مہاراشٹر کی دارالحکومت سے محض 55 کلو میٹر کے فاصلے پر واقع اسی فیصد سے زیادہ کی مسلم آبادی والا یہ گاؤں تقریباً چار دہائیوں سے تنازعات کے مرکز میں ہے۔

السٹریشن: پری پلب چکرورتی
علی الصبح 3 بجےسعیدہ* کے دروازے پر دستک اب کوئی غیر معمولی واقعہ نہیں تھا۔ عام طور پر، اس وقت دستک کا مطلب یہ ہے کہ پولیس کی ایک بڑی نفری ان کی زندگی کو تباہ کرنے آن پہنچی ہے۔ 1 اور 2 جون کی درمیانی شب کچھ ایسا ہی واقعہ پیش آیا، جب مہاراشٹر کے انسداد دہشت گردی اسکواڈ (اے ٹی ایس) کی قیادت میں ممبئی اور تھانے کی مقامی پولیس سمیت 350 سے زیادہ پولیس اہلکاروں نے ممبئی سے 55 کلومیٹر دور بوریولی-پڑگھا گاؤں کو اپنے محاصرے میں لے لیا۔ ایک مربوط آپریشن میں، عدالتی سرچ وارنٹ کے ساتھ ٹیموں نےبیک وقت 22 لوگوں کے دروازے پر دستک دی اور چھاپے ماری کی کارروائی شروع کر دی۔
سعیدہ کہتی ہیں،’چھاپے ماری میں صرف 22 افراد کو نشانہ بنایا گیا تھا (جن میں تین بھائی ایک ساتھ رہتے تھے)، لیکن پورے گاؤں کو گھیرے میں لے لیا گیا، اور پولیس نے ایسی صورتحال بنا دی جیسے یہاں خوفناک دہشت گرد چھپے ہوئے ہوں۔’
سعیدہ کہتی ہیں کہ ڈیڑھ سال سے بھی کم عرصے میں گاؤں میں یہ دوسری بڑی چھاپے ماری تھی۔ دسمبر 2023 میں نیشنل انویسٹی گیشن ایجنسی(این آئی اے) کی جانب سے کی گئی پچھلی چھاپے ماری اور گرفتاریوں میں، ان کے شوہر ان 15 لوگوں میں سے ایک تھے، جنہیں علاقےمیں کالعدم دہشت گرد تنظیم، آئی ایس آئی ایس میں شامل ہونے کے لیے مبینہ طور پر ‘نوجوانوں کو متاثر’ کرنے کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا ۔ ‘پچھلی بار، تقریباً اسی وقت، وہ میرے شوہر کو لے گئے اور میرے بچوں کے اسکول پروجیکٹ کے لیے استعمال کیے جانے والے فون اور کمپیوٹر ہارڈ ڈسک سب ضبط کر لیے ،’ انہوں نے یاد کرتے ہوئے کہا۔
پچھلی چھاپے ماری فلسطین میں اسرائیل کی نسل کشی کی جنگ کے آغاز کے ساتھ ہوئی تھی۔ سعیدہ کے اسکول جانے والے بچوں نے اپنی جیب خرچ سے گاؤں میں ہونے والےاحتجاج کے لیے فلسطینی پرچم خریدا تھا۔ جھنڈے ضبط کر لیے گئے، اور بعد میں این آئی اے نے دعویٰ کیا کہ ان کا تعلق ‘عسکریت پسند گروپ حماس’ سے تھا۔ چھاپے اور گرفتاریوں کے دوران اکثر کیے جانے والے یہ دعوے میڈیا میں سنسنی پیدا کرتے ہیں اور عدالت میں ابتدائی حراستی ریمانڈ کو یقینی بنانے میں مدد کرتے ہیں۔ تاہم، ان کے قانونی جواز کو عدالت میں ثابت کرنے میں برسوں لگ جاتے ہیں۔ تب تک فوجداری نظام انصاف کے اندر طویل عرصے تک انصاف کے حصول میں الجھی نسلیں تباہ ہو چکی ہوتی ہیں۔
