بھارت آدی واسی پارٹی نے اپنے قیام کے صرف ڈھائی ماہ بعد ہوئے راجستھان اور مدھیہ پردیش اسمبلی انتخابات 2023 میں 35 حلقوں (27 راجستھان اور 8 مدھیہ پردیش) میں الیکشن لڑ کر 4 سیٹوں پر جیت حاصل کی ۔
ہندوستان میں برطانوی راج کے خاتمے کے ساتھ ہی ہم نے یہ کہتے ہوئے جمہوری نظام کو قبول کیا تھاکہ تمام شہریوں کے ساتھ یکساں سلوک کیا جائے گا۔ سب کو برابری کا درجہ ملے گا۔ وسائل کی مساوی تقسیم ہو گی۔ استحصال اور جبر سے نجات ملےگی۔ لیکن آزادی کے 75 سال بعد بھی آدی واسی خود کو ٹھگا ہوا محسوس کر تے ہیں ۔
آج ملک میں تقریباً 13 کروڑ آدی واسی ہیں جو ملک کی تقریباً 25 ریاستوں اور مرکز کے زیر انتظام علاقوں میں رہتے ہیں۔ انتخابات کے وقت سیاسی جماعتیں ان کے لیے بڑے بڑے وعدے کرتی ہیں۔ ان جیسا دکھنے کے لیے بڑے بڑے لیڈر ان کے ساتھ ناچتے ہیں، ان جیسا لباس پہنتے ہیں، ان کی زبان کے چند الفاظ بھی بولتے ہیں اور انہیں رجھانے کی ہر ممکن کوشش کرتے ہیں۔ لیکن الیکشن کا موسم گزرنے کے بعد یہ سیاسی پارٹیاں، ان کی حکومت اور سماج کا ‘مین اسٹریم’ طبقہ انہیں ترقی مخالف، نکسلائٹ، جنگلی، غیر مہذب، وحشی، راکشش، ون واسی کہہ کر ان کی تحقیر کرتے ہیں۔ کوئی بھی انہیں ان کے اصلی نام ‘آدی واسی’ سے پکارنا تک مناسب نہیں سمجھتا۔
ایسے میں ان 13 کروڑ آدی واسیوں کے سامنے صورتحال واضح ہے – خود کو غائب ہوتے دیکھتے رہیں یا اپنے آئینی حقوق کا استعمال کریں۔ اپنے وجود کو بچانے اور اپنے حقوق کے تحفظ کے لیے جمہوری طریقے سے لڑیں۔ اپنی سیاسی پارٹی بنائیں، ایسے امیدواروں کو لوک سبھا اور اسمبلیوں میں بھیجیں جو ہم آہنگی، اجتماعیت اور بقائے باہمی کے جذبے کے ساتھ کام کریں۔
پارٹی کیسے بنی؟
اس طرح قبائلی برادری کے کارکنوں، ثقافتی کارکنوں، ماہرین لسانیات، ماہرین تعلیم، طلباء، زبانی روایات کے ماہرین، مؤرخین اور ملک بھر کے ان آرگنائزڈ سیکٹر سے وابستہ قبائلیوں نے سیاسی طور پر متحد ہونے کا فیصلہ کیا۔ ایک کل ہند شناخت کو ذہن میں رکھتے ہوئے، ‘بھارت آدی واسی پارٹی’ کا قیام عمل میں آیا، اور پارٹی نے 10 ستمبر 2023 کو ٹنٹیا بھیل کھیل میدان، آدی واسی پریرنا استھل، ڈنگر پور راجستھان میں اپنا یوم تاسیس منایا۔ اس پارٹی کے بانی ارکان میں موہن لال روت (صدر)، کانتی لال روت، راجکمار روت، ہیرالال دائما، ڈاکٹر جتیندر مینا، مایا کلاسووآ، دلیپ بھائی وساوا، راجو بھائی بلبھ بھئی، رام پرساد ڈینڈور، جتیندر اسالکر، منی لال گراسیا، مانگی لال ناناما وغیرہ شامل ہیں۔
اس پروگرام میں ملک بھر سے آدی واسیوں نے شرکت کی۔ پارٹی کے بانیوں نے اپنا سیاسی ایجنڈا ملک کے سامنے پیش کیا۔
پہلا- آدی واسیوں کے لیے مردم شماری میں ایک علیحدہ ‘ٹرائبل کوڈ’ کو یقینی بنایا جائے، تاکہ قبائلی شناخت، روایت، ٹوٹم نظام کو زندہ رکھا جا سکے اورتبدیلی مذہب پر مستقل پابندی لگائی جا سکے۔
دوسرا- فارسٹ رائٹس ایکٹ 2006 کے تحت ملک کے تمام بے زمین قبائلیوں کو 5 ایکڑ اراضی لیز پر دی جانی چاہیے، مختلف ریاستی حکومتوں کی طرف سے منسوخ کیے گئے دعووں کا جائزہ لینا چاہیے۔
تیسرا- جس گاؤں میں 50فیصد سے زیادہ قبائلی آبادی ہے، وہاں پی ای ایس اے 1996 اور شیڈول 5 لاگو ہونا چاہیے۔
چوتھا- محکمہ جنگلات کو ختم کیا جائے اور تمام جنگلاتی زمین قبائلیوں کو دیکھ بھال کے لیے دی جائے۔
پانچواں- جنگلاتی پیداوار کا حصہ قبائلیوں کو دیا جائے۔
چھٹا- پرائیویٹ سیکٹر عدلیہ میں ریزرویشن دیا جائے۔
ساتواں- مرکزی حکومت فوری طور پر سرکاری خدمات میں لیٹرل انٹری کو روکے۔
آٹھواں- آبادی کے تناسب سے تمام طبقات کے لوگوں کی شمولیت کو یقینی بنایا جائے۔
