بی جے پی نے عام انتخاب میں راشٹر واد اور پاکستان سے خطرے کو مدعا بنادیا ہے۔ وہ چاہتی ہے کہ اپوزیشن ان کے اسی جال میں پھنس جائے۔اپوزیشن کو یہ سمجھنا ہوگا کہ عوام میں روزگار، زرعی بحران، دلت-آدیواسی اور اقلیتوں کے خلاف تشدد میں اضافہ جیسے کئی مدعوں کو لےکر کافی بےچینی ہے اور وہ ان کا حل چاہتے ہیں۔
سب جانتے ہیں کہ پلواما اور بالاکوٹ حملے کے بعد سے بھارتیہ جنتا پارٹی، بالخصوص اس کے اسٹار مبلغ وزیر اعظم نریندر مودی، اپنی انتخابی تشہیر میں فوج کے جوانوں کی فوٹو کا جم کر استعمال کر رہے تھے۔فوج کے موجودہ افسروں کی طرف سے ایئر انڈیا کے سابق ے چیف، ایڈمرل رام داس نے الیکشن کمیشن کو خط بھی لکھکر اس پر روک لگانے کی مانگ کی تھی۔ آخرکار، انتخاب کی تاریخوں کے اعلان کے ایک دن پہلے الیکشن کمیشن کو اس طرح کی تشہیر پر روک لگانے والی ہدایت جاری کرنی پڑی۔
اس کا کہنا ہے کہ، چونکہ فوج غیرسیاسی اور غیر جانبدار ہوتی ہے، اس لئے سیاسی جماعت اپنی تشہیر میں فوج کے افسروں اور جوانوں کی تصویر کا استعمال نہ کریں اور فوج کے بارے میں بولتے ہوئے احتیاط برتیں۔بڑے ہی شرم کی بات ہے کہ الیکشن کمیشن کو سیاسی جماعتوں کے لیڈروں کے نام لکھے خط کے ذریعے بالواسطہ طور پر ملک کے وزیر اعظم کو یہ تاکید کرنی پڑی۔
ویسے تو کمیشن کا یہ سرکلر دسمبر 2013 کا ہے، جو اس نے دسمبر 2013 میں فوج کے ذریعے اس بارے میں شکایت ملنے پر جاری کیا تھا۔ صاف تھا اس وقت بھی کون اس کا استعمال کر رہا تھا۔لیکن اس ہدایت کا مودی جی اور بی جے پی کی تشہیر پر کوئی خاص فرق پڑےگا، ایسا نہیں لگتا۔ وہ بھلےہی فوج کے جوانوں کی فوٹو نہ لگائیں، لیکن وہ انتخابی تشہیر میں ملک کی حفاظت اور دہشت گردی کے نام سے فوج کا مکمل استعمال کرنے سے نہیں چوکیںگے۔ اور اس کو لےکر الیکشن کمیشن کچھ خاص کر بھی نہیں پائےگا۔
دیکھنا یہ ہے کہ کانگریس سمیت دوسری اپوزیشن پارٹیاں مودی جی کے اس جال میں پھنستی ہیں یا لوگوں کے اصلی مدعوں پر اپنا فوکس رکھتے ہوئے ان کو کٹہرے میں لاتی ہیں۔مودی جی کی مجبوری یہ ہے کہ بڑھتی بےروزگاری، بےحال معیشت اور خودکشی کرتے کسان کو لےکر اعداد و شمار جاری ہونے سے روک سکتے ہیں اور مین اسٹریم کے زیادہ تر میڈیا کو ان مدعوں کو نہ اٹھانے کے لئے راضی کر سکتے ہیں، لیکن جو عوام اس سے متاثر ہیں، اس کو کیسے سمجھائیںگے۔
اور ان کے پاس اس کا ایک ہی طریقہ ہے-جذباتی مدعوں پر زور دو، عوام کو الجھا دو، آپس میں لڑوا دو۔ اس وقت گھرگھر میں ہر وہاٹس ایپ گروپ میں لوگ دو حصے میں بنٹ گئے ہیں۔ جو سوال کرے اس کو ملک کا دشمن بتاؤ، پاکستان کی مدد کرنے والا قرار دو۔گائے اور مندر جیسے ہندو توا کے جذباتی مدعوں کی رفتارکم ہوتادیکھ کر، بی جے پی نے لوک سبھا انتخاب میں راشٹرواد، دہشت گردی اور پاکستان سے خطرہ کو مدعا بنانے کے لئے منچ سجا دیا ہے۔ جبکہ انہوں نے پچھلے پانچ سالوں میں اس مدعے پر کچھ نہیں کیا۔
