مہا کمبھ میں جرائم کی کہانیاں: چوری، چھینا جھپٹی اور ڈیجیٹل فراڈ

دی وائر نے مہا کمبھ کے دوران دو پولیس اسٹیشنوں - دارا گنج اور کمبھ میلہ کوتوالی - میں درج کی گئی 315 سے زیادہ ایف آئی آر کے مطالعے میں پایا کہ زیادہ تر جرائم چوری اور چھینا جھپٹی سے متعلق ہیں۔ متاثرین میں عام عقیدت مند، سادھو، وی آئی پی، مقامی باشندوں کے ساتھ ساتھ اندرون ملک اور بیرون ملک سے آنے والے سیاح بھی شامل ہیں۔

دی وائر نے مہا کمبھ کے دوران دو پولیس اسٹیشنوں – دارا گنج اور کمبھ میلہ کوتوالی – میں درج کی گئی 315 سے زیادہ ایف آئی آر کے مطالعے میں پایا کہ زیادہ تر جرائم چوری اور چھینا جھپٹی سے متعلق ہیں۔ متاثرین میں عام عقیدت مند، سادھو، وی آئی پی، مقامی باشندوں کے ساتھ ساتھ اندرون ملک اور بیرون ملک سے آنے والے سیاح بھی شامل ہیں۔

مہا کمبھ میں چوری، چھینا جھپٹی اور دیگر جرائم (تصویر بہ شکریہ: X/@MahaKumbh_2025)

مہا کمبھ میں چوری، چھینا جھپٹی اور دیگر جرائم (تصویر بہ شکریہ: X/@MahaKumbh_2025)

نئی دہلی: گجرات کی سیما رانی اور ان کے خاندان نے جب مہا کمبھ کے لیے الہ آباد جانے کا فیصلہ کیا، تو انہیں امید تھی کہ سب کچھ منظم ہوگا، جیسا کہ اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے وعدہ  بھی کیا تھا۔ تاہم، دنیا کی اس سب سے بڑی مذہبی تقریب کا سفر سیما اور اس کے خاندان کے لیے ایک تلخ اور مایوس کن تجربہ ثابت ہوا۔ کیونکہ مہا کمبھ میں چند ہی منٹوں میں ان کے خاندان کو لوٹ لیا گیا۔ مقامی عہدیداروں کی بے حسی نے ان  کی دکھ میں مزید اضافہ کیا۔

اس واقعہ کے حوالے سے سیما رانی نے پولیس میں شکایت بھی درج کرائی، جس کی بنیاد پر ایف آئی آر درج کر لی گئی ہے۔

اس میں سیما نے بتایا، ‘عزت مآب وزیر اعلیٰ آدتیہ ناتھ یوگی جی کے سیکورٹی سے متعلق تمام اشتہارات دیکھنے کے بعد ہم انتظامیہ اور ان کے انتظامات پر اعتماد کے ساتھ الہ آباد آئے تھے۔ لیکن کمبھ میں نہ تو سیکورٹی تھی اور نہ ہی انتظامات، یہاں اتر پردیش پولیس/انتظامیہ کی طرف سے خراب ردعمل ملا۔’

جام نگر کی رہنے والی سیما رانی نے بتایا کہ 14 جنوری کو صبح تقریباً 4:10 بجے کسی نے ان کے بہنوئی  کا موبائل فون اس وقت چرا لیا جب وہ سنگم میں نہا رہے تھے۔  دل کی شکل والی لاکٹ اور سونے کی چین بھی ایک خاتون نے چھین لی جس نے پیچھے سے ان کے بال کھینچے۔

سیما کے مطابق، یہ دونوں واقعات 3-5 منٹ کے اندر پیش آئے۔ ان کے خاندان کی مشکلات یہیں ختم نہیں ہوئیں۔

سیما نےبتایا کہ انہیں پولیس کی جانب سے فوری کارروائی کے لیے بھی جدوجہد کرنی پڑی۔ وہ پہلے میلے میں خواتین کے پولیس اسٹیشن گئی اور انچارج افسر سے ملاقات کی، انہوں سے سی سی ٹی وی فوٹیج چیک کرنے کی درخواست کی لیکن پولیس نے مبینہ طور پر کوئی جواب نہیں دیا۔ مہا کمبھ ہیلپ لائن پر کال کرنے کے بعد بھی انہیں بہت کم مدد مل سکی۔ انہوں نے بتایا کہ ہیلپ لائن نمبر ڈائل کرنے کے ایک گھنٹے بعد بھی پولیس اہلکار ان تک نہیں پہنچے۔ سرکل آفیسر کی سختی کے بعد ان کی شکایت موٹے رجسٹر میں درج کر لی گئی۔

