’ وہ ’آتم نربھر بھارت‘ بنانا چاہتے ہیں، لیکن دوسرے ملکوں سے مکئی منگاکر ہماری ’آتم نربھرتا‘ پر حملہ کر رہے ہیں‘

مدھیہ پردیش کے سونی میں کسانوں نے امپورٹ کی وجہ سے مکئی کی فصل کی واجب قیمت نہ ملنے پر ایک آن لائن مظاہرہ شروع کیا ہے، جس کو کسان ستیاگرہ کا نام دیا گیا ہے۔ کو روناانفیکشن کے دور میں یہ لوگ متاثرہ کسانوں کی مانگوں اور پریشانیوں کو آن لائن شیئر کرتے ہوئے اپنے لیےحمایت جمع کررہے ہیں۔

مدھیہ پردیش کے سونی میں کسانوں نے امپورٹ کی وجہ سے مکئی کی فصل کی واجب قیمت نہ ملنے پر ایک آن لائن مظاہرہ شروع کیا ہے، جس کو کسان ستیاگرہ کا نام دیا گیا ہے۔ کو روناانفیکشن کے دور میں یہ لوگ متاثرہ کسانوں کی مانگوں اور پریشانیوں کو آن لائن شیئر کرتے ہوئے اپنے لیےحمایت  جمع کررہے ہیں۔

(فوٹو: Special Arrangement)

(فوٹو: Special Arrangement)

سواتی سنودیا 22 سال کی ہیں۔ وہ مدھیہ پردیش کے سونی ضلع کے گورنمنٹ لاء کالج سے قانون کی پڑھائی کر رہی ہیں۔ ان کی  فیملی  میں ان کے علاوہ ان کی ماں اور ایک چھوٹا بھائی ہے۔ فیملی کے نام دس ایکڑ کھیتی کی زمین ہے۔ والد کی موت کے بعد اب سواتی ہی اس پر کھیتی کرتی ہیں اور فیملی کو چلاتی ہیں۔

اس بار زمین پر خریف کے سیزن میں انہوں نے مکئی بویا تھا، لیکن جب فصل بیچنے کی باری آئی تو بازار میں اتنی بھی قیمت نہیں مل رہی تھی کہ لاگت نکالی جا سکے۔ اس لیے سواتی نے تھوڑے انتظار کے بعد فصل بیچنے کا فیصلہ کیا۔لیکن تب تک ملک  میں لاک ڈاؤن کا اعلان  ہو گیا اور فصل کے دام اور زیادہ اوندھے منھ آ گرے۔

سواتی بتاتی ہیں،‘کمیشن فار اگریکلچر کوسٹ اینڈ پرائسیس(سی اے سی پی)نے ایک کوئنٹل مکئی پیدا کرنے کی لاگت 1213روپے آنکی ہے۔ مکئی کی موجودہ کم از کم امدادی قیمت(ایم ایس پی)1850 روپے فی کوئنٹل ہے، لیکن بازار میں ہمیں 900 روپے فی  کوئنٹل کے دام دیے جا رہے ہیں۔ یعنی کہ لاگت سے بھی 300 روپے فی  کوئنٹل کم۔’

سواتی کی طرح ہی 34 سالہ شیوم بگھیل نے بھی اپنی 14 ایکڑ زمین پر مکئی بویا تھا۔ آدھی فصل تو انہوں نے دسمبر میں ہی بیچ دی تھی۔ وہ بتاتے ہیں کہ تب انہیں 1750 روپے فی  کوئنٹل کا دام ملا تھا۔ آدھی فصل پچھلے دنوں مئی ماہ میں بیچی ہے لیکن اس بار انہیں 980 روپے فی  کوئنٹل کا ملا ہے۔سونی ضلع میں سواتی اور شیوم جیسے اور بھی کسان ہیں جنہیں یا تو اپنی مکئی کی فصل لاگت سے کم میں بیچنی پڑ رہی ہے یا پھر قیمت میں اضافہ  ہونے کے انتظار میں اس کو اسٹاک کرکے رکھناپڑ رہا ہے۔

چھ مہینے کے اندر ہی مکئی کے دام اس طرح اوندھے منھ آ گرنے کے پیچھےکی وجہ  ایک کسان ستیش رائے بتاتے ہیں،‘دسمبر تک سب ٹھیک تھا۔ مکئی کے دام 21-2200 روپے فی کوئنٹل مل رہے تھے، لیکن اسی دوران مرکزی حکومت نے یوکرین، میانمار اور روس سے مکئی کا امپورٹ شروع کر دیا جو ہندوستان آکر 1800 روپے فی کوئنٹل پڑتا تھا۔ اس سے ہمارے ملک کی  مکئی کی قیمت گرنا شروع ہوئی۔ پھر کو رونا کی وجہ سے لاک ڈاؤن لگا تو قیمت 800-900 روپےفی کوئنٹل تک گر گئی ہے۔’