کانگریس اور دوسری اپوزیشن پارٹیوں کو جہاں اس مدعے پر مودی حکومت کی ناکامی کو اجاگر کرنا چاہیے، وہیں اس معاملے میں بی جے پی کے جال میں پھنسنے کی غلطی نہیں کرنی چاہیے۔ بی جے پی اس معاملے میں اپوزیشن ،بالخصوص کانگریس کو اکسا رہی ہے۔بی جے پی چاہتی ہے کہ وہ ان کے اس جال میں پھنسیں، کیونکہ اپوزیشن پارٹیاں اس معاملے میں اس کی اشتعال انگیزی کو شکست نہیں دے سکتی۔ اپوزیشن کو یہ سمجھنا ہوگا کہ نوجوانوں میں روزگار، کسانوں میں موجود غیر متوقع بحران، دلت، آدیواسی اور اقلیتی طبقوں کے خلاف تشدد میں اضافہ اور روزگار کے گھٹتے مواقع جیسے ہر طبقے کے کئی مدعے ہیں، جس پر وہ مودی حکومت کو گھیر سکتی ہے۔
اپنے مدعوں کو لےکر عوام میں کافی بےچینی ہے، اور وہ ان کا حل چاہتی ہے۔ 2014 کے لوک سبھا انتخاب سے لےکر پچھلے پانچ سالوں میں کشمیر سے لےکر کنیاکماری تک ہوئے اسمبلی انتخابات پر نظر ڈالیں تو یہ بات پوری طرح واضح ہو جائےگی کہ کسی کی لہر کا دعویٰ جھوٹا ہے، یہ بنیادی طور پر یہ اقتدار مخالف لہر تھی۔یہ بات میں نے گزشتہ سال لکھے گئے ایک مضمون میں واضح کی ہے۔ اس بار یہ لہر بی جے پی کے خلاف ہے، یہ سچائی امت شاہ اور نریندر مودی کی جوڑی اچھی طرح سے جانتی ہے۔
مدھیہ پردیش، راجستھان اور چھتیس گڑھ کے اسمبلی انتخاب کے نتائج نے اس بات کو ایک بار پھر نشان زد کر دیا ہے۔ یہاں کانگریس کی جیت میں دلت، آدیواسی اور اقلیتی طبقے کا اہم ہاتھ ہے۔ان ریاستوں میں ایس سی –ایس ٹی کے لئے ریزرو کل 180 سیٹوں میں سے، 2013 میں بی جے پی کے پاس 129 سیٹیں تھی،یعنی71 فیصد، جو 2018 میں آدھے سے بھی زیادہ گھٹکر 60 پر آ گئی۔ وہیں کانگریس کی سیٹیں 47 سے بڑھکر 110 ہو گئی ہے۔ یہ دو گنے سے بھی زیادہ کا اضافہ ہے۔
جبکہ کانگریس نے یہاں دلت، آدیواسی اور مسلمانوں (اقلیتوں)کے لئے کسی خاص ایجنڈےکا اعلان بھی نہیں کیا تھا، مگر پھر بھی اس طبقے نے ان کا ساتھ دیا کیونکہ بی جے پی کے ہندوتوا کے ایجنڈے سے سب سے زیادہ دہشت میں یہی طبقہ تھا۔وہ ایک سیاسی سہارے کی تلاش میں ہیں۔ ان ریاستوں میں نہ صرف اس طبقے پر ظلم بڑھے، بلکہ آہستہ آہستہ ختم ہوتی سرکاری تعلیم، صحت جیسی سماجی سہولیات کا بھی سب سے زیادہ خمیازہ اسی طبقے کو بھگتنا پڑا ہے۔
یہ طبقہ ہر معاملے میں تقریباً پوری طرح سے سرکاری سہولیات پر منحصر ہے۔ یہ سہولیات نہ صرف ختم رہی ہیں، بلکہ جو ہے اس کے استعمال کے لئے بھی کئی دنوں تک کاغذی کارروائی کرتے کرتے آدمی تھک جاتا ہے۔ایس پی –بی ایس پی نے راشٹریہ لوک دل کو اپنے ساتھ لے کر طبقاتی فارمولے کے ذریعے اتر پردیش میں شاہ اور مودی کے ناقابل تسخیر قلعے میں بارود لگانے کی تیاری کر لی ہے۔
اگر کانگریس اور دوسری اپوزیشن پارٹیاں بھی وہاٹس ایپ اور مین اسٹریم میڈیا میں ہو رہی تشہیر سے دھیان ہٹاکر دیگر ریاستوں میں دلت، آدیواسی، اقلیتی اور پچھڑوں کے اصلی مدعے سمجھ لیں، تو اس سے نہ صرف ملک کی سیاست سے مشتعل جذباتی مدعے پیچھے چھوٹیںگے بلکہ اس سے عوام کا ایک بار پھرسے سیاست پر اعتماد قائم ہوگا۔ملک کی سطح پر دلت، آدیواسی اور اقلیتی طبقے کا ووٹ کسی بھی جماعت کی جیت کو طے کرنے اہم رول رکھتے ہیں۔
اور، یہ طبقہ نہ تو ٹی وی کی مشتعل بحث سے متاثر ہے اور نہ ہی اس ایجنڈےسے کوئی زیادہ واسطہ رکھتا ہے۔پچھڑے بھی اس مشتعل ایجنڈے سے کافی دہشت زدہ ہیں۔ کانگریس سمیت تمام اپوزیشن کو چاہیے کہ وہ بی جے پی کے مشتعل ایجنڈے سے بچے اور اصلی مدعوں پر خاص فوکس رکھے۔
(مضمون نگارسماجوادی جن پریشدسے جڑے ہیں۔ )