سیما نے ایف آئی آر میں بتایا کہ کمبھ میں کوئی بھی ان  کی مدد نہیں کر رہا تھا، ہر کوئی کہہ رہا تھا کہ آپ کو ایسی چیزیں یہاں نہیں لانی چاہیےتھی۔ تمام پولیس والے کہہ رہے تھے کہ ہم عارضی طور پر تعینات ہیں، ہم مدد نہیں کر سکتے۔

انہوں نے الزام لگایا کہ پولیس نے ان کی درخواست پر دستخط کرنے اور اس پر مہر لگانے سے بھی انکار کردیا اور انہیں سائبر پولیس اسٹیشن جانے کو کہا۔ لیکن خاندان نے وہاں جانے کے لیے جو راستہ اختیار کیا وہ بند تھا اور وہ نہیں جانتے تھے کہ آگے کیسے جانا ہے۔

سیما کہتی ہیں،’سب آگ کے پاس بیٹھ کر لطف اندوز ہو رہے تھے۔ یہاں اور وہاں 4-5 گھنٹے گزارنے کے بعد، میں بغیر نہائے اور 2 لاکھ روپے سے زیادہ کا نقصان اٹھائے مایوس واپس لوٹ آئی۔’

سیما نے اپنے تجربات سے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ میلے کے تمام انتظامات عوام کو ‘چوروں اور لٹیرہ گروہوں کے درمیان’ لانے کے لیے کیے گئے ہیں۔ رانی نے جئے شری رام کے ساتھ اپنی شکایت ختم کرتے ہوئے کہا، ‘میں تنقید نہیں کرنا چاہتی لیکن یہ وہ حقیقت ہے جس کا میں نے سامنا کیا ہے۔’

معلوم ہو کہ 13 جنوری سے شروع ہونے والے کمبھ میلے میں ہونے والے جرائم کے 300 سے زائد واقعات میں سیما رانی کے خاندان کی ڈکیتی بھی ایک ہے۔ دی وائر نے دو پولیس اسٹیشنوں- دارا گنج اور کمبھ میلہ کوتوالی- میں درج 315 سے زیادہ ایف آئی آرز کا مطالعہ کیا اور پایا کہ درج کیے گئے زیادہ تر جرائم چوری اور چھینا جھپٹی سے متعلق  ہیں۔

ان میں سے زیادہ تر واقعات میں عقیدت مندوں کے موبائل فون، نقدی، زیورات اور بیک  چھین لیے گئے۔ کچھ دو پہیہ گاڑیاں بھی چوری ہوئی ہیں۔ ڈیجیٹل مالیاتی فراڈ کے کچھ معاملات بھی سامنے آئے۔ لاپرواہی سے گاڑی چلانے، بچوں کے اغوا اور جعلی کرنسی کے استعمال سے ہونے والے نقصان کے معاملے بھی شامل تھے۔

اس سلسلے میں، اتر پردیش پولیس نے کہا ہے کہ اس نے اب تک 12 معاملات کا نوٹس لیا ہے جہاں لوگوں نے میلے، خاص طور پر بھگدڑ سے متعلق گمراہ کن اور جعلی پوسٹ، ویڈیوز اور تصاویر پھیلائی تھیں، اور 171 سوشل میڈیا پروفائل کے خلاف کارروائی کی ہے۔ ان میں سے زیادہ تر مقدمات پاکستان، بنگلہ دیش اور نیپال سمیت دیگر مقامات پر پیش آنے والے حادثات اور حادثات کو غلط طریقے سے پیش کرنے اور انہیں میلے کی مبینہ بدانتظامی سے جوڑنے سے متعلق تھے۔

میلے میں خواتین کے نہانے اور کپڑے تبدیل کرنے کی فحش ویڈیوپوسٹ کرنے پر پولیس نے انسٹاگرام اکاؤنٹ کے خلاف ایف آئی آر درج کی ہے۔ گھاٹوں پر نہانے والی خواتین کی خفیہ طور پر بنائی گئی ویڈیوکو آن لائن فروخت کرنے کے لیے  19 فروری کو ایک ٹیلی گرام چینل کے خلاف  بھی مقدمہ بھی درج کیا گیا تھا۔

