس کا تنقیدی جائزہ لینا ہے۔ تعلیم کا مطلب تبلیغ نہیں ہے۔ گاندھی ہوں یا مارکس یا امبیڈکر یا اقبال، رام چرت مانس یا وید، اگر وہ مطالعہ کے موضوع ہیں تو ان کا مطالعہ صرف تنقیدی انداز میں کیا جائے گا۔ یونیورسٹی کیمپس میں داخل ہوتے ہی پہلا منتر جو کہ ایک طرح سے آخری بھی ہے، یہ ہے کہ کوئی بھی چیز تنقید سے بالاتر نہیں۔ کسی بھی کتاب یا شخص کا مطالعہ کرنے کا مطلب اس کا تجزیہ کرنا ہے، اس کی پوجا نہیں۔

یہ استاد کا فرض ہے کہ وہ طلباء کو متعلقہ مضمون کے تمام سیاق و سباق سے متعارف کرائے۔ نہ صرف ان ذرائع سے جو اس کے حق میں ہیں بلکہ ان سے بھی جو اس کا تنقیدی جائزہ لیتے ہیں۔ تعلیم کا سارا کاروبار ایک طرح سے تنقیدی ذہن کی نشوونما کا کاروبار ہے۔

یونیورسٹی کیرتن کی جگہ نہیں ہے، یہ مطالعہ کی جگہ ہے۔

اسی لیے مذہب کے مطالعہ کے حوالے سے ایک بحران پیدا ہوتا ہے کیونکہ مذہبی لوگ مذہب کو عقیدے کا موضوع سمجھتے ہیں تنقید کا نہیں۔ ہندوستان کی یونیورسٹیوں میں دینی علوم کے مراکز کی عدم موجودگی پر افسوس کرنے والے یہ بھول جاتے ہیں کہ کلاس روم میں داخلے کے لیے پہلی شرط عقیدت اور جذبات سے پاک ہونا ہے۔

جیسے ہی ہم کسی چیز کو جذبات کا موضوع سمجھتے ہیں، اسے کلاس یا نصاب سے خارج کر دیتے ہیں۔ شاید اسی لیے گاندھی نے مذہب کو اسکولوں سے باہر رکھنے کی بات کہی کیونکہ وہ ہماری حدود کو جانتے تھے۔

اس لیے ‘منواسمرتی’ کو پڑھا اور پڑھایا جانا چاہیے۔ اس سے ہمیں اندازہ ہو گا کہ یہ کس قسم کا معاشرہ تھا جس نے یہ ضابطہ تخلیق کیا تھا۔ پھر وقت بدلنے کے بعد بھی ہندو سماج کا ایک طبقہ اسے مقدس کیوں سمجھتا ہے؟ کیوں جمہوری انقلابات کے دور میں بھی راشٹریہ سویم سیوک سنگھ جیسی تنظیم اسے ہندوستان کا آئین بنانا چاہتی تھی؟ راجستھان ہائی کورٹ کے باہر منو کا مجسمہ ابھی تک کیوں نصب ہے؟ اس سے منواسمرتی کی ہم عصریت کا پتہ چلے گا۔

سوال یہ ہے کہ کیا اس طریقے سے منوسمرتی کو پڑھانے کی اجازت ہوگی؟ کیا کوئی استاد باقی رہ گئے ہیں جو اسے اس طریقے سے پڑھا سکیں؟

دہلی یونیورسٹی جیسے اداروں میں پچھلے 10 سالوں میں جس قسم کے اساتذہ کی تقرری ہوئی ہے ان کے بارے میں سنا ہے کہ ان کی پہلی وابستگی اپنے مضمون یا پڑھائی سے نہیں بلکہ آر ایس ایس سے ہے۔ کیا وہ اس متن، یا کسی بھی متن کو تنقیدی انداز میں پڑھانے کے لیے آگے آئیں گے؟

اسی طرح بابر کے بارے میں بھی مختلف تفصیلات ہیں۔ جس بابر کے نام کے بغیر بھارتیہ جنتا پارٹی اور آر ایس ایس کا کام نہیں چلتا، اس  کے بارے میں جاننا تو بہت ضروری ہے ۔ لیکن بی جے پی کے لوگوں کو ڈر ہے کہ اگر طلباء واقعی بابر کے بارے میں پڑھنا شروع کر دیں تو بی جے پی یا آر ایس ایس کے ذریعے بنایا گیا بابر کا متھ ٹوٹ جائے گا۔

مضمون ختم کرتا اس  سے پہلے ہی میں نے یہ خبر پڑھی کہ دہلی یونیورسٹی کے وائس چانسلر نے واضح کر دیا ہے کہ منواسمرتی اور بابرنامہ کو مطالعہ کے مواد میں شامل کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔

یہ دلچسپ بات ہے کہ اس طرح کا اعلان کرتے ہوئے انہوں نے منواسمرتی پر تنقید نہیں کی لیکن یہ کہنا ضروری سمجھا کہ بابرنامہ ایک حملہ آور کی سوانح عمری ہے اور اس لیے آج اس کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ لیکن انہوں نے منواسمرتی کے بارے میں ایسی بات نہیں کہی۔ کیا اس کی اہمیت ہے لیکن ابھی سیاسی طور پر تکلیف دہ ہے، اس لیے اسے ابھی نہیں پڑھایا جا سکتا؟

افسوس کی بات ہے کہ اس طرح کا اعلان کر کے وائس چانسلر نے یونیورسٹی کے تعلیمی فیصلہ سازی کے عمل کو غیر متعلقہ بنا دیا ہے۔ متعلقہ مضمون کے محکمے کو نصاب کے حوالے سے تجاویز دینے کا حق ہے۔ پھر اس پر کئی مراحل میں بحث کی جاتی ہے اور یا تو اسے قبول کیا جاتا ہے یا مسترد کر دیا جاتا ہے۔ اس عمل سے باہر نصاب سے متعلق کوئی فیصلہ نہیں کیا جانا چاہیے۔

اس عمل کے وقار کو برقرار رکھنا وائس چانسلر کی ذمہ داری ہے۔ لیکن پچھلے کچھ سالوں میں عمل، اخلاقیات جیسے الفاظ آہستہ آہستہ غیر متعلق ہو گئے ہیں۔ لیکن یونیورسٹی کیا یونیورسٹی رہ گئی ہیں؟

(اپوروانند دہلی یونیورسٹی میں پڑھاتے ہیں۔)