مدراس ہائی کورٹ نے کہا کہ میڈیکل ٹرمینشن آف پریگننسی قانون، 1971 کی دفعہ 3 کے اہتماموں کے تحت اسقاط حمل کرایا جا سکتا ہے۔ متاثرہ کو بےوجہ عدالت کا دروازہ کھٹکھٹانے کے لئے مجبور نہیں کیا جانا چاہیے۔
نئی دہلی: مدراس ہائی کورٹ نے جمعہ کو کہا کہ ریپ متاثرہ کو اسقاط حمل کرانے کے لئے میڈیکل بورڈ یا عدلیہ کا رخ کرنے کی ضرورت نہیں ہے بشرطیکہ حمل 20 ہفتے کا نہیں ہوا ہو۔جسٹس این آنند وینکٹیش نے ایک متاثرہ کی عرضی پر سماعت کرتے ہوئے کہا کہ متاثرہ کے ذریعے انچاہے حمل کا سامنا کرنے کے تمام معاملوں میں اگر حمل کی مدت 20 ہفتے سے زیادہ نہیں ہوئی ہو تو اس کو میڈیکل بورڈ کے پاس بھیجے جانے کی ضرورت نہیں ہے۔
انہوں نے اپنے حکم میں کہا، ‘ میڈیکل ٹرمینشن آف پریگننسی قانون، 1971 کی دفعہ 3 کے اہتماموں کے تحت اسقاط حمل کرایا جا سکتا ہے۔ متاثرہ کو بےوجہ عدالت کا دروازہ کھٹکھٹانے کے لئے مجبور نہیں کیا جانا چاہیے۔ ‘پی ٹی آئی کے مطابق، متاثرہ کے ساتھ مبینہ طور پر نوید احمد نام کے ایک شخص نے جبراً ریپ کیا تھا۔ اس پر متاثرہ نے عرضی داخل کرتے ہوئے معاملے کو مقامی پولیس کے پاس سے کرائم برانچ سی آئی ڈی کے پاس منتقل کرنے کی مانگ کی تھی۔
متاثرہ نے الزام لگایا تھا کہ حملہ آور نے اس کا ویڈیو بنایا اور چپ رہنے کی دھمکی دی۔ اس کا حوالہ دیتے ہوئے متاثرہ نے ریاست کی سرکاری انسٹی ٹیوٹ آف آبس ٹیٹرکس اینڈ گائناکولوجسٹ سے میڈیکلی اپنے اسقاط حمل کی اجازت مانگی تھی۔ملزم کے خلاف پولیس میں شکایت درج کرانے کے بعد متاثرہ نے پولیس کو میمورنڈم دےکر اپنے اسقاط حمل کا انتظام کرنے کی مانگ کی تھی۔
حالانکہ، پولیس کے قدم نہ اٹھانے کے بعد وہ خود جاکر انسٹی ٹیوٹ میں داخل ہو گئی تھی۔ شروع میں ڈاکٹر اس کے اسقاط حمل کے لئے تیار ہو گئے تھے لیکن پولیس جانچ اور فورینسک ٹیسٹ کو دیکھتے ہوئے انسٹی ٹیوٹ نے ایسا نہیں کیا۔کوئی راستہ نہ ملنے پر متاثرہ نے مدراس ہائی کورٹ میں عرضی داخل کر دی۔ ہائی کورٹ نے اس کو سرکاری ہاسپٹل کستوربا گاندھی ہاسپٹل فار وومین اینڈ چلڈرین بھیج دیا۔ وہاں پتا چلا کہ لڑکی 8 سے 10 ہفتے کی حاملہ ہے۔
اس پر، سرکاری ہاسپٹل اور انسٹی ٹیوٹ نے وہاں کے راجیو گاندھی گورنمنٹ جنرل ہاسپٹل کے ڈین کو خط لکھا۔ خط میں انہوں نے لکھا کہ صرف وہاں کا میڈیکل بورڈ ہی حمل گرا سکتا ہے۔اس کے بعد عدالت نے متاثرہ کو راجیو گاندھی گورنمنٹ جنرل ہاسپٹل لے جانے کا حکم دیا۔ عدالت نے متاثرہ کا اسقاط حمل، ڈی این اے ٹیسٹ کا نمونہ لینے اور اس کوفورینسک لیب کو سونپنے کا بھی حکم دیا۔
اس کے مطابق، میڈیکل بورڈ نے درخواست گزار کی جانچ کی اور اس کا حمل گرا دیا۔ اس نے اس کی رپورٹ 18 جون کو سونپ دی۔اس کے بعد متاثرہ کی وکیل سدھا رام لنگم نے عدالت میں کہا کہ 20 ہفتے سے کم حمل والے ایسے تمام معاملے جن میں میڈیکلی اسقاط حمل کی ضرورت ہوتی ہے، ان میں متاثرہ کو ہر بار عدالت کا دروازہ کھٹکھٹانے کی ضرورت نہیں ہونی چاہیے۔
جج نے کہا، ‘ اگر خاتون کی زندگی داؤپر لگی ہو تو 20 ہفتے سے زیادہ حمل والے معاملوں میں بھی میڈیکل ابارشن( ایم پی ٹی) قانون کے مطابق حمل گرایا جا سکتا ہے۔ ‘عدالت نے کہا کہ 20 ہفتے سے زیادہ حمل کے دیگر تمام معاملوں میں متاثرہ کو اسقاط حمل کے لئے ہائی کورٹ آنا ہوگا اور اس کے بعد میڈیکل بورڈ معاملے کی تفتیش کرےگا۔ اسقاط حمل والے تمام مجرمانہ معاملوں میں ڈی این اے کے لئے نمونے لئے جائیںگے۔
(خبر رساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)