تاہم، میلے میں رپورٹ ہونے والے زیادہ تر معاملات قیمتی سامان کی چوری سے متعلق ہیں، جو کمبھ جیسی بھیڑ بھاڑ والی جگہ پر ایک بڑی تکلیف ثابت ہوئی ہے۔ یوپی حکومت کے مطابق اس سال 59 کروڑ سے زیادہ لوگ میلےمیں آئے ہیں۔

متاثرین میں عام عقیدت مند اور سادھو، مراعات یافتہ لوگ اور حکام کے ساتھ ساتھ مقامی باشندوں کے علاوہ دیگر ریاستوں کے لوگ اور غیر ملکی سیاح بھی شامل ہیں۔

چوری کےکئی  متاثرین نے محسوس کیا کہ انہیں کسی منظم گروہ یا چوروں کے گروہ نے نشانہ بنایا ہے۔ سی آئی ڈی، کرناٹک کے انسپکٹر رمیش کے ٹی اپنے خاندان کے ساتھ 11 فروری کی رات بس سے میلے میں پہنچے تھے۔ اگلی صبح تقریباً 6 بجے جب وہ نہانے کے لیے سنگم گھاٹ پہنچے تو بدمعاشوں کے ایک گروپ نے بھیڑ میں ہنگامہ کھڑا کردیا۔

رمیش نے بتایا کہ اس افراتفری میں کسی نے ان کی بیوی کی سونے کی چین چھیننے کی کوشش کی۔ چونکہ وہ چوکنا تھی، اس لیے وہ اسے بچانے میں کامیاب رہی۔ تاہم، افراتفری کے درمیان، انہوں نے رمیش کی سونے کی چین چھین لی، جس کا وزن 20 گرام تھا اور اس کی مالیت تقریباً 2 لاکھ روپے تھی۔

رمیش نے کہا، ‘واقعہ کے وقت میری فوری تشویش ان بدمعاشوں سے اپنی بیوی کی حفاظت کو یقینی بنانا تھی، جس کی وجہ سے انہیں میری چین چھیننے  کا موقع مل گیا’۔ کرناٹک کے پولیس انسپکٹر نے الزام لگایا کہ انہیں اس واقعہ کی اطلاع دینے کے بعد پولیس کی طرف سے فوری جواب نہیں ملا۔

تلنگانہ کی ایک اور عقیدت مند ایچ وی پوترا نے بھی 18 فروری کو میلے میں اپنی سونے کی چین گنوا دی۔ انہیں شبہ ہے کہ وہ منصوبہ بند چوری  کا شکار ہوئی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ چار خواتین نے ان  کا پیچھا کیا اور تروینی مارگ کے قریب بھیڑ میں ان  پر گر پڑیں۔ تب ہی انہیں پتہ چلا کہ ان کی 60 گرام وزنی سونے کی چین غائب ہوگئی ہے۔

انہوں نے کہا کہ تین مشتبہ افراد میں سے دو 30 سے 35 سال کی خواتین اور تیسرا ایک نوجوان تھا۔

جرائم کی کڑی  میں 16 فروری کی صبح 6 بجے اپر سنگم علاقے میں الہ آباد کے رہائشی وشال گپتا کے خاندان کے دو موبائل فون بھی چوری کر لیے گئے۔ انہوں نے کہا کہ وہ اپنے اہل خانہ کے ساتھ سنگم کی طرف جارہے تھے کہ اچانک کچھ لوگوں نے بھیڑ بڑھا دی۔ اس دوران گپتا کو محسوس ہوا کہ ان  کے بیگ سے دو موبائل فون غائب ہوگئے ہیں۔

گپتا نے اپنی شکایت میں کہا، ‘ایسا لگتا ہے کہ پیشہ ورانہ تربیت یافتہ چوروں کا ایک گروہ ہے جو سنگم آنے والے لوگوں کے موبائل فون چوری کرنے کے لیے اس طریقے کا استعمال کر رہے ہیں۔’

