مہاکمبھ اور مسلمان: الہ آبادیت اور انسانیت کا پرچم

08:07 PM Feb 01, 2025 | سشیل مانو

کہا جاتا ہے کہ جب کوئی گنگا نہا کر گھر آتا ہے تو اس کے پاؤں میں لگ کر گنگا کی ماٹی بھی ان لوگوں کے لیے چلی آتی ہے جو گنگا تک نہیں جا پائے۔ مہاکمبھ میں بھگدڑ کی رات جب عقیدت مند میلے کے علاقے سے نکل کر شہر میں پھنس گئے تو جن مسلمانوں کو کمبھ میں حصہ لینے سے روکا گیا تھا، کمبھ خود ہی ان کےگھروں اور مسجدوں میں چلا آیا۔

چوک علاقے میں واقع یادگارحسینی انٹر کالج میں عقیدت مند۔ (تصویر: اسپیشل ارینجمنٹ)

الہ آباد: بھارت رتن شہنائی نواز بسم اللہ خان کا ایک بہت ہی مشہور قصہ ہے،جس کے راوی وہ خود ہیں۔ دراصل وہ ایک پروگرام کے لیے امریکہ گئے ہوئے تھے، جہاں ایک امریکی افسر نے ان سے کہا کہ خان صاحب آپ یہیں رہ جائیے۔ یہاں کے لوگوں کو شہنائی سکھائیے۔ اس پر خان صاحب بولے کہ سکھانے کے لیےتو سال دو سال رہنا پڑے گا۔ لیکن ہم اکیلے تو نہیں ہیں۔ پھر امریکی بولا، کوئی بات نہیں، کار لیجیے، موٹر لیجیے، ڈالر لیجیے۔ 40-50 جتنے آدمی ہوں آپ کے، سب کو لے آئیے۔ اس پر بسم اللہ صاحب نے کہا کہ ہمارے لوگوں کو آپ لا دیں گے، لیکن آپ یہاں ہماری گنگا کیسے لائیں گے۔

اسی طرح کا ایک قصہ  پٹنہ کی گنگا مسجد کا ہے کہ وہاں لوگ  گنگا کے پانی سے وضو کرنے کے بعد نماز پڑھتے  تھے۔ خلاصہ یہ ہے کہ گنگا کا تعلق کسی ذات یا مذہب سے نہیں ہے۔ گنگا ان کی ہے جنہوں نے گنگا کو اپنے اندر بسا لیا ہے۔

لیکن یہ بات ملک اور ریاست کے حکمرانوں کی سمجھ میں نہیں آتی،یہی وجہ ہے کہ انہوں نے مہا کمبھ کو فرقہ وارانہ تقسیم کی بنیاد پر کھڑا کرنے کی کوشش کی ہے۔ان کی  اس کوشش کو باباؤں اور شنکراچاریوں کی حمایت بھی حاصل ہوئی۔ اتر پیٹھ (جیوتش) کے شنکراچاریہ اویمکتیشورانند نے میلے کے آغاز سے پہلے ایک بیان دیا کہ ‘مسلمانوں کی سب سے بڑی زیارت گاہ مکہ شریف میں ہندوؤں کو 40 کلومیٹر پہلے ہی روک دیا جاتا ہے۔ وہ ہمیں کیوں روکتے ہی، وہ اس لیے نہ کہ یہ ہمارا مسلمانوں کے لیےزیارت گاہ ہے، تمہارا کیا کام ہے؟ تو ٹھیک ہے ہم بھی کہہ رہے ہیں کہ یہ ہمارا کمبھ ہے، تمہارا کیا کام ہے۔ غلط کیاہے؟’

ان کا مزید کہنا تھا کہ مسلمان’دھرم کو خراب کرنا چاہتے ہیں۔ وہ ہمیں ناپاک بنانا چاہتے ہیں، اس لیے ‘انہیں ہمارے پاس مت آنے دو۔’

کہا جاتا ہے کہ جب کوئی گنگا میں نہا کر گھر آتا ہے تو اس کے پاؤں سے لگ کر گنگا کی ماٹی  بھی چلی آتی ہے، ان  لوگوں کے لیے جو گنگا تک  نہیں جا پائے۔جب  مہا کمبھ میں بھگدڑ کی رات عقیدت مند میلے کے علاقےسے نکل کر شہر میں پھنس گئے تو علماء نے ان کے لیے مساجد کے دروازے کھول دیے اور اس طرح جن مسلمانوں کو کمبھ میں شرکت سے روکا گیا، کمبھ خود ہی ان کے گھروں اور مسجدوں  میں چلا آیا۔

شہر کے ممتاز محل علاقے کے رہائشی مظفر صاحب کا کہنا ہے کہ ‘پولیس نے رکاوٹیں لگا کر ہماری گلیوں کو پیک کر دیا تھا۔ وہ ہمیں باہر جانے کی اجازت نہیں دے رہے تھے۔ یہاں وہاں پولیس بیٹھی تھی۔ لیکن 29 جنوری کو جب حالات خراب ہوئے تو تمام پولیس والے بھاگ گئے۔ لوگوں نے رکاوٹیں توڑ دیں۔ اور ہم نے اپنے گھروں کے دروازے کھول دیے اور ان کا احترام کیا۔’

