مدھیہ پردیش: بی جے پی کی جیت کے بیچ سیٹ بچانے میں ناکام رہے شیوراج حکومت کے 40 فیصد وزیر

مدھیہ پردیش میں جہاں بھارتیہ جنتا پارٹی نے اپنی تاریخ کا سب سے زیادہ ووٹ فیصد (48.55) حاصل کیا، وہیں اپنے تمام وزیروں پر بھروسہ کرنے کا اس کا داؤ زیاہ کامیاب ثابت نہیں ہوا۔ انتخابی میدان میں مقدر آزمانے آئے شیوراج سنگھ کابینہ کے 31 میں سے 12 وزیر الیکشن ہار گئے۔

مدھیہ پردیش میں جہاں بھارتیہ جنتا پارٹی نے اپنی تاریخ کا سب سے زیادہ ووٹ فیصد (48.55) حاصل کیا، وہیں اپنے تمام وزیروں پر بھروسہ کرنے کا اس کا داؤ زیاہ  کامیاب ثابت نہیں ہوا۔ انتخابی میدان میں مقدر آزمانے آئے شیوراج سنگھ کابینہ کے 31 میں سے 12 وزیر الیکشن ہار گئے۔

 (بائیں سے) اروند بھدوریا، نروتم مشرا اور گوری شنکر بسین۔ (تصویر بہ شکریہ: فیس بک اور ایکس)

(بائیں سے) اروند بھدوریا، نروتم مشرا اور گوری شنکر بسین۔ (تصویر بہ شکریہ: فیس بک اور ایکس)

گوالیار: مدھیہ پردیش میں بھارتیہ جنتا پارٹی کی زبردست کامیابی کے باوجود اس کے تقریباً 40 فیصد وزراء انتخاب ہار چکے ہیں،جن میں  ریاست میں پارٹی کے ہندوتوا کے سب سے بڑے چہرے وزیر داخلہ نروتم مشرا بھی شامل ہیں۔

انتخابات سے قبل بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) میں وزیر اعلیٰ شیوراج سنگھ چوہان کے علاوہ 33 وزیر تھے، جن میں سے پارٹی کے وزیر او پی ایس بھدوریا کا ٹکٹ کاٹ دیا گیا تھا، جبکہ یشودھرا راجے سندھیا نے الیکشن لڑنے سے انکار کر دیا تھا۔

اس طرح پارٹی نے صرف ایک وزیر کا ٹکٹ کاٹتے ہوئے باقی تمام 31 وزراء پر اعتماد ظاہر کرتے ہوئے انہیں میدان میں اتارا تھا۔ جبکہ ریاست میں پارٹی کا ہر داؤ نشانے پر لگا اور اس نے 163 سیٹوں پر زبردست جیت درج کرتے ہوئے اپنی تاریخ کا سب سے زیادہ ووٹ فیصد (48.55) حاصل کیا، وہیں اس کا اپنے تمام وزراء پر بھروسہ ظاہر کرنے کا داؤ ناکام ثابت ہوا۔ 31 میں سے 12 وزیر الیکشن ہار گئے۔

ہارنے والے وزیروں میں سب سے حیران کرنے والا نام وزیر داخلہ نروتم مشرا کا رہا، جبکہ ان کا نام وزیر اعلیٰ بننے کی دوڑ میں بھی شامل تھا۔ مشرا کو دتیا اسمبلی سیٹ پر ان کے روایتی حریف کانگریس کے راجندر بھارتی کے ہاتھوں 7742 ووٹوں سے ہار کا سامنا کرنا پڑا۔

غورطلب ہے کہ کانگریس نے اپنے امیدواروں کی پہلی فہرست میں دتیا سے اودھش نایک کو امیدوار بنایا تھا۔ نایک نے کچھ عرصہ قبل بی جے پی چھوڑ کر کانگریس میں شمولیت اختیار کی تھی۔ ان کی مخالفت کی وجہ سے پارٹی ٹکٹ بدل کر راجندر بھارتی کو اپنا امیدوار بنانے پر مجبور ہوئی۔ بھارتی اس سے پہلے بھی کئی بار مشرا کے خلاف الیکشن لڑ چکے ہیں اور آخری قریبی مقابلے میں معمولی فرق سے ہار گئے تھے۔

وہ طویل عرصے سے مشرا کے خلاف عدالتی مقدمات لڑ رہے ہیں۔ مشرا کو ماضی میں ان کی انتخابی درخواستوں میں سے ایک پر مقننہ سے بھی نااہل قرار دیا گیا تھا۔

ہارنے والے وزیروں میں وزیر زراعت کمل پٹیل کا نام بھی شامل ہے۔ وہ ہردا اسمبلی سیٹ پر صرف 870 ووٹوں سے ہار گئے۔ وہ وزیروں میں سب سے کم فرق سے ہارے۔