نواں- اقلیتوں پر حملوں کو فوری طور پر روکا جائے اور
دسواں- آدی واسی اکثریتی علاقوں کو شامل کر کے بھیل پردیش اورگونڈوانا ریاستیں تشکیل دی جائیں۔
کیسے ہوئی انتخابی شروعات؟
بھارت آدی واسی پارٹی نے اپنے قیام کے صرف ڈھائی ماہ بعد ہونے والے راجستھان اور مدھیہ پردیش اسمبلی انتخابات 2023 میں 35 حلقوں (27 راجستھان اور 8 مدھیہ پردیش) میں الیکشن لڑکر 4 سیٹوں پر جیت حاصل کی۔ ڈنگر پور کی چوراسی اسمبلی سے راج کمار روت، آس پور سے امیش ڈامور، دھریاواڑ سے تھاور چند مینا اور مدھیہ پردیش کے رتلام ضلع کی سیلانہ سیٹ سے کملیشور ڈوڈیار نے اسمبلی انتخابات میں کامیابی حاصل کی تھی۔ پارٹی نے تقریباً 11 لاکھ ووٹ حاصل کیے، اور اس کے 4 امیدوار دوسرے اور 16 تیسرے نمبر پر آئے۔
بھارت آدی واسی پارٹی راجستھان میں اپنا پہلا الیکشن ایسے حالات میں لڑ رہی تھی جب مرکز میں وزیر اعظم نریندر مودی کی قیادت میں بی جے پی حکومت کر رہی تھی اور کانگریس ریاست میں حکومت کر رہی تھی۔دونوں کے پیسے کی طاقت اور اقتدارکے سامنے وسائل کے بغیر بھارت آدی واسی امیدوار الیکشن لڑ رہے تھے۔ لیکن اس کے باوجود آدی واسی کمیونٹی کی پارٹی نے اپنی مضبوط موجودگی درج کرائی۔
اس پارٹی کے بانیوں نے ملک بھر کے آدی واسیوں سے اور ان تمام لوگوں سے اپیل کی ہے جو قبائلیت پر یقین رکھتے ہیں، ترقی پسند ہیں، سیکولر ہیں، ‘میں’ کے بجائے ‘ہم’ کا احساس رکھتے ہیں اور آئین پر یقین رکھتے ہیں۔ بانیوں نے ایک نعرہ دیا-
‘دوسروں کے گھر میں رہ کر، ان کے گھرمحل، محل سے راج محل بنوائے
اپنا گھر بنا دیا ہے، اسے گھر سے محل، محل سے راج محل بنائیں’
اس وقت لوک سبھا انتخابات 2024 کا عمل جاری ہے۔ پارٹی راجستھان، گجرات، مدھیہ پردیش، دادرا نگر حویلی، مہاراشٹر، جھارکھنڈ، چھتیس گڑھ، آندھرا پردیش اور آسام کی تقریباً 28 لوک سبھا سیٹوں پر اپنے امیدوار اتار رہی ہے۔ راجستھان میں بانسواڑہ سے 84 ایم ایل اے راجکمار روت، ادے پور سے پرکاش چندر بُجھ، چتوڑ گڑھ سے مانگی لال نناما، سوائی مادھوپور سے جگدیش پرساد مینا، جھارکھنڈ کے کھونٹی سے ببیتا کشیپ، مدھیہ پردیش کی منڈلا سیٹ سے سے چرن سنگھ دھروے، رتلام جھابوآ سے بالو سنگھ وغیرہ اب تک اہم امیدواروں کے ناموں کا اعلان کیا جا چکا ہے۔
آدی واسیوں کی سیاسی قیادت کو متحد کرتے ہوئے بھارتیہ ٹرائبل پارٹی کے بانی، سرپرست اور گجرات سے 6 بار کے ایم ایل اے چھوٹو بھائی وساوا نے بھارت آدی واسی پارٹی میں شمولیت اختیار کر لی ہے۔ یہ قبائلی اتحاد کی سمت ایک اہم قدم ہے۔ مدھیہ پردیش اور جھارکھنڈ کی قبائلی قیادت کے ساتھ ہم آہنگی قائم کرکے کل ہند سطح پر اتحاد قائم کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔
حکمران جماعت بی جے پی کی قیادت میں الیکشن لڑ رہی ہے، اور اپوزیشن انڈیا کے جھنڈے تلے الیکشن لڑ رہی ہے، لیکن دونوں آدی واسیت میں یقین نہیں رکھتے۔ مودی سرکار کی قیادت میں آدی واسیوں کے جل (پانی)، جنگل اور زمین کی لوٹ مار پچھلی حکومتوں کے مقابلے میں تیز ہے۔ ڈی لسٹنگ کے نام پر قبائلیوں کو تقسیم کرنے کی کوششیں جاری ہیں، غیر قبائلیوں کو مسلسل ‘قبائل’ کی فہرست میں شامل کیا جا رہا ہے۔ لیکن دوسرا فریق ان مسائل پر تقریباً خاموش ہے۔
اس سیاست میں، بھارت آدی واسی پارٹی آزادانہ اور مضبوطی سے اپنی پوزیشن قائم کرنے کی کوشش کر رہی ہے، اور اپنے خواب – ‘دِلّی مائیں ماری گادی ہیں بھورٹیا نئے مانوں رے نئے مانوں’ (دلی میرا تخت ہے، اے فرنگیوں میں نہیں مانوں گا۔) کو پورا کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔
(ڈاکٹر جتیندر مینا بھارت آدی واسی پارٹی کے قومی ترجمان اور دلی یونیورسٹی میں پڑھاتے ہیں۔)