اپنے مکئی کی واجب قیمت نہ ملتی دیکھ سونی کے کسانوں نے مظاہرہ  کرنے کی ٹھانی۔ لیکن کو رونا کے خطرے اور لاک ڈاؤن کی پابندیوں کی وجہ سے یہ ممکن نہیں تھا۔ تب دس نوجوان  کسانوں اورسماجی کارکنوں  نے احتجاج  کا ایک نیا طریقہ ایجاد کیا۔انہوں نے سوشل میڈیا کو اپنا ہتھیار بنایا اور ایک آن لائن مظاہرہ شروع کر دیا، جس کو نام دیا کسان ستیاگرہ۔ اسی نام سے انہوں نے فیس بک پیج، ٹوئٹر اکاؤنٹ اور وہاٹس ایپ گروپ بنایا ہے۔

یہاں پہلے تو متاثرہ  کسانوں کے مطالبات اور ان کی پریشانیوں کا  ویڈیو بناکر ڈالا جا رہا ہے۔ دوسرا، اپنے  مطالبات کو لےکر اور ‘کسان ستیاگرہ’ کی حمایت میں کسان ہاتھوں میں پلےکارڈ تھام کر فوٹو ڈال رہے ہیں۔ تیسرا، کئی وہاٹس ایپ گروپ بناکر ان میں کسانوں کو جوڑکر ان تک اپنی بات پہنچا رہے ہیں اور حمایت  جٹا رہے ہیں۔

کسان تحریک  کے اس نئے روپ  کو شروع ہوئے دو ہفتے کاعرصہ گزر گیا ہے۔ ستیش رائے بتاتے ہیں، ‘ہمیں بہت اچھا رسپانس ملا ہے۔ تیزی سے کسان جڑ رہے ہیں۔ فیس بک پیج کی رسائی  پچھلے 15-20 دنوں میں دو لاکھ کے قریب ہو گئی ہے۔ قومی کسان رہنما وی ایم سنگھ اور ڈاکٹر سنیلم جیسے کئی  بڑے ناموں نے ہماری حمایت میں ویڈیو جاری کیے ہیں۔’

وہ آگے بتاتے ہیں، ‘اسی کا نتیجہ ہے کہ ہماری بات ریاستی حکومت تک پہنچی۔ 1 جون کو مدھیہ پردیش اسٹیٹ اگریکلچر مارکیٹنگ  بورڈ نے ایک آرڈرپاس کیا۔ جس میں ریاستی  زراعتی پیداوار منڈی ایکٹ،1972 کے حوالے سے آرڈر دیا کہ منڈی احاطہ میں کوئی بھی فصل کم از کم امدادی قیمت  سے کم میں نہیں بکےگی۔’

وہ بات الگ ہے کہ اس آرڈر کے بعد بھی حالات ویسے ہی  ہیں اور کسان لاگت سے بھی کم قیمت میں فصل بیچنے کو مجبور ہیں۔آرڈر پر عمل نہ ہونے کے بارےمیں دی  وائر نے آرڈر پاس کرنے والے مارکیٹنگ بورڈ (جبل پور) کے ڈپٹی ڈائریکٹرڈاکٹر آنند موہن شرما سے بھی بات کی۔وہ کہتے ہیں، ‘فصل کی قیمت بازار، دستیابی وغیرہ کئی چیزوں پر منحصرکرتی ہے۔ لیکن ہمیشہ سے ایسا نہیں ہے کہ دام کم ملتے رہے ہوں۔ جن جگہوں پر دام کم ملتے ہیں، وہاں انتظامیہ کی طرف سے گائیڈ لائن جاری کئے گئے ہیں۔’

وہ آگے کہتے ہیں،‘فصل کی کوالٹی  بھی ایک اہم مسئلہ ہوتا ہے۔ کھلے بازار میں ایسا ہوتا ہے کہ کوئی اچھی چیز ہوگی تو اچھے دام میں خریدتے ہیں، نہیں اچھی ہوگی تو تھوڑے دام کم ملتے ہیں۔کوالٹی  خراب ہوگی تو اسی حساب سے دام بھی ملیں گے۔ مکئی کے ساتھ مسئلہ ہے کہ یہ پچھلے سیزن کا اسٹور کیا جاتا ہے۔ اس کاا سٹوریج کسانوں نے سہی ڈھنگ سے نہیں کیا ہے جیسا کہ ویئر ہاؤس میں ہوتا ہے۔ میرے خود دیکھنے میں آیا کہ مکئی میں گھن لگا ہے۔’

اس پرردعمل دیتے ہوئے ستیش کہتے ہیں، ‘جبل پور کے ڈائریکٹر کواگر ایک دوفیصد مکئی گھن لگا مل بھی گیا تو کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ سارے ملک کی  مکئی میں گھن لگ گیا ہے؟ مکئی کی کم قیمت صرف سونی میں ہی نہیں مل رہی ہے، ملک  بھر میں مل رہی ہے۔ اور ایسا اس لیےہوا کیونکہ سرکار نے امپورٹ کھول دیا۔’