ہارنے والے وزیروں میں اروند بھدوریا کا بھی ایک اہم نام رہا۔ بھدوریا نے سال 2020 میں ریاست میں ہوئے تختہ پلٹ میں بھی اہم کردار ادا کیا تھا۔ وہ حکومت میں کوآپریٹو اور پبلک سروس مینجمنٹ کے محکموں کے وزیر تھے۔ وہ اٹیر اسمبلی میں کانگریس کے ہیمنت کٹارے سے 20228 ووٹوں سے ہار گئے۔

نرمدا ویلی ڈیولپمنٹ منسٹر گوری شنکر بسین بھی ایک بڑا نام رہا۔ انہیں انتخابی اعلان سے ایک ماہ قبل وزیر بنایا گیا تھا۔ دو بار کے ایم پی اور 7 بار ایم ایل اے رہنے والے بسین کو تیسری بار وزیر بنایا گیا تھا۔ کابینہ کی مذکورہ آخری توسیع کا مقصد ذات پات اور علاقائی توازن کو حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ بڑے لیڈروں کی ناراضگی کو دور کرنا تھا۔

تاہم، انتخابات سے پہلے بسین اپنی بیٹی موسم کے لیے ٹکٹ چاہتے تھے۔ پارٹی نے ان کا ٹکٹ کاٹ کر ان کی بیٹی کو دے دیا تھا، لیکن آخری وقت میں بسین نے خود الیکشن لڑنے کے لیے پرچہ نامزدگی داخل کر دیا۔ انہیں بالاگھاٹ سیٹ پر 29195 ووٹوں سے بڑی شکست کا سامنا کرنا پڑا۔

بسین کے ساتھ ہی راہل لودھی کو بھی انتخابات سے ایک ماہ قبل وزارتی عہدہ ملا تھا۔ وہ کاٹیج اینڈ ولیج انڈسٹریز ڈپارٹمنٹ اور محکمہ جنگلات کے وزیر تھے۔ انہیں کھڑگاپور سیٹ پر 8117 ووٹوں سے شکست کا سامنا کرنا پڑا۔

پنچایت اور دیہی ترقی کے وزیر مہندر سنگھ سسودیا بھی بموری سیٹ پر ہار گئے۔ انہیں 14796 ووٹوں سے شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ سسودیا حکومت میں جیوترادتیہ سندھیا کیمپ کے وزیر تھے۔

سندھیا کیمپ کے ایک اور وزیر راجیہ وردھن سنگھ دتیگاؤں بدناور سیٹ سے ہار گئے ہیں۔ وہ کانگریس کے بھنور سنگھ شیخاوت سے صرف 2976 ووٹوں سے ہار گئے۔ شیخاوت بی جے پی کے پرانے لیڈر ہوا کرتے تھے، لیکن انتخابات سے ٹھیک پہلے وہ پارٹی میں سندھیا کیمپ کو دی جانے والی زیادہ اہمیت کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے کانگریس میں شامل ہو گئے تھے۔ دتیگاؤں حکومت میں وہ وزیر صنعت تھے۔

محکمہ تعمیرات عامہ کے وزیر سریش دھاکڑ بھی سندھیا کیمپ سے تھے۔ انہیں وزراء میں سب سے بڑی شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ وہ پوہری اسمبلی میں 49481 ووٹوں سے ہار گئے۔

مویشی پروری کے وزیر پریم سنگھ پٹیل کو بڑوانی اسمبلی حلقہ میں 11172 ووٹوں سے شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے۔

فوڈ پروسیسنگ کے وزیر بھرت سنگھ کشواہا کو بھی گوالیار دیہی سیٹ پر شکست کا منہ دیکھنا پڑا۔ وہ صرف 3282 ووٹوں سے ہار گئے۔ 2018 میں بھی ان کی جیت کا فرق صرف 1517 تھا۔ اتفاق سے دونوں ہی بار ان کے مخالف صاحب سنگھ گرجر رہے۔ 2018 میں گرجر نے بہوجن سماج پارٹی (بی ایس پی) کے ٹکٹ پر الیکشن لڑا تھا، اس بار وہ کانگریس کے امیدوار تھے۔

پسماندہ طبقات اور اقلیتی بہبود کی وزارت، پنچایت اور دیہی ترقی کی وزارت سمیت تین وزارتیں رکھنے والے رام کھلاون پٹیل امرپاٹن اسمبلی میں محض 6490 ووٹوں سے ہار گئے۔

رام کشور کانورے، جن کے پاس آیوش محکمہ اور آبی وسائل کی وزارت کا قلمدان تھا، پرسواڑا سیٹ سے 25948 ووٹوں کے بڑے فرق سے ہار گئے۔

مجموعی طور پر 12 میں سے 6 وزراء 9000 سے کم کے فرق سے ہارے، جن میں سے 3 کی ہار بے حد قریبی (870، 2976 اور 3282) رہی ۔