اسی طرح اطالوی سیاح سیباسٹیانو بینیگیامو اہم دستاویزات سمیت اپنی تمام قیمتی اشیاء سے محروم ہو گئیں،  جب 16 فروری کو سنگم میں ڈبکی لگانے کے دوران ان کا بیگ چوری ہوگیا۔

انہوں نے بتایا کہ ان کا دوست ان  کے سامان کی حفاظت کر رہا تھا، لیکن ایک منظم گینگ نے ان  کے دوست کی توجہ ہٹائی اور ان  کا بیگ چرا لیا۔ اس میں ان کا پاسپورٹ، فون، کریڈٹ کارڈ اور پیسے تھے۔

بینیگیامو نے کہا،’ایک قانونی پاسپورٹ کے بغیر، میں اب قانونی طور پر کسی بھی جگہ رہنےاورکسی طرح کی گاڑی لینے کے قابل نہیں ہوں، اور جب تک کہ میں اپنے سفارت خانے کے ساتھ انتظامات نہیں کر لیتی ، تب تک مجھے اپنا پاسپورٹ تبدیل کرنے کے لیے فوری طور پر ایک عارضی کاغذ کی ضرورت ہے۔’

معلوم ہو کہ کمبھ میلہ کلپواسیوں کے لیے بھی جانا جاتا ہے – وہ یاتری جو ایک مہینے تک سنگم کے گھاٹوں پر خیموں میں کم سے کم وسائل کے ساتھ رہتے ہیں، مذہبی وعظ سنتے ہیں، خیرات دیتے ہیں اور سادہ کھانا کھاتے ہیں۔

سال 2013 کے مہا کمبھ میلے سے پہلے برطانیہ میں مقیم اکنامک اینڈ سوشل ریسرچ کونسل کی طرف سے مالی اعانت حاصل  اور الہ آباد یونیورسٹی سمیت پانچ یونیورسٹیوں کے ماہرین کے ذریعے کی گئی ایک تحقیق میں پتہ چلا ہے کہ کلپواس اپنی مدت کے بعد صحت مند اور خوش ہو کرگھر لوٹتے ہیں۔

ویشنوی کیسروانی اور ان کے خاندان کے لیے یہ سچ ہوتا اگر کسی نے میلے سے گھر لوٹنے کے دن ان  کی گاڑی کے پیچھے  سے ان  کا قیمتی سامان والا ہینڈ بیگ چوری نہ کیا ہوتا۔ کیسروانی نے میلے کے سیکٹر 6 میں کلپواسی خیمے میں بھگوت کتھا اور پرساد سیوا میں حصہ لیتے ہوئے 15 دن (31 جنوری تا 14 فروری) گزارے۔ اس کے سسرال والے ایک مقامی پجاری کے کلپواس میں مصروف تھے۔ 14 فروری کو کیسروانی کے سسرال والوں نے فیصلہ کیا کہ 34 دنوں کے کلپواس  کے بعد اب وہ اب اپنے گھر لوگڑا، الہ آباد لوٹیں  گے۔

گھر جانے سے پہلے انہوں نے گنگا میں نہانے کا ارادہ کیا۔ ٹینٹ سب وے سے مین روڈ پر پہنچنے کے بعد ان کی گاڑی میں کچھ تکنیکی خرابی پیدا ہو گئی اور سڑک پر پھنس گئی۔ کیسروانی کے سسرال والے اور بہن نہانے کے لیے روانہ ہوگئے جبکہ وہ اور ان  کے شوہر وہیں ٹھہرے رہے اور گاڑی کو ٹھیک کرانے کی کوشش کی۔ ان کے سسرال والوں کے غسل سے واپس آنے کے بعد، کیسروانی اور ان کے شوہر نہانے چلے گئے۔ صبح کے تقریباً 9:30 بجے تھے۔ ان کا ہینڈ بیگ، جس میں ان  کے کاغذات، نقدی، زیورات اور ادویات موجود تھیں، کار کی پچھلی سیٹ میں رکھا ہوا تھا۔ ان کے سسر سامنے والی سیٹ پر آرام کر رہے تھے۔ کیسروانی جب صبح تقریباً 11 بجے سنگم سے واپس آئی تو اس نے دیکھا کہ اس کا ہینڈ بیگ سیٹ پر نہیں ہے۔ یہ چوری ہوگیا تھا۔