اس بار اے ٹی ایس ان کے ایک اوربیٹے کے خلاف جاری سرچ وارنٹ کے ساتھ پہنچی تھی۔ اے ٹی ایس نے مقامی عدالت سے اس بنیاد پرسرچ وارنٹ حاصل کیا تھا کہ ان کے گھروں میں ‘غیر قانونی/اینٹی نیشنل’ سرگرمیوں کے لیے استعمال کیے جانے والے ‘مجرمانہ دستاویز/مواد’ جمع تھے۔ تقریباً 10 گھنٹے تک جاری رہنے والی چھاپے ماری میں پولیس نے 19 موبائل فون، ایک تلوار اور ایک چاقو ضبط کیا۔ گاؤں والوں کا دعویٰ ہے کہ پولیس اور میڈیا نے جسے ’مہلک ہتھیار ‘ بتایا ہے وہ دراصل باورچی خانے میں استعمال کیا جانے والا چاقو ہے۔
‘کیا واقعی کسی گھرکے باورچی خانے میں، خصوصی طور پر مچھلی اور گوشت کھانے والے گھروں میں بڑی، تیز دھار چھریوں کا ملنااس قدر غیر معمولی واقعہ ہے؟’ جن کے گھر پر چھاپہ مارا گیا، ان میں سے ایک نے سوال کیا۔
چھاپے ماری میں تلوار اور ایک چاقو کی ضبطی کے بعد دو الگ الگ ایف آئی آر درج کی گئیں۔ پولیس نے ابھی تک گاؤں میں کوئی گرفتاری نہیں کی ہے۔
سال 2023 میں کی گئی آخری چھاپے ماری میں، پولیس نے اور بھی بڑے دعوے کیے تھےکہ بڑی تعداد میں چاقو ضبط کیے کیے گئے ہیں۔’اس کے بعد، تقریباً ہم سب نے بڑے چاقوپھینک دیے اور کچن میں چھوٹی چھریاں استعمال کر رہے ہیں۔ آپ نہیں جانتے کہ پولیس کب ہمارے گھر میں داخل ہو گی اور ہمارے برتنوں کو گولہ بارود میں بدل دے گی،’ ایک نوجوان خاتون نے کہا، جس کے گھر پر 2023 میں چھاپہ مارا گیا تھا، حالانکہ کوئی گرفتاری عمل میں نہیں آئی۔
چھاپے کے دوران مقامی پڑگھا پولیس اے ٹی ایس کے ساتھ تھی۔ ایک مولانا کے گھر میں، پولیس نے دعویٰ کیا کہ دو گائے ضروری کاغذی کارروائی کے بغیر رکھی گئی تھی۔ پڑگھا پولیس نے مولانا کو مہاراشٹر اینیمل پریزرویشن ایکٹ کے تحت گرفتار کیا تھا۔ انہیں ایک دن بعد ضمانت پر رہا کر دیا گیا۔
دہائیوں سے تنازعات کے مرکز میں
بوریولی-پڑگھا ممبئی-ناسک ہائی وے پر واقع ہے۔ 80فیصد سے زیادہ مسلم آبادی والا یہ گاؤں تقریباً چار دہائیوں سے تنازعات کے مرکز میں ہے۔ یہ سب 1980 کی دہائی کے اوائل میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ سابق فائربرانڈ اسٹوڈنٹ لیڈرثاقب ناچن کے واسطہ پڑنے کےبعدسے شروع ہوا تھا۔ ناچن کی طرح کئی دوسرے لوگوں پر اسٹوڈنٹس اسلامک موومنٹ آف انڈیا (سیمی) کا حصہ ہونے کا الزام لگایا گیا تھا، ایک ایسی تنظیم جو بعد میں 2001 کے اوائل میں کالعدم قرار دی گئی ۔

