
وقف بل کے خلاف دہلی میں ہوئے آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے احتجاجی مظاہرہ میں اے آئی ایم آئی ایم کے سربراہ اسد الدین اویسی، کانگریس ایم پی گورو گگوئی اور ٹی ایم سی کی مہوا موئترا سمیت کئی اپوزیشن لیڈروں نے شرکت کی۔ اویسی نے کہا کہ بل کا مقصد مسلمانوں سے مسجد، قبرستان اور مدارس کو چھیننا ہے۔

احتجاجی مظاہرہ میں اسد الدین اویسی۔ (تصویر بہ شکریہ: سوشل میڈیا)
نئی دہلی: آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ (اے آئی ایم پی ایل بی)، نے سوموار (17 مارچ) کو وقف (ترمیمی) بل کے خلاف دہلی میں احتجاجی مظاہرہ کیا۔
انڈین ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق، اس احتجاجی مظاہرہ میں آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین (اے آئی ایم آئی ایم) کے سربراہ اسد الدین اویسی، کانگریس کے لوک سبھا ایم پی گورو گگوئی اور ترنمول کانگریس (ٹی ایم سی) کی لوک سبھا ایم پی مہوا موئترا سمیت اپوزیشن لیڈران نے حصہ لیا۔
وقف (ترمیمی) بل پر جوائنٹ پارلیامانی کمیٹی (جے پی سی) کا حصہ رہے اے آئی ایم آئی ایم کے رکن پارلیامنٹ اویسی نے کہا کہ اس بل کا مقصد مسلمانوں سے مسجد، قبرستان اور مدارس کو چھیننا ہے۔
اس دوران انہوں نے نیشنل ڈیموکریٹک الائنس (این ڈی اے) کی اتحادی ٹی ڈی پی، جے ڈی یو اور ایل جے پی (رام ولاس) کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا۔
اسد الدین اویسی نے کہا، ‘کلکٹر، جو حکومت کی حمایت کرے گا، انہیں یہ فیصلہ کرنے کا پورا اختیار ہوگا کہ کوئی جائیداد وقف ہے یا نہیں۔ اس بل کا مقصد مساجد، قبرستان اور مدارس کو ہم سے چھیننا ہے۔ اگر چندرابابو نائیڈو، نتیش کمار اور چراغ پاسوان اب اس بل کی مخالفت نہیں کرتے ہیں تو ہندوستانی مسلمان انہیں کبھی معاف نہیں کریں گے۔ وقف کو لوٹنے کے لیے یہ مسلم دشمن اور آئین مخالف بل ہے۔’
کانگریس ایم پی گگوئی نے اس بل کے بارے میں مشاورت کے عمل کو ایک تماشہ بتاتے ہوئے کہا کہ یہ بل آئین پر حملہ ہے۔
انہوں نے کہا، ‘حکومت نے آپ سے مشورہ نہیں کیا، آپ کی رائے نہیں لی۔ ہاں ایک کمیٹی بنائی گئی۔ میں اس کا ممبر تھا، عمران مسعود وہاں تھے، اویسی صاحب تھے۔ میں نے کمیٹی کی آمرانہ فطرت دیکھی اور ہم نے ہر طرح سے غوروخوض کے بعد اسے اٹھایا۔’
اس مظاہرے میں سماج وادی پارٹی (ایس پی) کے ایم پی دھرمیندر یادو بھی موجود تھے۔ اس سلسلے میں انہوں نے کہا، ‘میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ اکھلیش یادو اور ایس پی اپنی آخری سانس تک اس بل کے خلاف لڑیں گے۔ اگر ہمیں عدالت جانا پڑے تو ہم ہر قدم پر آپ کے ساتھ ہیں۔ ریلوے اور دفاع کے بعد وقف کے پاس سب سے زیادہ زمین ہے۔ وہ اسے لینا چاہتے ہیں۔ لیکن ہم ایسا نہیں ہونے دیں گے۔’
اس احتجاجی مظاہر میں بعد میں پہنچیں ٹی ایم سی ایم پی مہوا موئترانے کہا کہ یہ بل مسلمانوں کو حق رائے دہی سے محروم کرنے کی سرکاری کوششوں کے ایک طویل سلسلے کا تازہ ترین قدم ہے۔
اس احتجاج میں شامل اے آئی ایم پی ایل بی کے سکریٹری یاسین علی عثمانی نے کہا، ‘رمضان کے مہینے میں ہم اپنے حقوق کے لیے اپنے گھروں سے نکل رہے ہیں۔ نہ صرف مسلمان بلکہ تمام برادریوں کے لوگ اس بل کو مسترد کر رہے ہیں۔’
کانگریس کے سینئر لیڈر سلمان خورشید نے کہا کہ حکومت نے مسلمانوں کے نقطہ نظر کو سمجھنے کی کوئی کوشش نہیں کی۔ انہوں نے کہا، ‘وہ کہتے ہیں کہ مشورہ کیا گیا اور حکومت نے سب کی بات سنی۔ انہوں نے سب کی بات سنی۔ لیکن انہوں نے ہماری بات نہیں سمجھی۔’
معلوم ہو کہ اس سے قبل مشترکہ پارلیامانی کمیٹی (جے پی سی) نے اپوزیشن ارکان پارلیامنٹ کی تجویز کردہ 44 ترامیم کو مسترد کر دیا تھا اور نیشنل ڈیموکریٹک الائنس (این ڈی اے) خیمہ سے 14 کو منظور کر لیا تھا۔
اس وقت اپوزیشن کے تمام 11 ارکان نے وقف (ترمیمی) بل پر اپنے اختلاف کا اظہار کیا اور اسے غیر آئینی قرار دیا تھا۔
اپوزیشن نے الزام لگایا تھا کہ اس سے نئے تنازعات کھلیں گے اور وقف کی جائیدادیں خطرے میں پڑ جائیں گی۔ اپوزیشن ارکان نے جے پی سی کے کام کاج کے طریقے میں خامیوں کی بھی نشاندہی کی۔
معلوم ہو کہ مرکزی حکومت نے 8 اگست کو لوک سبھا میں وقف (ترمیمی) بل 2024 پیش کیا تھا۔ پیش کیا تھا ۔ تاہم، اپوزیشن ارکان پارلیامنٹ کی مخالفت کے باعث اس بل کو مشترکہ کمیٹی کو بھیج دیا گیا۔ اس کمیٹی کا پہلا اجلاس 22 اگست کو ہوا تھا۔ اس کمیٹی کو پارلیامنٹ کے سرمائی اجلاس کے پہلے ہفتے کے آخر تک اپنی رپورٹ پیش کرنی تھی، جس میں اپوزیشن ارکان نے توسیع کا مطالبہ کیا تھا۔
اس کمیٹی کے کئی اجلاس تنازعات کا شکار رہے ہیں۔ اس سے قبل اپوزیشن اراکین نے اوم برلا کو ایک خط لکھا تھا جس میں الزام لگایا تھا کہ کمیٹی کی کارروائی کو چیئرپرسن جگدمبیکا پال کی طرف سے جانبدارانہ انداز میں چلایا جا رہا ہے۔ اس سلسلے میں کمیٹی کے صدر پال نے کہا ہے کہ اجلاس کے دوران اپوزیشن اراکین کو بولنے کے کافی مواقع فراہم کیے جاتے ہیں۔