اسی کو دھیان میں رکھ کر مظاہرہ کرنے والےکسان سرکار کے سامنے تین حل  رکھ رہے ہیں۔ پہلا کہ جو فصلیں ہندوستان  میں بڑی مقدار میں ہو رہی ہیں، مرکزی حکومت ان کا امپورٹ نہ کرے۔ دوسرا، سرکار ایسا بل  لائے کہ ملک  میں طے ایم ایس پی والی فصلیں ایم ایس پی سے نیچے نہیں بکیں گی۔ تیسرا، دھان اور گیہوں کی طرح سرکاری ہی مکئی  کی ایم ایس پی پر خریداری کرے۔

(فوٹو: Special Arrangement)

(فوٹو: Special Arrangement)

بہرحال، اس انوکھے آن لائن ‘کسان ستیاگرہ’ کی بنیاد سونی ضلعے کے دس نوجوان  کسانوں اورسماجی کارکنوں نے رکھی ہے۔ سبھی کی عمر 20 سے 30 سال کے قریب ہے۔ ان میں سے ایک سماجی کارکن گورو جیسوال بھی ہیں۔گورو بتاتے ہیں، ‘ہم نے پچھلے سال بھی مکئی کی ایم ایس پی کو لےکر زمینی مظاہرہ  کیا تھا۔ ہزاروں کسان جوڑے تھے، اس کے بعد ہی سرکار نے مکئی  کارجسٹریشن کرنا شروع کیا تھا۔ لیکن اس بار کو رونا کی وجہ سے زمینی مظاہرہ  کااختیارنہیں تھا۔ لوگ کافی مایوس تھے۔ تب آن لائن مظاہرہ تجربہ کے طور پر آزمانے کا سوچا۔ اچھی بات یہ ہے کہ پوری ٹیم نوجوان  کسانوں کی ہے تو وہ پرجوش ہو کر چیزوں کو لیتے ہیں اورنئےطریقوں کو قبول کرتے ہیں۔’

مہم سے جڑے دوسرے کسان بتاتے ہیں کہ ہمارا آن لائن ‘کسان ستیاگرہ’ صرف سونی ضلع تک محدود نہیں ہے۔ یہ ہر مکئی کسان کی لڑائی ہے پھر چاہے وہ مدھیہ پردیش کے سونی ضلع کا ہویا چھندواڑا ضلع کا یا پھر بہار اور کرناٹک کا۔کسان شیوم بگھیل کہتے ہیں، ‘یہ پالیسی پر مبنی  مدعا ہے۔ ابھی بہار میں مکئی  کی فصل ہوئی ہے، وہ بھی 900-1000 کی قیمت پر بک رہا ہے۔ اس سے پہلے کرناٹک میں بھی دام گرا دیے۔ ایسا صرف اس لیے کہ مرکزی  حکومت نے پالٹری انڈسٹری  کوفائدہ  پہنچانے کے لیے سستے مکئی کا امپورٹ شروع کیا۔’

ستیش کہتے ہیں،‘ایک طرف تو وہ آتم نربھر بھارت بنانا چاہتے ہیں، دوسری طرف دوسرے ملکوں سے مکئی  منگاکر ہماری’ آتم نربھرتا’ پر حملہ کر رہے ہیں۔ یہ تو دوغلی پالیساں  ہیں۔’بہرحال، سواتی نے اب تک اپنی فصل نہیں بیچی ہے۔ نئی فصل بوائی کا وقت آ گیا ہے۔ اب ان کے سامنے اسٹاک کرنے  کی پریشانی  ہے۔ وہیں، 31 سالہ  بسنت بگھیل آٹھ مہینوں سے اس امید  میں فصل کو نہیں بیچ رہے تھے کہ دام بڑھے گا۔ لیکن جب باربار بارش ہونے لگی تو مجبوراً انہیں فصل کا سودا کرنا پڑا۔

وہ بتاتے ہیں،‘تاجر 900 روپے کوئنٹل قیمت لگا رہے تھے۔ میں نے انہیں ڈیڑھ مہینے کی ادھاری کی تجویز دی تب جاکر انہوں نے 1050 روپے کا دام دیا۔ اب مجھے پیسہ ڈیڑھ مہینے بعد ملےگا۔’وہیں، شیوم اب گومگومیں ہیں کہ اس بار مکئی اگائیں یا نہیں۔ وہ کہتے ہیں، ‘پہلے سویابین اگاتے تھے۔ اس میں لگاتار گھاٹا ہوا تو مکئی لگایا جو کہ اس علاقے کے لیے نئی فصل تھی۔ اب سمجھ نہیں آ رہا کہ کیا لگائیں، 15-20 تاریخ سے نیا سیزن شروع ہو رہا ہے۔’

بہرحال، مظاہرہ کرنے والےنوجوان  کسانوں کے مطابق، اکیلے سونی ضلع میں پچھلے سال 433000 ایکڑ میں مکئی لگایا گیا تھا اور کسانوں کو قریب 600 کروڑ روپے کا گھاٹا اٹھانا پڑا ہے۔

(مضمون نگارآزاد صحافی  ہیں۔)