ثاقب ناچن۔ تصویر: ایکس
ناچن، جس نے دہشت گردی کے متعدد مقدمات کا سامنا کیا ہے، قصوروار ٹھہرائے گئے، اور انہوں نےکئی سال جیل میں گزارے ہیں، ان پر ریاست میں آئی ایس آئی ایس ماڈیول کی سربراہی کا الزام ہے۔ وہ اور ان کا چھوٹا بیٹا شمیل 2023 سے حراست میں ہیں۔ ناچن فی الحال دہلی کی تہاڑ جیل میں بند ہیں، جبکہ شمیل کو ممبئی کی تلوجا جیل میں رکھا گیا ہے۔
اے ٹی ایس کا دعویٰ ہے کہ حالیہ چھاپے ماری انٹلی جنس معلومات کی بنیاد پر کی گئی تھی کہ ناچن خاندان ابھی بھی گاؤں پر کنٹرول رکھتا ہے۔ تقریباً 10000 کی آبادی والے بوریولی-پڑگھا گاؤں میں زیادہ تر کونکنی مسلمان رہتے ہیں۔ یہاں کے مسلمان معاشی طور پر خوشحال ہیں، وہ ممبئی-ناسک ہائی وے کے پاس زمینوں کے مالک ہیں۔ پچھلی دہائی کے دوران، یہاں زمین کی قیمتوں میں بے تحاشہ اضافہ ہوا ہےاور کئی گودام بنائے گئے ہیں۔ یہاں کے مقامی لوگ روایتی طور پر ماہی گیری، ریت یا تعمیراتی کاروبار سے وابستہ ہیں۔ لیکن ان کا دعویٰ ہے کہ پولیس کے مسلسل چھاپوں نے ان کے کاروبار کو بہت متاثر کیا ہے۔
زیادہ تر لوگ ایک دوسرے کے رشتہ دار ہیں۔ مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ پوچھ گچھ کا موضوع ناچن کے ساتھ ان کی ‘وابستگی’ کے اردگرد گھومتا ہے۔ ‘ہم میں سے اکثر لوگ براہ راست یا دور سے ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں،جس میں ناچن خاندان بھی شامل ہے۔ ہم ایک دوسرے کے پڑوسی ہیں، ایک ہی مسجد میں جاتے ہیں؛ ہم رابطے میں ضرور رہتے ہیں، اسے غیر قانونی کیسے قرار دیا جا سکتا ہے؟’ اس بار کی چھاپے ماری میں شامل 22 افراد میں سے ایک نوجوان سوال کرتا ہے ۔
اس بار جب اے ٹی ایس آئی تو انہوں نے ناچن کے ایک اور بیٹے عاقب کو نشانہ بنایا۔ وارنٹ میں اس کا نام تھا، اور پولیس نے اس کا فون ضبط کر لیا۔ چھاپے کے وقت گھر میں موجود ایک رشتہ دار نے بتایا کہ جیسے ہی پولیس اندر داخل ہوئی، شمیل کا پانچ سالہ بیٹا خوف سے چیخنے لگا۔ اس نے کہا، ‘بچے نے اتنی سی چھوٹی عمر میں بہت کچھ دیکھا ہے۔
چھاپے بچوں کو کس طرح متاثر کرتے ہیں
بوریولی-پڑگھا گاؤں میں بڑا ہونا اور زندگی گزارنا آسان نہیں رہا۔ گزشتہ برسوں میں چھاپے اور گرفتاریاں اس قدر معمول کا حصہ بن چکی ہیں کہ اب یہ بچوں کے درمیان ایک عام ساکھیل بن گیا ہے۔ ایک ماں نے بتایا،’یہاں کے بچوں نے اپنے خودکے کھیل ایجاد کرلیے ہیں۔ وہ چھاپے، جیل ملاقات اور گرفتاری کھیلتے ہیں،’، جبکہ اس کے چھوٹے بچے اور چند پڑوسی بچے تجسس کے ساتھ ہماری بات چیت سن رہے تھے۔