مہا کمبھ پہنچنے والے ایک عقیدت مند آر پربھاکر نے الزام لگایا کہ کشتی والا جو انہیں  نہانے کے لیے سنگم لے گیا اس نے ان  کا بیگ اور موبائل فون چرا لیا۔

گزشتہ 19 جنوری کو میلے میں آئے سدھانت سہگل کا فون پریڈ گراؤنڈ پولیس اسٹیشن کے قریب سے چوری ہوگیا۔ انہوں نے مشتبہ چور کی تفصیل بتائی۔ انہوں نے ایک لڑکے کے بارے میں بتایا، جس کی عمر غالباً 13-14 سال ہوگی، تقریباً پانچ فٹ لمبا، سیاہ رنگت، پتلا چہرہ، تیل والے بال اور پوری بازو والی ٹی شرٹ پہنی ہوئی تھی۔

سہگل نے کہا، ‘میں اسے نہیں پکڑ سکا کیونکہ میرے ہاتھ میں میرا بچہ تھا۔’

ایک اور شخص سنیل اگروال کو بھی اسی طرح لوٹ لیا گیا۔

جبل پور چھاؤنی کے ملٹری ہسپتال میں تعینات لیفٹیننٹ کرنل ہرلین چوپڑا کا آئی فون اس وقت چوری ہو گیا جب وہ سنگم میں اکبر کے قلعے کے قریب سڑک پر چل رہی تھیں۔ چوپڑا کو خدشہ تھا کہ ان کے فوجی پس منظر کے پیش نظر ان کے فون پر موجود اہم معلومات اور حساس دستاویزات کا غلط استعمال کیا جا سکتا ہے۔

افسر نے کہا، ‘ صرف ذاتی جذبات کی وجہ سے نہیں  بلکہ حساس سرکاری معلومات کو لیک ہونے سے روکنے کے لیے یہ ضروری ہے کہ میرا فون مل جائے۔’

عمان کی رہائشی دیپتی واپودرا کے مسقط شناختی کاغذات سمیت قیمتی دستاویزات اس وقت گم ہو گئیں جب نہانے کے دوران  ان  کا بیگ چوری ہو گیا۔

ڈیجیٹل فراڈ بھی ہوئے

میلے کے دوران کچھ سیاح مالی اور ڈیجیٹل فراڈ کا بھی شکار ہوئے۔ ڈیوٹی پر موجود ایک کانسٹبل نتن کمار کو اس وقت 60,000 روپے سے زیادہ کا نقصان ہوا جب ایک دھوکہ باز نے ان  کے بینک سے ہونے کا دعویٰ کرتے ہوئے انہیں  فون ویڈیو پر اپنی سکرین شیئر کرنے پر راضی کیا۔

سکشم اوستھی نے ہیلی کاپٹر کے سفر کی بکنگ کے لیے ایک آن لائن ویب سائٹ کو 5184 روپے ادا کیے، جو کبھی موجود ہی نہیں تھی۔ ایک سادھو، سوامی بیرانند نے اپنے آشرم کے نام پر جاری کردہ جعلی گوگل لنک کے ذریعے لوگوں کو کی جانے والی ادائیگیوں کے حوالے سے رپورٹ درج کرائی ہے۔

نیپال کے پریم بہادر پن کا موبائل چوری ہو گیا لیکن ان کے ایک دوست نے چور کو پکڑ لیا جس کے بعد ہجوم نے چور کی پٹائی کر دی۔ بعد میں  چور کو اسپتال میں داخل کرایا گیا۔

اسی طرح بھاگیرتھی دیوی جب نہا رہی تھیں تو ایک خاتون ان کا بیگ اور دیگر سامان لے کر بھاگ گئی۔ اس دوران بھاگیرتھی دیوی نے اپنا فون اور 24 ہزار روپے کھو دیا۔

اتراکھنڈ کی رہنے والی بھاگیرتھی دیوی نے کہا، ‘اپنی عمر اور بیماری کی وجہ سے، میں اس کا پیچھا نہیں کر سکی۔’

گزشتہ 15 جنوری کو ایک سادھو کی ملکیت والی کار کی زد میں آنے کے بعد خاتون یاتری سنیتا کو دائیں کولہے میں چوٹ لگی اوران کی  ٹانگ ٹوٹ گئی۔ اس کے لیے لاپرواہی سے گاڑی چلانے کے لیے ایک  نامعلوم شخص کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا تھا۔

(انگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں ۔ )