مظفرصاحب مزید کہتے ہیں کہ 29 جنوری کی رات بہت مجبور اور لاچار لوگ اتنے تھکے ہوئے تھے کہ پیر  پکڑکر بیٹھے جا رہے تھے۔ جو زنانہ (خواتین) تھیں اور بھی تکلیفوں سے گزر رہی تھیں۔ ہم نے اپنے گھروں کے دروازے کھول دیے۔ عورتیں، بچے، مرد سب اندر آئے۔ انہوں نے ہمیں اتنی دعائیں دیں۔ اس وقت ان لوگوں کی نظر میں کوئی ہندو اورمسلمان نہیں تھا۔ ہم نے انہیں اپنے کمبل، چادر اور بچھونے دیے۔ کھانے پینے اور رہائش کا انتظام کیا۔ منصور پارک، جامع مسجد، کچہری بازار، روشن باغ، وصی اللہ صاحب کی مسجد کی گلیوں میں تمام گھروں کے دروازے کھول دیےگئے۔’

الہ آباد کا  جوروشن باغ علاقہ، سی اے اے- این آر سی کی کے خلاف جدوجہد کا گواہ ہے، اس رات گنگا جمنی ثقافت کو پروان چڑھانے کے لیے روشن ہوا۔ الہ آباد کی بڑی مسجد وصی اللہ مسجد کے امام صاحب کی قیادت میں روشن باغ پارک میں مہا کمبھ کے عقیدت مندوں کے لیے پانی اور کھانے کا انتظام کیا گیا۔

مقامی رہائشی محمد تاسو ان لوگوں میں سے ایک ہیں،جنہوں نے 29 اور 30 جنوری کی شب شہر کے چوک علاقے میں واقع یادگار حسینی انٹر کالج میں 4000-5000 عقیدت مندوں کے لیے انتظامات کیے تھے۔ تاسو بتاتے ہیں کہ 31 تاریخ کو بھی تقریباً ایک ہزار عقیدت مند آئے اور یہاں ٹھہرے۔

گوہر اعظمی یادگارحسینی انٹر کالج کےمنتظم ہیں۔ وہر کہتے ہیں،’30 جنوری کی رات کو بھی ہزاروں کی تعداد میں عقیدت مند یہاں آئے ۔ ان کے قیام کے لیے پورا کالج کھول دیا گیا ہے۔ چائے، بسکٹ، کھانا، بستر، ہر چیز کا انتظام کیا گیا ہے۔ صرف ہم ہی نہیں، بہت سے مقامی لوگوں نے بھی الہ آباد کے دیہی علاقوں میں سڑک کے کنارے ہر ایک کے لیے کھانے، پانی اور رہائش کا انتظام کیا۔’

ایسے ہی ایک اور شخص محمد انس ہیں جو الہ آباد کے ایک مارکیٹنگ کمپلیکس انور مارکیٹ کے مالک ہیں۔ اس رات انس نے پوری انور مارکیٹ کھول دی۔ گدے، لحاف، چائے، ناشتے، کھانے اور گرم پانی کا انتظام کیا۔ فیس بک کے ذریعے بھی خبرپھیلادی۔

وہ کہتے ہیں،’مہا کمبھ میں بہت سے باباؤں نے بیان دیا کہ یہاں مسلمانوں کی دکانیں نہیں لگائی جائیں گی اور اس کا بڑا اثر ہوا۔ 99 فیصد مسلمانوں نے وہاں دکانیں نہیں لگائیں، صرف خوف کی وجہ سے۔’

ان کا کہنا ہے کہ مسلمانوں کے خلاف اس پروپیگنڈے کے باوجود پوری کمیونٹی نے متاثرین کی مدد کی اور اس وقت کسی نے یہ نہیں پوچھا کہ ہم مسلمان کے ہاتھ سے کھانا اور پانی کیوں لیں۔ ‘یہ سرکار کے منہ پر طمانچہ ہے۔’

یادگار حسینی، مجیدیہ اسلامیہ اور وصی اللہ مسجد کے اماموں نے لنگر شروع کیا۔ نوراللہ روڈ کے مسلم نوجوانوں نے مختلف مقامات پر چائے اور بسکٹ کے مفت اسٹال لگائے۔ مسیحی برادری نے  ہسپتال کے سامنے کھانے اور آرام کا انتظام کیا۔ فادر وپن ڈی سوزا کی قیادت میں عقیدت مندوں کے لیے ایک بہت بڑےلنگر کا اہتمام کیا گیا۔ ایڈوکیٹ چارلی پرکاش نے میور آباد چرچ کمپاؤنڈ کے قریب لنگر کا اہتمام کیا۔ ہائی کورٹ کے وکیل ورچسووا واجپئی ماکو اور الہ آباد انٹر کالج کے منتظم راجیش اگروال پورے انتظام کے ساتھ ساتھ ایک پیر پرکھڑے رہے۔

الہ آباد ہائی کورٹ کے سینئر وکیل کمل کرشن رائے کہتے ہیں،’یہی ہے الہ آباد کا مطلب ۔ جب ضرورت پڑتی ہے۔ جب مشکل وقت آتا ہے، مصیبت کا وقت آتا ہے، تب نہ ہندو رہتا ہے نہ مسلمان۔ پھر الہ آبادیت اور انسانیت کا پرچم لہراتا ہے۔’

(سشیل مانو آزاد صحافی ہیں۔)