ان کا کہنا ہے کہ بچوں کو اس طرح کی بات چیت سے دور رکھنا فضول ہے۔حال ہی میں دسویں جماعت کا امتحان پاس کرنے والی لڑکی نے پوچھا،’جب پولیس وقت کا خیال کیے بغیر ہمارے دروازے پر دستک دیتی ہے اور صرف ایک یا دو لوگوں کو ہی نہیں بلکہ پورے گاؤں کو دہشت گرد سمجھتی ہے تو ہم ان سے کیسے بچ سکتے ہیں؟’پولیس اس بار اس کے بڑے بھائی کی تلاش میں آئی تھی۔ ‘انہوں نے میرا فون بھی لے لیا، اور رابطے کی فہرست اور ایپس کو اسکرول کیا۔ جیسے ہی انہوں نے میری فوٹو گیلری دیکھنا شروع کی، میں نے طے کر لیا کہ بہت ہوگیا۔ مجھے اپنا فون چھیننا پڑا اور سختی سے کہنا پڑا کہ میں ایک نوجوان لڑکی ہوں اور وہ غیر قانونی طور پر ایک نوجوان لڑکی کی فوٹو گیلری تک رسائی کی کوشش کر رہے ہیں۔’
تلاشی کے 22 وارنٹ میں سے کم از کم دو افراد حج پر گئے ہوئے تھے۔ تاہم سرچ ٹیم ان کے گھروں میں بھی داخل ہوئی۔ مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ چھاپے کے وقت صرف ان کی دو نوعمر بچیاں گھر پر تھیں۔ ایک رشتہ دار نے سوال کیا،’اے ٹی ایس نے دعویٰ کیا ہےکہ ان کے پاس ٹھوس انٹلی جنس معلومات تھیں۔ انہیں یقیناً معلوم رہا ہوگا کہ بچیاں گھر میں اکیلی ہیں، پھر بھی انہوں نے چھاپے ماری کی۔ کیا یہ بھی قانونی ہے؟’
چھوٹی عمر کے کچھ لڑکوں نے شکایت کی کہ پولیس نے انہیں کئی بار اٹھایا اور پوچھ گچھ کی ۔ ایک 22 سالہ نوجوان نے کہا،’وہ ہم سے ہماری پیدائش سے پہلے کی باتیں پوچھتے ہیں۔ جب ہم انہیں بتاتے ہیں کہ ہم 80 اور 90 کی دہائی کے بارے میں نہیں جانتے تو وہ ہم پر بھروسہ نہیں کرتے ۔’
’میڈیا ہمارا موقف سننے میں دلچسپی نہیں رکھتا‘
مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ میڈیا یکطرفہ خبریں دے کر پولیس کے اقدامات کو مزید تقویت دیتا ہے، اور پولیس کی اس طرح کی کارروائیوں کے کمیونٹی پر پڑنے والے اثرات کو سمجھنے کی کبھی زحمت نہیں کرتا۔ جب بھی کوئی چھاپہ پڑتا ہے تو میڈیا کا عملہ بڑی تعداد میں پہنچ جاتا ہے۔ سعید* کا دعویٰ ہے کہ ،’انہیں ہماری کہانی سننے میں کوئی دلچسپی نہیں ہوتی ، بلکہ وہ مسلم مخالف بیان بازی میں دلچسپی رکھتے ہیں۔’
وہ ایک مثال پیش کرتے ہیں، جب ٹی وی رپورٹروں کی ایک ٹیم نے خفیہ طور پر ایک کار سے گاؤں کی فلم بندی شروع کر دی تھی۔ سعید کہتے ہیں، ‘میں حیران تھا کہ انہیں کارسے اس قدر دھندلے مناظر کیوں لینے پڑے۔ میں نے ان میں سے ایک کو باہر نکل کر مقامی لوگوں سے ملنے اور ان کا انٹرویو کرنے کو بھی کہا۔ لیکن انہوں نے منع کر دیا۔’ ان کا خیال ہے کہ یہ جان بوجھ کر کیا گیا تھا، تاکہ گاؤں کو صحافیوں کے لیے بھی ‘خطرناک’ جگہ کے طور پر پیش کیا جا سکے ۔
پولیس اور میڈیا دونوں کی دشمنی نے گاؤں والوں کوحددرجہ شکوک و شبہات میں مبتلا کر دیا ہے۔ جب دی وائر نے ان سے رابطہ کیا تو وہ بات کرنے کو تیار تھے لیکن انہوں نے واضح طور پر کہا کہ کسی کی تصویر نہ لیں یا اسٹوری میں ان کی شناخت کو ظاہرنہ کریں۔ ان میں سے ایک نے کہا، ‘وہ تمام لوگ جو آخری چھاپے کے بعد آواز اٹھا رہے تھے، اب انہیں تلاشی کے وارنٹ مل چکے ہیں۔’
پولیس کی طرف سے پیش کی گئی متعدد تھیوریوں میں سے، جس نے میڈیا کی توجہ حاصل کی، وہ یہ ہے کہ ناچن نے گاؤں کو ایک ‘آزاد اسلامی اسٹیٹ’بنا دیا اور اس کا نام بدل کر’الشام’ رکھ دیا، یہ اصطلاح دہشت گرد گروہ آئی ایس آئی ایس کے علاقائی عزائم کو ظاہر کرتی ہے۔ مقامی لوگ اس دعوے کا مذاق اڑاتے ہیں۔ جیل میں رہ چکے ایک بزرگ شخص کہتے ہیں۔’ہمارے گاؤں میں مسلمانوں، دلتوں اور آدی واسیوں کا گھر ہے،جو تاریخی طور پر ایک دوسرے کا تہوار مناتے آئے ہیں۔’ وہ پوچھتے ہیں،’ہم اجتماعی طور پر ایک سالانہ گنپتی جلوس کا اہتمام کرتے ہیں۔ ‘ وہ پوچھتے ہیں ،’ایک ‘اسلامی اسٹیٹ’ میں ایسا کیسے ہو سکتا ہے؟’
دی وائر نے ایک 65 سالہ خاتون وسیمہ ملا کے گھر کا دورہ کیا جو پولیس کے گھر میں داخل ہوتے ہی دل کا دورہ پڑنے سے انتقال کر گئی تھیں۔ ان کے گھر والوں نے بات کرنے سے انکار کر دیا، لیکن مقامی لوگوں نے بتایا کہ جب پولیس نے ان کی بیٹی کے گھر پر چھاپے ماری کی تو خاتون گھبرا گئی تھیں۔ایک پڑوسی نے بتایا، ‘وہ چیخنے لگیں اور پھر فرش پر گر گئیں۔’ پڑوسی نے دعویٰ کیا کہ یہ جاننے کے بعد بھی کہ ان کی موت ہو گئی ہے، پولیس نے ان کے داماد کو انہیں دیکھنے تک کی اجازت نہیں دی۔
گاؤں والوں کا خیال ہے کہ چھاپے ماری، اگر اتنی اہم تھی، تو اس کو دن کے وقت بھی انجام دیاجا سکتا تھا۔ ایک بزرگ خاتون نے کہا، ’وہ چاہتے تھے کہ ہم گھبرا جائیں، وہ چاہتے تھے کہ لوگ حیران ہو جائیں، وہ یہ پیغام دینا چاہتے تھے کہ وہ جو چاہیں کر سکتے ہیں اور کوئی بھی ان سے سوال نہیں کر سکتا۔‘
*رازداری کے لیے نام تبدیل کر دیا گیا ہے۔
انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